امریکا کی جانب سے پاکستانیوں کے ویزوں کی منسوخی برین ڈرین میں کمی کا سبب بن سکتی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
امریکا نے اپنی متعدد جامعات میں زیرتعلیم غیر ملکی طلبا کے ویزے اچانک منسوخ کردیے ہیں۔ امریکی انتظامیہ نے اسٹینفورڈ یونیورسٹی کیلیفورنیا کے متعدد طلبا کے ویزے منسوخ کردیے ہیں۔ ہارورڈ، مشی گن، یو سی ایل اے اور اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی کے طلبا بھی متاثرین میں شامل ہیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق ویزا منسوخی ٹرمپ انتظامیہ کے وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن کا حصہ ہے جبکہ طلبہ کو حراست میں لینے اور ملک بدری کے خطرات بھی موجود ہیں۔ ویزے مختلف وجوہات کی بنا پر منسوخ کیے جا سکتے ہیں، لیکن جامعات اور کالجز کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ حکومت چپکے سے طلبا کی قانونی رہائش کی حیثیت ختم کر رہی ہے جبکہ طلبا کو نہ ہی تعلیمی اداروں کو اس بارے میں آگاہ کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ان طلبا کو ہدف بنایا ہوا ہے جو فلسطینیوں کی حمایت کے لیے احتجاج یا تقاریر میں ’ملوث‘ پائے گئے ہیں۔ ان میں کولمبیا یونیورسٹی میں احتجاج کی قیادت کرنے والے محمود خلیل جیسے گرین کارڈ ہولڈرز بھی شامل ہیں۔
اس تناظر میں کیا امریکا میں مقیم پاکستانی طلبا بھی پریشانیوں سے دوچار ہو رہے ہیں؟ اگر ہاں، تو ان کی پریشانیوں کی نوعیت کیا ہے؟ کیا امریکا کی جانب سے پاکستانیوں کے ویزوں کی منسوخی پاکستان میں برین ڈرین میں کمی کا سبب بن سکتی ہے؟
یہ بھی پڑھیںبرین ڈرین کی وجوہات کیا ہیں؟
امریکا میں مقیم ایک پاکستانی( جن کا تعلق پاکستان کے شہر پشاور سے ہے) اور جو وہاں پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رہے ہیں، نے وی نیوز کو بتایا کہ امریکا میں غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے طلبا کو بہت زیادہ ذہنی تناؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
’چونکہ زیادہ تر طلبا وفاقی گرانٹ پر پڑھ رہے ہیں، اس وقت عارضی طور پر گرانٹس کو فریز کیا جا چکا ہے، اس سے ممکنہ طور پر انہیں تعلیم جاری رکھنے میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ پاکستانی طلبا کے وظائف میں تعطل ہے، جس کی وجہ سے طلبا کو پریشانی کا سامنا ہے۔ حتی کہ انٹرنیشنل ایڈوائزرز جو طلبا کے مسائل کو ڈیل کر رہے ہوتے ہیں۔ ان بڑی آرگنائزیشن کے بھی بہت سے ملازمین کو نوکری سے برخاست کیا جا رہا ہے۔ یا پھر عارضی طور پر ان کے کانٹریکٹس کو روک دیا گیا ہے۔ اس وجہ سے بہت سی ایجوکیشنل ایجنسیاں غیر فعال ہو چکی ہیں، اب وہ طلبا کی مدد نہیں کر پائیں گی۔ اس تناظر میں ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ کیونکہ طلبا کو اس بات کا بھی علم نہیں ہے کہ انہیں آنے والے مہینوں میں وظیفہ ملے گا بھی یا نہیں۔
ان کہا کہنا تھا کہ اسکالرشپس کا کیا اسٹیٹس رہے گا؟ برقرار رہے گا بھی یا نہیں؟ اس سب کے دوران یونیورسٹیاں انہیں کوئی سہولت فراہم کریں گی یا نہیں، یہ تمام سوالات ہر طالب علم کے ذہن میں اس وقت شدید انزائٹی پیدا کررہے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ دنیا بھر کی طرح امریکا میں بھی پاکستانی طلبا کے لیے رہائش کا کرایہ بہت زیاد ہوتا ہے، دیگر ضروری اخراجات بھی کافی ہیں۔ اس لیے بغیر وظیفے کے یہاں پر رہنا سب کے لیے بہت ہی مشکل ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگر یونیورسٹی بھی کوئی سہولت فراہم نہیں کر رہی اور جو ڈونر ایجنسی ہے وہ بھی آپ کو اپنا نہیں رہی تو اس صورتحال میں طلبا وہاں اس اسٹیٹس کے ساتھ کتنا عرصہ رہ سکتے ہیں۔
’یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کیونکہ ہر سال رینیوول ہوتا ہے اور ہر سال ڈاکومنٹیشن کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس ساری صورتحال نے طلبا کو شدید پریشان کن صورتحال میں مبتلا کر دیا ہے، وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے شکوک و شبہات کے شکار ہیں۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں جس طرح طلباء کے ویزے منسوخ کیے گئے ہیں، اس نے امریکا میں موجود غیر ملکی طلباء کی پریشانی کو دگنا کر دیا ہے۔ وظائف، اخراجات اور دیگر پریشانیوں کے ساتھ اب یہ بھی پریشانی سر پر منڈلا رہی ہے کہ کوئی بھی موقع تلاش کر کے انہیں کسی بھی وقت ملک سے نکالا جا سکتا ہے۔ اس پریشان کن صورت حال سے دوچار طلبا میں ایک بڑی تعداد ان طلبا کی بھی ہے جو اپنی تمام کشتیاں جلا کر یہاں تک پہنچے ہیں۔ اب ان افراد کا وطن واپس جانا آسان نہیں ہے۔
’ میں خود بھی اپنا گھر اور دیگر اثاثہ جات بیچ کر امریکا آیا تھا۔ کیونکہ میرا تو اسکالرشپ تھا۔ بیوی بچوں کو بھی اپنے ساتھ لے کر آیا تھا تاکہ ان کا مستقبل بھی سنور جائے۔ ان حالات میں مجھے واپس وطن جانا پڑا تو مالی طور پر بہت ہی تکلیف دہ صورتحال پیدا ہو جائے گی۔ مجھ جیسے نہ جانے کتنے لوگ ایسے ہوں گے جنہیں یہ پریشانی کھائے جا رہی ہوگی۔ کیونکہ پاکستان میں دوگنی محنت بھی کرلیں تو یہاں کے برابر تنخواہیں نہیں ملتیں۔ اس لیے امریکا سے اگر واپس وطن جانا بھی پڑا تو کسی اور ملک کا انتخاب کر لوں گا۔ کیونکہ یہ ہمارے مستقبل کا سوال ہے۔ جو پاکستان میں کم از کم سیکیورٹی، معاشی اور تعلیمی اعتبار سے فی الحال محفوظ نہیں ہے۔‘
بچوں کو اعلٰی تعلیم کے لیے مختلف ممالک میں جانے کے لیے رہنمائی فراہم کرنے والے ایک سینئر کنسلٹنٹ حافظ محمد حماد علی کا بھی کہنا ہے کہ امریکا میں پاکستانیوں کے داخلے پر عائد کی جانے والی قدغنوں کی وجہ سے غیر یقینی کی صورتحال بڑھ رہی ہے۔
ان کے مطابق امریکی یونیورسٹیاں پاکستان کے ہائی اچیورز کو اسکالرشپ دیتی ہے۔ یوں پاکستانی بچے امریکا پڑھنے جاتے ہیں۔ اب کئی بچے اسکالرشپ ملنے کے باوجود بھی امریکا جانے کے بارے میں تذبذب کا شکار ہیں۔
حافظ محمد حماد علی نے بتایا کہ وقتی طور پر اس صورتحال میں پاکستانی بچوں کو مشکلات کا سامنا ہوگا لیکن اس صورتحال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اب ہمارے بچے جاپان اور چین سمیت نئی جگہوں پر اعلٰی تعلیم کے مواقع تلاش کر سکیں گے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس صورت حال میں پاکستان سے ہونے والا برین ڈرین رک جائے گا، حافظ محمد حماد علی کا کہنا تھا کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ یہ ذہین بچے پاکستان میں رک کر ملک کی ترقی میں حصہ لیں کیونکہ یہاں کا نظام پڑھے لکھے محنتی بچوں کو سپورٹ نہیں کرتا۔
یہ بھی پڑھیں کیا پاکستان سے سارا ٹیلنٹ بیرون ملک چلا گیا؟
ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والی ڈاکٹر عائشہ کا کہنا ہے کہ برین ڈرین صرف امریکا کی جانب سے طلبا کے ویزے منسوخ کرنے سے ختم نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ پاکستانی محنتی طلبا امریکا کے علاوہ بھی بہت سی اسکالرشپس پر یورپ کی اچھی یونیورسٹیوں میں بہ آسانی داخلہ لے سکتے ہیں۔ اب یقیناً امریکا جانے کے خواہشمند طلبا باقی یورپی ممالک کی اچھی یونیورسٹیوں کو اپروچ کریں گے۔ پاکستانی طلباء کا ملک سے باہر جانے کا سلسلہ تھمنا ذرا مشکل ہے۔ کیونکہ پاکستان میں ان کے لیے نہ اچھی تنخواہیں ہیں اور نہ ہی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پریکٹیکل اسکلز کا کوئی کانسپٹ ہے۔‘
’ یہ سچ ہے کہ یورپ کے بہت سے ممالک نے طلباء کے لیے امیگریشن پالیسیوں میں کافی حد تک سختی برتی ہے۔ کینیڈا اور آسٹریلیا اس کی بڑی مثال ہیں لیکن اس سے بھی پاکستانی طلباء کے ملک چھوڑنے میں تو کوئی خاص کمی نہیں دیکھی گئی۔ طلباء نے کینیڈا اور آسٹریلیا کے بجائے اٹلی، چین، اسٹونیا، نیدرلینڈ اور دیگر یورپی ممالک کا رخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ ‘
ڈاکٹر عائشہ کے مطابق تقریباً ہر دوسرے پاکستانی کی خواہش ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر کسی بھی دوسرے ملک چلا جائے۔ اس سلسلہ کو اس وقت تک نہیں روکا جا سکتا جب تک ہمارے ملک کے معاشی حالات بہتر نہیں ہوتے۔
ان کا کہنا ہے کہ ملک میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام نے پاکستانی طلبا کو مکمل طور پر مایوس کر دیا ہے۔
برین ڈرین کو کیسے روکا جاسکتا ہے؟ ڈاکٹر عائشہ کہتی ہیں کہ صنعتوں میں زیادہ سے زیادہ نوکریاں نکالی جائیں۔ طلباء کی ذہانت کو سراہا جائے اور انہیں ان کی اسکلز کے مطابق تنخواہیں دی جائیں۔ انٹرنیشنل مارکیٹ کے عین مطابق نہ سہی مگر اس کے قریب قریب تنخواہیں لازمی دی جائیں تاکہ مقامی صنعتوں کو فروغ ملے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
برین ڈرین پاکستان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان پاکستانی طلبا پاکستان میں امریکا میں کہنا ہے کہ کر دیا ہے کے مطابق رہے ہیں بچوں کو طلبا کو کا کہنا طلبا کے کے ویزے کے لیے رہی ہے یہ بھی
پڑھیں:
امریکا کی جانب سے ٹیرف نفاذ پر پاکستان کا ردعمل سامنے آگیا
امریکا کی جانب سے ٹیرف نفاذ پر پاکستان کا ردعمل سامنے آگیا WhatsAppFacebookTwitter 0 10 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد: امریکہ کی جانب سے پاکستان پر ٹیرف کے نفاذ سے متعلق ترجمان دفتر خارجہ کا ردعمل سامنے آگیا۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے کہا کہ ہم نے ٹیرف کے نفاذ کو نوٹ کیا ہے، اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں، وزیر اعظم نے اس بابت ایک کمیٹی بنائی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ٹیرف کا ترقی پذیر ممالک پر اثر ہو رہا ہے، ٹیرف والے معاملے کو حل کرنا چاہیے۔
ترجمان دفترخارجہ نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ مشکل وقت میں اپنے افغان بہنوں بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہوا ہے، تاہم اپنی سرحدوں کو آزاد اور محفوظ بنانا ہماری پالیسی ہے۔
شفقت علی خان نے کہا کہ حکومت نے آئی ایف آر پی کا مرحلہ وار نفاذ کر رہی ہے، اس حوالے سے ہم تمام متعلقہ شراکت داروں کے ساتھ رابطے میں ہیں، ہم یہاں غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی واپسی پر عملدرآمد کر رہے ہیں، یہ پاکستان کا حق ہے کہ وہ اپنی سرحد سے قانونی طور پر آمد کو یقینی بنائے۔
انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ ریگولیشن آف سرحد کا ہے، خارجہ پالیسی وفاق کا معاملہ ہے، صوبائی حکومت کے افغانستان سے مذاکرات کے ٹی او آرز کا معاملہ افغان ڈیسک سے چیک کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات میں بہت بڑا پاکستانی ڈائسپورا رہتا ہے، پاکستانی ویزوں پر مکمل پابندی نہیں ہے۔
امریکا کی جانب سے بگرام میں ایئر بیس قائم کرنے کا معاملہ سوشل میڈیا افواہیں ہیں
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ امریکا کی جانب سے بگرام میں ائیر بیس قائم کرنے کا معاملہ سوشل میڈیا افواہیں ہیں،تاہم یہ افغانستان اور امریکہ کی حکومتوں کا آپسی معاملہ ہے، برطانیہ سے پاکستان لاے جانے والے قیدی کی سماجی تقریبات میں شرکت کی اطلاعات کو دیکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ تہور رانا پر ہمارا ریکارڈ کہتا ہے کہ انہوں نے گذشتہ دو برس سے پاکستانی شہریت کی تجدید نہیں کی، ایران ہمارا ایک اہم ہمسایہ اور قریبی دوست ہے، ہمارے تعلقات انتہائی اہم ہیں، جے سی پی او ایک پیچیدہ مسئلے کے حل کی عمدہ مثال ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم تمام مسائل کے بات چیت کے زریعہ حل کے خواہشمند ہیں، امریکہ ہماری ایک بڑی برآمدی منزل ہے، چین پاکستان کا تزویراتی اور قریبی شراکت دار ہے، چینی شہریوں کا تحفظ ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف 10-11 اپریل تک بیلاروس کا دورہ کرینگے، صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کی دعوت پر وزیر اعظم محمد شہباز شریف بیلاروس کا سرکاری دورہ کریں گے، وزیر اعظم کے ہمراہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز بھی بیلاروس کا دورہ کرینگے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ اعلیٰ سطحی وفد میں دیگر وزراء اور اعلیٰ حکام بھی شامل ہیں، یہ دورہ نومبر 2024 میں صدر لوکاشینکو کے پاکستان کے اہم دورے کے بعد ہوا ہے، اپنے قیام کے دوران وزیراعظم باہمی دلچسپی کے شعبوں میں پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے صدر لوکاشینکو سے بات چیت کریں گے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اور بیلاروس کے درمیان پچھلے چھ مہینوں کے دوران، اعلیٰ سطحی دوطرفہ مصروفیات کا سلسلہ ہے، جس میں فروری 2025 میں مشترکہ وزارتی کمیشن کا 8 واں اجلاس اور اپریل 2025 میں ایک اعلیٰ طاقت والے مخلوط وزارتی وفد کا بیلاروس کا اس کے بعد کا دورہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ توقع ہے کہ دونوں فریق تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے لیے متعدد معاہدوں پر دستخط کریں گے، وزیراعظم کا دورہ پاکستان اور بیلاروس کے درمیان مضبوط اور جاری شراکت داری کو اجاگر کرتا ہے۔