طوفان کے بعد، ایک نئے سورج کی کرن
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
سورج کے سفر کا دستور ہے کہ وہ ہر شام افق کے پیچھے روپوش ہوجاتا ہے، مگر اس کی روشنی کبھی دم نہیں توڑتی۔ کچھ یہی حال اُن قوموں کا ہوتا ہے جنہیں ہر روز کسی نہ کسی طوفان سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے، مگر وہ حوصلے کی شمع بجھنے نہیں دیتیں۔
ہمارے ہاں بھی یہی ہوا۔ سورج کی کرنوں نے ابھی افق کو چھوا بھی نہ تھا کہ سمندر کی شوریدہ لہروں نے اُس کشتی کو نگل لیا جس پر ہم نے ’’معاشی استحکام‘‘ کا علم لہرایا تھا۔ وہ کشتی، جو کئی طوفانوں کا سینہ چیر کر امید کے ساحل کی طرف رواں دواں تھی، اچانک ایک نئے بگولے میں گھر گئی۔ وہ کشتی، جس کا نام ہم نے بڑے فخر سے ’’معاشی استحکام‘‘ رکھا تھا، اب کسی مجروح شاعر کے خواب کی مانند، ادھوری، لرزاں اور بے قرار دکھائی دے رہی ہے۔
دراصل آسمان سے برستے بادل کی گرج میں ایک فیصلہ تھا، ایک ضرب تھی، ایک دھچکا تھا، 29 فیصد ٹیرف کا دھچکا۔ یہ وہ گراں بوجھ تھا جو امریکا نے ہماری رگِ تجارت پر رکھ دیا اور ایک بار پھر ہم لہروں کے رحم و کرم پر تھے۔
مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ جیسے شام کی گود میں چھپا ہوا سورج اگلی صبح نئی اُمنگوں کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔ تو کیا یہ 29 فیصد کا طوفان ہماری معیشت کی کشتی کو مکمل غرق کردے گا؟ یا پھر اس تاریکی کے پردے میں چھپا کوئی نیا سویرا ہمیں بانہوں میں لے لے گا؟ یقیناً ابھی کہانی ختم نہیں ہوئی۔ ابھی بہت سے ورق پلٹنے باقی ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیاں، گویا وقت کا زلزلہ ہوں، اچانک آتی ہیں، زمین ہلاتی ہیں اور نقشہ بدل دیتی ہیں۔ کبھی شمالی کوریا کےلیے آگ و غضب، کبھی چین کے ساتھ تجارتی جنگ اور اب ایک ہی ضرب سے درجنوں ملکوں کی معاشی بنیادیں ہلا دی گئی ہیں۔ پاکستان بھی اُن سو ممالک میں شامل ہے جن پر واشنگٹن کی خشمگیں نظر پڑی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس آندھی کو اپنی مرضی کا رخ دینے میں کامیاب ہوسکتے ہیں؟
وزیر خزانہ اورنگزیب رمدے نے بڑے اعتماد سے کہا کہ ’’یہ مسئلہ نہیں، موقع ہے‘‘۔ وزیر خزانہ کا یہ بیان کیا صرف الفاظ کی گونج ہے یا اس میں واقعی تدبیر کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے؟ ٹیکسٹائل جو ہماری معیشت کی شہ رَگ ہے، اب امریکی منڈی میں دباؤ کا شکار ہے۔ پچھلے ہفتے 10 فیصد ٹیرف کا بوجھ تھا، جو اب 29 فیصد تک جا پہنچا ہے۔ ایسے میں سوال یہ نہیں کہ ہماری برآمدات پر کیا بیتے گی، بلکہ سوال یہ ہے کہ ہم اس آزمائش کو کس شعور، کس تدبر اور کس حکمتِ عملی سے عبور کرتے ہیں؟
امریکا جو کبھی ہماری برآمدات کا سب سے بڑا خریدار رہا ہے، اب ہمیں وہ نرخ دے رہا ہے جو مہنگائی کے سائے میں چھپی ہوئی بے قدری کی تصویر ہے۔ ہم امریکا کو دھاگہ، کپڑا، چمڑے کی مہک اور دستکاری کی روح بیچتے ہیں اور وہ ہمیں مشینری، دوا اور علم کا ہنر دیتا ہے۔ لیکن یہ رشتہ کبھی محبت کا نہیں رہا، ہمیشہ مصلحت کی لغت میں لپٹا رہا۔ نائن الیون کے بعد ہم ایک ناگزیر ساتھی تھے، اور ڈالر کی نہریں ہماری معیشت کے کھیتوں کو سیراب کرتی تھیں، لیکن جیسے ہی جغرافیائی اہمیت کا رنگ مدھم ہوا، ویسے ہی وہ نہریں سوکھ گئیں۔ جیسے ہی افغانستان کی راکھ سرد پڑی تو ہمارے مفادات پر بھی برف جم گئی۔ اب ٹرمپ کا ٹیرف اسی برف کی ایک اور تہہ ہے۔
یاد دہانی ہو کہ مفادات کی دنیا میں دوستیاں نہیں ہوتیں، صرف معاہدے ہوتے ہیں، مگر ایک دلچسپ اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارتی توازن ہمارے حق میں ہے۔ ہم انہیں زیادہ دیتے ہیں، وہ ہمیں کم۔ یہ توازن صدر ٹرمپ کی طبیعت پر گراں گزرا۔ اب اُدھر سوچ یہ ہے کہ ہماری کشتی ہچکولے کھائے، تاکہ اُن کی ناؤ سنبھل جائے۔ تو کیا ہم اس شطرنجی کھیل میں مات کھا جائیں گے یا پھر ہماری چال کسی شہ مات کا اشارہ بنے گی؟
وزیر خزانہ کی زبان پر امید کی لَو تو ہے، مگر اس کے عقب میں کیا واقعی عمل کا چراغ بھی روشن ہے؟ وزیر خزانہ نے جو دو کمیٹیاں تشکیل دی ہیں، ان میں وزراء، ماہرین اور صنعتکار شامل ہیں۔ کیا یہ فقط کاغذی قلعے ہیں؟ یا ان کی دیواروں میں تدبر کا فولاد بھی بھرا گیا ہے؟ یقیناً فیصلے وقت مانگتے ہیں لیکن وقت ہمیں مہلت کم دیتا ہے۔
نجکاری کے 24 ادارے، قیمتوں پر نگاہ رکھنے کے نئے نظام اور سرمایہ کاری کے نئے امکانات، یہ سب وہ پُل ہیں جو ہمیں طوفان کے پار لے جا سکتے ہیں۔ یہ سب سننے میں خواب معلوم ہوتے ہیں لیکن خواب جب بصیرت اور جرات سے جُڑ جائیں تو تعبیر کا روپ دھار لیتے ہیں۔ ماضی میں ہم نے بھی نجکاری کی آڑ میں ادارے بیچ کر قوم کو فقط خواب ہی دیے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ نیا سلسلہ زمین پر پھول کھلائے گا یا پھر ایک اور طوفان کی تمہید بنے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بارش کی دعا کریں اور سیلاب میں گھر جائیں۔
ایک اعلیٰ سطح کا وفد واشنگٹن روانہ ہونے کو ہے۔ کیا یہ وفد فقط گزارشات کی پوٹلی لے کر جائے گا؟ یا کوئی ایسا منصوبہ جس میں دوطرفہ مفاد بھی چمکتا ہو؟ اگر ہم امریکی پالیسی سازوں کو یہ باور کرا سکیں کہ ہماری اقتصادی خودکفالت دراصل ان کی جغرافیائی حکمتِ عملی کو مضبوط کر سکتی ہے، تو شاید اعصاب کی یہ جنگ ختم ہوجائے۔
چین کے ساتھ سی پیک کی شراکت ہو یا وسط ایشیاء تک رسائی کے خواب ہوں، ہم ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں سے امریکا کو بھی روشنی دکھائی جا سکتی ہے، بشرطیکہ ہم اپنا چراغ جلا سکیں۔ بصورتِ دیگر ہم فقط ایک مہنگا ’’بیچلر‘‘ بن کر رہ جائیں گے، جس کی رخصتی کے لیے کوئی تیار نہ ہو۔
وقت کے طوفان آتے ہیں، زلزلے بستیاں لرزا دیتے ہیں، مگر انسان کی جستجو، اس کی ہمت اور اس کی امید باقی رہتی ہے۔ ہم نے 2008 کا مالیاتی بحران دیکھا، 2020 کا کورونا کا سونامی بھی جھیلا اور ہر بار ہم نے کشتی کو بچالیا۔ اب یہ ٹیرف ایک نیا امتحان ہے۔ کیا ہم اس میں سرخرو ہوں گے؟
جواب شاید ایک خاموش ’’ہاں‘‘ ہے بشرطیکہ ہم تدبیر سے کام لیں۔ یقیناً وزیر خزانہ کے بیان میں محض الفاظ نہیں ایک لائحہ عمل کا نقشہ بھی شامل تھا۔ نجکاری، نگرانی اور مذاکرات۔ یہ تین دیے اگر جلیں تو شاید اندھیرا چھٹ جائے۔
اس لیے مایوس نہ ہوں، سورج پھر طلوع ہو گا، روشنی پھر پھیل جائے گی اور کشتی پھر موجوں کو چیرتی آگے بڑھے گی۔ بس شرط یہ ہے کہ ہم امید کا بادبان ہرگز نہ اتاریں اور دعا کے ساتھ تدبیر کا دامن بھی تھامے رکھیں۔ کہتے ہیں سمندر کی گہرائی میں ہیرے چھپے ہوتے ہیں۔ شاید یہی طوفان ہمیں وہ نایاب ہیرا عطا کرجائے جو برسوں سے ہماری نظروں سے اوجھل تھا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا ہماری خارجہ پالیسی کی کلیدی ترجیح ہے ،چین
ریاض (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 11 اپریل2025ء) چین نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ ان کے ملک کے تعلقات کو فروغ دینا بیجنگ کی خارجہ پالیسی کی کلیدی ترجیح ہے۔ العربیہ اردو کے مطابق یہ بات سعودی عرب میں چینی سفارت خانے کے مشیر مائی جیان نے کہی۔ انہوں نے کہا ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے عناصر کو سعودی ویژن 2030 کے ساتھ انضمام کے ذریعے اپنے دوطرفہ تعلقات میں نتیجہ خیز نتائج حاصل کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور چین کثیر قطبی دنیا میں دو بڑے ممالک کی نمائندگی کرتے ہیں اور وہ مستقبل کی تعمیر کے لیے وفادار شراکت دار کے طور پر مل کر کام کر رہے ہیں۔ چینی مشیر نے مزید کہا کہ دونوں ممالک نے عملی تعاون میں ثمر آور نتائج حاصل کیے ہیں۔(جاری ہے)
دونوں ممالک کے درمیان عوامی سطح پر تبادلے میں اضافہ ہوا ہے۔ دو طرفہ تجارت یکے بعد دیگرے 100 بلین امریکی ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔
چینی مشیر نے خود کو سعودی چینی تعلقات پر بات کرنے تک محدود نہیں رکھا بلکہ مزید آگے بڑھے۔ ریاض میں اپنی تقریر کے دوران انہوں نے امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے دنیا بھر کے ممالک پر عائد تجارتی محصولات کے معاملے پر بات کی۔ چینی مشیر نے ٹیرف کو عالمی تجارتی تنظیم کے قوانین کی خلاف ورزی کے علاوہ بنیادی اقتصادی اصولوں اور مارکیٹ کے اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیا۔ انہوں نےامریکا پر الزام عائد کیا کہ وہ ٹیرف کے ذریعے موجودہ بین الاقوامی اقتصادی اور تجارتی نظام کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ریاض سے چینی عہدیدار کا یہ تبصرہ امریکی صدر کی جانب سے چین پر محصولات میں 145 فیصد اضافے کے اعلان کے بعد سامنے آیا ہے۔ چین نے جواب میںامریکا پر اسی طرح کے محصولات عائد کرتے ہوئے امریکی درآمدات پر اپنے محصولات کو 80 فیصد سے زیادہ کر دیا ہے۔