پی ایس ایل دنیا کی بہترین لیگ بن چکی ہے: ڈیوڈ ولی
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
انگلینڈ کے تجربہ کار کرکٹر ڈیوڈ ولی نے کہا ہے کہ پی ایس ایل دنیا کی بہترین لیگ بن چکی ہے۔ ان کی کوشش ہوگی کہ جمعہ سے شروع ہونے والے 10 ویں ایڈیشن میں بہترین کارکردگی دکھائیں اور اچھی کرکٹ کھیلیں۔
ملتان سلطانز کے پریکٹس سیشن سے قبل نیشنل اسٹیڈیم میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے 35 سالہ ڈیوڈ ولی نے کہا کہ پی ایس ایل اور آئی پی ایل ایک ہی وقت میں منعقد ہورہے ہیں لیکن مجھے پاکستان لیگ میں شرکت کرکے زیادہ اچھا لگ رہا ہے۔
عالمی ٹی ٹوئنٹی کپ 2022 کی فاتح ٹیم کے رکن ڈیوڈ ولی نے پی ایس ایل 10 میں بہترین پرفارمنس دکھانے کے عزائم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ امید ہے کہ لیگ میں دلچسپ مقابلے ہوں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پی ایس ایل
پڑھیں:
دنیا کا مظلوم ترین بادشاہ
غالب نے کہا ہے:
شمع بجھتی ہے تو اس میں دھواں اٹھتا ہے
شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد
یہی حال مغلیہ سلطنت کا بھی ہوا، آخری وقت میں جب بہادر شاہ ظفر نے رنگون کے قید خانے میں دم توڑا تو ساری محفل سیہ پوش ہوگئی۔ مغلوں کا اقتدار ختم ہوگیا اور ہندوستان پوری طرح انگریزوں کے قبضے میں آگیا۔ وہ ہندوستان جس میں موجودہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور برما کے چند علاقے شامل تھے، آل تیمورکی پانچویں نسل کے سپوت ظہیرالدین بابر کی سلطنت تھے۔ ظہیرالدین بابر نے مغلیہ سلطنت کی بنیاد ڈالی۔
انگریز فرخ سیر کے زمانے سے چالیں چل رہے تھے، بہادر شاہ ظفرکو انگریزوں کے ایما پر بادشاہ بنایا گیا، اصل وارث بادشاہت کا مرزا جہانگیر تھا، لیکن وہ کسی بھی طور انگریزوں کو پسند نہیں کرتا تھا۔ بہادر شاہ ظفر کے والد اکبر شاہ ثانی کی چہیتی بیگم ممتاز محل، ان بیگم کے چہیتے بیٹے تھے۔ مرزا جہانگیر جنھیں وہ وارث تخت و تاج بنانا چاہتی تھیں لیکن مرزا جہانگیر چونکہ انگریزوں کو ناپسند کرتے تھے اور انھوں نے ایک دفعہ انگریز حاکم اعلیٰ اسٹیفن پر اپنا پستول بھی چلا دیا تھا، اس لیے وہ انگریزوں کے لیے قابل قبول نہ تھے۔
بہادر شاہ ظفر ولی عہد تھے، بہادر شاہ کی پوری جوانی اور ادھیڑ عمری تخت و تاج کی راہ تکتے گزری۔ وہ باسٹھ سال کی عمر میں تخت نشین ہوئے، اس وقت مغلوں کا جاہ و جلال رخصت ہو رہا تھا، حکومت تباہ اور خزانے خالی تھے۔ مثل مشہور تھی کہ ’’سلطنت شاہ عالم از دلّی تا پالم‘‘ یعنی صرف چند میل کی بادشاہت رہ گئی تھی۔ بہادر شاہ کہنے کو تو بادشاہ تھے لیکن بالکل بے دست و پا تھے، فرنگی سرکار کے وظیفہ خوار تھے۔ لال حویلی کے باہر بادشاہ کا حکم نہیں چلتا تھا، اگر کوئی ان کے پاس فریاد لے کر آتا تو بہادر شاہ ظفر کہتے ’’بھئی! انگریزوں کی عدالت میں جاؤ۔‘‘ لیکن اس بے بسی کے باوجود دلّی والے ہی نہیں باہر والے بھی بادشاہ سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔
بہادر شاہ 24 اکتوبر سن 1775 میں دلّی میں پیدا ہوئے، ان کے والد کا نام اکبر شاہ ثانی اور والدہ کا نام لال بائی تھا جوکہ راجپوت تھیں۔ بہادر شاہ کا پورا نام ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ تھا۔ ان کی تعلیم دلّی میں ہی ہوئی،گھڑ سواری اور تیر اندازی کی تربیت حاصل کی، ان کے والد اور دادا شاعر تھے، شعرگوئی سے رغبت انھیں ورثے میں ملی۔ انھوں نے شاعری کی تربیت شاہ نصیر سے لی، پھر ان کے جانے کے بعد غالب اور ذوق سے فن شعر گوئی کی اصلاح لیتے رہے۔ بہادر شاہ ظفر کی چار بیگمات تھیں، اختر محل، اشرف محل،تاج محل اور زینت محل۔ زینت محل آخری وقت تک بادشاہ کے ساتھ رہیں۔ بہادر شاہ ظفر کے 22 یا 26 بیٹے تھے جن میں مرزا جواں بخت، دارا بخت، مرزا مغل، مرزا خضر سلطان اور مرزا فتح الملک زیادہ جانے جاتے تھے۔
بادشاہت کیا تھی بدنصیبی تھی، وہ بس نام کے بادشاہ تھے ان کی حیثیت شطرنج کے بادشاہ کی تھی، وہ خود فرنگی سرکار کا مہرا تھے، تیموری دبدبہ لال قلعے میں محصور ہوگیا تھا، ملک ملکہ کا تھا حکم کمپنی بہادر کا چلتا تھا۔ بہادر شاہ ظفر کو اپنی بے بسی کا شدت سے احساس تھا مگر وہ اس کا کوئی تدارک نہیں کرسکتے تھے کیونکہ انھیں پنشن انگریز سرکار سے ملتی تھی۔ اقتدار کی خواہش اور محلات کی ریشہ دوانیاں بادشاہ کو لے ڈوبیں۔ جب انگریزوں کی فوجیں دلّی پر چڑھ دوڑیں تو بادشاہ اپنے دو بیٹوں کے ساتھ ہمایوں کے مقبرے میں جا چھپے، لیکن کرنل ہڈسن نے انھیں گرفتار کیا اور رنگون بھیج دیا تاکہ وہاں بادشاہ پر مقدمہ چلایا جاسکے۔
دلّی فتح ہو چکی تھی اور آل تیمورکا آخری بادشاہ پابہ زنجیر تھا۔ کرنل ہڈسن نے بہادر شاہ ظفر کو لال قلعے واپس چلنے کو کہا تو بوڑھا بادشاہ خوش ہوگیا، وہ اپنے چھ بیٹوں کے ساتھ فینس میں بیٹھ گیا، جب خونی دروازہ آیا تو ہڈسن نے شہزادوں کو باہر نکلنے کو کہا اور ایک ایک کر کے چھ کے چھ شہزادوں کو موت کی نیند سلا دیا اور بوڑھے بادشاہ کو رنگون بھجوا دیا گیا، جہاں انھوں نے اپنی بیگم زینت محل کے ساتھ درد ناک پل گزارے۔ ہڈسن نے چھ جوان بیٹوں کے سر کاٹ کر ایک طشت میں رکھے اوپر سے کپڑا ڈالا اور بادشاہ سے کہا ’’ہم تمہارے لیے نذر لایا ہے۔‘‘ بادشاہ نے کپڑا ہٹا کر دیکھا تو وہ ان کے بیٹوں کے سر تھے۔ اس کے بعد دلّی روتی رہی۔ شاعر ان پر شعر کہتے رہے، میر صاحب کا ایک شعر ہے:
دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
بہادر شاہ ظفر اعلیٰ پائے کے شاعر تھے، ان کی بادشاہت کے دوران محل میں شاعری کی محفلیں جما کرتی تھیں، بڑے بڑے نام ور شعرا شرکت کرتے تھے۔ غالب، ذوق، مومن اور دوسرے بہت سے۔ خود بادشاہ بھی شعر کہتے تھے۔ ان کے چار دیوان موجود ہیں۔ ظفر کی شاعری ان کے دل کی کتھا ہے۔ ان کی شاعری میں سوز و گداز اور رنج و الم نمایاں نظر آتا ہے، جیسے یہ شعر:
وہ رعایا ہند تباہ ہوئی کہوں کیسے ان سے جفا ہوئی
جسے دیکھا حاکم وقت نے،کیا یہ بھی قابلِ دار ہے
گئی یک بہ یک جو ہوا پلٹ، نہیں دل کو میرے قرار ہے
کروں غم ستم کا میں کیا بیاں میرا غم سے سینہ فگار ہے
یہ کسی نے ظلم کبھی ہے سنا،کہ دی پھانسی لوگوں کو بے گناہ
وہی کلمہ گویوں کی سمت سے ابھی دل میں ان کے غبار ہے
میرا رنگ روپ بگڑ گیا میرا یار مجھ سے بچھڑ گیا
جو چمن خزاں سے اجڑ گیا میں اسی کی فصل بہار ہوں
٭……٭
میں نہیں ہوں نغمۂ جانفزا، مجھے سن کے کوئی کرے گا کیا
میں بڑے بروگ کی ہوں صدا میں بڑے دکھی کی پکار ہوں
اور ذرا یہ شعر دیکھیے جو ظفر کی زندگی کا ہولناک سچ ہے:
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں
یا یہ شعر:
ظفر آدمی اس کو نہ جانیے جو ہو کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی، جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا
کوئی آ کے شمع جلائے کیوں کوئی آ کے اشک بہائے کیوں؟
کوئی آ کے پھول چڑھائے کیوں، میں وہ بے کسی کا مزار ہوں
نہ تھا شہر دہلی یہ تھا اک چمن کہو کس طرح کا تھا یاں امن
جو خطاب تھا وہ مٹا دیا، فقط اب تو اجڑا دیار ہے
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے، میں وہ اک مشتِ غبار ہوں
مجھے دفن کر چکو جس گھڑی، تو یہ اس سے کہنا کہ اے پری
وہ جو ترا عاشق زار تھا، تہہ خاک اس کو دبا دیا