سندھ میں موٹر ویز کی عدم تعمیر، پیپلز پارٹی سینیٹرز کو تحفظات
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
اسلام آباد:
سینیٹ کی منصوبہ بندی کمیٹی کے اجلاس میں سندھ میں موٹرویز کی عدم تعمیر پر پیپلز پارٹی کے سینیٹرز نے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
قومی شاہراہوں میں امتیازی سلوک پر نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو بند کرنے اور اختیارات صوبوں کو دینے کی تجویز بھی پیش کی گئی ۔سینیٹ کی منصوبہ بندی کمیٹی کا اجلاس چیئرپرسن سینیٹر قراۃالعین مری کی زیر صدارت ہوا۔
مزید پڑھیں: عید کے اختتام پر موٹر ویز اور قومی شاہراہوں پر ٹریفک کا بہاؤ، ٹریول ایڈوائزری جاری
اجلاس میں سندھ کے ساتھ ترقیاتی منصوبوں میں امتیازی سلوک کا معاملہ چھایا رہا۔ سینیٹر قراۃالعین مری نے این ایچ اے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ادارے کو بند کر کے موٹروے اور ہائی وے منصوبے صوبوں کو منتقل کر دینے چاہئیں تاکہ ہر صوبہ اپنی ضروریات کے مطابق فیصلے کر سکے۔
سینیٹر شہادت اعوان کا کہنا تھا کہ چیچو کی ملیاں تک موٹروے بن چکی ہے لیکن سندھ کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ سینیٹر جام سیف اللّٰہ نے کہا کہ ایلیٹ کلاس کو فائدہ دینے کے لیے بہاولنگر تک موٹروے بنائی جا رہی ہے جبکہ سکھر کراچی جیسے قومی اہمیت کے منصوبے نظر انداز ہیں۔
مزید پڑھیں: قومی شاہراہوں اور موٹر ویز پر عائد ٹول ٹیکس میں رواں برس دوسری بار اضافہ
چیئرپرسن کمیٹی کا کہنا تھا کہ ایکنک کے فیصلے یکطرفہ ہیں، اور پنجاب کے منصوبوں کو غیر معمولی ترجیح دی جا رہی ہے۔این ایچ اے حکام نے بتایا کہ ایم نائن موٹروے کی نئی فزیبلٹی تیار کی جا رہی ہے،جبکہ سکھر کراچی موٹروے کو بھی ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے ۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
تحریک انصاف نے دریائے سندھ پر چھ نئی نہروں کی مجوزہ تعمیر کے خلاف قرار داد قومی اسمبلی میں جمع کرادی
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔10 اپریل ۔2025 )پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں دریائے سندھ پر چھ نئی نہروں کی مجوزہ تعمیر کے خلاف قرار داد جمع کرادی ہے پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی زرتاج گل، علی محمد خان اور محمد احمد چٹھہ نے اسپیکر ایاز صادق کو نہروں کے منصوبے کے خلاف قرارداد جمع کرائی نجی ٹی وی کے مطابق قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ چولستان کینال منصوبے کی تعمیر کو فوری طور پر معطل کیا جائے جب تک کہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) اس کی منظوری نہ دے دے.(جاری ہے)
قرارداد میں کہا گیا کہ منصوبے کے لیے سی سی آئی کی منظوری بین الصوبائی ہم آہنگی اور آئینی اصولوں کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے آئین کے آرٹیکل 154 (سی سی آئی کے افعال اور قواعد و ضوابط) کا حوالہ دیتے ہوئے پی ٹی آئی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ جی پی آئی کے تحت منصوبے سے متعلق سندھ کے تحفظات پر غور کرنے اور انہیں حل کرنے کے لیے 15 دنوں کے اندر کونسل کا ہنگامی اجلاس بلائے اور اس بات کو یقینی بنایا بنایا جائے کہ اجلاس میں تمام صوبائی اسٹیک ہولڈرز کی بات سنی جائے. قرارداد میں دریائے سندھ سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے چولستان نہری منصوبے کے لیے جاری کردہ پانی کی دستیابی کے سرٹیفکیٹ کا ایک آزاد آڈٹ کرانے کا بھی مطالبہ کیا گیا قرارداد میں کہا گیا کہ آڈٹ 60 دنوں کے اندر ہائیڈرولوجسٹ اور ماحولیاتی ماہرین کے ایک” غیر جانبدار پینل“کے ذریعے کرایا جانا چاہیے اور نتائج اس ایوان کے سامنے پیش کیے جائیں تاکہ 1991 کے آبی تقسیم کے معاہدے پر عمل درآمد کی تصدیق کی جا سکے اور سندھ کے پانی کے حصے پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا جا سکے. قرارداد میں کہا گیا ہے کہ دریائے سندھ کے نظام پر تمام نئے نہری منصوبوں پر اس وقت تک پابندی عائد کی جائے جب تک کہ 1991 کے آبی تقسیم کے معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد نہ ہو جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سندھ کا مختص کردہ حصہ 48.76 ملین ایکڑ فٹ اور زیریں علاقوں کے صوبوں کے نچلے درجے کے حقوق محفوظ رہیں جس میں دریائے سندھ کے ڈیلٹا کو برقرار رکھنے کے لیے کوٹری بیراج سے نیچے کم از کم 10 ملین ایکڑ فٹ کا ماحولیاتی بہاﺅ شامل ہے قرارداد میں زور دیا گیا کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکام زیریں علاقوں کے اسٹیک ہولڈرز بشمول سندھ کے منتخب نمائندوں، کسانوں اور سول سوسائٹی کے ساتھ لازمی شفاف مشاورت کو یقینی بنائیں گے جس میں سی سی آئی کے کسی بھی فیصلے سے پہلے عوامی سماعتوں کو دستاویزی شکل دی جائے اور قابل رسائی بنایا جائے. تحریک انصاف کی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ سندھ زراعت، گھریلو استعمال اور ماحولیاتی پائیداری کے لیے پانی کے ایک اہم ذریعہ کے طور پر دریائے سندھ پر انحصار کرتا ہے قرارداد میںکہا گیا کہ پنجاب میں نہروں کی تعمیر بشمول جی پی آئی کے تحت شروع کیے گئے چولستان نہر کے منصوبے نے سندھ میں اس کے پانی کے حصے میں ممکنہ کمی اور زیریں علاقوں کے ماحولیاتی اثرات کے حوالے سے اہم خدشات پیدا کیے ہیں قرارداد میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 153 (سی سی آئی)، 154 (افعال اور قواعد) اور 155 (پانی کی فراہمی میں مداخلت کے حوالے سے شکایات) وفاقی اکائیوں کے درمیان قدرتی وسائل کی منصفانہ تقسیم کو لازمی قرار دیتے ہیں اور سی سی آئی کو پانی پر بین الصوبائی تنازعات کو حل کرنے کا اختیار دیتے ہیں. قرارداد میں کہا گیاہے کہ سندھ کے تحفظات جو جولائی 2024 میں سی سی آئی کے ساتھ باضابطہ طور پر درج کیے گئے تھے اس طرح کے منصوبوں سے قبل شفافیت، سائنسی تشخیص اور بین الصوبائی اتفاق رائے کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں. یاد رہے کہ اس مہینے کے اوائل میںپی ٹی آئی نے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے ساتھ مل کر مجوزہ نہروں کے خلاف دھرنا اور ریلی نکالی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ منصوبہ کراچی کو پانی کی فراہمی میں بہت بڑی رکاوٹ بنے گا.