جی بی کے وکلاء کے مسائل حل کرینگے، وزیر قانون
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
سیکریٹری قانون سجاد حیدر نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ گلگت بلتستان کی عدالتوں میں ججز کی تقرری کا معاملہ فی الحال سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیرِ سماعت ہے، جس کے باعث یہ معاملہ التوا کا شکار ہے اور اس کا حل عدالتی فیصلے سے مشروط ہے۔ اسلام ٹائمز۔ چیف جسٹس چیف کورٹ گلگت بلتستان جسٹس علی بیگ سے وزیر قانون غلام محمد نے ملاقات کی۔ اس موقع پر رجسٹرار چیف کورٹ غلام عباس چوپا، سیکریٹری قانون سجاد حیدر اور ڈپٹی سیکریٹری قانون شفیق الرحمن بھی موجود تھے۔ ملاقات کے دوران سیکریٹری قانون سجاد حیدر نے وکلاء کی جانب سے پیش کیے گئے چارٹر آف ڈیمانڈز پر تفصیلی بریفنگ دی۔ چیف جسٹس نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی پرامن اور منصف معاشرے کا قیام عدل و انصاف سے مشروط ہے۔ معاشرے میں انصاف کے نظام کو مستحکم بنانے کے لیے بار اور بینچ کا باہمی تعاون ناگزیر ہے۔ عوام کو بروقت اور شفاف انصاف کی فراہمی میں وکلاء اور عدلیہ کا یکساں کردار ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے وکلاء کو درپیش مسائل کا فوری حل ناگزیر ہے، کیونکہ وکلا کی جانب سے عدالتی کارروائیوں کے بائیکاٹ اور ہڑتالوں سے نظامِ عدل بری طرح متاثر ہوتا ہے، جس کا براہ راست اثر عام شہریوں پر پڑتا ہے۔ شہریوں کے جان و مال کا تحفظ اور انہیں ایک پرامن ماحول میں انصاف کی فراہمی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ وکلاء معاشرے کا ایک نہایت اہم ستون ہیں، اس لیے ان کے جائز مطالبات کا حل حکومت کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔
وزیر قانون غلام محمد نے اس موقع پر چیف جسٹس کو یقین دہانی کرائی کہ حکومت گلگت بلتستان میں عدل و انصاف کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء کے مسائل کے حل کے لیے حکومت سنجیدگی سے اقدامات کر رہی ہے، اور وزیر اعلی گلگت بلتستان کی آئندہ گلگت آمد پر وکلاء برادری کے مطالبات پر پیش رفت متوقع ہیں۔ سیکریٹری قانون سجاد حیدر نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ گلگت بلتستان کی عدالتوں میں ججز کی تقرری کا معاملہ فی الحال سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیرِ سماعت ہے، جس کے باعث یہ معاملہ التوا کا شکار ہے اور اس کا حل عدالتی فیصلے سے مشروط ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ “وکلا پروٹیکشن ایکٹ 2023ء” کی گلگت بلتستان میں توسیع کے لیے سمری جی بی کونسل کے ذریعے متعلقہ حکام کو ارسال کر دی گئی ہے اور منظوری کے بعد اس کا اطلاق ممکن ہو جائے گا۔ وکلاء کے لیے 30 لاکھ روپے کی گرانٹ اور انڈومنٹ فنڈ کے قیام کی اصولی منظوری بھی دے دی گئی ہے، جسے آئندہ کابینہ اجلاس میں حتمی منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سیکریٹری قانون سجاد حیدر گلگت بلتستان کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
گلگت بلتستان ججز تعیناتی وفاق کو آرڈر پسند نہیں تو دوسرا بنا لے، کچھ تو کرے: جسٹس جمال
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) گلگت بلتستان کی اعلیٰ عدلیہ میں ججز تعیناتی کیس کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اگر وفاق کو مجوزہ آرڈر 2019ء پسند نہیں تو دوسرا بنا لے لیکن کچھ تو کرے۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور ایڈووکیٹ جنرل گلگت بلتستان منظور عدالت میں پیش ہوئے۔ایڈووکیٹ جنرل گلگت بلتستان نے سماعت کے آغاز پر کہا کہ ہم مشروط طور پر اپنی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل گلگت بلتستان نے آرڈر 2018 ء پڑھ کر بھی سنایا۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آرڈر 2018ء کے تحت تو ججز کی تعیناتی وزیر اعلیٰ اور گورنر کی مشاورت سے کرنے کا ذکر ہے، گلگت بلتستان میں ججز تعیناتی کا طریقہ کار کیا ہے۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بتایا کہ وزیراعظم گورنر کی ایڈوائز ماننے کے پابند نہیں ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ اس کا مطلب ہے وزیر اعظم جو کرنا چاہئیں کر سکتے ہیں تو ون مین شو بنا دیں۔ایڈووکیٹ جنرل گلگت بلتستان نے کہا کہ اسٹے آرڈر کی وجہ سے ججز کی تعیناتی کا معاملہ رکا ہوا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ اسٹے آرڈر ختم کر دیتے ہیں آپ مشاورت سے ججز تعینات کریں۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ قانون سازی کر کے اس معاملے کو حل کیوں نہیں کرتی۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس کے لیے پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی۔ جسٹس جمال نے کہا کہ پارلیمنٹ مجوزہ آرڈر 2019ء کو ترمیم کر کے ججز تعیناتی کروا سکتی ہے۔اسد اللہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ آرڈر 2018ء کو ہم نہیں مانتے کیونکہ سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے 2020 ء میں فیصلہ دیا اس پر عمل درآمد کریں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 2019 ء میں مجوزہ آرڈر ہے اسے پارلیمنٹ لے جائیں اور قانون سازی کریں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نے مجوزہ آرڈر 2019 ء نہ بنایا اور نہ اسے اون کرتے ہیں۔اسد اللہ خان ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ گلگت بلتستان میں نگراں حکومت کے لیے تو یہ مانتے ہیں لیکن ججز تعیناتی کے لیے نہیں مانتے۔ایڈووکیٹ جنرل گلگت بلتستان نے بتایا کہ ججز کی عدم تعیناتی پر گلگت بلتستان سپریم اپیلیٹ کورٹ میں آٹھ ہزار کیسز زیر التواء ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ اس وقت گلگت بلتستان میں آرڈر 2018ء ان فیلڈ ہے، اگر وفاق کو مجوزہ آرڈر 2019ء پسند نہیں تو دوسرا بنا لے لیکن کچھ تو کرے، مجوزہ آرڈر 2019ء مجھے تو مناسب لگا اس پر قانون سازی کرے یا پھر دوسرا بنا لیں۔جسٹس امین الدین خان نے ہدیات کی کہ آرڈر 2018ء کے تحت ججز تعینات کریں۔گلگت بلتستان میں مشروط طور پر ججز تعینات کرنے کے لیے اٹارنی جنرل نے مخالفت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گلگت بلتستان میں انصاف کی فراہمی میں تعطل ہے ہم چاہتے ہیں ججز تعینات ہوں۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ مستقبل میں 2018 ء کے تحت ججز تعیناتی وفاقی حکومت کو سوٹ کرتی ہے۔اسد اللہ خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ گلگت بلتستان میں پانچ میں سے چار ججز کی تعیناتی پر ہمیں اعتراض نہیں، ایک جج کی تعیناتی سیکشن 34 کے تحت نہیں ہوئی اس پر ہمیں اعتراض ہے۔عدالت نے کہا کہ کیس میرٹ پر سنیں گے، جس پر اٹارنی جنرل منصور عثمان نے میرٹ پر دلائل کا آغاز کیا تاہم عدالت نے کیس کی سماعت آج تک ملتوی کر دی۔