کراچی اس وقت بارود کے ڈھیر پر آباد شہر ہے، خالد مقبول صدیقی
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
ایم کیو ایم کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ کراچی سندھ کے خزانے میں 90 فیصد سے زائد ٹیکس جمع کراتا ہے۔ سندھ کے عوام کی 14 سال سے تعلیمی اور معاشی نسل کشی کی جارہی ہے۔ کراچی کے امن کے لیے جس حد تک کردار ادا کرسکتے تھے ہم نے کیا۔ کراچی اس وقت بارود کے ڈھیر پر آباد شہر ہے۔
مزید پڑھیں: ایم کیو ایم کے حکمران اتحاد سے نکلنے کے اشارے، خالد مقبول اور فاروق ستار کی حکومت پر کڑی تنقید
کراچی میں ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 15 سال سے جمہوریت کا بوجھ اپنے سینے پر اٹھا کر رکھا ہے۔ کراچی میں غیر قانونی ڈمپرز کو شہر میں چلنے کی اجازت نہیں۔ کراچی کے حالات آج پھر خراب ہو رہے ہیں۔ مردم شماری آدھی سے بھی کم دکھائی جاتی رہی۔ پہلے آدھی آبادی لاپتا کی گئی پھر ووٹرلسٹ سے نام غائب کیے گئے۔ قانون نافذ کرنے والے اور توڑنے والے دونوں غیر قانونی ہیں۔
مزید پڑھیں: کراچی کو چلانے کے لیے ایم کیو ایم کے علاوہ ملک کے پاس کوئی آپشن نہیں، خالد مقبول صدیقی
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ نوکریوں میں کوٹہ سسٹم کی ہمیشہ مخالفت کی۔ 50 سال سے ہماری سیاسی سپیس کو کم سے کم کیا گیا۔ کراچی میں تسلسل کے ساتھ غیر قانونی ڈمپرز چل رہے ہیں، ڈمپرز کے 100 فیصد مالکان اور ڈرائیورز غیر مقامی ہیں۔ بشریٰ زیدی واقعہ کے بعد کراچی کا منظر نام تبدیل ہوا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایم کیو ایم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی ڈاکٹر فاروق ستار کراچی مصطفٰی کمال.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایم کیو ایم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی ڈاکٹر فاروق ستار کراچی مصطف ی کمال خالد مقبول صدیقی ایم کیو ایم
پڑھیں:
سندھ کے وزیر اطلاعات کو ایوان صدر کی بڑی میٹنگ کے منٹس سے بے خبر نہیں ہونا چاہیے ،ناصربٹ
اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) کے رہنما و سینٹ کی مجلس قائمہ ہاؤسنگ کے چیئرمین سینیٹر ناصر بٹ کہاہے کہ سندھ کے وزیر اطلاعات کو ایوان صدر کی بڑی میٹنگ کے منٹس سے بے خبر نہیں ہونا چاہیے ، بلیم گیم کے بجائے حقائق پر بات ہونی چاہیے۔
سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن کے بیان پر ردعمل کااظہارکرتے ہوئے ناصربٹ نے کہاکہ غصے کے بجائے سینیٹر عرفان صدیقی کے اس سوال کا جواب دینا چاہیے تھا کہ 8 جولائی 2024 سے14 مارچ 2025 تک پیپلز پارٹی نہروں کے معاملے پر چپ کیوں رہی؟ سینیٹر عرفان صدیقی نے ریکارڈ کی بات کی ہے کہ پیپلز پارٹی کی سندھ اسمبلی میں قرارداد 14 مارچ کو آئی جس سے پہلے انہوں نے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا تھا
8 جولائی کو جو کچھ منظور ہوا، صدر محترم کی آشیر باد اور دعاؤں سے ہوا ، ایوان صدر کے خط کے بعد ارسا نے منصوبے پر کام آگے بڑھایا، خط لکھنے کے بعد خود ہی اس پر احتجاج کا کیا جواز بنتا ہے؟
انہوں نے کہاکہ سینیٹر عرفان صدیقی نے نہروں کے معاملے پر ٹائم لائن دیکھنے کی بات کی تھی، اسے پڑھ کر جواب دیتے تو مناسب ہوتا ، سندھ کے وزیر اطلاعات کو ایوان صدر کی بڑی میٹنگ کے منٹس سے بے خبر نہیں ہونا چاہیے ، بلیم گیم کے بجائے حقائق پر بات ہونی چاہیے