جنوبی کوریا کا چین کے برعکس امریکا پر جوابی ٹیکس عائد نہ کرنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
جنوبی کوریا کے وزیر اعظم قائم مقام صدر ہان ڈَک سو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلی فونک رابطہ کیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق جنوبی کوریا کے قائم مقام صدر ہان ڈک سو نے ٹیرف سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
جنوبی کوریا کے صدر نے صدر ٹرمپ سے ٹیرف کے معاملے پر حقائق کو سامنے رکھ فیصلہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
صدر ہان ڈک سو نے کہا کہ جنوبی کوریا امریکا کے ساتھ اپنے برادرانہ اور تجارتی تعلقات برقرار رکھنا چاہتا تھا۔
جنوبی کوریا کے صدر نے کہا کہ ان کا ملک چین کی طرح امریکا پر جوابی ٹیکس عائد کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
یاد رہے کہ آج ہی جنوبی صدر کے قائم مقام صدر نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں 21 ویں صدارتی الیکشن کا انعقاد 3 جون کو کیا جائے گا۔
ملک میں صدارتی الیکشن کے روز عام تعطیل ہوگی جب کہ صدارتی انتخابات کے مراحل کا آغاز اسی ماہ سے ہوجائے گا۔
قائم مقام صدر نے ملک میں صدارتی الیکشن کا اعلان عدالت کی جانب صدر یون سک کی برطرفی کے بعد کیا ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ حکم بھی دیا تھا کہ ملک میں نئے صدارتی الیکشن 60 روز تک کرادیے جائیں۔
عدالتی حکم کے تحت ملک میں نئے صدر کے انتخاب تک وزیراعظم ہان ڈک سو قائم مقام صدر کی ذمہ داریاں بھی سنبھایں گے۔
یاد رہے کہ عدالت نے صدر یون سک کو ملک میں مارشل لاء کے اعلان اور فوج کو پارلیمنٹ بھیجنے کے الزام میں عہدے سے برطرف کیا ہے۔
صدر یون سک نے ملک میں مارشل لا نافذ کرنے کی کوشش کی تھی جسے عوام اور ارکان پارلیمنٹ نے ناکام بنا دیا تھا۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جنوبی کوریا کے صدارتی الیکشن ملک میں کیا ہے
پڑھیں:
چین نے امریکی مصنوعات پر مزید ٹیکس عائد کردیا؛ شرح 125 فیصد تک جا پہنچی
بیجنگ(نیوز ڈیسک)ڈونلڈ ٹرمپ کی بے لگام تجارتی جنگ کے جواب میں چین نے ایک بار پھر امریکی مصنوعات پر ٹیرف عائد کردیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق چین نے امریکا سے درآمد ہونے والی اشیا پر ٹیکس کی شرح کو 125 فیصد تک پہنچا دیا ہے۔
چین کے کسٹمز ٹیرف کمیشن نے تصدیق کی ہے کہ ٹیکس میں مزید اضافہ امریکا کی جانب سے چینی مصنوعات پر محصولات کو 145 فیصد تک بڑھانے کے جواب میں کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل چین نے امریکی مصنوعات پر 84 فیصد تک محصولات عائد کیے تھے۔
ٹیرف کمیشن کا کہنا ہے کہ امریکی مصنوعات نے چینی منڈی میں اپنی مسابقت کھو دی ہے اور خبردار کیا کہ اگر واشنگٹن کی جانب سے محصولات بڑھانے کا سلسلہ جاری رہا تو یہ “عالمی معاشی تاریخ کا ایک مذاق” بن جائے گا۔
دوسری جانب امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے چین کو عالمی تجارت میں سب سے بڑا قصوروار قرار دیا اور پیشگوئی کی کہ چین کا ردعمل خود اسی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔
ادھر چین کو اندرونی معاشی سست روی کا بھی سامنا ہے۔ گولڈمین سیکس نے جمعرات کو چین کی 2025 کی جی ڈی پی کی پیشگوئی کو کم کر کے 4 فیصد کر دیا ہے، جس کی وجہ عالمی طلب میں کمی اور تجارتی دباؤ کو قرار دیا گیا۔
بینک کا مزید کہنا ہے کہ امریکی برآمدات میں کمی کے باعث چین کے 2 کروڑ مزدور متاثر ہو سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ اس ہفتے کے آغاز میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی ممالک پر عائد نئی بھاری ڈیوٹی عارضی طور پر کم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
تاہم چین کے خلاف سخت موقف برقرار رکھتے ہوئے امریکی صدر نے چینی درآمدات پر ٹیرف 104 فیصد سے بڑھا کر 125 فیصد تک کرنے کا اعلان کیا تھا۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق، اگرچہ کچھ ممالک کے لیے عارضی چھوٹ دی گئی ہے، لیکن تمام امریکی درآمدات پر 10 فیصد کی عمومی ڈیوٹی بدستور نافذ رہے گی۔