ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کا تنازع کیس سماعت کےلیے مقرر
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز کی درخواست سپریم کورٹ میں سماعت کیلئے مقرر کر دی گئی۔
نجی ٹی وی سما نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کے ٹرانسفر اور سنیارٹی تنازع سے متعلق کی سماعت سپریم کورٹ کا پانچ رکنی آئینی بینچ 14 اپریل کو کرے گا۔
ججز کے تبادلے کے خلاف تمام درخواستیں بھی سماعت کے لیے ساتھ ہی مقرر کی گئی ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ 14 اپریل کو کیس کی سماعت کرے گا۔
بینچ میں جسٹس نعیم افغان، جسٹس شاہد بلال، جسٹس صلاح الدین پنور اور جسٹس شکیل احمد شامل ہیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی سمیت پانچ ججز نے ججز کے تبادلے کو چیلنج کیا تھا۔
9 مئی احتجاج یا ریلی نہیں، ادارے پر حملہ تھا؛رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
گلگت بلتستان میں ججز تعیناتی کا معاملہ، سپریم کورٹ کا میرٹ پر سماعت کا فیصلہ
گلگت بلتستان کی اعلیٰ عدلیہ میں ججز تعیناتی سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے کی، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور ایڈوکیٹ جنرل گلگت بلتستان عدالت میں پیش ہوئے۔
ایڈوکیٹ جنرل گلگت بلتستان آرڈر 2018 پڑھ کر سنایا اور عدالت سے مشروط طورپر اپنی درخواست واپس لینے کی استدعا کی، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آرڈر 2018 کے تحت تو ججز کی تعیناتی وزیر اعلیٰ اور گورنر کی مشاورت سے کرنے کا ذکر ہے، گلگت بلتستان میں ججز تعیناتی کا طریقہ کار کیا ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم گورنر کی ایڈوائز ماننے کا پابند نہیں ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ اس کا مطلب ہے وزیر اعظم جو کرنا چاہے کرسکتے ہیں تو ون مین شو بنا دیں۔
یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان کے لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ انکی آئینی حیثیت کیا ہے، چیف جسٹس پاکستان
ایڈوکیٹ جنرل گلگت بلتستان کا موقف تھا کہ اسٹے آرڈر کی وجہ سے ججز کی تعیناتی کے معاملہ رکا ہوا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اسٹے آرڈر ختم کردیتے ہیں آپ مشاورت سے ججز تعینات کریں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون سازی کر کے اس معاملے کو حل کیوں نہیں کرتی، اٹارنی جنرل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ مجوزہ آرڈر 2019 کو ترمیم کر کے ججز تعیناتی کروا سکتی ہے، اس موقع پر اسد اللہ خان ایڈووکیٹ کا موقف تھا کہ آرڈر 2018 کو نہیں مانتے کیونکہ سپریم کورٹ کے 7 رکنی بنچ نے 2020 میں جو فیصلہ دیا اس پر عملدرآمد کریں۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو گلگت بلتستان میں ججز کی تعیناتی سے روک دیا
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ2019 کا مجوزہ آرڈر ہے اسے پارلیمنٹ لے جائیں اور قانون سازی کریں، جس پر اٹارنی جنرل بولے؛ ہم نے مجوزہ آرڈر 2019 نہ بنایا نہ اسے اون کرتے ہیں۔
اسد اللہ خان ایڈووکیٹ نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان میں نگراں حکومت کے لیے تو یہ مانتے ہیں لیکن ججز تعیناتی کے لیے نہیں مانتے، ایڈوکیٹ جنرل گلگت بلتستان نے بتایا کہ ججزکی عدم تعیناتی کے باعث گلگت بلتستان کی سپریم اپیلیٹ کورٹ میں 8 ہزار کیسز زیر التوا ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ اس وقت گلگت بلتستان میں آرڈر 2108 ان فیلڈ ہے، اگر وفاق کو مجوزہ آرڈر 2019 پسند نہیں تو دوسرا بنا لے لیکن کچھ تو کرے، مجوزہ آرڈر 2019 مجھے تو مناسب لگا اس پر قانون سازی کرے یا پھر دوسرا مرتب کرلیں۔
مزید پڑھیں: گلگت بلتستان میں ججوں کی تقرری، وفاقی حکومت اور اٹارنی جنرل کونوٹس
جسٹس امین الدین خان نے آرڈر 2018 کے تحت ججز تعینات کرنے کا مشورہ دیا جس پر اٹارنی جنرل نے گلگت بلتستان میں مشروط طور پر ججز کی تعیناتی کی مخالفت کی۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں انصاف کی فراہمی میں تعطل ہے ہم چاہتے ہیں ججز تعینات ہوں، اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ مستقبل میں 2018 کے تحت ججز تعیناتی وفاقی حکومت کو سوٹ کرتی ہے،
اسد اللہ خان ایڈووکیٹ کا موقف تھا کہ گلگت بلتستان میں 5 میں سے 4 ججز کی تعیناتی پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن ایک جج کی تعیناتی سیکشن 34 کے تحت نہ ہونے پر ہمیں اعتراض ہے۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے کیس کی میرٹ پر سماعت کا فیصلہ کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئینی بینچ اپیلیٹ کورٹ اٹارنی جنرل اسد اللہ خان ایڈووکیٹ پارلیمنٹ جسٹس امین الدین خان سپریم کورٹ قانون سازی گلگت بلتستان