برصغیر پاک و ہند میں ہمیشہ سے عدل کا نظام موجود تھا۔ مغلیہ ہندوستان کی تاریخ میں کئی ایسے قاضی گزرے ہیں جنھوں نے بادشاہِ وقت کے خلاف فیصلے دیے مگر مجموعی طور پر مغلوں کے دور میں عدل کا معیار خاصا پسماندہ تھا۔ لوگوں کے انفرادی مقدمات میں تو انصاف مل جاتا تھا مگر بادشاہوں، ان کے گورنروں اور دربار کے دیگر اراکین کے خلاف فیصلوں کی کم مثالیں ملتی ہیں۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے جب اپنی نوآبادیاتی قائم کرنا شروع کی تو پھر برطانوی طرزکا عدالتی نظام قائم ہوا۔ اس نظام میں عدلیہ کی آزادی اور وکیل اور بار ایسوسی ایشن کے کردار کو خصوصی اہمیت حاصل ہوئی، انگریز دور میں پہلے تو صرف انگریز جج مقررکیے جاتے تھے، پھر مقامی وکلاء اور بیوروکریٹس کو جج مقرر کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔
برطانوی ہند میں انگریز جج ہوتا تھا یا ہندوستانی جج۔ ہندوستانی شہریوں کے آپس کے تنازعات کے معاملات میں تو انصاف یقینی ہوتا تھا مگر جہاں کہیں انگریز اور مقامی ہندوستانی شہری کے درمیان تنازع ہوتا تو پھر انصاف کا پلڑا انگریز کے حق میں جھک جاتا تھا۔ انگریز دور میں ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے حریت پسندوں کو انگریز حکومت کے خلاف انصاف ملنے کا تصور نہیں تھا۔ پھر انگریز برصغیر سے چلے گئے۔
بھارت اور پاکستان کو آزادی کے ساتھ عدالتی نظام بھی ورثہ میں ملا۔ بھارت نے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہروکی قیادت میں آئین کی تیاری کے تمام مراحل مکمل کیے۔ بھارت کی پارلیمنٹ نے 26 نومبر 1949ء کو نیا آئین منظور کیا۔ آئین دلت رہنما Dr.
بھارتی سپریم کورٹ نے Suo Motu اختیارات کے ذریعے طرزِ حکومت کو بہتر بنانے، پسماندہ طبقات کے حقوق کے تحفظ اور ماحولیات کو بچانے کے لیے اہم فیصلے کیے گئے۔ ان فیصلوں کی دنیا کے مختلف ممالک کے جج صاحبان بطور نظیر استعمال کرتے ہیں مگر مودی دور کے آغاز کے ساتھ ہی عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی ۔
بھارت کے ایک سینئر وکیل اور انسانی حقوق کی بالادستی کی تحریک کے کارکن مسٹر Prashand Bhasan نے سوشل میڈیا پر بتایا ہے کہ گزشتہ 10برسوں میں بھارتی سپریم کورٹ کے جن ججوں نے مودی حکومت کے حق میں فیصلے کیے انھیں ریٹائرمنٹ کے بعد اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا۔ ان میں وہ جج صاحبان بھی شامل ہیں جنھوں نے بھارت کی ریاست گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے بنیادی ملزمان وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شا وغیرہ کو قتل، اغواء اور بلوؤں جیسے سنگین مقدمات سے بری کردیا۔ ذکیہ نسیم جعفری بھارتی پارلیمنٹ کے سابق رکن نسیم جعفری کی بیوہ تھیں۔
جعفری اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو گجرات میں ہونے والے فسادات میں قتل کردیا گیا۔ ذکیہ نسیم جعفری نے 2000سے اپنے شوہر کے قاتلوں کو سزا دلوانے کے لیے جدوجہد کرتی رہیں مگر انھیں انصاف نہیں مل سکا۔ ذکیہ گزشتہ دنوں انتقال کرگئیں۔ ذکیہ کا مقدمہ مودی اور امیت شاہ وغیرہ کے خلا ف تھا۔ بھارتی وکیل بھوسن کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے اعلیٰ عدالتوں میں آزاد سوچ رکھنے والے ججوں کے تقرر کے راستے بند کردیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت کے آئین کی شق 124 کے تحت سپریم کورٹ کے 5 سینئر ججوں کا Collision سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کے تقرر کا فیصلہ کرتا ہے۔
یہ Collision سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی آسانی کے لیے مطلوبہ معیار پر پورے اترنے والے فرد کا نام مرکزی حکومت کو بھیجتا ہے مگر بقول مسٹر بھوسن حکومت کئی کئی سال تک سپریم کورٹ کے تجویز کردہ جج کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کرتی، اگر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بار بار حکومت کو یاد دہانی کرائیں تو حکومت کوئی اعتراض بھجوادیتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ایسا کئی دفعہ ہوا کہ بھارتی سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے حکومت کے اعتراض کو مسترد کردیا اور حکومت کو دوبارہ نام بھجوایا گیا مگر حکومت نے پھر بھی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ وزیر قانون اور ان کے سیکریٹری کا عدالتی نظام پر عملدرآمد نہ کرنا توہینِ عدالت کے زمرے میں آجاتا ہے مگر بھارت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ کبھی بھی وزیر قانون اور وزارتِ قانون کے سیکریٹری کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔ انھوں نے بھارتی حکومت کے ججوں کو بلیک میل کرنے کے ایک اور طریقہ کو آشکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کا Dozier تیارکیا جاتا ہے۔
تمام خفیہ ایجنسیوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ جج ، اس کے بیوی بچوں اور قریبی رشتے داروں کے بارے میں معلومات جمع کی جائیں، اگرکسی جج یا اس کے قریبی عزیز کے بارے میں کوئی منفی رپورٹ مل جائے تو پھر اس جج کو بلیک میل کیا جاتا ہے، اگر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے Dozier میں منفی رپورٹیں شامل ہوجائیں تو پھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی ہدایت پر چیف جسٹس نہ صرف حکومت کی پسند کے ججوں کا تقررکرتے ہیں اور ججوں کی ایسی بنچ بناتے ہیں کہ ہر صورت فیصلہ حکومت کے حق میں آئے۔ بھارت کی وکلاء کی تنظیمیں اس صورتحال پر سخت پریشانی کا اظہار کررہی ہیں مگر ہندو انتہاپسندی کا بیانیہ بنا کر ایسوسی ایشن کو بھی تقسیم کیا جارہا ہے۔
پاکستانی عدلیہ ہمیشہ حکومت کی بالادستی میں کام کرتی رہی مگر سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے دور میں الجہاد ٹرسٹ کیس کے مقدمے کے فیصلے میں عدلیہ کسی حد تک انتظامیہ سے آزاد ہوئی تھی ۔ سپریم کورٹ کے ججوں کی اکثریت اور سجاد علی شاہ کو جونیئر جج ہونے کی بناء پر چیف جسٹس کے عہدے سے معزول کردیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف حکومت نے عبوری آئینی حکم (P.C.O) پر حلف نہ اٹھانے والے ججوں کو ملازمت سے فارغ کردیا اور نئے ججوں کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے پر مجبور کیا گیا۔
2007ء میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تو وکلاء نے تاریخی جدوجہد کی۔ حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں نے اس تحریک کی حمایت کی، یوں چیف جسٹس افتخار چوہدری ایک طرف اپنے عہدے پر دوبارہ فائز ہوئے تو دوسری طرف آئین میں کی گئی 18ویں اور 19ویں ترامیم کے تحت عدلیہ کو نئی آزادی مل گئی ۔ جسٹس افتخار چوہدری کی عدالت نے منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہینِ عدالت کی سزا دی، یوں وہ اپنے عہدے سے محروم ہوئے۔ جس سے ملک میں ایک نیا سیاسی بحران پیدا ہوا۔ افتخار چوہدری کے بعد سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس کھوسہ، جسٹس گلزار اور جسٹس بندیال وغیرہ کے دور میں بھی عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان فاصلے بڑھ گئے۔
دوسری طرف سپریم کورٹ میں زیرِ التواء مقدمات کی تعداد ہزاروں سے لاکھوں تک پہنچ گئی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ وکلاء بنچ دیکھ کر مقدمہ کا فیصلہ سنادیا کرتے تھے۔ پھر آئین میں 26ویں ترمیم ہوئی۔ اس ترمیم کے تحت ججوں کے تقرر میں پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کا کردار بڑھ گیا ۔تقرری کے لیے سینیارٹی کے بجائے میرٹ کا طریقہ کار رائج ہوا۔ یوں جونیئر ججوں کی تعیناتیاں بھی ہوئیں ۔ اس کے ساتھ یہ ابہام بھی سامنے آیا کہ کون سا مقدمہ کس بنچ کے سامنے پیش ہوگا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں میں سینیارٹی کا مسئلہ ایک نئے تصادم کی طرف لے گیا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہائی کورٹ کے ججوں افتخار چوہدری حکومت کو حکومت کے بھارت کی ججوں کی اور ان کے لیے تو پھر کے تحت
پڑھیں:
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے آئینی اختیار میں رہ کر کام کیا، سپریم کورٹ
اسلام آباد:سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ ایگزیکٹو ایجنسیوں کی مداخلت کے خلاف عدالتی افسر کی کسی بھی شکایت کے جواب میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی طرف سے کوئی بھی کارروائی نہ کرنا آئین کے آرٹیکل 203 کے تحت اس کی آئینی ذمہ داریوں کے منافی ہوگا۔
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے پہلے تو آرٹیکل 203 کے تحت انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سمیت ماتحت عدالتوں کی کارروائیوں کی نگرانی کے لیے اپنے آئینی اختیار میں رہ کر کام کیا ۔
مزید پڑھیں: 9 مئی مقدمات، چیف جسٹس فریقین میں توازن کیلیے پرعزم
دوسرا ایڈمنسٹریٹو جج کی جانب سے پریذائیڈنگ جج کے خلاف ریفرنس ناکافی بنیادوں پر خارج کرنے کی روشنی میں چیف جسٹس نے تبادلے کی درخواست پر مزید کارروائی نہ کرنے میں مکمل جواز پیش کیا کیونکہ اس درخواست میں میرٹ کا فقدان تھا اور وہ صرف ایک ایسے حوالے پر مبنی تھی جس میں ثبوت کی کمی تھی۔
چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کی طرف سے تحریر کردہ 4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ پنجاب پراسیکشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست کی گئی۔
ریاست کی جانب سے انسداد دہشتگردی کی عدالت کے ایک پریذائیڈنگ جج کے دوسرے سے تبادلے کی درخواست کی سماعت میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے جج کیخلاف ریفرنس پر حکومت کو پیغام دینا تھا دے دیا، چیف جسٹس
ہم اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہیں کہ کسی صوبے میں ہائی کورٹ کا چیف جسٹس اس صوبے کے اندر عدلیہ کی سربراہ ہوتا ہے۔ لہٰذا عدالتی افسر کی ایسی کسی شکایت کے جواب میں چیف جسٹس کی جانب سے کوئی بھی کارروائی نہ کرنا آئین کے آرٹیکل 203 کے تحت اس کی آئینی ذمہ داریوں کے منافی ہو گا۔
ریاست کی نمائندگی کرنے والے سپیشل پراسیکیوٹر کا بنیادی زور یہ تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے پیرا 8 اور 9 میں درج نتائج نہ صرف غیر ضروری تھے بلکہ چیف جسٹس کے اختیار کے مینڈیٹ سے بھی باہر تھے۔
واضح رہے لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے اے ٹی سی ججز کے معاملات میں ایگزیکٹو ایجنسیوں کی مداخلت کے خلاف موقف اختیار کیا تھا۔ انہوں نے اے ٹی سی جج راولپنڈی کے تبادلے کی پنجاب حکومت کی درخواست پر سخت استثنیٰ لیا تھا۔