Daily Ausaf:
2025-04-12@23:23:13 GMT

اسلامک کانفرنس کے جسد خاکی کو زندہ کرنے کی ضرورت

اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT

21اگست 1969 ء میں مسجد اقصیٰ کو آگ لگانے کے واقعہ پر اسرائیل کی ایک سابقہ خاتون وزیراعظم گولڈا میئر نے کہا تھا کہ میری زندگی کا سب سے برا اور خوشگوار دن وہ تھا جب میں نے مسجد اقصیٰ کو آگ میں جلتے دیکھا تھا۔ ’’جب اس سے وجہ پوچھی گئی تھی تو اس نے کہا تھا کہ برا دن اس لئے تھا کہ جس دن میں نے مسجد اقصیٰ جلتے دیکھی تھی تو میں ساری رات سو نہ سکی تھی کہ کہیں صبح عالم اسلام ہم پر حملہ نہ کر دے کیونکہ اگر ایسا ہو گیا تو پھر اسرائیل کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا اور خوشگوار اس لئے کہ ساری رات گزر گئی، اگلے دن کا سورج نکلا اور میں نے مسجد اقصیٰ کے جلانے پر مسلمانوں کا رد عمل دیکھا کہ مسلم حکمرانوں میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ سب اسرائیل پر حملہ کرتے بلکہ وہ لوگ تو خود اپنی عوام کو جنگ سے ڈرانے اور روکنے میں پیش پیش نظر آ رہے تھے.

یہ سب دیکھ کر میں مطمئن ہو گئی تھی کہ اب اسرائیل عرب دنیا کی حدود میں محفوظ ہے اور ہمیں امت مسلمہ سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔اس روز مسجد اقصیٰ کو آگ لگانے والا شرپسند بدبخت ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان تھا جس سے مسجد اقصیٰ جو مسلمانوں کا قبل اول ہے تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی تھی جس سے جنوب مشرق اور عین قبلہ کی جانب مسجد کا بڑا حصہ گر گیا تھا۔ محراب میں موجود 800سالہ پرانا منبر بھی نذر آتش ہو گیا تھا جسے صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب گیا تھا۔ اس المناک واقعہ کے بعد مسلم دنیا کا اتنا ردعمل ضرور سامنے آیا تھا کہ اس کے بعد خواب غفلت میں ڈوبی ہوئی امت مسلمہ کی آنکھ ایک لمحے کے لئے بیدار ہوئی اور اس سانحہ کے بعد مفتی اعظم فلسطین کی پکار پر سعودی عرب اور مراکش نے قائدانہ کردار ادا کیا، جن کی کوشش سے مراکش کے شہر رباط میں مسلم دنیا کے سربراہ اکٹھے ہوئے اور 25ستمبر 1969ء کو اسلامی سربراہی کانفرنس کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی۔اسلامی سربراہی کانفرنس کے قیام کے 6ماہ بعد ایک مرتبہ پھر سعودی عرب آگے بڑھا اور اسلامی ممالک کے تمام وزرا خارجہ کا پہلا باقاعدہ اجلاس جدہ میں منعقد کیا۔
1972 ء میں او آئی سی کو باقاعدہ تنظیم کی شکل دی گئی اور یہ طے پایا کہ اس کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہر سال ہو گا جبکہ سربراہی اجلاس ہر 3سال بعد ہوا کرے گا۔ 57مسلم ممالک کی اس عالمی سربراہی کانفرنس کے اجلاسوں کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو پاکستان میں 1974ء میں منعقد ہونے والی سربراہی کانفرنس ابھی تک کی واحد کانفرنس ہے جس میں دنیا کے سب سے زیادہ ممالک نے شرکت کی تھی۔ اس کانفرنس کو کامیاب کرانے میں بھی سعودی عرب کے سربراہ شاہ فیصل نے بنیادی کردار ادا کیا تھا، یہی وہ کانفرنس تھی جس میں ذوالفقار علی بھٹو، شاہ فیصل، معمر قذافی اور یاسر عرفات عالمی لیڈر بن کر ابھرے تھے۔ پاکستان میں ہونے والی سربراہی کانفرنس میں پہلی دفعہ فلسطین کو علیحدہ مملکت کا اسٹیٹس دیا گیا تھا، جس کے بعد اسی بنیاد پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے فلسطین لیڈران کو خطاب کرنے کا موقع ملا۔ 1974ء میں لاہور میں منعقد ہونے والی سربراہی کانفرنس میں مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی، فلسطین سے یاسر عرفات، سعودی عرب سے شاہ فیصل، یوگنڈا سے عیدی امین، تیونس سے بومدین، لیبیا سے کرنل قذافی، مصر سے انور سادات، شام سے حافظ الاسد، بنگلہ دیش سے شیخ مجیب الرحمان اور ترکی سے فخری کورو سمیت تمام بڑے مسلم رہنما شریک ہوئے تھے۔اس وقت تنظیم کے عروج کا یہ عالم تھا کہ 1980ء میں پاکستان کے صدر محمد ضیاء الحق نے امت مسلمہ کے متفقہ لیڈر کے طور پر اقوامِ متحدہ سے خطاب کیا تھا اور ان کے خطاب سے قبل ریکارڈڈ تلاوت قرآن پاک بھی چلائی گئی تھی اور پھر اس کے بعد اس تنظیم کے زوال کا یہ عالم تھا کہ یہ تنظیم ایران عراق جنگ کو بند کرانے میں ناکامی کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ غیرموثر ہوتی چلی گئی۔ اگست 1990ء کو عراقی فوج نے کویت پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا مگر آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (او آئی سی) صدام حسین کے حملے کا کوئی آبرو مندانہ حل نہ نکال سکی۔
آج کشمیر اور فلسطین کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ او آئی سی کے ساتھ ایک دردناک حقیقت یہ بھی وابستہ ہے کہ اس کے عروج سے جڑے تمام کردار آہستہ آہستہ غیر طبعی موت مارے گئے۔ گزشتہ چند روز ہوئے اسرائیل نے غزہ میں قیامت صغری برپا کر رکھی ہے۔ رمضان کے ماہ مقدس میں اور اس کے بعد اسرائیل تقریباً ہر سال فلسطینی مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ ہم مشرق وسطی کا نقشہ تبدیل کر کے رکھ دیں گے۔ نیتن یاہو کے اس بیان سے پہلے مشرق وسطیٰ کی ہر ریاست یہی سوچ رہی تھی کہ اگر ہم فلسطینیوں کو مرنے دیں گے تو خود بچ جائیں گے، یاہو نے یہ بیان دے کر ثابت کر دیا ہے کہ خاموشی اور بے حسی مشرق وسطیٰ کے عربوں کو کسی صورت نہیں بچا پائے گی۔عراقی صدر صدام، کرنل قذافی اور حافظ الاسد وغیرہ کی صورت میں اسرائیلیوں کے سامنے جو رکاوٹیں تھیں وہ عرب مسلمانوں نے خود ہی رضاکارانہ طور پر ختم کر دی ہیں۔ آج غزہ کی تباہی پر اسلامی کانفرنس (اور آئی سی)مگر مچھ کے آنسو بہانے سے بھی قاصر ہو چکی بلکہ اس کی کارکردگی یہ ہے وہ بیانات اور قراردادیں پاس کرنے سے بھی محروم ہو چکی ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس اسلامی تنظیم پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا قبضہ ہے اور عملًا یہ تنظیم کب کی مر چکی ہے جس کے جسد خاکی کو بس دفنانا باقی یے۔اسرائیلی عزائم سے تو یہی نظر آ رہا ہے کہ اب اس خطے میں ترکی، اسرائیل اور سعودی عرب کے تین ممالک ہی دنیا کے نقشے پر نظر آئیں گے۔ خلیجی ممالک کو چایئے کہ وہ اپنی آزادی اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لئے اسرائیلی وزیراعظم کے اس بیان کے خلاف رد عمل ظاہر کریں اور آئیندہ کا اپنا لائحہ عمل طے کریں۔ عرب ممالک کو یورپی یونین کی طرز پر اپنا تحفظ کرنا چاہیے جو اسی صورت میں ممکن ہے کہ خلیجی ریاستیں اپنے درمیان فوجی اور اقتصادی تعاون کو مزید بہتر بنائیں۔ حالانکہ مسلم سکالرز کی تبلیغی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ’’ریٹر اسرائیل‘‘کا تصور بھی او آئی سی کی طرح خود ہم نے ہی تخلیق کیا تھا اور اس کے نتائج بھی ہم مسلمانوں ہی کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ اگر مسلم اتحاد ہو جائے چاہے او آئی سی کے مردہ گھوڑے ہی میں جان ڈالی جائے تو کچھ بعید نہیں ہے کہ اسرائیل کی سابقہ خاتون وزیراعظم گولڈا میئر کی طرح موجودہ وزیراعظم نیتن یاہو کی بھی نیندیں اڑ جائیں۔

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: سربراہی کانفرنس گیا تھا تھا کہ تھی کہ کے بعد اور اس

پڑھیں:

فلسطین کانفرنس؛ اسرائیل اور اسکے حامیوں کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں، مفتی تقی عثمانی

اسلام آباد:

قومی فلسطین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مفتی تقی عثمانی نے کہا ہے کہ اسرائیل اور اس کے حامیوں کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں۔

فلسطین اور امت مسلمہ کی ذمہ داری کے عنوان سے کانفرنس میں مختلف مکاتب فکر کے علما کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شرکا نے کہا کہ غزہ اور فلسطین پر قیامت بیت رہی ہے اور  امریکا اسرائیل کی سفاکیت کا چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے  جب کہ اہل اسلام کی قیادت مردہ پن کا شکار ہے ۔

شرکا نے کہا کہ 60 سے 65 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں ۔ امریکی ایما پر اسرائیلی حملہ آور ہیں ، جہاں صحافیوں اور ڈاکٹروں کا بھی قتل کیا جارہا ہے ۔ مقامی آبادی کو بے دخل کیا جارہا ہے اور ٹرمپ کہتا میں جگہ خرید لوں گا ۔ مقررین نے کہا کہ عالم اسلام کے ادارے بے حسی کا شکار ہیں ، اس موقع پر  عالم اسلام اپنی حکمت عملی کو واضح کرے ۔ اسرائیل کا انبیا کی زمین پر قبضہ ناجائز ہے۔

سابق سینیٹر مشتاق احمد خان  نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے ، ہزاروں افراد شہید ہو چکے ہیں ، جن میں بچے اور  خواتین بھی شامل ہیں ۔ ظلم کی ایک داستان ہے جس کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ اہلیان غزہ اور حماس کی جرأت کو سلام پیش کرتے ہیں، جو امریکا اور اسرائیل کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ یاد رکھیں فتح اور جیت غزہ اور حماس کی ہو گی ۔ انہوں نے کہا کہ 57 اسلامی ممالک کہاں ہیں ؟ 57 اسلامی ممالک ہیں یا امریکی اڈے ہیں ؟ اب مذمت سے کام نکل گیا ہے، غزہ میں عسکری مداخلت کریں، افواج بھیجیں ۔ غزہ کی صورتحال پر جہاد فرض ہو چکا ہے۔

سابق گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی نے خطاب میں کہا کہ عزہ کے ظلم کے خلاف تمام سیاسی اور مذہبی قیادت خاموش ہے۔ نوجوان علما مساجد میں اسرائیل کے ظلم پر بات کریں۔ فلسطین کے مسلمانوں نے اپنے خون سے تاریخ لکھ دی ہے۔

حماس رہنما ڈاکٹر زہیر ناجی نے کہا کہ فلسطین دراصل سرزمین بیت المقدس ہے ۔ فلسطین دراصل سرزمین انبیا ہے۔ مظلوم غزہ کے عوام امت مسلمہ کی جانب دیکھ رہے ہیں ۔ مظلوم غزہ کے عوام حکومت پاکستان، علما پاکستان اور عوام پاکستان کی جانب دیکھ رہے ہیں ۔ اس صورتحال میں فلسطینی عوام کو عوام پاکستان کی بھرپور حمایت و مدد کی ضرورت ہے ۔ قرآن پاک نے امت کو امت خیر سے تعبیر کیا ہے، امت مسلمہ آج کہاں ہے؟

مولانا قاری حنیف جالندھری  نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 60 ہزار سے زائد لوگوں کو اب تک غزہ میں شہید کیا جاچکا ہے ۔ انسانی حقوق، خواتین اور بچوں کے حقوق کے علمبردار آج انسانیت کے قاتل بن چکے ہیں ، مگر پوری دنیا تماشائی بنی ہے ۔دکھ کی بات ہے کہ او آئی سی اور مسلم ممالک خاموش نظر آرہے ہیں ۔ جہاں اسرائیل ظالم و درندہ و دہشتگرد ہے، وہیں مسلم ممالک کے حکمران بھی برابر کے شریک ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ غزہ کے بعد لبنان، شام، یمن پر حملے اور سعودیہ، اردن و مصر کو دھمکیاں گریٹر اسرائیل کا خواب ہے۔

صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان مفتی تقی عثمانی نے فلسطین قومی کانفرنس سے خطاب  کرتے ہوئے کہا کہ آج گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر عمل کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ آج صدیوں سے آباد فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے نکالنے کی تیاری کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کے نام پر عالمی فحاشی پھیلانے والوں کو فلسطین میں خواتین کے حقوق نظر نہیں آرہے ہیں؟۔ اقوام متحدہ مسلمان کے خون کو بہانے والوں کو جواز فراہم کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کے نزدیک گوری چمڑی والوں کے سوا کسی کے انسانی حقوق نہیں۔

مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ حماس کے مجاہدین ہوں یا قائدین، اپنے مؤقف سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ ہم نے تمام اسلامی حکومتوں سے کھل کر فتویٰ کے ذریعے کہا ہے کہ آپ پر جہاد فرض ہوچکا ہے۔ زبانی جمع خرچ سے مسلمان حکمران اپنے فرض سے پہلو تہی نہیں کرسکتے۔ مسلم ممالک کی فوجیں کس کام کی ہیں اگر وہ جہاد نہیں کرتیں؟۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا اسرائیل سے نہ کوئی تعلق ہے نہ ہوگا ۔ پاکستان بننے سے پہلے قائد اعظم نے اسرائیل کو ناجائز بچہ قرار دیا تھا ۔ پاکستان کی ریاست آج بھی اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے مؤقف پر قائم ہے ۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ اسرائیل چاہے جتنے مسلمانوں کو قتل کردے، ہم اس کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے  جب کہ اقوام متحدہ اسرائیل اور امریکا کے ہاتھ کھلونا بن چکی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جہاد کے لیے آپ کے پاس  بہت سارے راستے ہیں ۔ جہاد کرنا آپ سب کا فریضہ ہے ۔ آج کا اجتماع حکمرانوں کو پیغام دے رہا ہے کہ اپنی ذمہ داری ادا کریں ۔ کب تک ہم ایسی زندگی گزاریں گے؟۔ اسرائیل اور اس  کے حامیوں کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں۔

 

قومی فلسطین کانفرنس کا متفقہ اعلامیہ

ماضی قریب میں غزہ جیسے ظلم کی مثال نہیں ملتی ۔ اب تک کم و بیش 55 ہزار شہید جبکہ 2 لاکھ کے قریب زخمی و معذور ہیں ۔ شہری نظام تباہ، اسپتال، اسکول سمیت رفاعی ادارے تباہ ہوچکے ۔ یہ محض جنگ نہیں بلکہ فلسطینیوں کی کھلی نسل کشی ہے، عالمی ضمیر مردہ ہوچکا ۔ اقوام متحدہ ، سلامتی کونسل غیر مؤثر ہوچکا، امریکا غیر مشروط قراردادوں کو ویٹو کررہا ہے ۔ عالمی عدالت انصاف سمیت تمام ادارے مفلوج و بے بس ہوچکے ہیں ۔ شرعاً الاقرب فی الاقرب کے اصول کے تحت تمام مسلمانوں پر جہاد واجب ہوچکا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے 1967 سے اسرائیل کے قبضے کو ناجائز، غاصب قرار دے چکی ہے ۔ مسلمہ قانونی رو سے اپنے وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد عالمی، قانونی اور اخلاقی حق ہے ۔ عالمی عدالت انصاف غزہ میں ہونے والے ظلم کو نسل کشی قرار دے چکے ہیں ۔ فلسطین کے معاملے میں کوئی معاہدہ اس جہاد میں شرکت سے مانع نہیں ہے ، البتہ فلسطین کے نام پر اپنی حکومتوں کے خلاف مسلح جدو جہد یا ایسی کارروائیاں جائز نہیں ہوں گی۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والے  ممالک سے غیر مشروط جنگ بندی تک سفارتی تعلقات ختم کیے جائیں ۔ سلامتی کونسل کا فوری اجلاس طلب کیا جائے اور پاکستان اس میں پہل کرے۔ آئندہ جمعہ کو یوم مظلوم و محصورین فلسطین کے طور پر منایا جائے۔ اپنا آبائی وطن چھوڑنے اور ہجرت کے بارے میں ٹرمپ کے بیان کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ اسرائیل سمیت پورا خطہ فلسطینیوں کا قانونی و فطری حق ہے۔ امریکا چاہے تو اسرائیل کو کہیں اور آباد کرسکتا ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • ڈائر وولف کے بعد قدیم ہاتھیوں کو بھی دوبارہ زندہ کرنے کا منصوبہ شروع
  • مجلس اتحاد امت پاکستان کے زیر اہتمام اسلام آباد میں قومی فلسطین کانفرنس کا انعقاد
  • مجلس وحدت مسلمین کے تحت فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے کراچی میں یوم احتجاج
  • فلسطینیوں کیساتھ کھڑے، فضل الرحمن: اسلامی حکومتوں پر جہاد فرض ہو چکا، مفتی تقی عثمانی
  • تمام مسلم حکومتوں پر جہاد واجب ہوچکا، قومی فلسطین کانفرنس کا اعلامیہ جاری
  •  قومی فلسطین کانفرنس ، اسرائیل اور اس کے حامیوں کے مکمل بائیکاٹ کی اپیل
  • فلسطین کانفرنس:اسرائیل اور اس کے حامیوں کا مکمل بائیکاٹ کریں:مفتی تقی عثمانی
  • فلسطین کانفرنس؛ اسرائیل اور اسکے حامیوں کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں، مفتی تقی عثمانی
  • وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کی کاروبار فنانس کیلئے ضرورت کے مطابق لون دینے کی ہدایت
  • بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں نہتے کشمیریوں کے قتل عام کا سلسلہ جاری ہے، امیر مقام