پاکستان کا مستقبل زیادہ صحت مند نہیں، 38 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، مصطفیٰ کمال
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
اسلام آباد:
عالمی ادارہ صحت کے زیر اہتمام عالمی یوم صحت کی مناسبت سے اسلام آباد میں تقریب کا انعقاد کیا گیا جس سے وفاقی وزیر صحت سید مصطفیٰ کمال اور ڈبلیو ایچ او کے نمائندے ڈاکٹر ڈپینگ لؤ نے خطاب کیا۔
وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم عالمی یوم صحت منا رہے ہیں۔ اس سال عالمی یوم صحت صحت مند آغاز، صحت مند مستقبل کے عنوان کے تحت منایا جا رہا ہے۔ پاکستان کا مستقبل زیادہ صحت مند نہیں ہے، لیکن ہم پر امید ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہر سال دس ہزار خواتین ڈیلیوری کے دوران موت کا شکار ہوتیں ہیں۔ ہم پر امید ہیں اور مقابلہ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں 38 فیصد بچوں کی سٹنٹنگ گروتھ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے پاکستان میں صحت مندانہ آغاز نہیں ہوتا۔ 10 ہزار مائیں سالانہ زچگی کے دوران اپنی جانیں کھو دیتی ہیں، 400 مائیں دوران حمل اپنی جانیں کھو بیٹھتی ہیں۔ اسلیے ہمارا آغاز صحتمندانہ نہیں لیکن ہم پرامید ہیں۔
وزیر صحت نے کہا کہ ہم اپنے ذرائع درست سمت میں استعمال کریں گے۔ 38 فیصد بچے غذائی قلت کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، ایسے بچے معاشرے کے لیے رائبلٹی ہیں۔ وہ نوکریاں حاصل نہیں کر سکتے، وہ تعلیم حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ ہمیں صحت میں طبی سہولیات کی زمہ داری اٹھانا پڑے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی بنیادی ترجیح شعبہ صحت ہے۔ ایک بھی لمحہ اور موقع ضائع نہیں ہونے دیتے۔ ہم پیدائشی بچوں کے محفوظ آغاز کے لیے کام کریں گے۔ آنے والے دنوں میں معاشرتی صحت مند ہوگا۔
وزیر صحت کا کہنا تھا کہ "میں نے جس دن عہدہ سنبھالا، اسی دن ڈاکٹر لو ڈپنیگ سے ملاقات کی۔ یہ اپنی زمہ داریاں بہترین انداز میں نبھا رہے ہیں۔ یہ وزرات ہمارے لیے پھولوں کی سیج نہیں ہے، یہ چیلنجز سے بھرپور ہے، اللہ کی مخلوق کا جواب دینا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ ہمارا تعلق انسان سے اس وقت ہوتا ہے جب وہ تکلیف میں ہوتا ہے۔ ہمارے لیے یہ خطرناک ہوتا ہے کیونکہ دنیا عارضی چیز ہے اور ہر زمہ داری اور عہدے کا حساب دینا پڑے گا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈبلیو ایچ او پاکستان کے نمائندے ڈاکٹر ڈپینگ لؤ نے کہا کہ پاکستان میں زچگی سے ہونے والی اموات کی شرح میں نمایاں کمی آئی ہے۔ 2006 میں یہ شرح 276 فی 100,000 پیدائش تھی، جو 2024 میں کم ہو کر 155 رہ گئی۔ نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات 52 فی 1000 سے کم ہو کر 37.
ڈاکٹر لؤ نے کہا کہ ماں اور بچے کی صحت پر ہر ایک امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری، 9 سے 20 ڈالر کی واپسی دیتی ہے۔ یہ سرمایہ کاری انسانی سرمائے، معاشی ترقی اور خوشحال معاشرے کی ضمانت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے نومولود بچوں میں تشنج کے خلاف جنگ میں بھی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ 80 فیصد پاکستانی آبادی ایسے علاقوں میں رہتی ہے جہاں تشنج کا پھیلاؤ فی ہزار پیدائش ایک کیس سے بھی کم ہے۔ اسلام آباد، آزاد کشمیر، سندھ اور پنجاب جیسے علاقوں نے MNT کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2030 تک زچگی کی شرح اموات کو 70 فی 100,000 اور نوزائیدہ اموات کو 12 فی 1000 تک لانے کے لیے مزید سرمایہ کاری اور حکومتی ترجیحات ضروری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان سے درخواست کی ہے کہ وہ خواتین کی تولیدی صحت، غذائیت، ذہنی صحت، تعلیم اور معاشی مواقعوں پر بھرپور توجہ دے تاکہ خواتین اپنی اور اپنے بچوں کی صحت سے متعلق بہتر فیصلے کر سکیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ رہے ہیں بچوں کی کی شرح
پڑھیں:
امریکی ایٹمی ری ایکٹر میں یورینئم افزودگی کا نیا ریکارڈ کیا ہے؟
امریکا میں پہلی بار کمرشل ری ایکٹر میں جوہری ایندھن افزودگی 5 فیصد سے زیادہ ہوگئی ہے۔
امریکی محکمہ توانائی کے مطابق کہ کمرشلی امریکن ری ایکٹر میں 5 فیصد سے زیادہ افزودہ جوہری ایندھن کو تابکاری شعاعوں سے ایکسپوز کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر کا دورہ پاکستان کیوں؟
انرجی ڈیپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ افزودگی کی سطح جوہری ایندھن کو زیادہ دیر تک چلنے اور بجلی کی بڑھتی ہوئی سطح پر کام کرنے کی اجازت دیتی ہے، اس سے ممکنہ طور پر پورے ملک میں جوہری پاور پلانٹس میں اضافی بجلی پیدا ہوگی۔
کمرشل نیوکلیئر ری ایکٹر عام طور پر ایسے ایندھن پر کام کرتے ہیں جس میں 3 فیصد سے 5 فیصد تک افزودہ یورینیم 235 ہوتا ہے۔ یہ یورینیم توانائی پیدا کرنے والا اہم آئسوٹوپ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کا رکن منتخب
امریکی محکمہ توانائی کا مزید کہنا ہے کہ زیادہ افزودہ ایندھن جوہری آپریشن کے چکر کو 24 ماہ تک بڑھا سکتا ہے، یہ توانائی کی زیادہ پیداوار دیتا ہے اور یہ کم خرچ بھی ہے۔
توانائی ڈیپارٹمنٹ کے مطابق امریکا میں اس حوالے سے زیادہ تر تحقیق جارجیا میں ایک سائٹ پر کی جارہی ہے جس میں آئندہ 4 سال میں تحقیق جاری رہے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news امریکا ایٹمی توانائی بجلی گھر جارجیا جوہری توانائی یورینیم افزودگی