گرفتار برطانوی جوڑے کا ’مسئلہ‘ جلد حل ہوجائے گا، ترجمان افغان حکومت
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
افغانستان میں ایک چھوٹی سی بات پر حراست میں لیے گئے برطانوی جوڑے کو طالبان حکومت کی تشکیل کردہ عدالت اسلامی قانون کی بنیاد پر انصاف فراہم کرے گی۔
عبوری افغان حکومت کے ترجمان عبدالمتین قانی نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ انشا اللہ ان کا مسئلہ جلد حل ہو جائے گا۔
ایک ماہ سے زائد عرصے میں یہ پہلا موقع ہے کہ طالبان حکام نے پیٹر اور باربی رینالڈس کے معاملے پر عوامی طور پر تبصرہ کیا ہے، جنہیں فروری کے اوائل میں وسطی صوبہ بامیان میں اپنے گھر سے دارالحکومت کابل لے جانے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: افغان طالبان نے گرفتار برطانوی جوڑے کو ہائی سیکیورٹی جیل میں منتقل کردیا
شوہر اور بیوی، جن کی عمر 70 کی دہائی میں ہے، ایک تنظیم چلاتے ہیں جو تعلیم اور تربیتی پروگرام فراہم کرتی ہے، برطانیہ میں ان کے خاندان کا کہنا ہے کہ گرفتار جوڑے کے ساتھ پل چرخی جیل میں ناروا سلوک کیا جا رہا ہے، جہاں انہیں نامعلوم الزامات کے تحت حراست میں رکھا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی خبر رساں ادارے کو بھیجے گئے ایک پیغام میں افغان وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانی نے اس بارے میں تفصیلات نہیں بتائیں کہ جوڑے کو کیوں گرفتار کیا گیا اور نہ ہی ان کے علاج کے بارے میں کوئی تبصرہ کیا۔
عبدالمتین قانی نے کہا کہ میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ یہ معاملہ پہلے وزارت داخلہ کے پاس تھا جسے اب عدالتوں کے سپرد کردیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: افغانستان: بیوی کے ساتھ جیل میں قید معمر برطانوی شہری نے سنگین حالات بیان کردیے
’ان کا جرم اتنا سنگین نہیں ہے، انشاء اللہ جلد ہی ان کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور شرعی (اسلامی قانون) فیصلہ ہو جائے گا، یہ چھوٹا معاملہ ہے جو تشویش کا باعث نہیں ہونا چاہیے۔‘
مذکورہ برطانوی جوڑے کے ساتھ گرفتار ہونیوالے امریکی شہری فائی ہال کو 30 مارچ کو اس معاہدے کے بعد رہا کردیا گیا تھا، جس میں قطری مذاکرات کاروں نے سہولت کاری کی تھی۔
فائی ہال کو بغیر اجازت ڈرون استعمال کرنے کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا، خیال کیا جاتا ہے کہ وہ جنوری سے اب تک افغانستان میں طالبان کی حراست سے آزاد ہونے والی چوتھی امریکی شہری ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
باربی رینالڈس بامیان برطانوی پل چرخی جیل پیٹر رینالڈس طالبان حکومت عبدالمتین قانی کابل.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: باربی رینالڈس بامیان برطانوی پل چرخی جیل طالبان حکومت عبدالمتین قانی کابل عبدالمتین قانی برطانوی جوڑے
پڑھیں:
وفاق اور صوبے کے درمیان کمیونیکیشن گیپ بلوچستان میں بغاوت کی وجہ ہے، ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند
وی نیوز کی ٹوئٹر اسپیس ’بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے‘ میں گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان کے سابق وزیر اطلاعات جان اچکزئی کا کہنا تھا کہ غیر جذباتی طور پر بلوچستان میں کئی ایسے گروپس ہیں جو بندوں کے ذریعے اپنی سیاسی ڈیمانڈز منوانے چاہتے ہیں۔ اور یہ گروپس پہلی بار نہیں بلکہ 70 کی دہائی سے ہی فعال ہیں۔
ہمسایہ ممالک پاکستان کیخلاف فنڈنگ کرتے ہیںجان اچکزئی کے مطابق جب بھی پاکستان کے حالات خراب ہوئے تو ہمسایہ ممالک انڈیا، ایران اور افغانستان کی جانب سے ان گروپس کی فنڈنگ کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ جب دشمن ایجنسیاں ان گروپس میں شامل ہو جاتی ہیں، تو ان گروپس کا مقصد بھی بدل جاتا ہے۔ اب بیانیہ ان کا ہمارے سامنے جو بھی ہے۔ لیکن مقصد ان کا وہی ہے۔ جو ان کے سپانسرز اور ہینڈلرز کا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان گروپس کا اس وقت مقصد یہی ہے کہ بلوچستان کو غیر مستحکم رکھا جائے۔ یہ گروپ جنہوں نے بندوق اٹھائی ہے۔ یہ دہشتگرد گروپ ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کوئٹہ کو خطرناک دہشتگردی سے بچا لیا گیا، سی ٹی ڈی بلوچستان
جان اچکزئی کے مطابق نوجوانوں میں غربت، مرکزی حکومت سے علیحدگی یا نوجوانوں اور حکومت کے درمیان فاصلے پر مایوسی ہو سکتی ہے۔ جو کہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں بھی ہو سکتی ہے۔ جس پر بحث کی جا سکتی ہے۔
گورننس کے مسائل آج بھی 20 سال پہلے جیسے ہیںانہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں جو لیڈر شپ رہی ہے۔ وہ 2 بڑے گروپس پر مشتمل ہے۔ ایک وہ لیڈر شپ رہی ہے جو بڑے سردار ہیں، جو بلوچستان کے مفاد کے لیے کھڑے رہے ہیں۔ دوسرے خود کو پرو فیڈریشن کہتے ہیں۔ جو بڑے الیکٹبلز ہیں اور ان کے پوتے اور پڑپوتے آج بھی اسی سیاسی ڈھانچے کا حصہ ہیں۔ ان کے اور عام عوام کے درمیان فاصلہ آج سے نہیں بلکہ ہمیشہ سے تھا۔ یہاں گورننس کے مسائل آج بھی 20 سال پہلے جیسے ہیں۔ آج بھی بلوچستان میں معیشت، گورننس اور بیوروکریسی کے مسائل موجود ہیں۔ وسائل کی تقسیم متوازی نہیں ہے۔ اور کرپشن بہت زیادہ ہے۔
محرومیوں کی وجہ سے لوگ غلط نظریہ رکھتے ہیںجان اچکزئی نے یہ بھی کہا کہ عام آدمی یعنی مڈل کلاس افراد اور پاکستان کی حکومت کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ ہے۔ اسکول، اسپتال اور دیگر وسائل جن کو بہت عام سمجھا جاتا ہے، وہ بلوچستان میں نہیں ہیں۔ اس طرح کی محرومیوں کی وجہ سے لوگ بہت سی چیزوں کو لے کر غلط نظریہ رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:نواز شریف بلوچستان آکر کیا کریں گے، ان کے ہاتھ میں ہے کیا؟ سردار اختر مینگل
ڈائیلاگ کی ضرورت ہےان گروپس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ان کی فنڈنگ باہر سے ہوتی ہے۔ اور ہمیں ان گروپس کو الگ کرنا ہے۔ بلوچستان کو گورننس کی نظر سے دیکھنا ہے۔ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ نئے صوبے بننے چاہیے۔ انوسٹمنٹ کے لیے ایسا ماڈل چاہیے۔ تاکہ باقی انویسٹر آسکیں۔
نوازشریف سے شکوہجان اچکزئی کے مطابق بلوچستان کے حالات سیاسی نہیں ہیں۔ ان سیاستدانوں کے پاس بلوچستان کا نہ ویژن ہے اور نہ ہی ان کی کپیسیٹی ہے۔ مرکز میں موجود دونوں بڑی پارٹیوں کا ذکر کیا جائے تو نواز شریف کبھی بھی کوئٹہ میں ایک دن سے زیادہ نہیں رکے۔ وہ بلوچستان کو اربوں ڈالر کے لحاظ سے دیکھتے ہیں۔ لیپ ٹاپ اسکیم پوائنٹ آف ویو سے دیکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مالک بلوچ صاحب بھی نئے سی ایم بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ انہیں پہلے بھی نواز شریف نے بنایا تھا، اب پھر جا کر پاؤں پکڑے ہیں۔ ہمیں بلوچستان کو ان کے نقطہ نظر سے نہیں دیکھنا۔
آصف زرداری بھی بلوچستان کو سرداروں کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیںجان اچکزئی کا کہنا تھا کہ یہی مسئلہ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی ہے۔ آصف زرداری بھی بلوچستان کو سرداروں کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ جس کا نوجوانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کی سب سے بڑی غلطیایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی سب سے بڑی غلطی بلوچستان کو سرداروں کے سپرد کرنا ہے۔ چاہے پھر وہ کوئی بھی تھے۔ اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ یہ بلوچستان کے مسائل کو بخوبی جانتے ہیں، مگر انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل کیا۔
بلوچستان میں بالکل دہشتگردی ہےدوسری جانب ٹوئٹر اسپیس میں گفتگو کرتے ہوئے ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند نے کہا کہ بلوچستان میں بالکل دہشتگردی ہے اور لبریشن آرمی کام کر رہی ہے۔ اس کی وجہ ڈیڑھ دہائی سے رہنے والی حکومتیں ہیں۔ کیونکہ انہوں نے وفاق کو کنفیوژن میں رکھا ہے۔ انہوں نے وفاق کو صحیح نہیں بتایا کہ بلوچستان میں کیا صورتحال ہے۔ اور اس سب کی وجہ لبریشن آرمی اور حکومت کے درمیان ڈائیلاگ نہ ہونا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:بلوچستان: جمعیت علما اسلام نے ثالثی کی پیشکش کردی
بات چیت جاری ہےان کا کہنا تھا کہ اب بلوچستان میں جو حالات ٹھیک ہونے جا رہے ہیں، کیونکہ سرفراز بگٹی کی حکومت کی ان سے بات چیت جاری ہے۔ اور بھرپور کوشش کی جا رہی ہے کہ اسٹیک ہولڈرز کو مذاکرات پر راضی کریں۔ اور معاملہ حل کیا جائے۔
بلوچستان کی سب سے بڑی مجبوریانہوں نے کہا کہ اس صوبے کی سب سے بڑی مجبوری یہ ہے کہ 1970 سے لے کر اب تک اس صوبے میں کوئی ایک پارٹی حکومت میں نہیں آ سکی۔ جب بھی صوبے میں حکومت بنتی ہے۔ وہ اتحادی حکومت ہوتی ہے۔ جو پھر اپنے مطابق اس طرح کام نہیں کر پاتی۔
گریڈ 4 کی نوکری بھی بکتی تھینوجوانوں پر بات کرتے ہوئے شاہد رند نے کہا کہ نوجوان اس لیے مایوس ہیں کہ انہیں نوکریاں نہیں مل رہیں۔ اور وہاں گریڈ 4 کی نوکری بھی پیسوں میں بکتی تھی۔ مگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومت نے یہ چیزیں ختم کی ہیں۔ یہ پہلی بار ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں بلوچستان میں اس وقت حکومت کر رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے فیصلے کرنے میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں آسانی ہو رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آصف زرداری افغانستان انڈیا ایران بلوچستان جان اچکزئی دہشتگردی شاہد رند نوازشریف