UrduPoint:
2025-04-13@15:10:03 GMT

امریکی محصولات اور ایشیائی بازار حصص

اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT

امریکی محصولات اور ایشیائی بازار حصص

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 اپریل 2025ء) امریکہ کی طرف سےنئے محصولات میں چینی درآمدات پر 104 فیصد کا بھاری ٹیکس بھی شامل ہے۔ ایشیائی ممالک میں اس امریکی اقدام کے نتائج واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ بدھ کو ایشیائی حصص مارکیٹ میں مندی اس تناظر میں دیکھی جا رہی ہے۔

جاپان کا نکئی 225 انڈیکس ابتدائی طور پر تقریباً 4 فیصد گر گیا جبکہ خطے کی دیگر مارکیٹیں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔

واشنگٹن کی جانب سے چین سے منسلک بحری جہازوں پر مجوزہ فیسیں اور اہم علاقائی تجارتی شراکت داروں پر وسیع درآمدی محصولات غیر یقینی صورتحال کو جنم دے رہے ہیں۔ یہ پیش رفت خطے میں امریکی مصنوعات کی مانگ میں کمی کا باعث بھی بن رہے ہیں۔

چین نے امریکی مصنوعات پر 34 فیصد ٹیکس کے ساتھ جوابی ردعمل ظاہر کیا ہے۔

(جاری ہے)

امریکی زرعی مصنوعات کا سب سے بڑا درآمد کنندہ چین ہی ہے۔

تاہم جاپان، جنوبی کوریا اور تھائی لینڈ سمیت دیگر ایشیائی ممالک بھی بڑی مقدار میں امریکی گندم، مکئی اور سویا بین خریدتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کا مقصد کیا ہے؟

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا منصوبہ ہے کہ امریکی شپ بلڈنگ کو دوبارہ زندہ کیا جائے، برآمد کنندگان کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ چینی جہازوں کی بجائے متبادل بحری جہازوں کی تلاش کریں۔

اس مقصد کی خاطر واشنگٹن حکومت نے چین سے منسلک بحری جہازوں پر 15 لاکھ ڈالر تک کی پورٹ فیس لگا دی ہے۔

تاہم اس اقدام سے بحری جہازوں کے ذریعے مال برداری کی لاگت میں اضافہ ہو گیا ہے، جس سے امریکی زرعی مصنوعات کی طلب بھی متاثر ہوئی ہے۔

امریکی ریاست کنساس میں قائم شپنگ کنسلٹنٹ جے او نیل کے مطابق، ''اب امریکا دنیا کی نصف سے زائد بحری فلیٹ کے لیے ایک غیر پرکشش منزل بن گیا ہے۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ جہازوں کے مالکان اور آپریٹرز اپریل، مئی اور جون کے لیے امریکی بندرگاہوں کے لیے کرایے کے نرخ دینے سے ہچکچا رہے ہیں کیونکہ ممکنہ فیسوں کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔

تاجروں کا کہنا ہے کہ شپنگ مسائل اور تجارتی جنگ کی غیر یقینی صورتحال غالباً مستقبل میں شکاگو میں سویا بین اور گندم کی بنیادی قیمتوں پر اثر انداز ہو گی۔ یہ قیمتیں اس وقت بھی گزشتہ کئی مہینوں کی کم ترین سطح کے قریب پہنچ چکی ہیں۔

جہاز رانی کا بحران

ایشیا دنیا بھر میں برآمد کی جانے والی امریکی گندم اور مکئی کے تقریباً 35 فیصد کا خریدار ہے۔

چین دنیا بھر میں تجارت کی جانے والی 60 فیصد سے زائد سویا بین مقدار کا خریدار ہے۔

ٹریڈرز اگرچہ دیگر ایشیائی اناج درآمد کنندگان کی جانب سے امریکی محصولات کے خلاف جوابی کارروائی کی توقع نہیں کر رہے ہیں لیکن جہازوں کی محدود دستیابی اور تجارتی جنگ کی غیر یقینی صورتحال خریداری کو متاثر کر رہی ہے۔

اس بحران کے باوجود توقع ہے کہ امریکی گندم کے روایتی خریدار جیسے کہ جاپان اور جنوبی کوریا امریکی زرعی مصنوعات خریدنا جاری رکھیں گے تاہم ایسے امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ مکئی اور سویا بین جیسی اجناس کے لیے جنوبی امریکا اور بلیک سی خطے سے متبادل سپلائرز کو بھی آزما سکتے ہیں۔

امریکا میں سویا ٹرانسپورٹیشن کولیشن کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر مائیک اسٹین ہوک نے روئٹرز کو بتایا کہ ایک معروف امریکی برآمد کنندہ چین سے منسلک بحری جہازوں پر مجوزہ فیس کے باعث سویا میل کی شپنگ کے لیے دیگر کمپنیوں کے ساتھ مذاکرات میں ناکام ہو گیا ہے۔

ادارت: کشور مصطفیٰ

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بحری جہازوں سویا بین رہے ہیں کے لیے

پڑھیں:

فیکٹ چیک: محصولات کے بارے میں صدر ٹرمپ کے جھوٹے دعوے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) صدرڈونلڈ ٹرمپ نے نئے محصولات لگائے اور ان کو درست ثابت کرنے کے لیے جھوٹے دعوے کیے۔ ڈی ڈبلیو نے وائرل ہونے والے دو دعوؤں کی جانچ کی ہے۔

دو اپریل کو وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی سطح پر محصولات کے ایک نئے دور کا اعلان کیا۔

محصولات کے حساب کتاب، اس کے جواز اور اثرات سے متعلق ان کے بیانات جھوٹے دعووں سے بھرپور تھے اور انہوں نے بہت سی معیشتوں پر ایک ہی وقت میں ضرب لگانے کا اعلان کا۔ ان اعلانات کے خلاف کچھ ممالک پہلے ہی جوابی اقدامات کا اعلان کر چکے ہیں۔

ٹیرف واپس نہ لیے تو چین پر مزید محصولات، ٹرمپ

ٹرمپ کے دو دعوؤں کی حقیقت جانیے ڈی ڈبلیو کی اس فیکٹ چیک رپورٹ میں!

ٹرمپ کا دعویٰ

ایکس پر ایک پوسٹ کے ساتھ شائع ہونے والی ایک ویڈیو، جس کی اشاعت کے بعد اُس پر 1.1 ملین ویوز تھے، میں ٹرمپ کا کہنا تھا،''کینیڈا ہماری بہت سی ڈیری مصنوعات پر 250 تا 300 فیصد ٹیرف لگاتا ہے، دودھ کے پہلے ڈبے، دودھ کے پہلے چھوٹے کارٹن تک قیمت بہت کم رہتی ہے اور اُس کے بعد یہ سلسلہ خراب ہوتا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

‘‘

ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک کے مطابق ٹرمپ کا یہ دعویٰ فسق ہے۔

ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک کیا کہتا ہے؟

کینیڈا امریکی ڈیری مصنوعات پر محصولات امریکہ، میکسیکو اور کینیڈا کے مابین طے پائے جانے والے معاہدے (USMCA) کے تحت لگاتا ہے۔ اس ٹیرف کا اطلاق دودھ، مکھن، پنیر، دہی اور آئس کریم جیسی ڈیری مصنوعات کی 14 اقسام پر ہوتا ہے۔

امریکی محصولات: پاکستان میں عام آدمی پر اثرات کیا ہوں گے؟

اس معاہدے پر ہونے والے اتفاق کے مطابق امریکی ڈیری مصنوعات کی ایک مخصوص تعداد کو کینیڈا کی مارکیٹ میں ٹیرف کے بغیر داخل ہونے کی اجازت ہے۔ جب طے شدہ یہ حد تجاوز کر جائے تو ان پر محصولات میں ان اشیا کے گھریلو پروڈیوسرز کے تحفظ کے لیے ٹیرف کا دیگر حساب کتاب شروع ہو جاتا ہے۔

یہ اضافی کوٹہ ٹیرف 200 اور 300 فیصد کے درمیان ہوتا ہے۔ تاہم، USMCA کے مطابق، کینیڈا نے ضمانت دی ہے کہ سالانہ دسیوں ہزار میٹرک ٹن درآمد شدہ امریکی دودھ پر صفر محصولات ہوں گے۔

ٹرمپ کا دوسرا جھوٹا دعویٰ

اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم Truth Social پر اس پوسٹ میں، ٹرمپ نے وہی چارٹ شیئر کیا تھا، جو انہوں نے وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران ''باہمی‘‘ عالمی ٹیرف کا اعلان کرتے ہوئے کیا تھا۔

ٹرمپ کے مطابق، چارٹ میں دیگر ممالک کی جانب سے امریکہ پر لگائے جانے والے ٹیرف اور اس کے جواب میں اب امریکہ کی طرف سے ان ممالک کے خلاف محصولات عائد کرنے کی تفصیلات درج تھیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ چارٹ پر دوسری پوزیشن پر دکھائی دینے والی یورپی یونین امریکہ سے درآمدات پر 39 فیصد محصولات وصول کرتی ہے۔

امریکی پالیسیوں سے ایشیائی ممالک کیسے متاثر ہوں گے؟

ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک کیا کہتا ہے؟

دو اپریل کو اپنی مذکورہ تقریر میں ٹرمپ نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین امریکہ سے درآمدات پر 39 فیصد محصولات وصول کرتی ہے۔

ٹرمپ کا کہنا تھا،'' یہ ایک سادہ سی بات ہے، وہ جو ہمارے ساتھ کرتے ہیں، ہم بھی ان کے ساتھ وہی کریں گے۔‘‘

ٹرمپ نے مزید کہا کہ اس چارٹ میں درج ممالک جتنی محصولات امریکہ سے وصول کرتے ہیں، امریکہ اُس کا آدھا ان سے وصل کرے گا۔ اس لہٰذا اس چارٹ کے مطابق یورپی یونین کے لیے امریکہ کی رعایتی ٹیرف 20 فیصد بنتا ہے۔

امریکہ: غیر ملکی کاروں پر 'مستقل' اضافی محصولات کا اعلان

تاہم ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے مطابق، یورپی یونین کے تجارتی حجم پر اوسط محصولات کی شرح 2.7 فیصد ہے۔

سب سے زیادہ اوسط ٹیرف کی شرح، جو یورپی یونین کچھ ممالک سے لیتی ہے، وہ ہے ڈیری مصنوعات پر 30 فیصد۔

امریکی تجارتی نمائندے کے دفتر کی ایک فیکٹ شیٹ اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ باہمی محصولات کا تعین امریکہ اور اس کے تجارتی شراکت داروں کے درمیان تجارتی خسارے کو متوازن کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔

متعدد ایشیائی ممالک ٹرمپ کی بھاری محصولات پالیسی کی زد میں

دستاویز کے مطابق باہمی محصولات کا شمار ''امریکہ اور اس کے ہر تجارتی شراکت دار کے درمیان دوطرفہ تجارتی خسارے کو متوازن کرنے کے لیے ضروری ٹیرف میں کیا جاتا ہے۔

اس حساب سے یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ مسلسل تجارتی خسارے ٹیرف اور نان ٹیرف عوامل کے امتزاج کی وجہ سے ہیں، جو تجارتی توازن کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ٹیرف دراصل براہ راست برآمدات میں کمی کے ذریعے ہی کام کر سکتے ہیں۔‘‘

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • فیکٹ چیک: محصولات کے بارے میں صدر ٹرمپ کے جھوٹے دعوے
  • وسط ایشیائی ملک تاجکستان زلزلہ، شدت 5.9 ریکارڈ
  • کرپشن فری بیانیہ والی پی ٹی آئی حکومت نے رشوت کا بازار گرم کیا ہوا ہے، اختیار ولی
  • کرپشن فری بیانیہ والی پی ٹی آئی حکومت نے رشوت کا بازار گرم کیا ہوا ہے، رہنما مسلم لیگ(ن)
  • کراچی: سولجز بازار سے کالعدم تنظیم کا دہشت گرد گرفتار
  • کراچی: سولجر بازار میں کارروائی، کالعدم تنظیم کا دہشتگرد گرفتار
  • ٹیرف وار: چین کا امریکا پر جوابی حملہ، مصنوعات پر ٹیکس 125 فیصد کردیا
  • چین نے امریکی مصنوعات پر مزید ٹیکس عائد کردیا؛ شرح 125 فیصد تک جا پہنچی
  • غریب ممالک کو نئے امریکی محصولات سےمستثنیٰ ہونا چاہیے، اقوام متحدہ
  • سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا ہماری خارجہ پالیسی کی کلیدی ترجیح ہے ،چین