حکومت مضبوط ہے، اپوزیشن کے لیے دل بڑا کرے اور بانہیں کھولے
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
25 مارچ کو آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے پر اتفاق کا اعلان کیا۔ ایگزیکٹیو بورڈ کی منظور کے بعد پاکستان کو اگلی قسط جاری ہو جائے گی۔ کلائمیٹ ریزیلینٹ پروگرام سے ایک ارب 30 کروڑ ڈالر اور بیل آؤٹ پیکج سے ایک ارب ڈالر پاکستان کو مل جائیں گے۔ اس اعلان کے بعد پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ چڑھ گئی۔
ٹرمپ اپنی دوسری مدت صدارت شروع ہونے کے بعد سے مسلسل ٹیرف بڑھا رہا ہے۔ پاکستان پر بھی 29 فیصد ٹیرف عائد کیے گئے ہیں۔ پاکستان نے کوئی ردعمل ظاہر کیے بغیر خاموش سفارتکاری کا آپشن اختیار کیا ہے۔ ان ٹیرف کا اعلان ہونے کے بعد بھی پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ نارمل رہی۔
8 اپریل کو جب ٹرمپ نے اعلان کیا کہ اگر چین نے جوابی 34 فیصد ٹیرف واپس نہ لیے تو امریکا 9 اپریل سے چینی مصنوعات پر مزید 50 فیصد ٹیرف عائد کرے گا۔ ساری دنیا کی اسٹاک مارکیٹ کے ساتھ پاکستانی مارکیٹ بھی دھڑام سے گر گئی، بعد میں کچھ سنبھل بھی گئی۔ پاکستانی سیٹھ جو 3،4 دن حوصلہ دکھاتے رہے اس پر ان کو داد بنتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایسٹ ویسٹ اکنامک کاریڈور
پاکستان ٹرمپ کے ٹیرف والے شغل سے بھی زیادہ متاثر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ حکومتی اتحاد معاشی فرنٹ پر اپنا مشکل وقت گزار چکا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے پی ایم ایل این نے بڑی ہمت سے اپنے سیاسی سرمائے کو آگ لگائی ہے۔ عوامی ردعمل کا سامنا کیا ہے۔ معیشت سیدھی کرنے کے لیے درکار تمام اقدامات کیے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے حکومت کو پی پی کی حمایت حاصل رہی ہے۔
پی ٹی آئی کے خلاف عدم اعتماد کے بعد سے حکومت کو ایک پل سکھ کا کوئی سانس نہیں ملا۔ مسلسل سیاسی عدم استحکام کا سامنا رہا ہے۔ آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں کے ساتھ معاملات طے کرنے کے تمام مواقع پر پی ٹی آئی نے دھرنا اور احتجاج کیا۔ سوشل میڈیا مسلسل بے قابو چلا آ رہا ہے۔ دہشتگردی اٹھتی بڑھتی لہر الگ چیلنج کے طور پر سامنے آئی۔
شنگھائی کانفرنس تنظیم کا اجلاس بھی ہو گیا۔ اس دوران احتجاج سے بھی نپٹ لیا گیا۔ آج پاکستان میں 3 روزہ منرل انویسٹمنٹ فورم 2025 کا اجلاس جاری ہے ۔ جب معدنی وسائل کی بات ہوتی ہے تو بلوچستان کا ذکر بھی آتا ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت اس وقت اندر ہے۔ ان کی رہائی کے لیے بی این پی مینگل کے اختر مینگل کوئٹہ کے قریب لک پاس پر دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
محمود خان اچکزئی نے ایک پریس ٹاک میں قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ کے 200 مربع کلومیٹر علاقے سے کان کنی کے لیے لیز کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ محمود خان اچکزئی ہوں یا اختر مینگل، یہ جب وسائل پر اختیار اور تقسیم کی بات کرتے ہیں تو قانون اور آئین کے حوالے دیتے ہیں۔
انہی کے مطابق مطالبات کرتے ہیں، اگر اضافی مطالبات کرتے ہیں تو راستہ دینے کو بھی ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ اس ذکر کا مطلب یہ بتانا ہے کہ چیلنج کتنے بڑے درپیش ہیں۔ ابھی ہم یہ واضح کرنے میں بھی ناکام ہیں کہ اختیار اور قانون کس کا کتنا ہے۔ وفاق کا کیا شیئر ہے اور صوبے کا کتنا ہے۔ جبکہ انویسٹر کو ون ونڈو سہولت درکار ہے کہ وہ کام کرے اور منافع کمائے۔
مزید پڑھیے: پاکستان کو ہارڈ اسٹیٹ ضرور بنائیں لیکن بنیادی مسائل بھی حل کریں
یہ سب ہو رہا ہے اس دوران حکومت نے افغان مہاجرین کو بھی نکالنے کا اعلان کر دیا ہے۔ سنہ 2005 میں پاکستان حکومت نے افغان مہاجرین کو رجسٹر کیا تھا۔ ان کو رجسٹریشن کے بعد پی او آر کارڈ دیے گئے تھے یعنی پروف آف رجسٹریشن کارڈ۔ سنہ 2017 میں اے سی سی یعنی افغان سٹیزن کارڈ ان افغان مہاجرین کو دیے گئے تھے جنہوں نے رجسٹریشن کے عمل میں حصہ نہیں لیا تھا۔ اے سی سی کارڈ ہولڈر کی تعداد 8 لاکھ سے زائد ہے۔ 31 مارچ کی ڈیڈ لائن اے سی سی کارڈ ہولڈر کو دی گئی تھی۔ پی او آر کارڈ ہولڈر کو پہلے ہی 30 جون 2025 تک کی مہلت دی جا چکی ہے۔ اصولی طور پر تمام مہاجرین کو نکالنے کا فیصلہ لیا جا چکا ہے۔
سندھ اور پنجاب سے پولیس نے افغان مہاجرین کو پکڑ کر طورخم پہنچانے کا کام شروع کیا ہوا ہے۔ اب تک طورخم سے 11 ہزار افغان مہاجروں کو بیدخل کیا جا چکا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت میں عید کی لمبی چھٹیوں کی وجہ سے ابھی ایکشن شروع نہیں ہوا یہ 11 اپریل سے شروع ہو گا۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں دہشتگردی کی اٹھتی لہر، وقتی ہے اور ختم ہو جائےگی
قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں جنرل عاصم منیر نے ہارڈ اسٹیٹ بننے کی بات کی تھی۔ سافٹ اسٹیٹ اور ہارڈ اسٹیٹ کی بات سویڈن کے نوبل انعام یافتہ اکانومسٹ اور سوشیالوجسٹ گنر میردال سویڈن سے منسوب کی جاتی ہے۔ انہوں نے جو کہا وہ مختصر کچھ یوں ہے کہ بدعنوانی، سماجی بدنظمی کے خلاف نرمی برتنا ایک سافٹ ریاست کی نشانی ہوتی ہے۔ ہارڈ ریاست قانون کے نفاذ، سخت حکمرانی، سلامتی اور لا اینڈ آرڈر کے مسائل پر سخت کنٹرول نافذ کرتی ہے۔
ہفتہ 10 دن سے پی ٹی آئی کے اندر تقسیم واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے۔ پارٹی راہنما خود بتا رہے ہیں کہ کیسے وہ مذاکرات کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کو دروازے بند ملتے ہیں۔ حکومت اور حوالدار بشیر جس طرح رلتے گھلتے اور لڑھکتے ہوئے حالات کو یہاں تک لائے ہیں کہ عدم استحکام اور دہشتگردی کے خدشات میں بھی پاکستان میں بڑے ایونٹ ہو جاتے ہیں، اس سے حکومت کی مضبوطی کا تاثر تو بنتا ہے۔ پاکستان کے حالات کو نیو نارمل سمجھ کر دنیا بھی روٹین کا بزنس کر رہی ہے۔ اس کے باوجود ہمیں سیاسی استحکام کے لیے ایک وسیع ڈائیلاگ اور دل بڑا کرنے کی ضرورت ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔
اپوزیشن افغان سٹیزن کارڈ ٹرمپ ٹیرف حکومت سافٹ اسٹیٹ گنر میردال سویڈن ہارڈ اسٹیٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اپوزیشن افغان سٹیزن کارڈ ٹرمپ ٹیرف حکومت گنر میردال سویڈن ہارڈ اسٹیٹ افغان مہاجرین کو ہارڈ اسٹیٹ کا اعلان کے ساتھ کے بعد رہا ہے کے لیے کی بات
پڑھیں:
پرامن احتجاج اور عدالتوں میں لڑتے رہیں گے، شیخ وقاص اکرم
لاہور:تحریک انصاف کے رہنما شیخ وقاص اکرم نے کہا ہے بانی چیئرمین عمران خان سے ملاقاتیں نہ کرانے والا سپرنٹنڈنٹ جیل عدالتی احکامات پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک رہا ہے۔
انھوں نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ یہ عدالتوں کیلیے لمحہ فکر یہ ہے کہ وہ اپنے فیصلوں پرعملدرآمد کیسے کراسکتے ہیں انھیں آئی جی جیل خانہ جات کو برطرف کرنا چاہیے کیونکہ توہین عدالت باربارہورہی ہے، ہم دھرنے دیں گے یا ریلیاں نکالیں گے تو انھیں تکلیف ہوگی، پرامن احتجاج اور عدالتوں میں لڑتے رہیں گے۔
ماہرمعیشت ہارون شریف نے کہاکہ ٹرمپ کے اقدامات سے سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہوا،اسے بحال کرتے کرتے بہت عرصہ لگے گا، پاکستان کیلیے امریکا اور چین کے ساتھ اقتصادی اور سفارتی شراکت داری میں توازن رکھنا بہت مشکل ہوتا جائے گا، ہمیں کسی ایک ملک پر انحصار کے بجائے منڈیاں ڈھونڈنا ہوں گی، اس صورتحال میں چین فاتح کی حیثیت سے نکلے گا۔
ماہر پاک افغان امور طاہرخان نے کہا کہ افغان مہاجرین کی واپسی جاری ہے مگر جوخود نہیں جاتے پھر انھیں بسوں میں ڈال کر ملک بدر کیا جاتاہے، حال ہی میں افغان سیٹیزن کارڈ کے حامل 4 ہزار خاندانوں کوواپس بھیجا گیا ہے، امریکا نے طالبان حکومت بننے کے بعد پاکستان میں پناہ لینے والوں کو ستمبر تک نہ لیا تو وہ پاکستان میں غیرقانونی تصور ہوں گے اور شاید انھیں بھی ملک بدرکردیا جائے گا۔