کسان کو مزید مایوس نہ کریں
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
گزشتہ ہفتے آبائی گاؤں میں گزرا، ہم دیہاتی اپنے آبائی گھروں کو لوٹنے کے لیے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں اور جیسے ہی موقع ملتا ہے شہر کی ہنگامہ خیز زندگی سے دیہات کی پرسکون اور پر لطف فضاء میں چند روز گزارنے کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ روزگار کے سلسلے میں شہروں میں مقیم دیہاتی باشندے اپنے آبائی گھروں کو جانے کے لیے ہمہ وقت بے قرار رہتے ہیں ۔
سال بھر میں انھیںعیدین کے دو ایسے مواقع مل جاتے ہیں جب وہ گاؤں لوٹ جانے کو ترجیح دیتے ہیں اور چھٹیوں کے پر مسرت لمحات اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔ میں بھی انھی دیہاتیوں میں شامل ہوں جو ہر وقت گاؤں جانے کے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ عیدین ایک ایسا موقع ہے جب شہر کے شہر خالی ہوجاتے اور شہروں میں روزگار کے لیے مقیم پردیسی اپنے آبائی وطن لوٹ جاتے ہیں۔ میرا بچپن بھی گاؤں میں گزرا ہے تو لامحالہ دیہاتی زندگی کے ساتھ ایک انمٹ انسیت ہے، دوست احباب کا ساتھ ہے جو میری گاؤں آمد کے منتظر رہتے ہیں ۔
آج کی مصروف زندگی میں ہم شہروں میں بسنے والوں کے لیے یہ چندروز غنیمت ہوتے ہیں کہ ہنگاموں سے دورپر فضاء مقام پر صاف ستھری آب و ہوا میں سانس لینے کا موقع مل جاتا ہے ۔ میرے دیہاتی دوستوں کو یہ خوش فہمی لاحق رہتی ہے کہ میں جو کہ لاہور جیسے پررونق اور ادب نواز شہر سے بسلسلہ روزگار اقتدار کے شہر اسلام آباد ہجرت کر چکا ہوں، میرے پاس شائد تازہ ترین سیاسی معلومات ہوں گی، اس لیے وہ بڑے اشتیاق سے سیاسی سوال کرتے ہیں اورمیں ان کے سوالوں کے جواب میںخاموش رہنے کو ترجیح دیتا ہوں کہ ان کے خطرناک سوالوں کے جواب اول تو میرے پاس ہوتے نہیں اور اگر کسی سوال کا جواب معلوم بھی ہوتو مایوسی پھیلانے سے گریز کرنا ہی بہتر ہوتا ہے ۔
اس مرتبہ عید الفطر اور بعد کے چند ایام میں وادی سون میں موسم ہمیشہ کی طرح تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اپنے جوبن پر تھا۔ ہوا میں خنکی موجود تھی، دن بھر کی تمازت کے بعد سورج جیسے ہی ڈھلنا شروع ہوتاہے ، ہوا میں موجود خنکی اپنا اثر دکھانا شروع کر دیتی اور سرشام ہی موسم ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ اپریل کے مہینے میں بلا مبالغہ رات کو تھوڑی دیر تک ہیٹر چلانا پڑتا اور پھر رضائی میں لپٹ کر جسم کو حرارت میسر آتی ہے تو جسم میٹھی نیند کی آغوش میں پہنچ جاتا ۔موسم کی نامہربانی اپنی جگہ لیکن جو ایک ہفتہ گاؤں میں گزرا نہایت تکلیف دہ گزرا ، اس تکلیف کی بنیادی وجہ کسانوں کے نامسائد حالات ہیں جن سے وہ مسلسل دوچار ہیں اور ان کی چارہ گری کو کوئی تیار نظر نہیں آتا۔
حکومت کی جانب سے جو چند ایک اقدامات کیے جارہے ہیں، وہ حقیقت میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں کیونکہ پنجاب کے شہر اقتدار لاہور کے عالی شان دفتروں میں بیٹھے بابوؤں کا کاشت کاری سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اور جو چند ایک حقیقت حال سے آگاہ ہوں گے، میرے خیال میں وہ بھی ہاں میں ہاں ملانے کو ہی ترجیح دیتے ہوں گے کہ حکم حاکم مرگ مفاجات والا معاملہ بن چکا ہے۔ جو بھی کسان ملا وہ شکوہ کناں تھا کہ منڈی میں آڑھتی کے پاس اس کی فصل کے دام ہی نہیں ہیں اور منڈی تک فصل پہنچانے پر جو خرچ آتا ہے وہ بھی فصل کی فروخت سے پورا نہیں ہورہا ہے، اس کا آسان حل کسانوں کے پاس ایک ہی بچا ہے اور انھوں نے اپنی فصل جانوروں کو بطور چارہ ڈالنا شروع کر دی ہے۔
کسانوں کی بے بسی کا یہ عالم وہی محسوس کر سکتے ہیں جنھوں نے یہ دکھ خود سہا ہو یا ان کا کاشت کاری سے قریب دور کا واسطہ ہو۔ فصل کی کاشت سے لے کر برداشت تک کا عمل جن مراحل سے گزرتا ہے، وہ تمام مراحل کسانوں کی پہنچ سے دور ہوتے جارہے ہیں، مہنگا ڈیزل، مہنگے اور ناقص بیج، مہنگی ادویات، کھاد کی ہوشرباء قیمتیں، بجلی کے بلوں کے جھٹکے اور آخر میں منڈی میں آڑھتی کے ہاتھوں بلیک میلنگ یہ وہ عوامل ہیں جو کسان کی بدحالی کا باعث بن چکے ہیں۔
حکومتوں کی کاریگری اس حد تک محدود رہ گئی ہے کہ وہ پہلے سے مہنگائی کے بوجھ تلے دبے کسانوں کو فصلوں کی کاشت کے لیے قرض فراہم کرتی ہے اور پھر بمعہ سود وصول کرتی ہے۔ پنجاب جو ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہاںلاکھوں کی تعداد میں کسان کاشت کاری کر رہے ہیں، ان میں سے صرف ایک ہزار کسانوںکو قرعہ اندازی کے ذریعے رعائتی قیمتوں پر ٹریکٹر کی فراہمی کو بڑا کارنامہ قرار دیا جارہا ہے حالانکہ انھی کسانوں سے گزشتہ برس حکومت نے گندم خریدنے سے انکار کر دیا تھاجس نے کسان کو معاشی بدحالی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے اور آج کی خبر یہ ہے کہ حکومت گندم اگاؤ مہم کے سلسلے میں ٹریکٹر تقسیم کر رہی ہے ۔
حکومت کے اس عمل سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ حکمران اپنی ہی پالیسیوں کی نفی کر رہے ہیں، پہلے گندم خریداری سے انکار اور اب گندم اگانے کی ترغیب دی جارہی ہے لیکن گندم کی خرید و فروخت کو لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے ۔ نہ جانے ’’ کسان مافیا‘‘ حکمرانوں کی کس بات پر اعتبار کرے اور گندم اگائی مہم کے لیے حکمرانوں کی جانب سے کی جانے والی دعاؤں کو کس ضمن میں شمار کرے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ سرکاری اسکیمیں بنانے والے بابو کسانوں کے لیے کوئی ایسی قابل عمل اسکیم متعارف کرائیں جس سے تمام کسان مستفید ہوں ، ڈیزل، ادویات، بیج اور کھاد کی قیمتوں پر حکومتی کنٹرول کو موثر کیا جائے ۔ زرعی ٹیوب ویلوں کے لیے بجلی کے نرخ آج سے چند برس قبل کی قیمت پانچ روپے فی یونٹ مقرر کیے جائیں اگر اس میں اضافہ بھی مقصود ہے تو اس کی قیمت کو دگنا کر دیا جائے لیکن کسانوں کو عام صارفین کے لیے مقرر کردہ فی یونٹ قیمتوں کے ساتھ ملانا زیادتی ہے اور یہ زیادتی قوم کے ساتھ کی جارہی ہے۔
بہر حال حقیقت بیان کردی ہے، پنجاب کا کسان ہماری محترمہ وزیر اعلیٰ کی توجہ چاہتے ہیں اور وہ حکومت کی کسی ایسی پالیسی کے منتظر ہیں جس میںان کے مسائل کا حقیقی حل موجود ہو۔ کسان نامساعد موسم کو اﷲ کی رضا سمجھ کر قبول کر لیتا ہے لیکن شاید حکمران ایسا نہیں سوچتے ۔شہروں میں رہنے والے کیا جانیں، ہمارے کسان کتنے بڑے توکل اور پختہ ایمان والے لوگ ہوتے ہیں جو اپنا سب کچھ مٹی میں ملا کر اﷲ کی رحمت کے منتظر رہتے ہیں اور اﷲ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوتے البتہ حکمرانوں کی غلط پالیسیاں ان کی مایوسی کا سبب بن رہی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: رہتے ہیں ہیں اور کے ساتھ ہے اور کے لیے
پڑھیں:
نواز شریف بلوچستان آکر کیا کریں گے، ان کے ہاتھ میں ہے کیا؟ اختر مینگل
بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ نواز شریف یہاں آکر کیا کریں گے، ان کے ہاتھ میں کیا ہے۔ کیا ان کے پاس اختیارات ہیں۔
وی نیوز کوانٹرویومیں سردار اختر مینگل نے کہا کہ ابتداء حکومت کے 2 وفود آئے تھے جن میں صوبائی وزراء شامل تھے۔ دونوں وفود نے ہمارے مطالبات سنے اور اقرار کیا کہ غلط ہو رہا ہے لیکن پھر وہ اپنی بے بسی کا رونا روتے رہے اور کہا کہ ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں۔ جس کے بعد حکومت سے ہماری کوئی بات نہیں ہوئی۔
سردار اختر مینگل نے ترجمان بلوچستان حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ ترجمان منتخب ہوتا تو اس کی باتوں کا جواب ضرور دیتا۔ کرایے پر لائے ہوئے ترجمانوں کو ہم ترجمان نہیں گردانتے۔ آج یہ حکومت انہیں تنخواہ دے رہی ہے تو ان کی ترجمانی کر رہے ہیں کل کسی اور کی ترجمانی کریں گے۔ جہاں تک بات ہے شاہوانی اسٹیڈیم کی اجازت کی تو وہاں انہوں نے جلسہ کرنے کی اجازت دی تھی۔ ہم جب سے وڈھ سے نکلے ہیں جلسے کررہے ہیں۔ روزانہ لکپاس پر 2 جلسے کرتے ہیں۔ ہم جلسہ کرنے نہیں بلکہ احتجاج ریکارڈ کروانے آئے ہیں۔ چاہے آپ ہمارے مطالبات مانیں یا نہ مانیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ہمیں کہا جارہا ہے، آپ کو اس لیے احتجاج نہیں کرنے دیا جارہا کیونکہ سیکیورٹی کا مسئلہ ہے۔ ہم شاہوانی اسٹیڈیم نہیں گئے اور وہاں سے انہوں نے بم برآمد کر لیا۔ ہم کوئٹہ نہیں گئے لیکن کیا وہاں تخریب کاری رکی ہے۔ دراصل حکومت ایکسپوز ہوچکی ہے اور خوف زدہ ہے۔ حکومت جانتی ہے کہ اگر ہم کوئٹہ آگئے تو ان کے کارناموں کا بھانڈا پھوڑیں گے اسی لیے انہوں نے ہمارے لیے رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔
اختر مینگل نے کہا کہ وہ حکومت جسے خود سیاست کا پتا نہیں، جنہوں نے سیاست 4 نمبر دروازے سے کی ہو، ایسے لوگ ہمیں سیاست کا درس نہ دیں۔ ہم نے اپنی تمام عمر لوگوں کے لیے عوامی سیاست کی ہے۔ اگر ہمیں سیاست کرنا ہوتی تو اس وقت کرتے جب دھاندلی کرکے فارم۔47 والوں کو ہماری نشستیں دی جارہی تھیں لیکن اس مسئلے پر کوئی بھی غیرت مند خاموش نہیں رہتا۔
ایک سوال کے جواب میں سردار اختر مینگل نے کہا کہ پارلیمان کو اس لیے خیر باد کہا کیونکہ وہاں ہماری بات نہیں سنی جارہی تھی۔ مجھے اس بات کی فکر نہیں کہ پارلیمان میں ہماری بات سنی جارہی ہے یا نہیں، مجھے ان لوگوں کی فکر تھی جنہوں نے ہمیں اپنا ووٹ دیا تھا۔ جن لوگوں نے ہم پر اعتماد کیا ہم انہیں یہ بتانا چاہتے تھے کہ ہم آپ کے مسائل پر خاموش نہیں۔
سرفراز بگٹی کے دور حکومت سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ دنیا جب ترقی کرتی ہے تو مثبت پہلو سامنے آتے ہیں۔ یہ واحد ملک ہے جہاں وقت کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ پالیسیوں میں منفی تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرفراز بگٹی کا دور ماضی کی منفی پالیسیوں کی عکاسی کرتا ہے۔
اختر مینگل نے کہا کہ ریاست کے مائنڈ سیٹ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ حکومتیں تبدیلی ہوئیں، نام نہاد جمہوری لوگ آئے، مارشل لا لگائے گئے لیکن بلوچستان کے حالات اس لیے نہیں بدل رہے کیونکہ ایک مائنڈ سیٹ نہیں بدل رہا۔ جب تک اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل نہیں کیا جائے گا تب تک حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔ اور مائنڈ سیٹ یہ ہے کہ بلوچستان کو صوبہ نہیں ایک کالونی تصور کیا جاتا ہے۔ جب اس سوچ کے تحت حکومت ہوگی تو حالات بگڑیں گے۔
اختر مینگل نے کہا کہ نواز شریف یہاں آکر کیا کریں گے ان کے ہاتھ میں کیا ہے۔ کیا ان کے پاس اختیارات ہیں۔ نواز شریف صاحب کو اگر کچھ کرنا تھا تو جس وقت الیکشن سے قبل میں نے انہیں خط لکھا تھا تو وہ تب کچھ نہیں کر سکے، جب وہ کبھی نشستیں حاصل کرنے کی امید سے تھے، اب جب وہ نہ وزیراعظم ہیں اور نہ انتخابات میں انہیں کچھ ملا۔ ہاں! نواز شریف نے اپنے اصولوں کو بلی چڑھایا جس کے نتیجے میں ان کا بھائی وزیر اعظم بنا اور بیٹی وزیر اعلیٰ بنی لیکن انہیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔