سابق کرکٹر باسط علی نے سلیکشن کمیٹی سے فوری مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کردیا۔

اپنے یوٹیوب چینل پر گفتگو کرتے ہوئے دورہ نیوزی لینڈ کے دوران بدترین شکستوں پر سابق کرکٹر باسط علی نے سلیکشن کمیٹی کے فوری طور پر مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کیا۔

انکا کہنا تھا کہ مجھے لگتا ہے کہ علیم ڈار، عاقب جاوید، اسد شفیق، اظہر علی اور حسن چیمہ پر مشتمل سلیکشن کمیٹی کو ٹیم تشکیل دینے میں مہارت ہی حاصل نہیں، انہیں فوری طور پر عہدے چھوڑ دینے چاہیں۔

مزید پڑھیں: بدترین شکستوں پر چیئرمین پی سی بی سے استعفیٰ مانگ لیا، مگر کس نے؟

سابق کرکٹر نے کہا کہ سلیکشن کمیٹی میں موجود اراکین کو نہیں معلوم کہ ٹیم کیسے تیار کی جاتی ہے، چیمپئینز ٹرافی سے اب تک سب فلاپ شو رہا، ایک ٹماٹر بیچنے والا بھی پوچھتا ہے کہ آپ نے چیمپئنز ٹرافی کیلیے ٹیم میں اسپنرز کیوں شامل نہیں کیے۔

مزید پڑھیں: پاکستان 12 کھلاڑیوں کیساتھ کھیل کر بھی ہار گیا، مگر کیسے؟

باسط علی نے کہا کہ عاقب جاوید کو بھی مستعفی ہونا چاہیے، اگر یہ لوگ مزید 4 ماہ رہے تو پھر ہم بنگلہ دیش سے بھی آنے والی سیریز ہار جائیں گے۔

مزید پڑھیں: بدترین شکستیں؛ پاکستان جلد "ایسوسی ایٹ ملک" بننے والا ہے؟

واضح رہے کہ آئندہ برس شیڈول ٹی20 ورلڈکپ کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان نے دورہ نیوزی لینڈ کے ٹی20 لیگ میں نوجوان کھلاڑیوں کو موقع دیا، بابراعظم اور محمد رضوان جیسے پلیئرز کو باہر بٹھایا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: حارث کی جگہ نسیم بیٹنگ کیلئے کیسے آئے؟

دوسری جانب نیوزی لینڈ نے بھی اپنے اسٹارز کی آئی پی ایل کے باعث عدم دستیابی کی وجہ سے ینگسٹرز کو ہی کھلایا، جنھوں نے گرین شرٹس کو 5 ٹی20 میچز کی سیریز میں 1-4 سے جبکہ ون ڈے سیریز میں رضوان اور بابراعظم کی موجودگی میں سینئرز سے عاری کیوی ٹیم وائٹ واش کیا تھا۔

قبل ازیں سابق وکٹ کیپر بیٹر کامران اکمل نے قومی ٹیم کی مسلسل ناکامیوں پر چیئرمین پی سی بی محسن نقوی سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سلیکشن کمیٹی مزید پڑھیں

پڑھیں:

داسو منصوبہ 240 فیصد مہنگا، ذمہ داری کسی فرد یا ادارے پر نہیں ڈالی گئی

اسلام آباد:

ایک سرکاری انکوائری میں داسو ہائیڈرو پاور پرو جیکٹ کی لاگت میں 240 فیصد کے اضافے کرکے اسے 6.2 ارب ڈالر تک لانے کی ذمہ داری کسی ایک فرد یا ادارے پر نہیں ڈالی گئی بلکہ چینی کنٹریکٹرز، واپڈا اور پلاننگ کمیشن کی طرف اشارہ کیا گیا۔

تین رکنی کمیٹی نے زمین کے حصول میں تاخیر کا ذمہ دار ضلع کوہستان کی مقامی انتظامیہ کو بھی ٹھہرایا۔ رپورٹ میں کہا گیا چینی کنٹریکٹرز پر دو مہلک حملوں کے بعد حفاظتی انتظامات میں اضافہ کی وجہ سے لاگت میں 48 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔

مجموعی لاگت میں سکورٹی انتظامات کا اثر بمشکل 3.8 فیصد رہا۔ رپورٹ میں کہا گیا مختلف عوامل اور غیر متوقع چیلنجز کے پیچیدہ تعامل نے داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کو نہ صرف 10سال تاخیر کا شکار کردیا بلکہ اس کی لاگت میں 1.3ٹریلین روپے یا 240فیصد اضافہ بھی کردیا۔

مزید پڑھیں: داسو ہائیڈرو پاور منصوبے کی لاگت میں ایک کھرب سے زائد کا اضافہ

ڈالر کے حساب سے لاگت میں یہ اضافہ 6.2 بلین ڈالر ہے۔ اس طرح 2160میگا واٹ کے اس پروجیکٹ کی قیمت غیر معقول حد تک 1.74ٹریلین روپے تک پہنچ گئی۔

کمیٹی نے کہا کہ چینی کنٹریکٹر نے کنسلٹنٹس کی ہدایات کو نظر انداز کیا۔ مقامی انتظامیہ بروقت اراضی حاصل نہیں کرسکی اور سب سے اہم واپڈا نے کنٹریکٹرز کی جانب سے مطلوبہ اراضی کی دستیابی کو یقینی بنائے بغیر تعمیراتی ٹھیکے دے دیے۔

کمیٹی نے واپڈا کے کسی چیئرمین یا کسی بھی اعلیٰ افسر کا نام لے کر ذمہ داری طے نہیں کی ۔ پلاننگ کمیشن کو زمین کے حصول اور آباد کاری کے مسائل حل کرنے میں کوتاہی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: عالمی بینک داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کیلیے ایک ارب 58 کروڑ ڈالر کی مالی معاونت فراہم کر رہا ہے

وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی سربراہی میں سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی نے جمعہ کو داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کی مشروط منظوری کی سفارش کی ۔

تین رکنی کمیٹی کی رپورٹ کے نتائج میں کہا گیا کہ یہ ایک قابل غور رائے ہے کہ داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ (مرحلہ-1) میں تاخیر عوامل کے پیچیدہ تعامل کا نتیجہ ہے۔ دسمبر میں حکومت نے 2019میں لاگت میں کی گئی پہلی نظرثانی کے بعد اس کی وجوہات کی نشاندہی کرنے اور اس منصوبے کو مکمل کرنے میں ناکامی کی ذمہ داری طے کرنے کے لیے انکوائری کا حکم دیا تھا۔ انکوائری کمیٹی کی سربراہی سول انجینئر اطہر حمید کر رہے تھے۔

دیگر ارکان میں وزارت آبی وسائل کے ڈائریکٹر مانیٹرنگ سید ایاز محمد حیدر اور وزارت کے پروکیورمنٹ ایکسپرٹ عمران نجم بھی شامل تھے۔ انکوائری نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تعمیراتی تاخیر غیر متوقع اہم انتظامی چیلنجوں اور حصول اراضی، معاوضے کی ادائیگی اور آباد کاری کے عمل میں طریقہ کار کی رکاوٹوں کی وجہ سے بڑھ گئی ہے۔

مزید پڑھیں: توانائی کی ضروریات داسو پراجیکٹ انتہائی اہم چیئرمین واپڈا

غیر متوقع تکنیکی چیلنجز نے پراجیکٹ پر عمل درآمد کے شیڈول کو مزید پریشان کر دیا ہے۔ کمیٹی کے مطابق کمیونٹی کی شکایات اور مزاحمت پر مبنی سماجی مسائل نے پیش رفت کو مزید سست کر دیا۔

انکوائری کمیٹی نے مزید کہا کہ کنٹریکٹرز اور کنسلٹنٹس کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان، پراجیکٹ ایریا میں سیکیورٹی چیلنجز اور دشوار گزار علاقے، غیر متوقع ارضیاتی حالات اور سیلاب جیسی قدرتی وجوہات نے بھی تاخیر میں اضافہ کیا۔

رابطہ کرنے پر وزارت آبی وسائل کے سیکرٹری سید علی مرتضیٰ نے کہا کہ انکوائری چیف انجینئرنگ ایڈوائزر نے کی تھی جو ایک خود مختار ادارہ ہے اور اس طرح کی انکوائری کرنے کے لیے ہے۔

سیکرٹری نے مزید کہا کہ انکوائری کمیٹی کو پتہ چلا کہ لاگت میں 85 فیصد اضافہ قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہوا اور باقی 15 فیصد منصوبے کے دائرہ کار اور ڈیزائن میں تبدیلی کی وجہ سے ہوا۔ انکوائری کمیٹی نے کہا منصوبے کی کامیابی کا انحصار ایسے باہمی تعاون پر ہے جو وفاقی حکومت، خیبر پختونخوا حکومت ، کوہستان کی ضلعی انتظامیہ، واپڈا، کنٹریکٹرز، کنسلٹنٹس اور مقامی کمیونٹیز کے درمیان صف بندی اور تعاون کو فروغ دیتا ہو۔

مزید پڑھیں: داسو ہائیڈرو پاور منصوبہ تین سالہ تاخیر کا شکار 2028ء میں مکمل ہوگا وزارت اقتصادی حکام

کمیٹی نے خاص طور پر 132کے وی ٹرانسمیشن لائن پر سماجی مسائل کو فعال طور پر حل کرنے اور تکنیکی، سماجی اور سکیورٹی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایک مضبوط انتظامی حکمت عملی کو نافذ کرنے کی تجویز بھی پیش کی۔

تاہم یہ وہ مسائل ہیں جن کو 2014 میں پورا کیا جانا چاہیے تھا۔ منصوبے کا پی سی ون 2014میں منظور کیا گیا اور اس کی لاگت 486ارب روپے رکھی گئی۔ منصوبے کی تکمیل کا وقت 2019رکھا گیا۔ زمین کی بڑھتی شرح کی وجہ سے اکتوبر 2019 میں لاگت کو 511 بلین روپے تک بڑھا دیا گیا اور اس پر عمل درآمد جون 2024 تک بڑھا دیا گیا۔

جنوری 2025 کی انکوائری رپورٹ کے مطابق اسٹیج ون کے لیے مرکزی سول ورک کنٹریکٹر میسرز چائنا گیزوبا گروپ کمپنی (سی جی جی سی) کا تھا ، نگرانی جاپان کے میسرز نیپون کوئی اور ترکی کے میسرز ڈولسر کے جوائنٹ وینچر کو دی گئی۔

مزید پڑھیں: اہم سنگ میل داسو ہائیڈرو پروجیکٹ کیلئے دریائے سندھ کا رخ موڑ دیا گیا

ساتھ ہی میسرز ڈی ایم سی، میسرز این ڈی سی اور میسرز پی ای ای ایس کا تعاون شامل کیا گیا تھا۔ جنوری تک منصوبے کی مجموعی پیشرفت 23.3 فیصد اور مالیاتی پیشرفت 23 فیصد تھی۔ دوسری نظرثانی پر انکوائری رپورٹ نے بتایا کہ اس منصوبے کو بنیادی طور پر ورلڈ بینک، مقامی اور غیر ملکی کمرشل بینکوں اور واپڈا ایکویٹی کے ذریعے فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں۔

منصوبے پر اب تک 317 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ 1.73 ٹریلین روپے کی کل لاگت میں لیے جانے والے قرضوں پر 479 ارب روپے کا سود شامل ہے۔

متعلقہ مضامین

  • داسو منصوبہ 240 فیصد مہنگا، ذمہ داری کسی فرد یا ادارے پر نہیں ڈالی گئی
  • بابراعظم، نسیم، صائم اور اعظم؛ کس سے شادی کرنا چاہتی ہیں؟
  • پی ایس ایل کی افتتاحی تقریب؛ دلکش تصاویر وائرل، راکٹ مین کے چرچے
  • پی ٹی آئی سیاسی کمیٹی کا مائنز اینڈ منرلز بل کی منظوری عمران خان کی اجازت سے مشروط
  • 200 سے زائد رنز کا ہدف؛ بابر، رضوان خاموش! شاہین نے جواب دے ڈالا
  • پی ایس ایل10؛ فاتح ٹیم کو کتنی انعامی رقم ملے گی؟
  • کچھ امیدیں زندہ رکھنا چاہتا ہوں شاید ایک موقع اور مل جائے، سرفراز احمد
  • دہشتگردی و منشیات کیخلاف اقدامات کو مزید بہتر کیا جائے گا: وزیرِ اعلیٰ سندھ
  • کرکٹ کی اولمپکس میں واپسی؛ 2028 میں 6 ٹیمیں حصہ لیں گی
  • تحریک انصاف میں قیادت کا مسئلہ چل رہا ہے، آغا رفیع اللہ