WE News:
2025-04-13@01:07:02 GMT

سیکریٹری خارجہ آمنہ بلوچ 10 اپریل کو اردن کا دورہ کریں گی

اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT

سیکریٹری خارجہ آمنہ بلوچ 10 اپریل کو اردن کا دورہ کریں گی

پاکستان اور اردن کے مابین دوطرفہ سیاسی مشاورت کے لیے سیکریٹری خارجہ آمنہ بلوچ اردن کا سرکاری دورہ کریں گی۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق سیکریٹری خارجہ 10 اپریل کو اردن میں پاکستان اردن سیاسی مشاورت کے دوسرے دور میں پاکستانی وفد کی قیادت کریں گی۔

ترجمان نے بتایا کہ دورے کے دوران پاکستان اور اردن کے مابین باہمی دلچسپی کے امور سمیت علاقائی اور عالمی صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا۔

ترجمان کے مطابق دورے کے دوران دونوں اطراف سے مختلف شعبہ جات میں تعاون کے علاوہ فلسطین کی صورتحال پر بھی بات چیت ہوگی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اردن دورہ ترجمان دفتر خارجہ دفتر خارجہ دوطرفہ سیاسی مشاورت سیکریٹری خارجہ وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ترجمان دفتر خارجہ دفتر خارجہ دوطرفہ سیاسی مشاورت سیکریٹری خارجہ وی نیوز سیکریٹری خارجہ

پڑھیں:

علحیدگی پسند اور مزاحمتی تحریکیں کیا ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں یا ایک دوسرے سے قطعی الگ؟

علیحدگی پسند تحریک

علیحدگی پسند تحریکوں کا مقصد کسی مخصوص علاقے، قوم، نسل، یا مذہبی گروہ کے لیے ایک علیحدہ خودمختار ریاست کا قیام یا کسی دوسرے ملک سے الحاق ہوتا ہے۔ موجودہ ریاست سے علیحدگی ان کا بنیادی مقصد ہوتا ہے۔ یہ تحریکیں بعض اوقات سیاسی مذاکرات، ریفرنڈم اور دیگر قانونی ذرائع اپناتی ہیں، جبکہ بعض صورتوں میں مسلح جدوجہد ان کا نصب العین ہوتی ہے۔

مزاحمتی تحریک

دوسری جانب مزاحمتی تحریکیں ریاستی جبر، قبضے، یا ناانصافی کے خلاف جدوجہد کے لیے چلائی جاتی ہیں۔ ان کا مقصد علیحدگی نہیں بلکہ آزادی، حقوق کی بحالی یا غیر پسندیدہ عناصر کے خلاف مزاحمت کرنا ہوتا ہے۔

مزاحمتی تحریکیں عام طور پر اس بنیاد پر عوامی پذیرائی پاتی ہیں کہ متعلقہ قوم یا نسل کو اپنے سیاسی، ثقافتی، لسانی یا معاشی حقوق پورے طور پر نہیں مل رہے ہوتے یا موجودہ ریاستی ڈھانچے میں وہ خود کو کمتر یا غیر مطمئن محسوس کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

دنیا میں علیحدگی پسند اور مزاحمتی تحریکوں کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ اگرچہ ان کی شکل اور مقاصد وقت کے ساتھ بدلتے رہے ہیں، لیکن بنیادی اصول ہمیشہ ایک جیسے رہے ہیں، یعنی سیاسی خودمختاری، آزادی، اور ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت۔

زمانہ قدیم میں رومی سلطنت کے خلاف اسپارٹیکس جیسی بغاوتیں ہوں یا چین اور دیگر علاقوں میں قبائلی بغاوتیں۔

13ویں صدی میں اسکاٹ لینڈ کی آزادی کی تحریک ہو یا صلیبی جنگوں کے خلاف مزاحمت، امریکہ کی برطانوی تسلط سے آزادی یا فرانسیسی انقلاب کا برپا ہونا۔ ویت نام کی آزادی کے لیے جنگیں ہوں یا فلسطین و کشمیر میں جاری مزاحمتی تحریکیں،1857 کی جنگِ آزادی یا برطانوی سامراجیت کے خلاف برصغیر کی تحریک آزادی کا ڈنکا بجنا ہو۔ ہر تحریک کے پیچھے طاقت ور حلقوں کا جبر، ملکی وسائل پر قبضہ، مقتدرہ حلقوں کی عوام کے پیسے پر عیاشیاں اور بدمعاشیاں اور غیرانسانی سلوک نمایاں محرکات ہوتے ہیں۔

حال ہی میں "بلوچ یکجہتی کمیٹی" کی دو رہنماؤں ماہ رنگ بلوچ اور سمی بلوچ کی گرفتاری کے بعد بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کا المناک مسئلہ ایک بار پھر شدت اختیار کر گیا ہے۔ سمی بلوچ کو ایک ہفتے کی قید کے بعد رہا کر دیا گیا، مگر ڈاکٹر ماہ رنگ تاحال ریاستی تحویل میں ہیں۔ ریاستِ پاکستان ان خواتین کو بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) سے منسلک کرنے پر مُصر ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں نوجوان خواتین بلوچستان کی ان ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی آواز ہیں، جن کے بھائی، شوہر اور بیٹے یا تو لاپتا کر دیے گئے ہیں یا ان کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہو چکی ہیں۔

یہ خواتین درحقیقت انسانی حقوق کی وہ علمبردار ہیں جو انصاف اور بنیادی حقوق کی بحالی کا مطالبہ کر رہی ہیں کیونکہ دونوں ہی المناک حادثات سے گزر چکی ہیں۔ سن 80 میں رسول بخش پلیجو کی سربراہی میں جنرل ضیاء کی آمریت کے خلاف ''سندھیانی تحریک‘‘ پاکستانی خواتین کی پہلی ایسی تحریک تھی، جس میں ہزاروں عورتوں نے حصہ لیا اور اب بلوچ خواتین کی یہ مزاحمتی تحریک اپنے پیاروں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف پاکستان کی سب سے بڑی تحریک بن کر ابھری ہے، جس میں 10 سال کی بچیوں سے لے کر 80 سال کی عمر رسیدہ خواتین تک شامل ہیں۔

جب کسی ریاست کے کسی خطے میں علیحدگی پسند یا مزاحمتی تحریک جنم لیتی ہے، تو یہ ایک واضح اشارہ ہوتا ہے کہ ریاست وہاں کے عوام کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بلوچستان کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ یہ خطہ، جو زیرزمین معدنیات سے مالا مال ملک کا سب سے خوش حال صوبہ ہو سکتا تھا لیکن پچھلے 75 سال سے بدترین معاشی حالات، غربت اور بنیادی سہولتوں کے فقدان کا شکار ہے۔

بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک، جو روز بروز پرتشدد ہوتی جا رہی ہے اس کی شروعات کب، کیسے اور کیوں ہوئی اسے سمجھنا بے حد ضروری ہے ـ

جیسا کہ عمومی طور پر یہ رائے پائی جاتی ہے کہ بلوچستان کی پسماندگی کا اصل سبب وہاں کے سردار ہیں، تو بظاہر یہ جواز کسی حد تک درست محسوس ہوتا ہے مگر یہ مکمل حقیقت ہرگز نہیں۔ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو برطانوی سامراج نے بھی اپنی عمل داری اور مفادات کو مستحکم رکھنے کے لیے انہی سرداروں، وڈیروں اور زمینداروں سے مفاہمت کی اور یوں اقتدار کی گاڑی کو آگے بڑھایا۔

بدقسمتی سے وہی نوآبادیاتی طرزِ حکمرانی آج بھی جاری و ساری ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ بلوچستان کے کہنہ مشق، صاحبِ بصیرت سیاست دان میر غوث بخش بزنجو پاکستان کے ساتھ الحاق کے حامی نہ تھے تاہم جب بلوچستان کو پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا تو انہوں نے نہایت دیانت داری سے جمہوری عمل کا احترام کیا اور کسی علیحدگی پسند تحریک کا حصہ بننے سے گریز کیا اور مرتے دم تک اس موقف پر قائم رہے۔

بلوچستان میں پنجابیوں یا دیگر غیر مقامی اقوام کے خلاف پائے جانے والے ردِ عمل کو سمجھنے کے لیے لازم ہے کہ 'ون یونٹ‘ کا ذکر کریں۔ 1955 میں ون یونٹ کے قیام نے جہاں مغربی پاکستان میں بسنے والی چھوٹی قوموں کو بے حد نقصان پہنچایا وہیں بلوچستان میں بھی احساسِ محرومی کو جنم دیا۔ اس سے قبل بلوچستان ایک مکمل صوبہ نہ تھا بلکہ برطانوی اور ریاستی بلوچستان پر مشتمل ایک نیم خودمختار خطہ تھا۔

ون یونٹ کے قیام کے بعد جب مغربی پاکستان کا دارالحکومت لاہور قرار پایا تو بلوچستان کے عوام کو اپنے مسائل کے حل کے لیے مقامی نمائندوں کی بجائے دور دراز مرکز کی جانب دیکھنا پڑا۔

اسی دوران ریاستی مشینری میں غیر مقامی افراد، بالخصوص پنجاب اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھرتی شروع ہوئی، جو بعد ازاں بلوچستان کے ہر شعبے پر حاوی ہو گئے۔

جب سکیورٹی کے اداروں یعنی سول و عسکری بیوروکریسی، پولیس اور دیگر ایجنسیوں میں بھی مقامی افراد کی جگہ باہر سے آئے ہوئے لوگ تعینات ہونے لگے، تو بلوچ عوام کے دلوں میں اجنبیت اور محرومی کا احساس مزید گہرا ہوتا گیا۔ آج بلوچستان کے ہر شہر، ہر گلی، ہر موڑ پر سکیورٹی کے نام پر قائم چیک پوسٹوں پر تعینات غیر مقامی اہلکار جب مقامی بلوچوں سے ان کی شناخت طلب کرتے ہیں، تو یہ نہ صرف ان کی قومی شناخت بلکہ ان کی عزتِ نفس پر بھی سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔

بلوچستان کی مزاحمتی تحریک کی جڑیں بھی اسی عدم مساوات، اجنبیت اور استحصال میں پیوست ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ جس سرزمین سے گیس نکلی، وہاں کے باسی آج بھی لکڑیاں جلا کر چولہا گرم کرتے ہیں۔ سوئی کی گیس نے بڑے شہروں کو تو توانائی دی، مگر سوئی خود توانائی کی کمی کا شکار رہا ۔

بلوچستان کے قدرتی وسائل، خصوصاً ریکوڈک اور سیندک، مقامی ترقی کا ذریعہ بننے کے بجائے استحصالی پالیسیوں کی نذر ہو گئے۔

جب وسائل پر قابض قوتیں مقامی آبادی کو اعتماد میں لیے بغیر خفیہ معاہدے کرتی ہیں، تو یہ منصوبے عوامی فلاح نہیں بلکہ ریاستی جبر کی علامت بن جاتے ہیں تاہم، ان منصوبوں میں مقامی شرکت کے فقدان اور ریاستی سطح پر شفافیت کی کمی پر جب بلوچ عوام نے آواز اٹھائی تو انھیں لاپتا کر کے یا مسخ شدہ لاشیں پھینک کر ان آوازوں کو دبانے کی کوشش کی گئی۔

لیکن اب ماہ رنگ بلوچ اور سمی بلوچ کی صورت میں بلوچوں کو عوامی رہمنا میسر آئیں ہیں اور یہ تحریک اب بلوچستان ہی نہیں پاکستان میں عورتوں کی سب سے بڑی مزاحمتی تحریک بن چکی ہے، جس کے آگے ریاستی ہتھکنڈے بھی اب کوئی بند نہیں باندھ پارہے ہیں۔

وقت کا تقاضا ہے کہ ریاستی و حکومتی ادارے بلوچستان کے حقیقی عوامی و سیاسی نمائندوں کو قومی سیاسی دھارے میں شامل کریں اور ان کے ساتھ سنجیدہ و بامقصد گفت و شنید کا آغاز کریں۔

بلوچستان کے عوام طویل عرصے سے محرومیوں کا شکار ہیں، جنہیں دور کرنے کے لیے بنیادی انسانی، سماجی و اقتصادی حقوق کی فوری اور منصفانہ فراہمی ناگزیر ہے۔

حالات کا تقاضا ہے کہ لاپتا افراد کے مسئلے کو شفاف قانونی طریقے سے حل کیا جائے۔ اگر کوئی فرد کسی تخریبی یا دہشت گردانہ سرگرمی میں ملوث ہے تو اسے قانون کے مطابق عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ عدالتی عمل کے ذریعے سچ سامنے آ سکے۔

امن و امان کی بحالی اور دیرپا استحکام کے لیے ضروری ہے کہ طاقت کے استعمال کے بجائے مفاہمت، مکالمے اور سیاسی شعور کو فروغ دیا جائے۔ بلوچستان کے مسائل کا حل طاقت سے نہیں، بلکہ افہام و تفہیم اور سنجیدہ سیاسی عمل کے ذریعے ہی ممکن ہے اور یہی ملک میں پائیدار امن اور ترقی کی بنیاد بن سکتا ہے۔

دوسری اہم ضرورت دہشتگردی کا خاتمہ ہے چاہے وہ مذہبی بنیاد پر ہو یا قومیت کے نام پر۔

عام شہریوں کی ہلاکت اور دہشت گردی کی مذمت بلوچ عوام اور ان کے رہنماؤں کو بھی کرنی چاہیے کیونکہ دشت گردی کا شکار ہمیشہ معصوم اور بے قصور لوگ ہی بنتے ہیں۔ بی ایل اے کی حالیہ دہشت گردانہ کارروائیوں کی یک زبان ہو کر مذمت کرنا بھی ضروری ہے۔

امن و امان کی بحالی اور دیرپا استحکام کے لیے ضروری ہے کہ طاقت کے استعمال کے بجائے مفاہمت، مکالمے اور سیاسی شعور کو فروغ دیا جائے۔

بلوچستان کے مسائل کا حل طاقت سے نہیں، بلکہ افہام و تفہیم اور سنجیدہ سیاسی عمل کے ذریعے ہی ممکن ہے اور یہی ملک میں پائیدار امن اور ترقی کی بنیاد بن سکتا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاک اردو مشاورتی اجلاس، اسرائیلی جارحیت کی مذمت
  • پی ٹی آئی سیاسی کمیٹی کا مائنز اینڈ منرلز بل کی منظوری عمران خان کی اجازت سے مشروط
  • سیاسی کمیٹی نے مائنز اینڈ منرلز بل کی منظوری بانی پی ٹی آئی سے مشاورت سے مشروط کردی
  • چینی صدر ویت نام، ملائیشیا اور کمبوڈیا کا سرکاری دورہ کریں گے ، چینی وزارت خارجہ
  • تعلیمی ویزوں کی معطلی کے حوالے سے امریکا کے ساتھ رابطے میں ہیں.ترجمان دفترخارجہ
  • یو اے ای میں پاکستانی ویزوں پر مکمل پابندی نہیں، ترجمان دفتر خارجہ
  • علحیدگی پسند اور مزاحمتی تحریکیں کیا ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں یا ایک دوسرے سے قطعی الگ؟
  • امریکا کی جانب سے ٹیرف نفاذ پر پاکستان کا ردعمل سامنے آگیا
  • امریکا کی جانب سے ٹیرف نفاذ پر پاکستان کا ردعمل سامنے آگیا
  • وزیر اعظم شہباز شریف 10 تا 11 اپریل بیلاروس کا دورہ کریں گے، ترجمان دفترخارجہ