ٹرمپ کی حکمت عملی بنیادی طور پر بلیک میلنگ ہے، پاسکل لامی WhatsAppFacebookTwitter 0 9 April, 2025 سب نیوز

وااشنگٹن :ڈبلیو ٹی او کے سابق ڈائریکٹر جنرل پاسکل لامی نے ٹرمپ کی کاروباری حکمت عملی پر کھل کر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا:” ٹرمپ نے نیویارک کی مافیا زدہ ریئل اسٹیٹ صنعت میں کاروبار کرنا سیکھا ہے، اس کی حکمت عملی بنیادی طور پر بلیک میلنگ ہے۔مسلسل دباؤ ڈالنا یہاں تک کہ مخالفین کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا جائے۔” لامی کا یہ مشاہدہ ٹرمپ کے رویے کے بنیادی اصول کو بے نقاب کرتا ہے: کاروباری مذاکرات میں استعمال ہونے والے جارحانہ طریقوں کو سیاسی میدان میں استعمال کرنا۔ٹرمپ کا پیشہ ورانہ کیریئر 1970 کی دہائی میں نیویارک کی ریئل اسٹیٹ صنعت سے شروع ہوا۔

اس کے والد فریڈ ٹرمپ نے سیاستدانوں، یونینز اور گینگسٹرز کے ساتھ پیچیدہ تعلقات استعمال کر کے فائدہ اٹھایا۔ اس ماحول نے ٹرمپ کی کاروباری اقدار کو تشکیل دیا: جارحانہ رویہ، قوانین کی حدود کو دھندلا کرنا، اور مخالفین کو انتہائی دباؤ میں لا کر رعایت حاصل کرنا۔ ٹرمپ کی شخصیت کی تشکیل کے پس منظر کو دیکھتے ہوئے، ہم اس کے رویے کے پیچھے چھپی تاریکی کو واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ وہ اپنی سوانح عمری” دی آرٹ آف دی ڈیل” میں صاف کہتا ہے: “مذاکرات کی کامیابی کا راز غیر متوقع رویہ اختیار کرنا ہے، تاکہ مخالف خوف زدہ ہو جائے”۔ ظاہر ہے کہ اس کے “کامیابی کے اصولوں” میں دھوکہ دہی اور جھوٹ بھی شامل ہے۔

اپنی کاروباری سلطنت کھڑی کرنے سے لے کر صدارتی انتخابات جیتنے تک، ٹرمپ نے خود کو ایک “سیلف میڈ ارب پتی” ظاہر کیا اور ہمیشہ یہی دعویٰ کیا کہ اس کے والد نے اسے مالی مدد نہیں دی۔ لیکن نیویارک ٹائمز کی تحقیق سے پتہ چلا کہ ٹرمپ کو اپنے والد کی ریئل اسٹیٹ ایمپائر سے آج کے حساب سے کم از کم 413 ملین ڈالر ملے، اور سب سے اہم بات یہ کہ یہ رقم زیادہ تر 1990 کی دہائی میں ٹیکس چوری کے ذریعے اس کے پاس پہنچی۔ اگر جھوٹ بولنے سے ناک لمبی ہوتی، تو ٹرمپ کی ناک “پنوکیو” کو بھی پیچھے چھوڑ دیتی ۔ اب جب ہم ٹرمپ کی ٹیرف پالیسیوں کو دیکھتے ہیں، تو ہمیں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ اس نے اپنی کاروباری حکمت عملی کو تجارتی جنگ میں بالکل اسی طرح استعمال کیا ہے: یکطرفہ دھمکیوں کے ذریعے ڈبلیو ٹی او کے کثیرالجہتی نظام کو نظر انداز کرکے براہ راست دیگر ممالک پر زیادہ ٹیرف نافذ کرنا ، نفسیاتی دباؤ ڈال کر مارکیٹ میں خوف پھیلانا، سخت بیانات دے کر مخالفین کو جلد ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا،بے بنیاد ٹیرف کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے تجارتی شراکت داروں کے ساتھ بلیک میلنگ کرنا۔لیکن ٹرمپ شائد یہ بھول گیا کہ سیاسی کھیل کاروباری لین دین سے بالکل مختلف ہے۔ قومی ریاستوں کی عوامی مرضی، قومی وقار اور صبر کی صلاحیت کسی بھی کاروباری ادارے سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ ٹرمپ کے لئے پاسکل لامی کی طرف سے بیان کردہ “طاقت کے مظاہرے” کی حکمت عملی پوری دنیا کے لیے اہمیت رکھتی ہے، کیونکہ بدمعاشوں کی بلیک میلنگ کے آگے جھکنا ہمیشہ کے لیے مصائب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

ظلم کے خلاف مزاحمت کرنے کے لیے، عالمی برادری کو کثیرالجہتی تعاون کے نظام کو مزید مضبوط بنانا چاہیے، قانونی طریقہ کار کے ذریعے ڈبلیو ٹی او جیسے عالمی فورمز پر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسیوں کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنا چاہیے، اس کی سیاسی قیمت بڑھانی چاہیے، اور ساتھ ہی متبادل اتحادی نظاموں جیسے آر سی ای پی اور سی پی ٹی پی پی کو مضبوط کر کے امریکی مارکیٹ پر انحصار کم کرنا چاہیے۔ ٹرمپ نے اپنے نیویارک ریئل اسٹیٹ کے تجربات کو عالمی سطح پر ٹیرف جنگ میں استعمال کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ بین الاقوامی نظام کی پیچیدگی کو سمجھنے میں ناکام رہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ یکطرفہ جبر کبھی بھی عالمی نظام کو نہیں بدل سکتا۔ موجودہ چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے، ممالک کو قوانین کو ڈھال اور طاقت کو نیزہ بنا کر ٹرمپ جیسی جارحانہ پالیسیوں کو روکنا ہوگا۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: کی حکمت عملی بلیک میلنگ ریئل اسٹیٹ استعمال کر پاسکل لامی ٹرمپ کی کے لیے

پڑھیں:

عدالتی نظام میں آرٹیفیشل انٹیلجنس کے استعمال پر گائیڈ لائنز مرتب کرنے کی سفارش

سپریم کورٹ نے عدالتی نظام میں آرٹیفیشل انٹیلجنس کے استعمال پر گائیڈ لائنز مرتب کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی فیصلہ لکھنے سے متعلق ریسرچ اور ڈرافٹ تیاری میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔

عدالتی نظام میں آرٹیفیشل انٹیلجنس (اے آئی) کے استعمال پر 18 صفحات پر مشتمل اہم فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے جاری کیا ہے، فیصلے کے مطابق چیٹ جی پی ٹی اور ڈیپ سیک عدالتی استعدادکار بڑھا سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سیاست کر لیں یا پھر وکالت، معروف وکیل حامد خان کو سپریم کورٹ میں یہ مشورہ کس نے دیا؟

آرٹیفیشل انٹیلجنس کے استعمال پر گائیڈ لائنز تیار کرنے کی سفارش کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں کئی ججز کی جانب سے اے آئی استعمال سے  فیصلوں میں معاونت کا اعتراف کیا گیا، اے آئی کو فیصلہ لکھنے میں ریسرچ اور ڈرافٹ تیاری میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

فیصلے کے مطابق اے آئی صرف معاون ’ٹول‘ ہے، ایک جج کی فیصلہ سازی کا متبادل نہیں، اے آئی کو کسی صورت عدلیہ میں مکمل انسانی فیصلے کی خودمختاری کامتبادل نہیں ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: آئی ایم ایف کا وفد سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سے کیوں ملنا چاہتا ہے؟

اے آئی کو صرف اسمارٹ قانونی ریسرچ میں سہولت قرار دیتے ہوئے، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ عدالتی اصلاحاتی کمیٹی اور لا اینڈ جسٹس کمیشن کو اس ضمن میں گائیڈ لائنز مرتب کرنی چاہیں۔

عدالتی فیصلہ کے مطابق گائیڈ لائننز میں طے کیا جائے کہ جوڈیشل سسٹم میں اے آئی کا کتنا استعمال ہو گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آرٹیفیشل انٹیلجنس جسٹس منصور علی شاہ چیٹ جی پی ٹی ڈیپ سیک سپریم کورٹ عدالتی اصلاحاتی کمیٹی قانونی ریسرچ گائیڈ لائنز لا اینڈ جسٹس کمیشن

متعلقہ مضامین

  • کراچی؛ جانوروں کے فضلے سے بائیو گیس کے بڑے منصوبے کیلیے حکمت عملی مرتب
  • پہلے ہی کہا تھا کہ میچ میں خاص حکمت عملی بنائیں گے: ڈیوڈ وارنر
  • ٹیکس نظام کو انتہائی سادہ بنانے جا رہے ہیں؛ محمد اورنگزیب
  • غزہ میں پانی کا بحران، صیہونی شیطانی حکمت عملی کا حصہ ہے، ڈاکٹرز ودآوٹ بارڈرز
  • عدالتی نظام میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے استعمال پر گائیڈ لائنز تیار کرنے کی سفارش
  • عدالتی نظام میں اے آئی کے استعمال پر سپریم کورٹ کی سفارش گائیڈ لائنز بنانے کی ہدایت
  • سپریم کورٹ نے عدالتی نظام میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے استعمال پر اہم فیصلہ جاری کردیا
  • عدالتی نظام میں آرٹیفیشل انٹیلجنس کے استعمال پر اہم فیصلہ جاری
  • سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ: عدالتی نظام میں اے آئی کے استعمال پر گائیڈ لائنز تیار کرنے کی سفارش
  • عدالتی نظام میں آرٹیفیشل انٹیلجنس کے استعمال پر گائیڈ لائنز مرتب کرنے کی سفارش