اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس کیس آئندہ دو سماعتوں پر مکمل کرنے کا عندیہ دے دیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ایک سازش جو ابھی ہوئی نہیں، اس پر قانون کا اطلاق کیسے ہوگا۔ وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ آرمی ایکٹ کا سازش کرنے پر بھی نفاذ ہوتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ضابطہ فوجداری میں بھی قتل اور اقدام قتل کی الگ الگ شقیں ہیں۔ جسٹس جمال نے کہا کہ کرمنل جسٹس سسٹم کو آرٹیکل 175 کی شق تین کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ایک کنفیوژن ہے جس پر ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں، پریس والے بیٹھے ہیں نا جانے میری آبزرویشن کو کیا سے کیا بنا دیں، اپیل کا حق بھی نہیں ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس میں کہا کہ کیا عام قانون سازی کرکے شہریوں سے بنیادی حقوق لیے جا سکتے ہیں، کیا آئینی ترمیم کرکے سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں ہونا چاہیے تھا، بھارت میں ملٹری ٹرائل کے خلاف آزادانہ فورم موجود ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ویسے اپیل کی حد تک تو اٹارنی جنرل نے عدالت میں گزارشات پیش کی تھیں، اٹارنی جنرل کی گزارشات عدالتی کارروائی کے حکم ناموں میں موجود ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے ہدایت کی کہ وزارت دفاع کے وکیل کے دلائل مکمل کرنے کے بعد اٹارنی جنرل خود پیش ہوں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بنیادی حقوق ملنے یا نہ ملنے کا معاملہ یا اپیل کا معاملہ ہمارے سامنے ہے ہی نہیں۔ جسٹس جمال نے ریمارکس دیے کہ جب آرٹیکل 8 کی شق تین اے کے تحت معاملہ عدالت آ ہی نہیں سکتا تو پھر بات ختم، پھر کیسی اپیل۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ میں کسی کو اپیل کا حق نہیں دے رہا، بین الاقوامی طور پر اپیل کا حق دینے کی دلیل دی گئی۔ دوران سماعت، سانحہ جعفر ایکسپریس کا تذکرہ بھی ہوا۔ وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے کہا کہ 9 مئی کے جرائم ریاستی مفاد کے خلاف تھے۔ جسٹس جمال نے ریمارکس دیے کہ کوئی بھی قانون کی خلاف ورزی ریاستی مفاد کی خلاف ہوتی ہے، تمام جرائم ریاستی مفاد کے خلاف ہوتے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا بولان میں ہونے والا ٹرین کا واقعہ ریاستی مفاد کے خلاف نہیں تھا؟ آرمڈ فورسز کا بنیادی کام دفاع پاکستان کا ہے۔ وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ پھر ہم دفاع کیسے کریں گے جب پیچھے سے ہماری ٹانگیں کھینچی جائیں؟۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہ کوئی جذباتی ہونے کا نہیں ملکی سکیورٹی کا معاملہ ہے، ایک پولیس والے کی ڈیوٹی ہماری عدالت کے دروازے کے باہر ہو، اس پولیس والے کی ڈیوٹی ہوگی کہ کوئی اسلحہ سے لیس شخص عدالت داخل نہ ہو، مگر وہ پولیس والا پانچ منٹ کے لیے ادھر ادھر ہو جائے تو اس نے ڈسپلن کی خلاف ورزی کی، کیا یہ سکیورٹی آف سٹیٹ نہیں ہے؟۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

پڑھیں:

میرااصولی موقف ہے میں کوئی کیس ٹرانسفر نہیں کروں گا،جسٹس محسن اختر کیانی کے ایک سے دوسرے بنچ میں کیسز ٹرانسفر کرنے پر ریمارکس

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر جج جسٹس محسن اختر کیانی نے ایک سے دوسرے بنچ میں کیسز ٹرانسفر کرنے پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ میرااصولی موقف ہے میں کوئی کیس ٹرانسفر نہیں کروں گا۔

نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق ایک سے دوسرے بنچ میں کیسز ٹرانسفر کرنے پر جسٹس محسن اختر کیانی کے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ قائم مقام چیف جسٹس انتظامی سائیڈ پر کوئی ایسا آرڈر نہیں کر سکتے،ایسا نہیں ہو سکتا سنگل بنچ کا کیس اٹھا کر ڈویژن بنچ میں لگا دیں،میرااصولی موقف ہے میں کوئی کیس ٹرانسفر نہیں کروں گا۔

سندھ حکومت کا سٹیل ملز کے ہسپتال، سکول اورکالج کا انتظام سنبھالنے کا اعلان

مزید :

متعلقہ مضامین

  • کنٹونمنٹ میں شاپنگ مالز بن گئے، میں زبردستی اندر جاؤں تو کیا میرا بھی ملٹری ٹرائل ہو گا: جسٹس افغان
  • گلگت بلتستان ججز تعیناتی وفاق کو آرڈر پسند نہیں تو دوسرا بنا لے، کچھ تو کرے: جسٹس جمال
  • کنٹونمنٹ میں شاپنگ مالز بن گئے، میں زبردستی اندر جائوں تو کیا میرا بھی ملٹری ٹرائل ہوگا؟،جسٹس نعیم اختر افغان
  • کنٹونمنٹ میں شاپنگ مالز بن گئے، میں زبردستی اندر جاؤں تو کیا میرا بھی ملٹری ٹرائل ہوگا؟ جسٹس افغان
  • میرااصولی موقف ہے میں کوئی کیس ٹرانسفر نہیں کروں گا،جسٹس محسن اختر کیانی کے ایک سے دوسرے بنچ میں کیسز ٹرانسفر کرنے پر ریمارکس
  • آرمی ایکٹ درست ہے، ملٹری ٹرائل کیلئے آزادانہ فورم کیوں نہیں؟ جج آئینی بینچ
  • کیا 175سے ہٹ کر بھی سویلینز کےملٹری ٹرائل کی اجازت ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل کا خواجہ حارث سے استفسار
  • گلگت بلتستان ججز تعیناتی؛ وفاق کو آرڈر 2019 پسند نہیں تو دوسرا بنا لے لیکن کچھ تو کرے، جسٹس جمال
  • گلگت بلتستان اعلیٰ عدلیہ میں ججز تعیناتی کیس؛وفاق کو مجوزہ آرڈر 2019پسند نہیں تو دوسرا بنا لے لیکن کچھ تو کرے،جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس
  • آئین میں بنیادی حقوق دستیاب ہیں، کیا وفاق اور صوبوں کو اپنے ادارے پر اعتماد نہیں: جسٹس مندوخیل