اداکارہ لائبہ خان نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں اپنی ذاتی زندگی، کیریئر اور محبت سے متعلق کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ شوبز کی دنیا میں کامیابی کے لیے محض شہرت یا دولت کا ہونا کافی نہیں، بلکہ خود کو سنجیدگی سے لینا بھی ضروری ہے۔ لائبہ خان نے کہا کہ وہ اداکار جو اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کے بیچ توازن برقرار رکھتے ہیں، وہ ذہنی سکون اور کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔

محبت کے بارے میں بات کرتے ہوئے، لائبہ نے کہا کہ ابتدا میں انہیں لگتا تھا کہ محبت ایک خواب کی مانند ہوتی ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ احساس ہوا کہ محبت کرنا آسان ہے، مگر اسے نبھانا ایک بہت مشکل کام ہے۔ اس کے لیے قربانی، صبر اور ایک بڑے دل کی ضرورت ہوتی ہے۔

ان کے نزدیک ظاہری شکل وصورت سے زیادہ عزت دینے کی صلاحیت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ محبت تو کم ہوسکتی ہے لیکن یہ عزت ہی ہے جو کسی رشتے کو مضبوط بناتی ہے۔

لائبہ خان اپنی والدہ کے مقام کو سب سے زیادہ مقدم رکھتی ہیں۔ اداکارہ نے اپنی والدہ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ جو کچھ بھی ہیں، اس کا کریڈٹ اپنی ماں کی دعاؤں اور تربیت کو دیتی ہیں۔

ان کے مطابق، اگرکوئی مردان سے محبت کا دعویدار ہو لیکن وہ ان کی والدہ کی عزت نہ کرے، تو وہ ایسی محبت کو قبول نہیں کر سکتیں۔ان کے لیے کسی مرد کا ان کی والدہ کی عزت کرنا ہی سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

شادی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے، لائبہ خان نے ہنستے ہوئے کہا کہ ”جتنا بول رہی ہوں، شادی نہیں ہو رہی۔ اب تو سوچ رہی ہوں کہ شادی کے بارے میں بات کرنا ہی چھوڑ دوں!“

لائبہ خان نے اپنے بچپن کے بارے میں بھی بات کی، جس میں انہوں نے کہا کہ وہ بچپن میں بہت شرمیلی اور کم گو تھیں، اور کسی لڑکی سے بات کرنے کا اعتماد بھی نہیں تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے خود کو سنبھال لیا اور اب وہ ایک مضبوط اور خود مختار شخصیت بن چکی ہیں۔

Post Views: 3.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: لائبہ خان نے کے بارے میں کہا کہ

پڑھیں:

ٹرمپ کی ٹیم نے ایران کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کو "بہت مثبت" کیوں قرار دیا؟

اسلام ٹائمز: ایک اور مقصد جو تصور کیا جا سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ "بہت مثبت" قرار دیکر یہ ظاہر کیا جائے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ٹیم نے مذاکرات شروع کیے ہیں اور وہ ایرانی عوام کی مشکلات کو دور کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس پلاننگ کا مقصد ایران کے اندرونی، سیاسی اور اقتصادی ماحول کو متاثر کرنا ہے اور اسکے نتیجے میں ایرانی قوم میں جھوٹی امید پیدا کرنا اور عوامی خیالات کو گمراہ کرنا ہے۔ اس پروپیگنڈہ کا مقصد امریکہ کیخلاف ایران کی خارجہ پالیسی کے اسٹریٹجک حساب کتاب کو مشکوک بنانا ہے۔ تحریر: مھدی جہانتیغی

سٹیو وٹکاف نے عمان میں ایران کے ساتھ ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کے بارے میں کہا ہے کہ "ہم نے بہت مثبت اور تعمیری بات چیت کی ہے۔" وائٹ ہاؤس نے بھی عمان میں ایرانی اور امریکی حکام کے درمیان ہونے والی بالواسطہ بات چیت کو بہت مثبت اور تعمیری قرار دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ  یہ "بہت زیادہ مثبت" بیان کرنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔؟

ایک: پہلی بات تو یہ ہے کہ بالواسطہ مذاکرات کے آغاز میں  ابتدائی مباحثے کو مثبت قرار دینا صرف اسی مرحلے تک مثبت سمجھنا چاہیئے،  کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ موقف مذاکرات کے بعد کے مراحل کے لئے ایک مطلق اور عمومی بیان ہو اور صورت جوں کی توں رہے۔ ابھی اہم متنازعہ اور پیچیدہ مرحلے باقی ہیں اور بعد میں میٹنگ کے حالات مختلف  بھی ہوسکتے ہیں۔

دوئم: مذاکرات کے "بہت مثبت" بیان سے کئی دوسرے مقاصد بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امریکی فریق اپنے آپ کو مذاکرات کے لیے پرعزم، سنجیدہ اور پرامید ظاہر کرے اور بعد میں کسی وجہ سے انہیں اگر مذاکرات کی میز کو چھوڑنا پڑے تو ایران پر مذاکرات کو ناکام بنانے کا الزام لگا سکیں اور اپنے آپ کو اس الزام سے بچا سکیں کہ انہوں نے مذاکرات کو سبوتاز نہیں کیا ہے۔

تیسرا: ایک اور مقصد جو کہ ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کی انتخابی مہم میں حالیہ ہفتوں میں اور یہاں تک کہ ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ کے چار سال میں بھی عام طور پر دیکھا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ مذاکرات کو پہلے مثبت قرار دیکر اس سے تشہیراتی فوائد حاصل کئے جائیں، بعد میں کیا ہوتا ہے، اسے مستقبل پر چھوڑ دیا جائے۔ گویا یہ ایک قسم کا پروپیگنڈا بھی ہوسکتا ہے اور اس سے داخلی اور بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر دیا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیاں  جلد عملی جامہ پہن رہی ہیں۔

چوتھا: ایک اور مقصد جو تصور کیا جا سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ "بہت مثبت" قرار دیکر یہ ظاہر کیا جائے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ٹیم نے مذاکرات شروع کیے ہیں اور وہ ایرانی عوام کی مشکلات کو دور کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس پلاننگ کا مقصد ایران کے اندرونی، سیاسی اور اقتصادی ماحول کو متاثر کرنا ہے اور اس کے نتیجے میں ایرانی قوم میں جھوٹی امید پیدا کرنا اور عوامی خیالات کو گمراہ کرنا ہے۔ اس پروپیگنڈہ کا مقصد امریکہ کے خلاف ایران کی خارجہ پالیسی کے اسٹریٹجک حساب کتاب کو مشکوک بنانا ہے۔ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں معاشرتی اور معاشی نقصان کا ماحول پیدا کرکے ایرانی حکام کے بارے میں عوام کو گمراہ کرنا ہے۔ مذاکرات میں مبینہ رکاوٹ ڈال کر یا بے جا مطالبات کرکے مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرانے کے لیے ماحول تیار کرنا ہے۔

پانچ: عام طور پر بات چیت کے عمل سے کسی ملک کی خارجہ پالیسی کی ٹیم کے نقطہ نظر پر اعتماد کیا جا سکتا ہے، لیکن امریکی حکومتوں کے بیان کردہ شرائط اور ماضی کا بدنام زمانہ ریکارڈ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے مذاکرات کی امید افزائی کو شکوک و شبہات کے ساتھ دیکھا جائے اور اسے  ممکنہ طور پر پروپیگنڈا اور ممکنہ طور پر ایک سوچی سمجھی سازش کر طور پر دیکھا جائے۔ یاد رہے کہ امریکہ کے ساتھ متعدد مذاکرات کے عملی تجربات کے نتائج کی روشنی میں جب تک پابندیوں کے خاتمے اور ملکی معیشت پر ان مذاکرات کے حقیقی اثرات سامنے نہيں آجاتے آخری لمحے تک صبر اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور کسی پروپیگنڈے، مسکراہٹ اور مذاکرات کو بہت مثبت اور تعمیری قرار دینے جیسے دعووں کے فریب اور دام سے بچنے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مسقط مذاکرات کے بارے مصر کا ایران، عمان و امریکہ کیساتھ رابطہ
  • ٹرمپ کی ٹیم نے ایران کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کو "بہت مثبت" کیوں قرار دیا؟
  • اداکارہ عمارہ چوہدری بابراعظم، نسیم، صائم اور اعظم؛ کس سے شادی کرنا چاہتی ہیں؟
  • سندھ حکومت اپنی اداؤں پر غور کرے، وزیر اطلاعات پنجاب
  • سندھ حکومت اپنی اداؤں پر غور کرے: وزیر اطلاعات پنجاب
  • دولہے کو اپنی دلہن کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کرنا مہنگی پڑگئی
  • بابراعظم، نسیم، صائم اور اعظم؛ کس سے شادی کرنا چاہتی ہیں؟
  • ملکہ کمیلا نے بادشاہ چارلس کے ساتھ 20 سالہ خوشگوار ازدواجی زندگی کا راز بتا دیا
  • بیٹی کی شادی سے 10 دن قبل خاتون اپنے ہونے والے داماد کیساتھ بھاگ گئیں
  • ہمیں عالمی سطح پر اپنا مثبت امیج بنانے کے لئے اپنی برینڈنگ کرنا ہو گی؛ احسن اقبال