نادر شاہ درانی نے بدترین قتل عام کے بعد، جب دلی فتح کرلی تو مفتوح بادشاہ محمد شاہ رنگیلا نےشاہی محل میں فاتح بادشاہ کا گرم جوشی سے استقبال کیا ۔ جنگ کے تاوان کے علاوہ نادر شاہ وہ تاریخی تخت طائوس بھی اپنے ساتھ ایران لےگیاجو محمد شاہ کے جد امجد شاہ جہاں نے بڑے چائو سے بنوایا تھا۔ اس سب کے علاوہ فاتح بادشاہ نے محمد شاہ رنگیلا کی بیٹی کا نکاح اپنے بیٹے سے کرنے کا مطالبہ کردیا، جس سے انکار کی مجال نہ تھی ،لیکن محمد شاہ رنگیلے نے بوقت نکاح چرواہے کے بیٹے نادر شاہ کو نیچا دکھانے کے لئے دلھن کے باپ کے طور پر اپنا نام لکھواتے ہوئے اپنا شجرہ نسب بیان کیا اور خاندانی نسب نامے کو اکبر اعظم سے ظہیر الدین بابر تک، بابر سے امیر تیمور تک اور امیر تیمور سے چنگیزخان تک بیان کرتا چلا گیا۔ اب نادر شاہ درانی کی باری آئی اور دولہا کا شجرہ یا حسب نسب پوچھا گیا تو نادر شاہ نے دولہا کا نام لکھوا کر ولدیت میں اپنا نام لکھوایا ،پھروہ پنڈال میں یکایک کھڑا ہو گیا اور تلوار سونت کر بولا ’’ لکھو! شمشیرابن شمشیر ابن شمشیر اور جہاں تک چاہو لکھتے چلے جائو۔ المیہ مگر یہ ہےکہ ریاست پاکستان کےمقدر میں غدار ابن غدار آئے ہیں اور وہ بھی تھوک کے حساب سے ، کچھ تو ایسے شاہکار ہیں کہ پرکھوں کی غداری کا سرٹیفکیٹ وصول کرنے ڈھاکہ جانے پر بھی شرمندہ نہ ہوئے۔ کچھ ایسے ہیں کہ ابھی تک اسی خاندانی کردار کو جاری رکھے ہوئے ہیں، پیشہ آباء ہی ان کا شیوہ ہے ۔کوئی جب حب الوطنی کی بات کرے تو یہ مشکوک النسب انگاروں پر لوٹ جاتے ہیں ، ایک دھکوسلہ صبح شام کا راگ بنالیا گیا ہے کہ ’’ غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹےجارہے ہیں‘‘ حالانکہ اسی سرٹیفکیٹ کے لئے انہوں نے ہزاروں میل کا سفر کیا تھا ۔ چلیں ہم کسی کو غدار نہیں کہتے لیکن ایک کہانی تو بیان کر ہی سکتے ہیں ، غداری یا حب الوطنی کا فیصلہ قارئین خو دکر لیں گے ، اب کہانی سنانے پر تو پابندی نہیں ۔
داستان ہےبلوچستان کی ، پاکستان سے پہلے کا بلوچستان جو آج کے بلوچستان سے مختلف تھا، یہ اکائی جس کی بنیاد پر بعض بھاڑے کے ٹٹووں نے غل مچا رکھا ہے ، پاکستان ہی کی عطا ہے ، کوئی زیادسہ پرانی بات نہیں ، 1969میں ، قلات ، خاران ، گوادر وغیرہ کو ملا کر ایک صوبہ یعنی اکائی بلوچستان کے نام سے قائم کردی گئی ،ورنہ ایک متحد بلوچستان تو کبھی تھاہی نہیں ۔اگست 1947 میںقیام پاکستان کے وقت موجودہ بلوچستان 5 آزاد ریاستوں میں تقسیم تھا، قلات سب سے بڑی ریاست تھی،جس کے پاس موجودہ بلوچستان کا 20 فیصد رقبہ تھا جب کہ باقی 80 فیصد علاقہ خاران،لسبیلہ، مکران اور برٹش بلوچستان میں تقسیم تھا، یہ برٹش بلوچستان ایجنسی جو کوئٹہ اور ارد گرد کے علاقوں پر مشتمل تھی ، اسی کا نام بلوچستان تھا اور یہ نام بھی اس مختصر علاقے کو انگریز نے دیا تھا ، 1877 میں ۔ گوادر ریاست عمان کا حصہ تھا ، جسے ریاست پاکستان نے 50کی دہائی میں خرید کر بلوچستان کا حصہ بنایا ۔ بلوچستان کیا ہے ، اس کی تاریخ اور پاکستان سے الحاق ایک لمبی داستان ہے ، پھر سہی ۔
سر دست بات کریں گےانگریز کے وفادار مینگل سردار کی ، یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ مینگل بحیثیت قبیلہ انتہائی غیرت مند اور قابل فخت روایات رکھنے والا محب وطن قبیلہ ہے ۔ زیر بحث صرف ایک کردار ہے ، انگریز کا وفادار اپنے قبیلے اور زمین کا غدار یعنی میر رحیم خان مینگل ، جس نے یہ وفادارری یوں نبھائی کہ مینگل قبیلے کی شان ، حریت کے پاسبان اور مجاہدین آزادی نورا مینگل ، شہباز مینگل اور نوردین خان مینگل کو گرفتار کروادیا ، انگریز خوش ہوا، رحیم مینگل کو نہ صرف سردار بنادیا گیابلکہ خان بہادر کے خطاب سے بھی عطا ہوا،مگر یہ چند روزہ بہار تھی ، غیورمینگلوں نے غدار ، معذرت غدار نہیں، انگریز کے’’ یار‘‘ (یاگماشتہ کہہ لیں )رحیم مینگل کو قتل کردیا،جس پر گورا سرکار یوں آپے سے باہر ہوئی کہ لیفٹیننٹ کرنل رامسے کی قیادت میں بھاری دستہ وڈھ جیسے چھوٹے سے قصبے کو فتح کرنے کے لئے بھیجا گیا، جس نے قتل وغارت کی انتہا کردی ۔ رحیم مینگل کے مخالفین اور ان کے خاندانوں کو قتل کیا ، مارااور ان کی جائیدادیں چھین کر اپنے ایجنٹ کی اولاد کے سپرد کردیں ، یوں سرداری کی پگڑی ایک بار پھر انگریز کے ہاتھوں سے رحیم مینگل کے وارث رسول بخش مینگل کے سر سجادی گئی ۔ ہندی زبان کی کہاوت ہے کہ ’’ باپ کو پُوت پِتا پَت گھوڑا بہت نَہِیں تو تھوڑا تھوڑا‘‘ رسول بخش مینگل نے بھی پرکھوں کی روایات کو زندہ رکھا اور جب دیکھا کہ نواب آف قلات قائد اعظم ؒسےراہ و رسم بڑھا رہے ہیں تو کانگریس اور انگریز سے مل کر ریاست قلات کےخلاف بغاوت اور شر انگیزی کی منصوبہ شروع کردی ، پکڑےجانے پرنواب نےاسےجلاوطنی کی سزا دی اور یہ ریاست لسبیلہ کے علاقے بیلا میں ’’ روپوش ‘‘ ہو گیا۔ اسی رسول بخش کے بیٹے عطا اللہ مینگل نے بھی اپنی سرشت نہ بدلی اور آباء کی رسم کو جاری رکھا اور 70 کی دہائی میں، بھارت سے مال وصول کرکے غداری کا مرتکب ہوا ، دشمن سے وصولی کا خون کا یہ قرض اب اختر مینگل کے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
یہ خون کی تاثیر اورنسلوں کی بگڑی ہوئی جبلت ہے، اسے سدھارا نہیں جا سکتا ، ان سنپولیوں کو جتنا مرضی دودھ پلا لیں ، یہ کبھی وفادار نہیں ہو سکتے ، اپنا مفاد ہوگا تو سگی بیٹی کی شادی ارب پتی پنجابی سے کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کریں گے ، اور جب آقائوں کےمفادات کی بات آئے تو غریب کے بچے مروانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہ کہانی یہاں ختم ہونے والی نہیں ،سلطان باہو ؒ نے بہت پہلے بہت پتے کی بات کہہ دی تھی :
نال کسنگی سنگ نہ کریے
کُل نُوں لاج نہ لائیے ہُو
تُمّے مُول تربوز نہ ہوون
توڑ مکّے لے جائیے ہُو
کاں دے بچے ہنس نہ تھیندے
پئے موتی چوگ چُگائیے ہُو
کُوڑے کُھوہ نہ مِٹھّے ہُندے
سَے مناں کھنڈ پائیے ہُو
سپاں دے پت متر نہ بندے
بھانویں چلیاں ددھ پیائیے ہو
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: رحیم مینگل محمد شاہ مینگل کے نادر شاہ کی بات
پڑھیں:
بلوچستان میں احتجاج اور دہشت گردی، ریاست کے لیے ویک اپ کال
اسلام ٹائمز: عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوئے تشدد اور دہشت گردی کے تناظر میں سیاسی اپوزیشن کے خلاف جاری کریک ڈاؤن نے صوبے کی صورتحال کو انتہائی ناگفتہ بہ بنا دیا ہے۔ ایک ٹوٹی پھوٹی صوبائی حکومت جس کی قانونی حیثیت بھی سوالیہ ہے وہ مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ اصل طاقت اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے، جو صورت حال کو صرف ’سیکیورٹی لینس‘ سے دیکھتی ہے۔ یہ ریاست کے لوگوں کے دل و دماغ سے محروم ہونے کی بڑی وجہ رہی ہے۔ یہ یقینی طور پر دہشت گرد گروہوں کو زیادہ استثنیٰ کے ساتھ کام کرنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتا ہے۔ تحریر: زاہد حسین
گزشتہ کئی ہفتوں سے بلوچستان میں نظام زندگی معطل ہے، صوبے کو ملک کے دیگر حصوں سے جوڑنے والی بیشتر شاہراہیں مظاہرین نے بند کی ہوئی ہیں، جبکہ موبائل فون سروسز معطل ہیں۔ کوئٹہ جو کہ صوبائی دارالحکومت ہے، تقریباً محصور ہوچکا ہے اور انتظامیہ مظاہرین کو شہر میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے، جن کی قیادت اختر مینگل کر رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ریاست کی حاکمیت کا مکمل طور پر خاتمہ دکھائی دے رہا ہے۔ حتیٰ کہ اختر مینگل اور دیگر بلوچ قوم پرست جیسے رہنما جو کبھی عوام اور ریاست کے درمیان آخری رابطہ سمجھے جاتے تھے، اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا سیاسی عمل پر سے اعتماد ختم ہورہا ہے۔ سابق صوبائی وزیر اعلیٰ جو کہ بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے اپنے دھڑے کے سربراہ ہیں، چند ماہ قبل پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے چکے ہیں اور انہوں نے بلوچستان کے عوام کو درپیش ’عدم تحفظ‘ پر پارلیمنٹ کی بے حسی کو وجہ قرار دیا تھا۔ وہ حال ہی میں یو اے ای سے واپس آئے، جہاں وہ پارلیمنٹ سے استعفیٰ دینے کے بعد مقیم تھے اور بلوچستان میں دہشت گردی اور شدت پسندی کی حالیہ لہر کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد وہ بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف ’لانگ مارچ‘ کی قیادت کر رہے ہیں۔ یہ مارچ اب کئی دیگر قوم پرست جماعتوں اور مرکزی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل چکا ہے۔ ریاستی زیادتیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے عوامی غصے نے بلوچ نوجوانوں کو شدت پسند گروہوں کی حمایت کی طرف مائل کر دیا ہے۔ یہ پریشان کن رجحان قوم پرست جماعتوں کو مکمل طور پر غیر متعلق بنا سکتا ہے۔
ایسی صورت حال میں ریاست کے پاس کوئی بات کرنے کے لئے نہیں بچے گا لیکن اسلام آباد اور راولپنڈی میں اقتدار کی راہداریوں میں حالات کی سنگینی کا کوئی ادراک نہیں۔ اس کے بجائے، ہم معقول آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے زبردستی طاقت کے بڑھتے ہوئے استعمال کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور انہیں جمہوری راستہ ترک کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوئے تشدد اور دہشت گردی کے تناظر میں سیاسی اپوزیشن کے خلاف جاری کریک ڈاؤن نے صوبے کی صورتحال کو انتہائی ناگفتہ بہ بنا دیا ہے۔ ایک ٹوٹی پھوٹی صوبائی حکومت جس کی قانونی حیثیت بھی سوالیہ ہے وہ مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ اصل طاقت اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے، جو صورت حال کو صرف ’سیکیورٹی لینس‘ سے دیکھتی ہے۔ یہ ریاست کے لوگوں کے دل و دماغ سے محروم ہونے کی بڑی وجہ رہی ہے۔ یہ یقینی طور پر دہشت گرد گروہوں کو زیادہ استثنیٰ کے ساتھ کام کرنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتا ہے۔ صوبہ بھر میں ہائی پروفائل دہشت گردانہ حملوں کی حالیہ لہر بھی ریاست کے کنٹرول کھونے کا ثبوت ہے۔ کچھ رپورٹس کے مطابق صوبے کے 20 اضلاع اب عسکریت پسندوں کے تشدد اور سیاسی بے امنی سے متاثر ہیں۔ انتظامیہ کے خاتمے نے حالات کو مزید خراب کر دیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق صوبائی کابینہ کے کچھ وزرا بھاری سیکیورٹی کے باوجود اپنے حلقوں میں نہیں جا سکتے۔ ایک مسافر ٹرین کی حالیہ ہائی جیکنگ اور صوبے کے مختلف حصوں میں بیک وقت دہشت گردانہ حملے عسکریت پسند گروپوں کی بڑھتی ہوئی صلاحیتوں کو واضح کرتے ہیں۔ یہ مقامی تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ سیکیورٹی فورسز کی طرف سے کریک ڈاؤن ان گروہوں کو مزید بھرتیاں فراہم کرتا ہے۔ خواتین جنگجوؤں کی بڑھتی ہوئی شمولیت نے بلوچ عسکریت پسندی کو مزید مہلک بنادیا ہے۔ خواتین خودکش حملہ آوروں کے دہشت گردانہ حملے کرنے کے بہت سے واقعات ہوئے ہیں، خاص طور پر سیکیورٹی اہداف پر۔ خواتین بھی حقوق کی تحریک کی قیادت کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر بہت سے لوگ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو حقوق کی تحریک کو مشعل راہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ زیادہ تر خواتین جو اب حقوق کی تحریک کی قیادت کر رہی ہیں ان کی اپنی کہانیاں ہیں کہ ان کے خاندان کے افراد ریاستی جبر کا شکار ہو رہے ہیں۔ نوجوان اور تعلیم یافتہ بلوچ مزاحمتی قیادت کی نئی نسل کے ابھرنے نے پرانے محافظ کو سیاسی طور پر غیر متعلق کر دیا ہے۔ ریاست کو اب ان سے نمٹنا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ صوبے میں تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے کی کوئی سمجھ نہیں ہے۔
بلوچستان میں اب جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ کئی دہائیوں سے جاری ریاستی بدانتظامی، نظر انداز کرنے اور لوگوں کو ان کے بنیادی سیاسی اور معاشی حقوق سے محروم کرنے کا نتیجہ ہے۔ بڑھتی ہوئی بیگانگی اور بڑھتا ہوا علیحدگی، عسکریت پسند تشدد ہماری حکمران اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے نوآبادیاتی طریقوں اور ذہنیت کا ردعمل لگتا ہے۔ سیکیورٹی فورسز کو پانچویں بلوچ بغاوت کا سامنا ہے۔ اس سے قبل 1948ء، 59-1958ء، 63-1962ء، اور 77-1973ء میں چار بغاوتیں ہو چکی ہیں۔ مگر اس مرتبہ باغی زیادہ تیار دکھائی دیتے ہیں اور ان کے پاس جدید ترین ہتھیار اور جدید مواصلاتی نظام موجود ہے۔ آخری بغاوت کے بعد صوبہ نسبتاً مستحکم رہا اور 1988ء میں جمہوریت کی بحالی کے نتیجے میں بلوچ قوم پرست قومی دھارے میں آئے۔ اگرچہ قدرتی گیس کی رائلٹی اور صوبے کے قدرتی وسائل کے حوالے سے ان کے بہت سے مطالبات پورے نہیں ہوئے لیکن جمہوری حکمرانی نے بلوچوں کو سیاسی شرکت کا احساس فراہم کیا۔ کشیدگی 2003ء میں بڑھنا شروع ہوئی جب مشرف حکومت نے صوبے میں تین نئی چھاؤنیوں کے منصوبے کا اعلان کیا۔ یہ خیال مقامی سیاسی قوتوں کے ساتھ اچھا نہیں ہوا۔ سیکیورٹی اہلکاروں کی بڑھتی ہوئی تعیناتی نے عدم اطمینان کو مزید ہوا دی۔
بلوچستان میں، یہاں تک کہ امن و امان کی دیکھ بھال بھی زیادہ تر وفاق کے زیر کنٹرول نیم فوجی دستوں کے پاس ہے۔ اس نے دیگر معاملات کے علاوہ صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ موجودہ صوبائی حکومت جسے اسٹیبلشمنٹ نے سہارا دیا ہے، کوئی حقیقی طاقت نہیں رکھتی۔ ایک خیال یہ بھی تھا کہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور احتجاج کو ’ویک اپ کال‘ کے طور پر لیا جائے گا اور اس سے وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ قوم پرست رہنماؤں کے ساتھ بیٹھ کر سیاسی حل تلاش کرنے پر مجبور ہوگی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کے بجائےحکومت نے ایک ”سخت ریاستی“ کمیٹی قائم کی ہے جس کی سربراہی وفاقی وزیر داخلہ کر رہے ہیں۔ اب یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ ’سخت ریاست‘ کا اصل مطلب کیا ہے اس کے بارے میں کئی سوالات ہیں جن کے جواب نہیں۔ ریاست کو صرف تب ہی مضبوط بنایا جا سکتا ہے جب لوگوں کے عدم اطمینان کے اسباب کو ختم کیا جائے، نہ کہ کوئی دکھاوا کیا جائے۔ ہم صرف اُمید ہی کر سکتے ہیں کہ بہتر فیصلے کیے جائیں، اس سے پہلے کے بہت دیر ہوجائے۔
اصل تحریر:
https://www.dawn.com/news/1903059/the-states-failure