اب بے حسی کی چادر پھاڑ دیں
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
سرزمین فلسطین معصوم اور بے بس مسلمانوں کے خون سے صرف سیراب نہیں بلکہ سیر ہوچکی ہے۔ رمضان المبارک میں روزہ دار کے لیے بھوک وپیاس بار گاہ الٰہی میں قرب کا ذریعہ اور اس کے بعد عید الفطر ہر مسلمان کے لیے خوشی ومسرت کا تہوار ہے مگر بحیثیت امت یہ خوشی ادھوری ہے کیونکہ ارض مقدس کے باسی صدیوں سے عیدین کی خوشیوں سے محروم ہیں۔
پوری دنیا میں مسلمانوں کے بچے عید کے دنوں میں کِھلونوں کے ساتھ کھیل کر دل بہلاتے ہیں مگر فلسطینیوں کے بچوں کے نصیب میں کِھلونوں کے بجائے بارود اور بم ہیں۔ بچے پورا دن اپنے والدین کی قبروں پر گزار کر پوری انسانیت سے یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ انھیں کس جرم کی پاداش میں یتیمی کے عذاب سے دوچار اور ان کے والدین کو تاریک راہوں میں قتل کیا گیا؟ فلسطین میں عید خوشی کا دن نہیں اداسی کا دن ہے۔
صیہونی طیاروں اور توپوں کی بمباری سے ملبے کا ڈھیر بنے غزہ میں سجاوٹ نہیں بلکہ ٹوٹی پھوٹی در و دیواروں کو شہداء کے ناموں سے مزئین کیا جاتا ہے، عید کے تحائف کا نہیں تعزیتی کلمات کا تبادلہ ہوتا ہے۔ گلی کوچوں میں بچوں کے قہقہے نہیں دلوں کو چیرنے والی چیخیں امت کے بے حس حکمرانوں کے ضمیر جھنجھوڑنے کے لیے گونجتی ہیں۔ غزہ میں عید مبارک کی جگہ زندہ بچ جانے والوں، ملبے کے نیچے سے نکلنے میں کامیاب ہونے والوں اور رات کی تاریکی کے قتل عام کے بعد خاندان کے یتیم بچوں کے بارے میں باتیں ہوتی ہے۔ اس بچے کے بارے میں جو کل کھیل رہا تھا، اور آج وہ دیوار پر تصویر بن گیا ہے۔
غزہ کے بچے نئے کپڑے نہیں اپنے خون سے غسل کرکے اپنے پروردگار کے دربار میں تمغہ شہادت سینوں پر سجا کر پیش ہوتے ہیں۔ اور یقیناً مسلمان حکمرانوں خصوصاً عرب حکمرانوں کی شکایت کرتے ہوئے جنت الفردوس میں داخل ہوتے ہوں گے۔ غزہ کے مسلمان عید کے لیے نئے کپڑے، بچیوں کے لیے چوڑیاں اور بچوں کے لیے چاکلیٹ، ٹافیاں نہیں تابوت خریدتے، عید پر مبارکباد نہیں تعزیتی کلمات کا تبادلہ کرتے ہیں۔
غزہ سمیت پورے خطے کو صیہونی دہشت گردی نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے مگر مغربی کنارے کی صورت حال بہتر نہیں ہے کیونکہ ناجائز قبضے نے فلسطینیوں کو یہ محسوس کرنے کا موقع نہیں دیا کہ عید بھی وہاں ظلم و زیادتی کے کسی دن سے مختلف ہے۔ غزہ میں عید کا رنگ ہی الگ ہے یہ خوشی کا نہیں پتھروں پر خون کا رنگ، سوگواروں کے لباس میں ماتم کا رنگ ہے۔ عید کی نماز میں فلسطینیوں کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھتے ہیں تو خواہشات کے حصول کے لیے نہیں، بلکہ صیہونی طیاروں کی بمباری اور اسنائپرزکی گولی سے نجات پانے اور قابض اسرائیلی فوجیوں کے ظلم و بربریت سے بچنے کے لیے اٹھتے ہیں۔
غزہ میں موت کا کھیل جاری ہے وہاں موت کے سوا کچھ نہیں۔ اہل غزہ نہیں جانتے کہ وہ کس دنیا سے ہیں؟ ایک ایسی دنیا جس میں ان کی جڑیں ہیں لیکن وہ اکھڑ چکی ہیں اور ایک ایسی دنیا جس میں وہ رہتے ہیں، لیکن جو انھیں پہچان نہیں پاتی۔ بیگانے تو بیگانے، اہل غزہ کے مظلوموں کے لیے تو اپنے بھی بیگانوں سے بدتر ہوچکے ہیں۔ ستاون سے زائد اسلامی ممالک میں کوئی بھی ارض مقدس کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہونے کے لیے تیار نہیں۔ ہر مسلمان حکمران کی خواہش ہے کہ کھلم کھلا اسرائیلی اور اس کے مظالم کی حمایت کرنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا آشیر باد انھیں مل جائے۔
سچ پوچھیں تو مسلمان حکمرانوں کی غیرت کا جنازہ نکل چکا ہے کیونکہ انبیا کی سرزمین فلسطین خون میں غلطان بزبان حال اپنی داستان الم سنا رہی ہے لیکن یہ بے حس حکمران سننے کے لیے تیار نہیں، غیروں سے گلہ کیا، اپنے کلمہ گو بھی گونگے اور بہرے بن چکے ہیں۔7 اکتوبر 2023 سے اب تک 50ہزار کے لگ بھگ بے بس، لاچار اور بے یارو مدد گار فلسطینی صیہونی دہشت گردی کا شکار بن چکے ہیں۔ ایک لاکھ سے زائد زخموں سے چور ہیں۔ شہدا میں15 ہزار صرف بچے اور10 ہزارسے زائد خواتین ہیں، جس سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہیے کہ اسرائیل مستقبل کے معماروں اور ان معماروں کو جنم دینے والی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنارہا ہے تاکہ اسے آنے والے کل میں کسی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
بے حس اورمکار مسلم حکمران اس پیغام کو سمجھیں یا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کریں۔ تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھا تو سقوط بغداد پر نظریں جا ٹکیں، آج کے حالات سقوط بغداد سے کسی طور مختلف نہیں لیکن ایک بڑا فرق ضرور دکھائی دے رہا ہے۔ سقوط بغداد کے لیے علماء کرام کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ ان کے فروغی اختلافات پر مناظروں کے سبب یہ دن دیکھنا پڑا لیکن آج تو پوری دنیا کے علماء فلسطین کے مسئلے پر یکسو اور اہل فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مگر سقوط غزہ (اللہ نہ کرے) کی صورت میں مصلحتوں کے شکار مسلمان حکمرانوں مظلوموں کے کٹہرے میں کھڑے ہونگے۔
اس وقت فلسطینی تحریک تاریخ کے مشکل ترین مرحلے سے گزر رہی ہے۔ ٹرمپ کی بے جا حمایت سے ٹڈی دل صیہونیوں کے حوصلے بلند ہوئے، انھوں نے جارحیت کے ایک نئے باب کا آغاز کردیا ہے۔ اسرائیلی عزائم اور سرگرمیاں زیادہ خطرناک شکل اختیار کر رہی ہیں۔ اب اسلامی ممالک بالخصوص عرب ریاستوں کو بے حسی کی چادر چھوڑنی پڑے گی ورنہ تاریخ رقم اور لکھی جا رہی ہے، لکھا جارہا ہے کہ عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت پاکستان فلسطینیوں کی کوئی مدد نہیں کرسکا۔ لکھا جا رہا ہے کہ مصر کے پاس دریائے نیلم تھا اور غزہ کے باسی پیاس سے بلک رہے تھے اور یہ بھی لکھا جارہا ہے کہ سعودی عرب، امارات کے پاس تیل کے وسیع خزانے تھے مگر غزہ کے اسپتالوں اور ایمبولینسوں کے لیے ایندھن نہیں تھا۔
تاریخ یہ بھی لکھے گی کہ خلافت کا علمبردار ترکی نے اسرائیل سے ایک لمحے کے لیے بھی سفارتی تعلقات منقطع نہیں کیے۔ تاریخ یہ بھی لکھے گی کہ مسلم ممالک کے پاس طاقتور ترین فوجیں، جدید اور وسیع جنگی ساز و سامان موجود تھا لیکن اہل فلسطین کے حق میں کسی نے ایک گولی تک نہیں چلائی، اس لیے اے مسلمان حکمرانوں اگر تاریخ میں زندہ رہنا، آنے والی نسلوں اور بالخصوص اللہ کے غیض و غضب سے بچنا چاہتے ہو تو بس اب بے حسی کے چادر پھاڑ دیں، غیرت کا مظاہرہ کرکے سنجیدگی کے ساتھ زمینی حقائق کو سمجھتے ہوئے مستقبل کی حکمت عملی طے کریں۔
وقت کا تقاضا اور فلسطین کے مقدمہ کا منطقی تقاضا ہے کہ مسلمان ممالک او آئی سی کو بیان بازی کے بجائے غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنے کا جاندار پلیٹ فارم بنائیں۔ عالم اسلام اپنے وسائل، صلاحیتوں، استعداد، جغرافیائی و تزویراتی حیثیت و اہمیت کا درست ادراک اور بہتر استعمال کر کے آزاد فلسطینی ریاست کے حصول کو یقینی بنائیں۔ مسلمان دسترخوان پر پڑے تر نوالے کی طرح بھوکے صیہونیوں کے رحم و کرم پر ہیں اور مسلمان حکمران شتر مرغ کی طرح ریت میں اپنے سر دبا کر بیٹھے ہیں لیکن یہ سلسلہ اب زیادہ دیر نہیں چلے گا اگر حکمران نہ جاگے تو عوام کے غیض و غضب کا سیلاب انھیں خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا۔ سقوط بغداد کا ملبہ علماء پر گرایا گیا تھا مگر خدانخواستہ اگر سقوط غزہ بپا ہوا تو ساری ذمے داری مسلم حکمرانوں پر عائد ہوگی اور آنے والی نسلیں ہی نہیں اللہ رب العزت بھی انھیں معاف نہیں کرے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فلسطین کے کے ساتھ بچوں کے نے والی نہیں ا کی طرح غزہ کے
پڑھیں:
گلگت بلتستان اعلیٰ عدلیہ میں ججز تعیناتی کیس؛وفاق کو مجوزہ آرڈر 2019پسند نہیں تو دوسرا بنا لے لیکن کچھ تو کرے،جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)گلگت بلتستان کی اعلیٰ عدلیہ میں ججز تعیناتی کے معاملے پردوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نےکہاکہ پارلیمنٹ مجوزہ آرڈر 2019کو ترمیم کرکے ججز تعیناتی کروا سکتی ہے،اس وقت گلگت بلتستان میں آرڈر 2018ان فیلڈ ہے،وفاق کو مجوزہ آرڈر 2019پسند نہیں تو دوسرا بنا لے لیکن کچھ تو کرے،مجوزہ آرڈر 2019مجھے تو مناسب لگا اس پر قانون سازی کرے یا دوسرا بنا لے،جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ آرڈر2018کے تحت ججز تعینات کریں۔
نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق گلگت بلتستان کی اعلیٰ عدلیہ میں ججز تعیناتی کے معاملے پر سماعت ہوئی،اٹارنی جنرل منصور اعوان اور ایڈووکیٹ جنرل گلگت بلتستان عدالت میں پیش ہوئے،ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ ہم مشروط طور پر اپنی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں،ایڈووکیٹ جنرل گلگت بلتستان نے آرڈر2018پڑھ کر سنایا۔
پی ایس ایل سیزن 10 کی افتتاحی تقریب کل کس سٹیڈیم میں کتنے بجے ہو گی ؟ جانئے
جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ آرڈر2018کےتحت تو ججز تعیناتی وزیراعلیٰ، گورنر کی مشاورت سے کرنے کا ذکر ہے،گلگت بلتستان میں ججز تعیناتی کاطریقہ کار کیا ہے؟اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہاکہ وزیراعظم گورنر کی ایڈوائس ماننے کا پابند نہیں،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ مطلب وزیراعظم جو کرنا چاہے کر سکتے ہیں تو ون مین شو بنا دیں،ایڈووکیٹ جنرل گلگت بلتستان نے کہاکہ اسٹے آرڈر سےججز تعیناتی کا معاملہ رکا ہوا ہے،جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ اسٹے آرڈر ختم کردیتے ہیں آپ مشاورت سے ججز تعینات کریں،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ پارلیمنٹ قانون سازی کرکے معاملے کو حل کیوں نہیں کرتی،اٹارنی جنرل نے کہاکہ اس کیلئے پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی،جسٹس جمال مندوخیل نےکہاکہ پارلیمنٹ مجوزہ آرڈر 2019کو ترمیم کرکے ججز تعیناتی کروا سکتی ہے،اس وقت گلگت بلتستان میں آرڈر 2018ان فیلڈ ہے،وفاق کو مجوزہ آرڈر 2019پسند نہیں تو دوسرا بنا لے لیکن کچھ تو کرے،مجوزہ آرڈر 2019مجھے تو مناسب لگا اس پر قانون سازی کرے یا دوسرا بنا لے،جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ آرڈر2018کے تحت ججز تعینات کریں۔
انٹر ریلیشنزکمیشن کو ملک کی جدید عدالت بنایا جائے گا،جسٹس(ر)شوکت عزیز صدیقی
گلگت بلتستان میں مشروط طور پر ججز تعینات کرنے کیلئے اٹارنی جنرل نے مخالفت کی،جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ گلگت بلتستان میں انصاف فراہمی میں تعطل ، چاہتے ہیں ججز تعینات ہوں،اٹارنی جنرل نے کہاکہ مستقبل میں 2018کے تحت ججز تعیناتی وفاقی حکومت کو سوٹ کرتی ہے،عدالت نے کہاکہ کیس میرٹ پر سنیں گے،اٹارنی جنرل منصور عثمان نے میرٹ پر دلائل کا آغاز کردیا۔
مزید :