وزیرآباد (ویب ڈیسک) وزیر آباد میں لڑکی والوں سے بدتمیزی کرنے والے دولہا کو کھانے کے بعد بارات سمیت خالی ہاتھ واپس روانہ کردیا گیا اور دلہن کی شادی اس کے کزن کے ساتھ کردی گئی۔

تفصیلات کے مطابق علی پورچٹھہ کے نواحی علاقہ ورپال چٹھہ کے رہائشی فخر زمان چٹھہ نے اپنے ہمسایہ ڈاکٹر بلال احسن ہنجرہ سے اپنی بیٹی کی شادی طے کی، دونوں ہی خاندان زمیندار تھے تاہم دولہا ڈاکٹر بلال کا بیرون ملک کاروبار ہے، گزشتہ روز علی پورچٹھہ کے نجی میرج ہال میں شادی کی تقریب کا انتظام تھا جہاں علاقہ بھر سے لوگوں کی کثیر تعداد کو مدعو کیا گیا تھا۔

مقامی میڈیا ذرائع کے مطابق بارات شادی ہال پہنچی تو باراتیوں نے بینڈ باجے پر ڈانس کرتے ہوئے دولہا پر لاکھوں روپے نچاور کیے، تاہم بارات کے استقبالیہ پر خواتین کی آپس میں تلخ کلامی ہوگئی اور سخت الفاظ کا تبادلہ ہونے پر معاملات گالم گلوچ تک پہنچ گئے، جس پر دلہن والوں نے فوری طور پر باراتیوں کو کھانا کھلایا اور نکاح بعد میں کرنے کا کہہ دیا، تاہم بارات نے جب کھانا کھالیا تو دلہن والوں نے نکاح سے انکار کردیا۔

لڑکی والوں نے مؤقف اپنایا کہ ’آپ لوگوں کا رویہ نکاح سے پہلے ہی نامناسب ہے تو شادی کے بعد لڑکی کے ساتھ کیسا سلوک ہوگا، اس لیے کسی صورت بھی یہ نکاح نہیں کیا جائے گا‘، جس پر دولہا ڈاکٹر بلال مایوس اور ناکام واپس لوٹ گیا جبکہ لڑکی کے والد نے اپنی بیٹی کا نکاح شادی میں شرکت کے لیے آنے والے دلہن کے ماموں زاد سے کروادیا، انہوں نے دلہن کے ماموں زاد سے نکاح کرکے کروڑوں روپے مالیت کی قیمتی گاڑی بھی دی۔
مزیدپڑھیں:ڈیجیٹل ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کا آسان طریقہ، فیس کتنی؟

.

ذریعہ: Daily Ausaf

پڑھیں:

نواز شریف بلوچستان آکر کیا کریں گے، ان کے ہاتھ میں ہے کیا؟   اختر مینگل

 

بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ نواز شریف یہاں آکر کیا کریں گے، ان کے ہاتھ میں کیا ہے۔ کیا ان کے پاس اختیارات ہیں۔
وی نیوز کوانٹرویومیں سردار اختر مینگل نے کہا کہ ابتداء حکومت کے 2 وفود آئے تھے جن میں صوبائی وزراء شامل تھے۔ دونوں وفود نے ہمارے مطالبات سنے اور اقرار کیا کہ غلط ہو رہا ہے لیکن پھر وہ اپنی بے بسی کا رونا روتے رہے اور کہا کہ ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں۔ جس کے بعد حکومت سے ہماری کوئی بات نہیں ہوئی۔
سردار اختر مینگل نے ترجمان بلوچستان حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ ترجمان منتخب ہوتا تو اس کی باتوں کا جواب ضرور دیتا۔ کرایے پر لائے ہوئے ترجمانوں کو ہم ترجمان نہیں گردانتے۔ آج یہ حکومت انہیں تنخواہ دے رہی ہے تو ان کی ترجمانی کر رہے ہیں کل کسی اور کی ترجمانی کریں گے۔  جہاں تک بات ہے شاہوانی اسٹیڈیم کی اجازت کی تو وہاں انہوں نے جلسہ کرنے کی اجازت دی تھی۔ ہم جب سے وڈھ سے نکلے ہیں جلسے کررہے ہیں۔ روزانہ لکپاس پر 2 جلسے کرتے ہیں۔ ہم جلسہ کرنے نہیں بلکہ احتجاج ریکارڈ کروانے آئے ہیں۔ چاہے آپ ہمارے مطالبات مانیں یا نہ مانیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ہمیں کہا جارہا ہے، آپ کو اس لیے احتجاج نہیں کرنے دیا جارہا کیونکہ سیکیورٹی کا مسئلہ ہے۔ ہم شاہوانی اسٹیڈیم نہیں گئے اور وہاں سے انہوں نے بم برآمد کر لیا۔ ہم کوئٹہ نہیں گئے لیکن کیا وہاں تخریب کاری رکی ہے۔ دراصل حکومت ایکسپوز ہوچکی ہے اور خوف زدہ ہے۔ حکومت جانتی ہے کہ اگر ہم کوئٹہ آگئے تو ان کے کارناموں کا بھانڈا پھوڑیں گے اسی لیے انہوں نے ہمارے لیے رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔
اختر مینگل نے کہا کہ وہ حکومت جسے خود سیاست کا پتا نہیں، جنہوں نے سیاست 4 نمبر دروازے سے کی ہو، ایسے لوگ ہمیں سیاست کا درس نہ دیں۔ ہم نے اپنی تمام عمر لوگوں کے لیے عوامی سیاست کی ہے۔ اگر ہمیں سیاست کرنا ہوتی تو اس وقت کرتے جب دھاندلی کرکے فارم۔47 والوں کو ہماری نشستیں دی جارہی تھیں لیکن اس مسئلے پر کوئی بھی غیرت مند خاموش نہیں رہتا۔
ایک سوال کے جواب میں سردار اختر مینگل نے کہا کہ پارلیمان کو اس لیے خیر باد کہا کیونکہ وہاں ہماری بات نہیں سنی جارہی تھی۔ مجھے اس بات کی فکر نہیں کہ پارلیمان میں ہماری بات سنی جارہی ہے یا نہیں، مجھے ان لوگوں کی فکر تھی جنہوں نے ہمیں اپنا ووٹ دیا تھا۔ جن لوگوں نے ہم پر اعتماد کیا ہم انہیں یہ بتانا چاہتے تھے کہ ہم آپ کے مسائل پر خاموش نہیں۔
سرفراز بگٹی کے دور حکومت سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ دنیا جب ترقی کرتی ہے تو مثبت پہلو سامنے آتے ہیں۔ یہ واحد ملک ہے جہاں وقت کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ پالیسیوں میں منفی تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرفراز بگٹی کا دور ماضی کی منفی پالیسیوں کی عکاسی کرتا ہے۔
اختر مینگل نے کہا کہ ریاست کے مائنڈ سیٹ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ حکومتیں تبدیلی ہوئیں، نام نہاد جمہوری لوگ آئے، مارشل لا لگائے گئے لیکن بلوچستان کے حالات اس لیے نہیں بدل رہے کیونکہ ایک مائنڈ سیٹ نہیں بدل رہا۔ جب تک اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل نہیں کیا جائے گا تب تک حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔ اور مائنڈ سیٹ یہ ہے کہ بلوچستان کو صوبہ نہیں ایک کالونی تصور کیا جاتا ہے۔ جب اس سوچ کے تحت حکومت ہوگی تو حالات بگڑیں گے۔
اختر مینگل نے کہا کہ نواز شریف یہاں آکر کیا کریں گے ان کے ہاتھ میں کیا ہے۔ کیا ان کے پاس اختیارات ہیں۔ نواز شریف صاحب کو اگر کچھ کرنا تھا تو جس وقت الیکشن سے قبل میں نے انہیں خط لکھا تھا تو وہ تب کچھ نہیں کر سکے، جب وہ کبھی نشستیں حاصل کرنے کی امید سے تھے، اب جب وہ نہ وزیراعظم ہیں اور نہ انتخابات میں انہیں کچھ ملا۔ ہاں! نواز شریف نے اپنے اصولوں کو بلی چڑھایا جس کے نتیجے میں ان کا بھائی وزیر اعظم بنا اور بیٹی وزیر اعلیٰ بنی لیکن انہیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • دولہے کو اپنی دلہن کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کرنا مہنگی پڑگئی
  • پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹلز خالی، غیر قانونی قابضین کو سامان واپس کرنے کا فیصلہ
  • قدم زمین پر ، ہاتھ آسمان پر
  • نواز شریف بلوچستان آکر کیا کریں گے، ان کے ہاتھ میں ہے کیا؟   اختر مینگل
  • ہے اپنے ہاتھ میں اپنا گریباں
  • وقف املاک بل منظور؛ مکیش امبانی کا اربوں ڈالر مالیت کا بنگلا بھی خالی کرایا جائے گا؟
  • بھارت: وقف بل منظوری کے بعد مکیش امبانی سے 15 ہزار کروڑ کا بنگلہ خالی کرانے کا امکان
  • جوتا چھپائی میں 50 ہزار کی ڈیمانڈ، 5 ہزار دینے پر دولہا کو “بھکاری” کہہ کر کمرے میں بند کر دیا گیا
  • دار فور میں نسل کشی کے پیچھے یو اے ای کا ہاتھ ہے، سوڈان
  • اسرائیل میں غربت کا طوفان، لاکھوں شہری خیرات پر زندگی گزارنے پر مجبور