عمران خان کی بہنوں کی گرفتاری کا وقت آنے پر حساب لیا جائے گا: علی امین گنڈاپور
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
علی امین گنڈاپور— فائل فوٹو
وزیرِ اعلیٰ خیبرپختون خوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ بانیٔ پی ٹی آئی کی بہنوں، حامد رضا اور دیگر کی غیر قانونی حراست افسوس ناک ہے۔
اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ حراست میں لینے کے بعد ان کو اڈیالہ سے 80 کلو میٹر دور ویرانے میں چھوڑنا قابلِ مذمت ہے، پنجاب پولیس کا خواتین کے ساتھ ناروا سلوک ریاستی جبر و تشدد اور فسطائیت کی بدترین مثال ہے، وقت آنے پر اس کا حساب لیا جائے گا۔
علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تمام حدیں پار کر رہی ہے، بانیٔ پی ٹی آئی کی رہائی تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی، ان سے ملاقات کی اجازت نہ دینا قانون اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
راولپنڈی میں اڈیالہ جیل کے قریب سے حراست میں لی گئی بانی پی ٹی آئی کی تینوں بہنیں اور کزن قاسم نیازی اپنے گھر روانہ ہوگئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملاقات کی اجازت نہ دینا عدالتی حکم کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، عدلیہ اپنے احکامات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے یا ہمیں وہ فورم بتائے جہاں ہم انصاف کے لیے رجوع کر سکیں۔
وزیرِ اعلیٰ کے پی نے کہا ہے کہ حکومت کو نہ عدالتی احکامات کی کوئی پرواہ ہے اور نہ بنیادی انسانی حقوق کا لحاظ ہے، ملک میں اس وقت قانون کی عمل داری کا نام و نشان تک نہیں۔
علی امین گنڈاپور نے یہ بھی کہا ہے کہ حکومت ملک کو انارکی کی طرف لے جانے سے باز آئے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ
پڑھیں:
طالبان کے اخلاقی قوانین یا انسانی حقوق کی پامالی؟ اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری
اقوام متحدہ نے طالبان کے زیرِ اقتدار افغانستان میں نافذ کیے گئے اخلاقی قوانین پر ایک چشم کشا رپورٹ جاری کی ہے، جس میں ان قوانین کے نتیجے میں خواتین اور عام شہریوں کے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (UNAMA) کی رپورٹ کے مطابق، اگست 2024 سے طالبان حکومت کی جانب سے قائم کردہ وزارت "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کے تحت افغان عوام پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اس وزارت نے ملک کے 28 صوبوں میں 3,300 سے زائد اہلکار تعینات کیے ہیں اور ہر صوبے میں گورنر کی سربراہی میں خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں تاکہ ان ضوابط کو زبردستی نافذ کیا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق، خواتین کی سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی کو نشانہ بنایا گیا ہے، ان کی نقل و حرکت، تعلیم، کاروبار اور عوامی زندگی میں شمولیت پر سخت پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ صرف محرم کے بغیر سفر کرنے کی ممانعت سے خواتین کی آمدنی میں کمی، کاروباری روابط میں رکاوٹ اور فلاحی اداروں کی امدادی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ نے انکشاف کیا کہ 98 فیصد علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم بند ہے جبکہ خواتین کی عوامی وسائل تک رسائی 38 فیصد سے بڑھ کر 76 فیصد تک محدود ہو چکی ہے۔ مزید برآں، 46 فیصد خواتین کو فیلڈ وزٹ سے روکا گیا اور 49 فیصد امدادی کارکنان کو مستحق خواتین سے ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ طالبان کی یہ پالیسیاں نہ صرف عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ ایک مکمل ریاستی جبر کی صورت اختیار کر گئی ہیں۔ یہ سوال اب شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا عالمی برادری ان مظالم پر خاموش تماشائی بنی رہے گی یا کوئی عملی اقدام کرے گی؟