Express News:
2025-04-13@04:02:19 GMT

معدنی وسائل کا ملکی معیشت میں اہم کردار

اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT

پاکستان میں کھربوں ڈالر کے معدنی ذخائر ہیں، پاکستان معدنی وسائل کے استعمال سے آئی ایم ایف کو خیرباد کہہ سکتا ہے۔ یہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے فائدے کا سودا ہے کہ وہ پاکستان سے معدنیات نکالیں اور خام مال حاصل کریں۔

ہم مل کر پاکستان کو دنیا کا عظیم ملک بنائیں گے، اور طے پانے والی مفاہمتی یاد داشتوں کو معاہدوں میں تبدیل کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار وزیراعظم شہباز شریف نے 2 روزہ پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم 2025سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جہاں امریکا، چین، سعودی عرب، روس، فن لینڈ اور ترکیہ سمیت دیگر ممالک کے وفود شریک ہیں۔

 بلاشبہ اس وقت پاکستان کا معدنی شعبہ بڑھتی ہوئی غیر ملکی سرمایہ کاری کو اپنی طرف متوجہ کررہا ہے اور عالمی کمپنیاں ملک کے غیر استعمال شدہ معدنی ذخائر میں دلچسپی لے رہی ہیں، کیونکہ پاکستان قدرتی وسائل کے ذخائر سے خود کفیل ہے یہ اقتصادی اور صنعتی ترقی کے لیے بے پناہ صلاحیت رکھتے ہیں۔

اس وقت پاکستان کے قابل ذکر معدنی ذخائر میں دنیا کے دوسرے بڑے نمک کے ذخائر، پانچویں بڑے تانبا اور سونے کے ذخائر اور نمایاں کوئلے کے ذخائر شامل ہیں۔ مزید برآں جپسم، اور قیمتی پتھروں جیسے یاقوت، پکھراج، اور زمرد کے وافر ذخائر موجود ہیں، جو برآمدات کے لحاظ سے نمایاں صلاحیت رکھتے ہیں۔

 قومی قیادت نے اقتصادی بحالی کے ایک منصوبے کا اعلان کیا جس کا مقصد معدنیات کی کان کنی کے لیے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کو راغب کرنا ہے، جس کا تخمینہ 6.

1 کھرب ڈالر لگایا گیا ہے۔

اس وژن میں کان کنی کی جدید تکنیکوں کا احاطہ کیا گیا جس سے بلوچستان میں ذخائر سے تانبا نکالا جائے گا اور جس سے ممکنہ طور پر تانبے کی صنعت کو فروغ ملے گا۔ مزید برآں لیتھیم نکالنے کی سہولیات اور بہترین معیار کی لیتھیم کاربونیٹ کی پیداوار سے پاکستان کا مقصد صاف توانائی کی سپلائی چین میں اپنی پوزیشن کو محفوظ بنانا اور بڑھتی ہوئی صاف توانائی کی منڈیوں میں برآمدات کو بڑھانا ہے۔

 یہ حقیقت ہے کہ ہم کان کنی کے شعبے کی ترقی کے لیے درکار ٹیکنالوجی، انفرااسٹرکچر، وسائل اور سرمایے کے معاملے میں بہت پیچھے ہیں جس کی وجہ سے ہماری معدنیات کی مقدار اور پیداوار کا گراف تیزی سے گر رہا ہے۔ اس کمی کی وجوہات کا حکومت کو بغور جائزہ لینا چاہیے۔

یہ بات حوصلہ افزا ہے ہماری چند اہم معدنیات کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہوا ہے مثلاً سیسے کی کانوں میں پائی جانے والی قلموں کی شکل کی باریٹس (BARYTES)کی پیداوار میں 53-57فیصد کا ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جب کہ ڈولو مائیٹ 42.20 فیصد، کوئلہ17.60فیصد، گیرو (OCHER) 15.40فیصد، راک سالٹ 12.40فیصد اور لائم اسٹون کی پیداوار میں 10.60فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ چند سال پہلے صوبہ پنجاب کے ضلع چنیوٹ میں سونے کے بہت بڑے ذخائر کا انکشاف اس وقت کے وزیر اعلیٰ میں شہباز شریف نے بڑے فخریہ انداز میں کیا تھا لیکن نہ جانے کیوں یہ معاملہ داخل دفترکردیا گیا۔

تقسیم ہندوستان سے پہلے اٹک کے قریب سے تیل نکلتا ہے اور راولپنڈی میں اٹک ریفائنری ہے اور یہ شاید واحد فیکٹری تھی جو پاکستان کے حصے میں آئی تھی۔ بلوچستان میں معدنیات کی بہتات ہے لیکن کسی نہ کسی وجہ سے معدنیات نہیں نکالی جاسکیں، اس کے بعد ریکوڈک میں تانبے اور سونے کے ذخائر دریافت ہوگئے، اسی طرح گلگت بلتستان کے پہاڑوں میں سونا ہے، یہ بات اس لیے درست ہوسکتی ہے کہ گلگت بلتستان اور اُس کے ملحق علاقوں میں جہاں دریا نکلتا ہے وہاں مقامی لوگ دریائی ریت کو چھانتے اور اس سے سونا نکالنے کی سعی کرتے ہیں اور تصدیق بھی کرتے ہیں کہ اُن کو اکثر سونے کے ذرات مل جاتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل پاکستان کے عبوری وزیر خارجہ حسین عبداللہ ہارون نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان کی سمندری حدود میں اتنی مقدار میں تیل موجود ہے جتنا کہ کویت کے پاس ہے ۔ اسی طرح ابھی تک پاکستان کی بحری حدود میں ہیرے اور موتیوں کے علاوہ مچھلی، سبزی اور دیگر اشیاء بڑی مقدار میں موجود ہیں جو پاکستان کی غذائی ضرورت تو کافی حد تک پوری کرسکتی ہیں اور ساتھ ساتھ بڑا زرمبادلہ بھی کما کر دے سکتی ہیں۔

صرف مچھلی اور جھینگے کو لے لیں تو یہ ہماری زرمبادلہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔ پاکستان میں مچھلی کی صنعت کو فروغ دینے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی بلکہ سچ بات کی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں مچھلیوں کی کوئی صنعت سرے سے موجود ہی نہیں ہے، ہم صرف مچھلی پکڑ سکتے ہیں، اگر اس میں سرمایہ کاری کی جائے تو جو مچھلی ضایع ہوجاتی ہے وہ بچ سکتی ہے اور پاکستان کی آمدنی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کو صنعت کے درجے پر لایا جائے، اس کو محفوظ کرنے اور عالمی معیار پر لا کر فروخت کرنے سے پاکستان کی آمدنی بڑھ سکتی ہے۔ تھر سے کوئلہ کی بڑی مقدار کا حصول ممکن بنا لیا گیا ہے، پھر سیاحت کی صنعت کو فروغ دینے سے پاکستان میں ڈالروں کی ریل پیل ہوسکتی ہے یا دنیا بھر کی کرنسیوں کی بھرمار ہوسکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صرف گلگت بلتستان پاکستان کو 50 ہزار میگاواٹ بجلی فراہم کرسکتا ہے لیکن پاکستان میں ٹرانسمیشن لائنز اس کا وزن نہیں اٹھا سکتیں۔

ایسا ملک جس کے پاس آمدنی کے مختلف ذرایع ہیں مگر وہ اپنی افرادی قوت کو متحرک کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے، ہم نے آئی ایم ایف سے قرضہ تو لے لیا ہے لیکن وہ پاکستان کی شرح نمو 4 یا 5 فیصد سے آگے نہیں بڑھنے دے گا جب کہ قرضہ جات کے جنجال سے نکلنے کے لیے پاکستان کو 8 فیصد شرح نمو کم از کم دس سال تک درکار ہے۔ اس کے لیے پاکستان کو 20 بلین ڈالرز کی ضرورت ہوگی پھر جو طریقہ چین اور پاکستان نے وضع کیا ہے کہ یوآن اور روپے میں تجارت کی جائے وہ بھی ایک ذریعہ ہے، پاکستان کو زراعت کے لیے نئے کھیت بنانا ہوں گے اور نئی فصلیں اگانا ہوںگی، جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ اس کے لیے پانی کی ضرورت ہے اور پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم چاہئیں۔ ملک میں کوئلہ، تانبہ، سونا، لوہا، کرومائیٹ اور قیمتی پتھروں سمیت معدنی وسائل کے وسیع ذخائر موجود ہیں، جو کان کنی کے شعبے کی ترقی اور قومی معیشت میں مثبت کردار ادا کرنے کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتے ہیں۔

اس بے پناہ صلاحیت کے باوجود، معدنی شعبہ فی الحال ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں صرف 3.2 فیصد حصہ ڈالتا ہے، جب کہ برآمدات عالمی سطح پر صرف 0.1 فیصد ہیں۔ تاہم ان معدنیات کی بڑھتی ہوئی تلاش، غیر ملکی سرمایہ کاری اور بنیادی ڈھانچے میں بہتری کے ساتھ، پاکستان کی کان کنی کی صنعت نمایاں ترقی کے لیے تیار ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کے معدنی وسائل تقریباً 600,000 مربع کلومیٹر پر محیط ہیں اور ملک میں 92 معدنیات کی نشاندہی ہو چکی ہے، جن میں سے 52 تجارتی پیمانے پر نکالی جا سکتی ہیں، اور سالانہ اندازاً 68.52 ملین میٹرک ٹن معدنیات حاصل کی جارہی ہیں۔ یہ شعبہ 5,000 سے زائد فعال کانوں، 50,000 چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (SMEs) کو سہولت اور 300,000 افراد کو روزگار بھی مہیا کرتا ہے۔

 بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ریکوڈک کاپر اور گولڈ پروجیکٹ دنیا کا سب سے بڑا غیر دریافت شدہ تانبے کا ذخیرہ ہے اور پاکستان کی کان کنی کے شعبہ کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو رہا ہے۔ یہ منصوبہ تانبے کی پیداوار کو 400,000 ٹن اور سونے کی پیداوار کو 500,000 اونس سالانہ تک بڑھا دے گا، جس میں اضافی 3.5 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری شامل ہوگی۔ بین الحکومتی معاہدے کے تحت، وفاقی کابینہ نے ریکوڈک منصوبے میں سعودی عرب کو 15 فیصد حصص فروخت کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ ریکوڈک کے علاوہ، بلوچستان میں 40 سے زائد معدنی وسائل موجود ہیں، جن میں تیل، گیس، یورینیم، اور کوئلہ شامل ہیں، جو پاکستان کی توانائی اور صنعتی ضروریات کو کئی دہائیوں تک پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مزید برآں، ریفائنریوں کے قیام پر بھی کام جاری ہے، جو پاکستان کی خام مال کی برآمد پر انحصار کم کرے گا۔

اگر پاکستان نے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ معدنی دولت ترقی کے لیے ایک نعمت کے طور پر کام کرے تو اسے اپنے ادارہ جاتی اور قانونی فریم ورک کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ وسائل کی دولت کے انتظام کے لیے جامع حفاظتی اقدامات کیے جاسکیں۔ ملک کو مستقبل کے معدنی محصولات کے خلاف مستقل طور پر قرض لینے سے بچنے اور اپنے غیر مستحکم قرضوں کے بوجھ میں کمی کو ترجیح دینے کے لیے طریقہ کار پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی سرمایہ کاری پاکستان میں ترقی کے لیے پاکستان کو پاکستان کے معدنیات کی کی پیداوار جو پاکستان پاکستان کی کان کنی کے موجود ہیں کے ذخائر کی صنعت سونے کے سکتی ہے کی کان ہے اور

پڑھیں:

اداکار پرتھ سمتھان نے اے سی پی پردیومن کا کردار ادا کرنے سے انکار کیوں کیا تھا؟

مشہور کرائم شو سی آئی ڈی ایک بار پھر خبروں کی زینت بن گیا ہے۔ جب سے یہ خبر سامنے آئی ہے کہ سی آئی ڈی کے مرکزی کی کردار شیوا جی ستام ’اے سی پی پردیومن‘ اب اس شو کا مزید حصہ نہیں ہوں گے مداح جذباتی ہو گئے ہیں۔

شو کے تخلیق کاروں نے اداکار پرتھ سمتهان کو اے سی پی پردیومن کی جگہ مرکزی افسر کے کردار کے لیے منتخب کیا ہے۔ وہ اب ایک نئے کردار اے سی پی انوشمن کے طور پر سی آئی ڈی ٹیم کی قیادت کرتے نظر آئیں گے، شو میں پرانے پسندیدہ کردار دیا (دیانند شیٹی) اور ابھیجیت (آدتیہ شریواستو) بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سی آئی ڈی میں اے سی پی پردیومن کی جگہ اب کون لے گا؟

بھارتی میڈیا سے بات کرتے ہوئے پرتھ سمتهان نے انکشاف کیا کہ انہوں نے ابتدا میں یہ کردار ٹھکرا دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’شروع میں، میں نے اے سی پی پردیومن کا کردار اس لیے مسترد کر دیا کیونکہ میں خود کو اس کردار سے جوڑ نہیں پایا۔ لیکن میکرز نے مجھے دوبارہ  اس پرغور کرنے کو کہا‘۔

پرتھ نے تسلیم کیا کہ وہ شو میں طویل عرصے سے موجود کاسٹ کی وجہ سے یہ کردار ادا کرنے سے ہچکچا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ عجیب اور غیر معمولی تھا کہ دیانند شیٹی اور آدتیہ شریواستو جیسے سینئر اداکار مجھے آن اسکرین ’سر‘ کہہ کر مخاطب کریں۔ یہی میری ہچکچاہٹ کی ایک بڑی وجہ تھی۔

دوسری جانب، سی آئی ڈی کے اداکار ہرشیکیش پانڈے نے حال ہی میں تصدیق کی ہے کہ پرتھ نے دیا (دیانند شیٹی) اور ابھیجیت (آدتیہ شریواستو) کے ساتھ مناظر کی عکس بندی کا آغاز کر دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بم دھماکے میں مارے جانیوالے ’سی آئی ڈی‘ کے ’ اے سی پی پردیومن‘ کون ہیں؟

پرتھ سمتھان جو انڈین ڈرامہ سیریل ’کیسی یہ یاریاں‘ اور ’کسوٹی زندگی کی‘ میں اپنے کرداروں کے لیے مشہور ہیں اب سی آئی ڈی میں کردار نبھاتے نظر آئیں گے۔ سی آئی ڈی ڈرامے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ سی آئی ڈی کو دیکھ کر بڑے ہوئے ہیں اور اس تاریخی کردار کو ادا کرنے پر فخر محسوس کر رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ تھوڑے نروس بھی ہیں۔

واضح رہے کہ سی آئی ڈی، جسے بی پی سنگھ نے بنایا ہے اور سنگھ اور پردیپ اپپور نے پروڈیوس کیا ہے، 1998 سے سونی ٹی وی پر نشر ہو رہا ہے۔ شو نے اس دوران تقریباً 1600 اقساط ٹیلی کاسٹ کیے ہیں اور یہ بھارتی ٹی وی کے مقبول ترین شوز میں سے ایک کے طور پر سامنے آیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

انڈین ڈرامے اے سی پی پردیومن پرتھ سمتھان سی آئی ڈی

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کا اصل ہدف کمزور قوموں کے معدنی ذخائر پہ قبضہ ہے، علامہ جواد نقوی
  • وہ دن جس کا وعدہ ہے
  • اداکار پرتھ سمتھان نے اے سی پی پردیومن کا کردار ادا کرنے سے انکار کیوں کیا تھا؟
  • شہباز شریف کا دورہ بیلا روس انتہائی اہم، ملکی معیشت، خارجہ پالیسی مضبوط ہورہی، عطاتارڑ
  • پاکستانی معیشت میں بہتری، بینک ڈیپازٹس اور اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں اضافہ
  • آرمی چیف سرحدوں کی طرح ملکی معیشت کی بھی حفاظت کررہے ہیں، گورنر سندھ
  • ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ریکارڈ
  • پاکستان اور امریکہ: معدنیات کے شعبے میں تعاون اور دو طرفہ تجارت کے نئے مواقع
  • معدنیات کے حوالے سے تمام چیزیں ابھی تک مفاہمتی یادداشتوں کی حد تک ہی ہیں، مشیر خزانہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم
  • پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم: عالمی سرمایہ کاری کی جانب اہم پیشرفت