کراچی کا وہ بدقسمت حلقہ جس کی قسمت 2 وفاقی وزرا بھی نہ بدل سکے
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
مجموعی طور پر ترقیاتی کاموں کے اعتبار سے پاکستان کا ایسا کوئی ماڈل حلقہ اس وقت نہیں جس کی مثال سامنے رکھ کر دوسرے حلقوں کا جائزہ لیا جاسکے لیکن اتنا ضرور ہو سکتا ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کا حلقہ انتخاب ہونے کے باعث اہمیت حاصل کرنے اور گزشتہ 6 سال میں 2 وفاقی وزرا دینے والا حلقہ ہونے کے باوجود وہ کس حال میں یہ آپ کو بتاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بنیادی سہولیات سے محروم کراچی کا پسماندہ علاقہ جو گولڈ میڈلسٹس پیدا کر رہا ہے
یہ کہانی ہے کراچی کے بلدیہ ٹاؤن کی یا قومی اسمبلی ہے حلقہ 242 کی جو ہر بار اہمیت تب اختیار کرتا ہے جب عام انتخابات ہوتے ہیں کیوں کہ اس حلقہ انتخاب میں پاکستان مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک ہونے کے باعث میاں محمد شہباز شریف میدان میں ہوتے ہیں، دوسری جانب فیصل واوڈا اس حلقے سے جیت کر وفاقی وزیر بن چکے ہیں اور اب مصطفیٰ کمال بھی یہیں سے جیت کر وفاقی وزیر بنے ہیں۔
بلدیہ ٹاؤن اور حلقہ 242 کی خوش قسمتی یہ ہے کہ یہ حب ڈیم کی قریب ترین آبادی ہے لیکن پھر بھی اس کی بدقسمتی ہے کہ اس علاقے کہ زیادہ تر حصے کو پانی میسر نہیں ہے جیسے کہ گلشن غازی، عابد آباد، رشید آباد، سوات کالونی، لاسی پاڑہ، میاں والی پاڑہ اور غرض یہ کہ اس حلقے کا زیادہ حصہ پانی کی نعمت سے محروم ہے اور اب تو صورت حال یہ کہ یہاں پانی کی لائنیں تک ختم ہوچکی ہیں۔
حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ اس لاکھوں کی آبادی پر مشتمل علاقے میں واٹر بوڑد کا کوئی دفتر بھی موجود نہیں ہے۔ بلدیہ ٹاؤن کی آبادی کے اندر جب آپ کا جانا ہو تو تنگ گلیوں والی اس آبادی کا سب سے بڑا مسلئہ ہے ہی پانی کا۔ یہاں پانی آتا نہیں بلکہ لایا جاتا ہے وہ بھی خرید کر۔ پانی کے ڈرم مرد یا خواتین خود اٹھا کر وہاں لاتی ہیں۔
مزید پڑھیے: کراچی بلدیہ ٹاؤن فیکٹری آگ سے میرا یا حماد صدیقی کا کوئی تعلق نہیں، مجرم رحمان بھولا
بلدیہ ٹاؤن کا گنجان آباد علاقہ تاریخ کے بدترین تجاوزات و زمینیوں پر غیر قانونی قبضوں کا بھی شکار رہا ہے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے جب یہاں کے سرکاری زمینوں پر بننے والے شادی ہالوں کو گرانے کا حکم دیا تھا تو حکم پر عملدرآمد کرنے والوں نے پیسے لینے کو ترجیح دیتے ہوئے ان شادی ہالوں کو صرف اتنا نقصان پہنچایا کہ وہ دوبارہ ٹھیک ہو سکیں اور جب یہ بات چیف جسٹس تک پہنچائی گئی تو ان کے الفاظ تھے کہ ’اب میں کیا کر سکتا ہوں‘۔ یوں بلدیہ ٹاؤن کی لاکھوں نفوس کی آبادی کھیل کے میدانوں اور پارکوں سے بھی محروم ہے۔
یہاں پر زیادہ تر علاقہ ایسا ہے جہاں گلیاں سڑکیں اور سیوریج کا نظام درہم برہم ہے اور عوام بجلی، پانی اور گیس کو بھی ترستے ہیں۔ ان مسائل پر انتخابات میں سیاست ہوتی ہے اور انہیں حل کرنے کے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں لیکن جیت جانے کے بعد جیتنے والا کبھی کبھار ہی اس حلقے سے گزرتا ہے کیوں کہ ان کا وہاں سے تعلق صرف ووٹ لینے کی حد تک ہی ہوتا ہے اور وہ رہتے کہیں اور ہیں۔
مزید پڑھیں: کراچی میں مقبول فٹبال کی قسم فٹ سل کیسے کھیلی جاتی ہے؟
بلدیہ ٹاؤن کے اس حلقے میں سوئی سدرن گیس کمپنی کا کوئی دفتر بھی موجود نہیں ہے جہاں شہری گیس کی بندش یا اس سے متعلق کوئی اور شکایت کر سکیں۔
اس حلقے میں اول تو پارکوں کی تعاد نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن جو ہیں وہ ٹھیکہ داری سسٹم کے تحت چل رہے ہیں جہاں داخلے کے لیے 50 روپے کی پرچی لینا ضروری ہے۔ بلدیہ ٹاؤن کے ماسٹر پلان کو تباہ کردیا گیا ہے اس وقت 70 کے قریب رفاحی پلاٹوں پر قبضہ ہو چکا ہے جن پر سرکاری طور پر عوام کے لیے سہولیات فراہم کیے جانا تھے۔
یہ بھی پڑھیے: 9 برس کی ننھی ماورہ نے پاکستان کو 2 میڈل جتوا کر نئی تاریخ رقم کردی
گزشتہ ادوار کی طرح اس دور میں بھی ایک برس بیت جانے کے باوجود کوئی ترقیاتی کام عمل میں نہیں لایا جا سکا۔ اگر بات کی جائے تعلیم کی تو سرکاری اسکولوں کی حالت تباہ حالی کا شکار ہیں، سڑکوں کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ صبح کا نکلا شام کو گھر آئے تو اسے گرد، دھول مٹی کے باعث گھر والے بھی پہچاننے سے انکار کردیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلدیہ ٹاؤن کراچی این اے 242 کراچی بلدیہ ٹاؤن کراچی بلدیہ ٹاؤن کی حالت زار.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلدیہ ٹاؤن کراچی این اے 242 کراچی بلدیہ ٹاؤن بلدیہ ٹاؤن کی ہونے کے ہے اور
پڑھیں:
سندھ ہائیکورٹ نے نئی کینالز سے متعلق ارسا سرٹیفکیٹ پر اسٹے آرڈر جاری کردیا
سندھ ہائیکورٹ نے نئی کینالز سے متعلق ارسا سرٹیفکیٹ پر اسٹے آرڈر جاری کردیا WhatsAppFacebookTwitter 0 7 April, 2025 سب نیوز
کراچی:سندھ ہائیکورٹ میں ارسا کے تشکیل اور نہروں کی تعمیرات کے لیے پانی کی دستیابی کے سرٹیفکیٹ کے خلاف درخواست پر حکم امتناع جاری کردیا، عدالت نے ارسا سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر متنازع نہروں کی تعمیر روک دی اور وفاقی حکومت سے 18 اپریل تک تفصیلی جواب طلب کرلیا۔
سندھ ہائیکورٹ میں ارسا کی تشکیل اور نہروں کی تعمیرات کے لیے پانی کی دستیابی کے سرٹیفکیٹ کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔
عدالت نے ارسا کے جاری پانی کے دستیابی سرٹیکفیٹ کے خلاف حکم امتناع جاری کردیا، وفاقی حکومت نے جواب جمع کروانے کے لیے مہلت طلب کرلی۔
سندھ ہائیکورٹ نے ارسا سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر متنازع نہروں کی تعمیر روک دی اور وفاقی حکومت سے 18 اپریل تک تفصیلی جواب طلب کرلیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ارسا میں سندھ سے وفاقی رکن کی تعیناتی نہیں کی گئی، ارسا کے تشکیل غیر قانونی ہے۔
درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ غیر قانونی تشکیل کے بعد ارسا کے جاری کردہ تمام فیصلے غیر قانونی ہیں، ارسا نے 25 جنوری کو چولستان اور تھل کینال کی تعمیر کے لیے پانی کی فراہمی کا سرٹیفکیٹ جاری کیا۔
وکیل نے مؤقف اپنایا کہ قانونی طور پر ارسا کے سرٹیفکیٹ کے خلاف عدالتی حکم امتناع کے بعد کینالز پر تعمیراتی کام روک دیا جانا چاہیئے۔
واضح رہے کہ ’سرسبز پاکستان‘ منصوبے کے تحت چولستان اور تھل کے صحرائی علاقوں میں لاکھوں ایکڑ بنجر اراضی کو قابل کاشت بناکر کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے وفاقی حکومت زرعی برآمدات میں اضافہ کرنے کی خواہاں ہے۔