بھارت میں اوقاف پر نیا قانون: چند اہم مسائل
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
انگریزوں نے جب ہندوستان میں اپنا قانونی نظام نافذ کرنا شروع کیا، تو انہوں نے پہلے زمین کے ’محصولات‘ کے امور پر ہاتھ ڈالا، پھر ’دیوانی‘ کے اختیارات حاصل کیے اور اس کے بعد ’فوجداری‘ مقدمات کا رخ کیا۔ اس دوران میں انہوں نے ’مذہبی امور‘ اور ’شخصی معاملات‘ میں مداخلت سے بڑی حد تک گریز کیا۔ چنانچہ مسلمانوں کے نکاح و طلاق کے مسائل ہوں یا وراثت و وصیت کے، بنیادی طور پر شریعت کے مطابق ہی ان کا فیصلہ کیا جاتا رہا، اگرچہ ایک خاص مرحلے کے بعد انہوں نے مسلمان ’قاضیوں‘ کی جگہ اپنے ’جج‘ بٹھا دیے اور چونکہ ان ججوں کو اسلامی قانون کا علم نہیں تھا، اس لیے اس کی ’معاونت‘ کےلیے ’مفتی‘ بھی تعینات کیے۔
پھر کچھ عرصے بعد مسلمانوں کی اہم فقہی کتب، جیسے حنفی فقہ کی ’ہدایہ‘ اور ’فتاویٰ عالمگیریہ‘ اور اثنا عشری فقہ کی ’شرائع الاسلام‘ کے متعلقہ ابواب کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا، تو مفتیوں پر ججوں کا انحصار بھی کم ہوگیا۔ اب انگریز جج، جس کی تربیت انگریزوں کے رواجی قانون، ’کامن لا‘، میں ہوئی تھی، مسلمانوں کی فقہی کتب کے (غلط سلط) ترجمے پڑھ کر مسلمانوں کے مقدمات کے فیصلے کرنے لگے۔
یہ بھی پڑھیں: دہشتگردوں کے خلاف کارروائی اور بین الاقوامی قانون
ان فیصلوں میں کئی واشگاف غلطیاں بھی ہوئیں جن میں سے بعض آج تک ہماری عدالتیں دہراتی بھی رہی ہیں (جیسے یہ فرض کرنا کہ نکاح تو بس ایک عام ’دیوانی معاہدہ‘ (civil contract) ہے، لیکن اتنی داد انگریزوں کو دینی بنتی ہے کہ انہوں نے بطورِ اصول یہ طے کیا تھا کہ مسلمانوں کے فقہی مذاہب کی حتی الامکان پابندی کرنی ہے۔ چنانچہ انگریزوں کے دور میں مسلمانوں کی فقہ کی عدالتی تشریحات سے وجود میں آنے والا ’اینگلو محمڈن لا‘ بڑی حد تک مسلمانوں کےلیے قابلِ قبول تھا۔
مذہبی اور شخصی امور میں عدم مداخلت کی یہ پالیسی اوقاف ( وقف کی جمع) کے معاملے میں بھی جاری رہی۔ چنانچہ جب 1882ء میں انگریزوں نے ہندوستان میں ’ٹرسٹس ایکٹ‘ نافذ کیا، تو اس کے شروع میں ہی تصریح کی کہ اس کا اطلاق اوقاف پر نہیں ہوگا۔ اوقاف کا تصور خالصتاً اسلامی دینی تصور ہے۔ وقف کا لغوی مطلب ’روکنا‘ ہے۔ اصطلاحاً مراد کسی مال کی ملکیت کی آگے منتقلی کو یوں روکنا ہے کہ نہ اسے بیچا جاسکے، نہ کسی کو ہبہ کیا جاسکے، نہ وہ کسی کو میراث میں مل سکے۔ شریعت کا عام اصول تو یہ ہے کہ کسی بھی مال کی ملکیت کی منتقلی یوں روکی نہیں جاسکتی، لیکن مذہبی مقاصد کے لیے مخصوص شرائط کے ساتھ وقف کی تشکیل کی شریعت نے اجازت دی ہے۔ چنانچہ مسلمان جہاں بھی رہے، انہوں نے مساجد، قبرستان، مدارس اور دیگر مذہبی مقاصد کےلیے اوقاف قائم کیے۔ ہندوستان میں بھی صدیوں سے اوقاف موجود رہے ہیں اور ان سے مسلمانوں کو بہت زیادہ فوائد بھی ملتے رہے ہیں۔ مسلمانوں کے دینی تشخص کی حفاظت میں بھی اوقاف کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ اس وقت بھی اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں تقریباً ساڑھے 9 لاکھ ایکڑ زمین ایسی ہے جس کا انتظام وقف بورڈ کے پاس ہے۔
’وقف علی الاولاد‘ پر پریوی کونسل کا فیصلہ
اوقاف میں ایک خاص قسم ’وقف علی الاولاد‘ کی ہے جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کوئی شخص اپنی کسی مخصوص جائیداد کو اپنے بچوں، پوتوں وغیرہ کےلیے وقف کردیتا ہے اور اس میں شرط رکھ دیتا ہے کہ جب خاندان کا یہ سلسلہ ختم ہوجائے، تو پھر یہ جائیداد کسی مدرسے، مسجد، یتیم خانے یا دیگر مذہبی مقاصد کے کام آئے گی۔ واضح رہے کہ ایک دفعہ وقف قائم ہوجائے، تو پھر وقف بنانے والا شخص بھی اسے واپس نہیں کرسکتا، نہ ہی اس کی شرائط میں تبدیلی کرسکتا ہے۔ بہت ہی مخصوص حالات میں بہت کڑی شرائط کے ساتھ عدالت کسی معمولی تبدیلی کی اجازت دے سکتی ہے۔ ہندوستان میں وقف علی الاولاد کی روایت بھی موجود رہی ہے۔ تاہم 1894ء میں ’ابو الفتح محمد اسحاق مقدمے‘ میں پریوی کونسل نے وقف علی الاولاد کے خلاف فیصلہ دیا۔ اس سے مسلمانوں میں بہت بے چینی پھیلی۔
اوقاف کے تحفظ کےلیے قائدِ اعظم کا مثالی کردار
1910ء میں قائدِ اعظم محمد علی جناح شاہی مجلسِ قانون ساز (Imperial Legislative Council) میں مسلمانوں کی مخصوص نشست پر منتخب ہوئے (اس وقت ابھی وہ ’قائدِ اعظم‘ نہیں کہلاتے تھے)۔ انہوں نے اس انتخاب کو یوں درست ثابت کیا کہ 1911ء میں انہوں نے اوقاف کے تحفظ کےلیے ایک مسودۂ قانون پیش کیا جسے کچھ ترامیم کے بعد 1913ء میں منظور کیا گیا اور یوں ’مسلمان وقف کو جائز قرار دینے کا قانون‘ وجود میں آگیا جس کے ذریعے وقف علی الاولاد کے علاوہ صدیوں سے موجود اوقاف قانونی تحفظ حاصل ہوگیا۔ 1923ء میں اس موضوع پر ایک اور قانون بنانے میں بھی آپ کا اہم کردار رہا۔ اس قانون نے اوقاف کے حسابات کا ریکارڈ رکھنے کے متعلق بنیادی اصول بھی طے کیے۔
1937ء میں ایک اور قانون کا اضافہ ہوا، اور اس میں بھی قائدِ اعظم کا اہم کردار رہا۔ اس قانون کے ذریعے یہ قرار پایا کہ نکاح، طلاق، میراث، ہبہ، وصیت اور وقف سمیت کئی دیگر امور میں عدالتیں شریعت پر فیصلہ کریں گی۔ اس قانون کا عنوان ہے: مسلم شخصی قانون (شریعت) کے اطلاق کا قانون۔ اس وقت مسلمانوں کےلیے یہ قانون ایک بہت بڑی نعمت ثابت ہوا کیونکہ اس طرح انہیں کم از کم نکاح، طلاق، وقف اور دیگر متعلقہ امور میں شریعت پر فیصلوں کی گنجائش مل گئی۔ (اس وقت پاکستان میں اس قانون کی وہ شکل نافذ العمل ہے جسے 1962ء میں منظور کیا گیا۔)
مزید پڑھیے: قانون کی حکمرانی: خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا!
واضح رہے کہ انگریزوں کے دور میں، اور آزادی کے بعد بھی کافی عرصے تک، ان قوانین کے تحت فیصلے کرتے ہوئے عدالتوں نے خود براہِ راست قرآن و سنت کی تعبیر سے گریز کرتے ہوئے یہ طریقہ اختیار کیا کہ سنی مسلمانوں کےلیے حنفی فقہ اور شیعہ مسلمانوں کےلیے اثنا عشری فقہ پر فیصلہ سنایا جائے۔ چنانچہ 1913ء کے وقف ایکٹ میں باقاعدہ حنفی فقہ کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
ان عمومی قوانین کے علاوہ بنگال کےلیے 1934ء میں، بمبئی کے لیے 1935ء میں اور اتر پردیش کےلیے 1936ء خصوصی وقف قوانین بھی منظور کیے گئے۔
اوقاف پر نئی قانون سازی
آزادی کے بعد پہلی اہم قانون سازی 1954ء میں کی گئی جس نے بڑی حد تک پہلے سے موجود قوانین کی جگہ لی۔ البتہ درگاہ اجمیر شریف کےلیے ایک خصوصی قانون 1955ء میں بنایا گیا۔ پھر 1984ء کے ترمیمی قانون کے ذریعے 1954ء کے قانون کو تبدیل کیا گیا۔ اس کے بعد 1995ء میں ایک اور قانون نے 1954ء اور 1984ء کے قوانین کو منسوخ کرکے ان کی جگہ لے لی، لیکن اس نئے قانون کا اطلاق اجمیر شریف کی درگاہ پر نہیں ہوتا تھا۔ ان تینوں قوانین کے بناتے وقت مسلمانوں کے نمائندوں کو اعتماد میں لیا گیا اور بڑی حد تک ان کے تحفظات کو دور کیا گیا۔ اس لیے ان سے مسلمانوں کےلیے عموماً کوئی بڑا مسئلہ نہیں بنا۔
اس سال 2025ء میں نیا قانون منظور کیا گیا ہے جس کے ذریعے 1995ء کے قانون میں متعدد دور رس نتائج کی حامل ترامیم کی گئی ہیں۔ اس قانون میں سب سے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اس دفعہ نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، بلکہ ان کے نمائندوں اور تنظیموں کی جانب سے جن تحفظات کا اظہار کیا گیا، انھیں دور کرنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی اور صرف اکثریت کے بل بوتے پر یہ قانون بنادیا گیا ہے۔ یہ قانون اوقاف کے اسلامی تصور سے کلیتاً متصادم ہے اور اوقاف کے انتظام میں غیر مسلموں کو شامل کرکے، اوقاف کی شناخت کا اختیار ایک سرکاری عہدیدار کو دے کر، اوقاف ٹریبیونل میں اسلامی قانون کے ماہر کی شمولیت کی شرط ختم کرکے اور وقف قائم کرنے والے کا وقف سے کم از کم 5 سال قبل مسلمان ہونا ضروری قرار دے کر اس قانون نے اس مذہبی آزادی کے حق کو بے معنی کردیاہے جس کی ضمانت بھارت کے آئین میں دی گئی ہے۔
مسلم شخصی قانون اور مذہبی آزادی پر حملہ
تاہم سوال یہ ہے کہ کیا ’مسلم شخصی قانون‘ پر یہ پہلا اور انوکھا، حملہ ہے؟ کیا اس سے قبل راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا؟ کیا کئی عشرے قبل ’شاہ بانو مقدمے‘ کے ذریعے مسلم شخصی قانون کی بنیادوں پر ہی حملہ نہیں کیا گیا تھا؟ کیسے کسی غیر مسلم جج کےلیے یہ اختیار مانا جاسکتا تھا کہ وہ قرآن کی آیت کا وہ مفہوم ترک کرکے جو مسلمانوں کی علمی روایت نے اس کےلیے متعین کیا ہے، از خود نیا مفہوم متعین کرسکتا ہے اور یوں طلاق و عدت کے بعد بھی کسی عورت کے لیے ’متاع‘ کی ذمہ داری اس کے سابقہ شوہر پر ڈال سکتا ہے جب تک وہ عورت ’مطلقہ‘ ہے، یعنی جب تک وہ کسی اور سے شادی نہ کرلے؟ کیا ابھی ماضیِ قریب میں ہی ایک دفعہ پھر غیر مسلم ججوں نے اپنے اس اختیار کو زبردستی نہیں منوایا کہ وہ یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ کیا حجاب دینِ اسلام کا لازمی جزو ہے یا نہیں؟
اوقاف کی حفاظت کے لیے پاک بھارت سمجھوتے
اس معاملے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان نے آپس میں بعض مذہبی مقامات کے زائرین کو سہولیات فراہم کرنے کے سلسلے میں بعض معاہدات بھی کیے ہیں۔ ان معاہدات کا سلسلہ 1950ء میں نوابزادہ لیاقت علی خان اور پنڈت جواہر لال نہرو کے درمیان سمجھوتے سے ہوا جس میں پاکستان میں غیر مسلموں اور بھارت میں مسلمانوں کے تحفظ کےلیے کچھ بنیادی اصول طے کیے گئے۔ 1955ء میں اسکندر مرزا اور پنڈت پنٹ کے درمیان ایک اور سمجھوتہ طے پایا اور 1974ء میں ایک پروٹوکول کا اضافہ کیا گیا جس کے تحت بھارت میں مسلمانوں کے درج ذیل 5 اہم مذہبی مقامات کے تحفظ کا خصوصی وعدہ کیا گیا: درگاہ اجمیر شریف، درگاہ نظام الدین اولیاء، درگاہ امیر خسرو، سرہند شریف اور کلیار شریف۔ ان سمجھوتوں کی بنیاد پر پاکستان کو اس نئے وقف قانون کے متعلق اپنے خدشات کا اظہار کرنا چاہیے۔
لیکن ہم نے بھی بہت غلط کیا ہے!
2007ء میں مجھے بھارت میں چند دن گزارنے کا موقع ملا۔ وہاں سپریم کورٹ کے ایک مسلمان جج سے ان کے گھر پر تفصیلی ملاقات بھی ہوئی۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ مسلم شخصی قانون اور مذہبی آزادی پر حملہ انہوں نے کیسے گوارا کیا، تو انہوں نے پلٹ کر وار کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ ہمارے لیے آپ لوگوں نے بنایا ہے۔ میں نے پوچھا، کیسے؟ تو انہوں نے کہا کہ آزادی کے بعد بھی ہماری عدالتیں مسلم شخصی قانون میں مداخلت نہیں کرتی تھیں اور فیصلوں میں فقہی مذاہب کی پابندی کرتی تھیں، لیکن جب آپ کی سپریم کورٹ کے ججوں نے (’خورشید بی بی مقدمے‘ میں) کہا کہ فقہی مذہب کی پابندی ضروری نہیں ہے اور یہ کہ ہم خود براہِ راست قرآن و سنت کا مفہوم متعین کرسکتے ہیں، تو پھر ہمارے ججوں نے بھی کہا کہ وہ کرسکتے ہیں، تو ہم بھی کیوں نہ کریں؟
مزید پڑھیں: قانون کا مفہوم کیسے متعین ہوتا ہے؟
اوقاف کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ بھارت کی موجودہ قانون سازی سے 5 سال قبل 2020ء میں ہم نے ایف اے ٹی ایف کے دباؤ پر اسلام آباد میں اوقاف کے لیے خصوصی قانون بنایا اور اس کے ذریعے اوقاف کے اسلامی تصور کو پامال کرتے ہوئے حکومتی مداخلت، بلکہ بیوروکریسی کی مداخلت، کا راستہ کھول دیا۔ کیا ضروری نہیں ہے کہ بھارت میں اوقاف کے متعلق بات کرنے سے قبل پاکستان میں اوقاف کے اس قانون کو اسلامی شریعت سے ہم آہنگ کیا جائے؟
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔
اوقاف پر بھارت کی نئی قانون سازی بھارت سپریم کورٹ بھارت میں اوقاف قانون مسلم شخصی قانون وقف علی الاولاد.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اوقاف پر بھارت کی نئی قانون سازی بھارت سپریم کورٹ بھارت میں اوقاف قانون مسلمانوں کےلیے ہندوستان میں مسلمانوں کی مسلمانوں کے میں اوقاف کرتے ہوئے بھارت میں بڑی حد تک قانون کا آزادی کے قانون کے اوقاف کے اوقاف پر انہوں نے کے ذریعے یہ ہے کہ کے تحفظ میں ایک میں بھی کیا گیا ایک اور کے لیے کہا کہ کے بعد ہے اور اور اس
پڑھیں:
حقیقت یہ ہے کہ ملک کے مسائل حل نہیں ہو رہے بلکہ بڑھ رہے ہیں؛ مسرت جمشید چیمہ
سٹی 42 : پی ٹی آئی رہنما مسرت جمشید چیمہ نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے دہائیوں کے اتحاد نے پاکستان کو کہیں کا نہیں چھوڑا بلکہ پاکستان کے 90فیصد مسائل کی وجہ یہی اتحاد ہے۔
اپنے بیان میں مسرت جمشید چیمہ نے کہا کہ جو حکومت میں ہیں وہی ملک اور عوام کے مسائل کا سبب ہیں اور اچنبھے کی بات ہے عوام کو یہ امید دلائی جارہی ہے کہ وہ ان کے مسائل حل کریں گے ،ملک اور عوام کی گھمبیر مشکلات کو اگر کوئی لیڈر حل کر سکتا ہے تو وہ صرف بانی پی ٹی آئی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حکمران جب کسی تقریب میں پاکستان کے مسائل پر مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں تو عوام ان کے بہکاوے میں نہیں آتے بلکہ جھولیاں اٹھا کر دہائیوں سے حکومتیں کرنے والوں کو کوستے ہیں ۔
لاہور پریس کلب ہاؤسنگ سکیم ایف بلاک میں بجلی کی تنصیب کا افتتاح
انہوں نے کہا کہ عوام کا موجودہ حکمرانوں سے سوال ہے ملک کی ابتر صورتحال اور بد حالی کے ذمہ دار کون ہیں اور جب آپ سے بار بار یہ سوال پوچھا جائے تو آپ پیکا ایکٹ کا سہارا لے لیتے ہیں ،آج ساری قو م آپ سے اپنی بد حالی کا سوال پوچھ رہی ہے ۔
مسرت جمشید چیمہ نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے مسائل حل نہیں ہو رہے بلکہ بڑھ رہے ہیں،ان کے حل کیلئے دور اندیشی کے ساتھ دلیرانہ فیصلے کرنا ہوں گے جو موجودہ حکمرانوں کی بس کی بات نہیں ہے ۔
سندھ حکومت اپنی اداؤں پر غور کرے: وزیر اطلاعات پنجاب