مجھے ایک بار اسپین میں بل فائٹنگ دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ وہ ایک لمبی گیم تھی جس کے تین حصے تھے‘ گول اسٹیڈیم میں دائرے کی صورت میں تماشائی بیٹھے تھے اور میدان کے درمیان میں بل فائیٹر سفید چست پتلون اور شرٹ پہن کر کھڑا تھا‘ اس کے سر پر رنگین ہیٹ تھا اور اس کے ہاتھ میں سرخ رنگ کا کپڑا تھا‘ اسٹیڈیم میں ’’ہے تورو‘ ہے تورو‘‘ کے نعرے لگ رہے تھے‘ نعروں کی آوازوں کے درمیان لکڑی کا گیٹ کھلا اور خوف ناک بدمست بھینسا دوڑ کر میدان میں آ گیا اوراس کے بعد کھیل شروع ہو گیا‘ کھیل کے پہلے فیز میں بل فائیٹر سرخ رنگ کے کپڑے سے بل کو تھکانے میں مصروف ہو گیا۔
بل دور سے دوڑ کر آتا تھا‘ فائیٹر اسے کپڑے میں الجھا کر پاؤں پر گھوم جاتا تھا اور بھینسا اسے چھوئے بغیر دور نکل جاتا تھا‘ یہ فیز دو گھنٹے جاری رہا‘ اس میں بھینسا بری طرح تھک گیا اور آخر میں ایک سائیڈ پر کھڑا ہو گیا‘ بل فائیٹر اس کے قریب پہنچ کر کپڑا لہراتا رہا لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا‘ اس کے ساتھ ہی کھیل کا دوسرا فیز شروع ہو گیا‘ اسٹیڈیم کے سائیڈگیٹس سے تین گھڑ سوار نکلے‘ ان کے ہاتھوں میں بڑے بڑے بھالے اور تیر کمان تھے‘ انھوں نے دور سے بھینسے کو تیر مارنا شروع کر دیے‘ردعمل میں بھینسا جان بچانے کے لیے بھاگنے پر مجبور ہو گیا‘ سوار بھی گھوڑوں پر اس کے پیچھے دوڑ پڑے‘ وہ اس کے قریب پہنچتے تھے۔
اسے بھالے سے زخمی کرتے تھے اور پھر دور بھاگ جاتے تھے‘ یہ سلسلہ بھی گھنٹہ بھر جاری رہا‘ بھینسا اس دوران زخمی ہوتا رہا اور اس کے زخموں سے خون رستا رہا یہاں تک کہ وہ نڈھال ہو کر زمین پر گر گیا‘ اس کے گرتے ہی بل فائیٹر دوبارہ اسٹیڈیم میں داخل ہو گیااور یوں کھیل کا تیسرا فیز شروع ہو گیا‘ بل فائیٹر کے ہاتھ میں اس بار تلوار تھی‘ اس نے ننگی تلوار کے ساتھ پورے اسٹیڈیم کا چکر لگایا‘ تماشائیوں نے سیٹیوں اور نعروں کے ساتھ اس کا استقبال کیا‘ وہ پورے اسٹیڈیم کی داد وصول کرنے کے بعد نڈھال بھینسے کے سر پر پہنچا‘ تماشائیوں کی طرف مڑ کر دیکھااور تلوار فضا میں لہرادی‘ پورے اسٹیڈیم نے ہاتھوں کے انگوٹھے زمین کی طرف ڈاؤن کر کے اسے بھینسے کا سر اتارنے کی اجازت دی اور بل فائیٹر نے بھینسے کی گردن پر تلوار کے وار شروع کر دیے۔
بھینسا آنکھوں میں خوف‘ بے چارگی اور رحم کی درخواست بھر کر اس کی طرف دیکھتا رہا اور قتل ہوتا رہا‘ اس کے خون کے فوارے اچھل کر اسٹیڈیم کی گرم ریت پر گر رہے تھے‘ وہ تکلیف سے چلا رہا تھا لیکن ہجوم اس ظلم پر سیٹیاں بجا رہا تھا‘ اچھل کر بل فائیٹر کو داد دے رہا تھا اور وحشت میں نعرے لگا رہا تھا‘کھیل کے آخر میں اسٹیڈیم کی ریت پر بھینسے کا سر اور دھڑ الگ الگ پڑا تھا‘ وہ منظر انتہا درجے کا وحشیانہ اور اذیت ناک تھا‘ میں نے جھرجھری لی اورا سٹیڈیم سے نکل گیا جب کہ لوگ تالیاں اور سیٹیاں بجا رہے تھے اور سیٹوں پر کھڑے ہو کر ناچ رہے تھے۔
آپ اگر آج کے پاکستان کو دیکھیں تو آپ کو یہ ملک بھی بل فائٹنگ کا رنگ محسوس ہو گا‘ اس رنگ کا بھینسا ہماری نیشنل اسپرٹ ہے‘بل فائیٹر ہمارے حالات ہیں اورپوری دنیا اس کھیل کی تماشائی ہے اوریہ تالیاں پیٹ کر بل فائیٹرز کو داد دے رہی ہے‘ ہمیں پہلے سرخ کپڑے کے پیچھے دوڑا دوڑا کر بھینسے کی طرح باقاعدہ تھکایا گیا تھاجب ہم تھک کرٹوٹ گئے تو پھر ہم پر تیروں اور بھالوں سے وار کیے گئے‘ ہمیں زخمی کیا گیا تاکہ ہم اپنے پاؤں پر کھڑے نہ رہ سکیں‘ ہم اسٹیڈیم کی گرم ریت پر گریں اور اس کے بعد کھیل کے تیسرے فیز میں بل فائیٹر آگے بڑھ کر ہمارا سر کاٹ دے‘ یہ ہے کل اسکیم‘ آپ سیاسی محاذ پر دیکھ لیجیے‘ عمران خان کبھی وزیراعظم اسکیم میں شامل نہیں تھا‘ یہ فاسٹ باؤلر تھا‘ اسے سیاست میں صرف تیز گیندیں پھینکنے کے لیے لایا گیا تھا۔
اس سے صرف ایک کام لیا جا رہا تھا‘ یہ جنرل مشرف کی وکٹوں پر حملہ کرتا رہے‘ یہ پیپلز پارٹی کی وکٹیں اڑاتا رہے اور آخر میں یہ میاں نواز شریف کو سانس نہ لینے دے اور بس آپ2000سے2017تک خان کی سیاست دیکھ لیں‘ آپ کویہ اپنا فاسٹ باؤلنگ کا کردار ٹھیک ٹھاک نبھاتا ہوا محسوس ہو گا‘ یہ کردار اسی اسپرٹ کے ساتھ مزید چلنا تھا لیکن یہ کھیل اس وقت خراب ہوگیا جب جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اسے وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بٹھا دیا‘اس سے قبل خان کو صادق اور امین اور عالم اسلام کا عظیم مجاہد ثابت کرنے کے لیے میڈیا کمپیئن کی گئی اور نوجوانوں کو اس کے گرد جمع کر دیا گیا اور اس کے بعد خان نے اسٹیبلشمنٹ کی وکٹیں ہی اڑا دیں اور یہ مسلسل یہ کام کرتا چلا جا رہا ہے‘ اب جب بل فائیٹر رنگ میں موجود ہے تو پھر دوسرے کھلاڑی فائدہ کیوں نہ اٹھاتے چناں چہ بھینسے کے دوسرے دشمن بھی میدان میں کود پڑے اور انھوں نے بھی تیر اور بھالے چلانا شروع کر دیے‘ آپ کے پی اور بلوچستان کے حالات دیکھ لیں۔
دنیا میں اس وقت معیشت سب سے بڑا میدان جنگ ہے‘ آپ کے پاس اگر وسائل ہیں‘ انڈسٹری‘ ایکسپورٹس اور فارن ریزروز ہیں تو آپ کام یاب ہیں بصورت دیگر آج کی دنیا میں بھکاریوں‘ طفیلیوں اور معاشی محتاجوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں‘ پاکستان سردست معاشی طفیلی‘ محتاج اور بھکاری ہے‘ ہم چین‘ سعودی عرب اور یو اے ای کی مدد کے بغیر آئی ایم ایف کو بھی قائل نہیں کر پا رہے اگر یہ تین ملک ہمارے خزانے میں جمع اپنی رقم واپس مانگ لیں تو آئی ایم ایف فوراً بھاگ جائے گا اور یوں ہم ڈیفالٹ کر جائیں گے‘ ہمیں اس صورت حال سے صرف معاشی استحکام بچا سکتا ہے اور یہ استحکام اب صرف معدنیات اور قدرتی وسائل سے ممکن ہے‘ انڈسٹری‘ سکل ڈویلپمنٹ اور نیشن بلڈنگ کے لیے کم از کم تیس سال چاہییں اور ہمارے پاس اتنا وقت نہیں‘ ہم فوری طور پر زمین‘ مائینز اور منرلز بیچ کر ہی موجودہ معاشی گرداب سے نکل سکتے ہیں‘ اس حقیقت سے ہمارا ازلی دشمن بھی اچھی طرح واقف ہے۔
بھارت جانتا ہے ہم اگر معاشی طور پر اپنے قدموں پر کھڑے ہو گئے تو ہم اسے سکون سے نہیں بیٹھنے دیں گے‘ ہم پھر اس سے کشمیر بھی مانگیں گے‘ اپنے دریاؤں کا پانی بھی اور ماضی کے مظالم کا حساب بھی‘ اس کا خیال ہے ہم ڈان ہیں اورڈان جب تک اپنے مسئلوں میں پھنسا رہتا ہے دوسرے اس وقت تک اس سے محفوظ رہتے ہیں جس دن ڈان مسائل سے آزاد ہو جائے یا اس کے دانے پورے ہو جائیں تو وہ آنکھ کھول کر دائیں بائیں دیکھتا ہے اور پھر سب کو کان پکڑا دیتا ہے چناں چہ بھارت چاہتا ہے ہم اپنے مسئلوں سے آزاد نہ ہو سکیں‘ ہم اپنے اندرونی مسائل میں اتنے مصروف رہیں کہ ہمیں بھارت یاد آئے اور نہ کشمیر اور نہ ہی خشک دریاؤں کا پانی چناں چہ اس نے ہمیں کے پی اور بلوچستان میں الجھا رکھا ہے۔
اب سوال یہ ہے بلوچستان اور کے پی کیوں؟ بھارت سندھ اور پنجاب میں چھیڑچھاڑ کیوں نہیں کر رہا؟ اس کی دو وجوہات ہیں‘ اول پنجاب اور سندھ کا معیار تعلیم دوسرے دونوں صوبوں سے بہتر ہے لہٰذا یہاں کے لوگ نسبتاً سمجھ دار ہیں‘ یہ جلد پروپیگنڈے میں نہیں آتے‘ دوم سندھ اور پنجاب میں کوالٹی آف لائف بہتر ہے‘ لوگ شہروں میں رہ رہے ہیں‘ ان کے پاس بجلی‘ سڑک‘ اسکول‘ اسپتال‘ مکان اور روزگار کے ذرایع ہیں اور جہاں یہ تمام سہولتیں موجود ہوں وہاں بغاوت کے امکانات کم ہوتے ہیں‘ انقلاب فرانس‘ انقلاب روس اور انقلاب ایران بھی شہر کے لوگ نہیں لے کر آئے تھے‘ یہ بھی کسانوں اور مزدوروں کا کمال تھا اور وہ لوگ دور دراز علاقوں سے دارالحکومتوں میں آئے تھے اور انھوں نے بادشاہوں سے پہلے بڑے شہروں کے امراء کو اپنا لقمہ بنایا تھا چناں چہ پنجاب اور سندھ دشمنوں سے بچے ہوئے ہیں اور ان کا فوکس کے پی اور بلوچستان ہیں‘ اس فوکس کی بھی اب دو وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ تعلیم اور روزگار کی کمی ہے‘ یہ علاقے تعلیم بالخصوص سکلڈ ایجوکیشن میں پیچھے ہیں اور اس وجہ سے یہاں بے روزگاری ہے اور دوسری وجہ دونوں صوبوں کی زمین میں خزانے چھپے ہیں‘ بلوچستان میں سونے‘ تانبے‘ لوہے اور کوئلے اور کے پی میں گیس اور تیل کے وسیع ذخائر ہیں ‘ یہ ذخائر چند برسوں میں ملک کو معاشی لحاظ سے قدموں پر کھڑا کر سکتے ہیں اور یہ بھارت کے لیے قابل قبول نہیں چناں چہ اس وقت بل فائٹنگ کے رنگ میں موجود بھینسے پر دو طرف سے حملے ہو رہے ہیں‘ اندرونی حملے اور بیرونی حملے‘ اندرونی محاذ پر عمران خان اور ان کے خودکش نوجوان سرگرم ہیں‘ خان بے شک اس وقت مقبول ترین لیڈر ہیں لیکن یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی مقبولیت کے کندھے پر بیٹھ کر اقتدار میں آئے تھے‘ زیلنسکی نے یوکرین کو ملبے کا ڈھیر بنوا دیا جب کہ ٹرمپ امریکا کے ساتھ پوری دنیا کو تباہ کر رہے ہیں۔
عمران خان بھی اگر مقبولیت کی وجہ سے اقتدار میں آگیا تو یہ اس ملک کا کیا حشر کرے گا آپ سوچ بھی نہیں سکتے‘ ان کے پاس ایسا ایسا گنڈا پور موجود ہے کہ آپ کانوں کو ہاتھ لگائیں گے اور یہ بھی اس شکل میں ممکن ہو گا جب ہاتھ یا کان بچ سکیں گے جب کہ بیرونی محاذ پر بھارت سرگرم عمل ہے‘ یہ نہیں چاہتا کے پی اور بلوچستان میں امن آئے‘ کیوں؟ کیوں کہ اگر یہاں امن ہو گیا تو پاکستان تیل بھی نکال لے گا اور سونا اور تانبا بھی اور اگر یہ ہو گیا تو یہ معاشی طور پر قدموں پر کھڑا ہو جائے گا لہٰذا سوچیں اگر غریب پاکستان بھارت کے لیے اتنی بڑی تھریٹ ہے تو یہ امیر ہونے کے بعد اس کے ساتھ کیا کرے گا؟۔
آپ اگر اس سیناریو پر غور کریں تو آپ پھرچند لمحوں میں سمجھ جائیں گے‘ 8اپریل کو جب اسلام آباد میں منرلز سمٹ ہو رہی ہے‘اس میں دنیا بھر سے سرمایہ کار آ رہے ہیں اور عین اس وقت اختر مینگل کوئٹہ کا محاصرہ کر رہے ہیں اور بی ایل اے پاکستان سے علیحدگی کا نعرہ لگا رہی ہے‘ کیوں؟ آپ اس کیوں کا جواب تلاش کریں گے تو آپ کو بل فائٹنگ کا یہ سارا کھیل سمجھ آ جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے پی اور بلوچستان اسٹیڈیم کی بل فائٹنگ بل فائیٹر اور اس کے کے ساتھ ہیں اور رہے ہیں چناں چہ رہا تھا تھا اور تھے اور رہے تھے ہے اور اور ان ہو گیا کے لیے کے بعد اور یہ
پڑھیں:
درپیش مسائل اور چیلنجز
یہ’’بحث‘‘ اب عام اور بہت زیر بحث ہے کہ آیا حکومت اپنے پانچ سال پورے کر پائے گی؟ فروری 2024 ء میں قائم ہونے والی شہباز حکومت کو ابتدا سے ہی بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ درپیش چیلنجز اتنے گھمبیر ہیں کہ ان سے نبرد آزما ہونا کوئی آسان کام نہیں لیکن تمام تر نامساعد اور مشکل ترین حالات کے باوجود شہباز حکومت یہ عہد کرتی دکھائی دی کہ ملک کو درپیش مسائل سے باہر نکال لائیں گے۔ مسائل اور زیر بحث ’’چیلنجز‘‘ ہمیشہ ہی سے ایسا موضوع رہا ہے جس پر متعدد بار لکھا گیا اور بات بھی ہو چکی کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں۔ تاہم ن لیگ نے 2024 ء میں اپنے لئے اقتدار کا جو راستہ چنا،مشکل ہی نہیں،دشوار گزار بھی تھا لیکن ایک سال کے دورانیے میں شہباز حکومت نے وہ کر دکھایا جس کی امید نہیں کی جا سکتی تھی۔ کچھ جماعتیں سیاسی حقیقت ہیں۔ جن میں پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) بھی شامل ہے-لیکن اپنے پونے چار سالہ دور اقتدار کے بعد پی ٹی آئی جن حالات و مشکلات کا شکار ہے،اس کی روداد کسی سے چھپی ہوئی نہیں۔ بالکل بھی امید نہیں تھی کہ بانی پی ٹی آئی زیادہ عرصہ جیل کی صعوبتیں برداشت کر سکیں گے،ٹوٹ جائیں گے،مگر ڈیڑھ دو سال میں ایسا نہیں ہو سکا۔ وہ جیل میں ہیں اور جیل کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ جو حالات ہیں اس کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے بانی کے لئے آنے والے دنوں میں رعایت کی کوئی گنجائش نہیں، نہ آسانیاں پیدا ہوتی نظر آتی ہیں۔ 190 ملین پونڈ میں خان صاحب کو 14 سال کی سزا ہو چکی۔ 9 مئی کے مقدمات ابھی سماعت کے منتظر ہیں۔ یہ سماعت سول کورٹ میں ہوتی ہے یا فوجی عدالت میں؟ یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے کرنا ہے- جہاں اس حوالے سے ایک پٹیشن زیر سماعت ہے۔’’فیصلہ‘‘ اگر یہ آیا کہ ’’سویلنز‘‘ پر قائم 9 مئی کے مقدمات فوجی عدالت میں چلائے جا سکتے ہیں تو معاملہ پی ٹی آئی کے لیے خطرے کی علامت سمجھا جائے گا۔ اگرچہ مقدور بھر کوشش ہوئی، مہرے بھی آزمائے گئے۔ اسٹیبلشمنٹ سے گفتگو کے لئے علی امین گنڈاپور کو ٹارگٹ دیا گیا۔ مگر جب ستارے گردش میں ہوں تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔ پی ٹی آئی رہنما کہتے ہیں بانی جیل میں ہشاش بشاش ہیں۔ انہیں کوئی پریشانی نہیں لیکن اڈیالہ میں ان سے ملاقات کرنے والے لاہور کے ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے جب اڈیالہ میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران بانی سے ان کی ملاقات ہوئی تو بانی کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ بہت پریشان اور مضطرب دکھائی دیتے تھے۔ مایوسی ان کی باتوں سے عیاں تھی۔ مسلسل قیدو بند نے انہیں توڑ دیا تھا۔ وہ پارٹی رہنمائوں کی ’’کارکردگی‘‘ سے بھی کافی مایوس اور ناامید نظر آتے تھے۔ عید کے بعد ملک گیر احتجاج کی جو کال دے رکھی ہے۔ اس سے بھی زیادہ پرامید نہیں۔اس کی وجہ جمعیت علما اسلام کا عدمِ تعاون ہے۔کیونکہ تمام تر کوششوں کے باوجود جمعیت علماء اسلام ابھی تک اپوزیشن گرینڈ الائنس کا حصہ بننے کے لیئے راضی نہیں۔
یہ بات تو طے ہے کہ جمعیت اگر اپوزیشن گرینڈ الائنس کا حصہ نہیں بنتی اور احتجاج میں شامل نہیں ہوتی تو گرینڈ الائنس کی ملک گیر تحریک کا کچھ بننے والا نہیں۔کیونکہ جمعیت کے سوا کوئی دوسری پارٹی سٹریٹ پاور نہیں رکھتی۔جبکہ سٹریٹ پاور کے بغیر کسی بھی احتجاج یا تحریک کو کامیاب نہیں بنایا جا سکتا۔تاہم ابھی ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ جمعیت پی ٹی آئی اپوزیشن گرینڈ الائنس کا حصہ بن جائے گی۔ گزشتہ ایک سال کی سیاسی سرگرمیوں کا جائزہ لیں تو یہ بات صاف عیاں ہو گی کہ اس ایک سال کے دورانئے میں پی ٹی آئی نے کچھ نہیں پایا بلکہ کھویا ہی کھویا ہے۔سیاست یا زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو جہاں بھی ضد اور ہٹ دھرمی ہو گی وہاں ناکامیاں ہی مقدر بنیں گی۔جھوٹی انا پرستی خسارے کا سودا ہوتی ہے۔جس سے منزلیں دور ہو جاتی ہیں۔خان صاحب کے ساتھ یہی ہوا انہوں نے اپنے لئے سراسر گھاٹے اور خسارے کا راستہ چنا۔ضد، ہٹ دھرمی دکھانے والے کبھی فلاح نہیں پاتے۔بانی آج اگر جیل میں ہیں اور پوری جماعت مشکلات کا شکار ہے تو اس میں خود ان کا اپنا ہاتھ ہے۔خان صاحب کے ذہن میں پتہ نہیں کیوں یہ بات سما گئی ہے کہ نیلسن منڈیلا بن کر ہی جیل سے باہر نکلیں گے۔کیا ایسا ہو گا؟ ایسا ہو سکتا ہے؟ بانی نیلسن منڈیلا بن سکتے ہیں؟ ہمیں کم از کم ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا-ان اطلاعات میں بھی کافی حد تک سچائی ہے کہ پی ٹی آئی میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں اور وہ انتشار و خلفشار کا شکار ہے-چیئرمین بیرسٹر گوہر کی پارٹی پر گرفت نہیں-رہنماں کی پارٹی پالیسی کے خلاف بیان بازی سے ان کے مابین پائے جانے والے اختلافات کا پتہ چلتا ہے۔اس روش نے پی ٹی آئی کو بہت نقصان پہنچایا ہے، وہ بٹی ہوئی نظر آتی ہے۔ جماعت کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے جو تقسیم در تقسیم نظر آتی ہے۔وہ پتہ دیتی ہے کہ اندر کے حالات ٹھیک نہیں۔یہی منظر کشی ہوتی ہے کہ ڈی چوک میں 24 نومبر کے احتجاج کی ناکامی کے بعد پارٹی مزید کمزور تر ہوئی ہے۔یہی ادراک ہوتا ہے کہ اس کی صفوں میں بڑی دراڑ اور خلا موجود ہے۔حکومتی جماعت ن لیگ کی بات کریں تو وہ اس وقت پنجاب کو ’’فوکس‘‘ کیے ہوئے ہے۔ن لیگ سمجھتی ہے پنجاب کے 12 کروڑ باسیوں کے دل جیت لیئے تو سمجھو پورا پاکستان جیت لیا کیونکہ پنجاب ہی فیصلہ کرتا ہے کہ ملک پر کس نے حکمرانی کرنی ہے۔اسی لئے وزیراعلیٰ مریم نواز دن رات پنجاب کے لئے کام کر رہی ہیں اور 80 سے زیادہ فلاحی اور ترقیاتی پروگراموں اور منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مصروف ہیں۔یہ وہ حقیقت ہے جو پی ٹی آئی کے لیے نہایت پریشان کن ہے۔وہ سمجھتی ہے مزید چار سال اور گزر گئے، پنجاب میں اسی رفتار سے ترقیاتی اور رفاعی کام جاری رہے تو پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر بہت زیادہ نقصان پہنچے گا۔ اسی لئے پی ٹی آئی ملک میں انتشار کی سیاست قائم کرنا چاہتی ہے۔’’انتشار‘‘ کا مطلب ہے سیاسی عدم استحکام جب ملک میں سیاسی عدم استحکام ہو تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ملک میں معاشی استحکام قائم رہے۔
پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا سیل بھی پارٹی ہدایات کے مطابق منفی پروپیگنڈہ مہم چلائے ہوئے ہے جس کا مقصد فوج اور ریاست کو بدنام کرنا ہے۔اس ونگ کے ذریعے انتشار پھیلایا جا رہا ہے،افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ ملک میں زیادہ سے زیادہ بے چینی اور بدگمانی کا احتمال ہو۔ سمجھنے کی بات ہے پی ٹی آئی کسی بیرونی اشارے پر ایسا کر رہی ہے یا منفی ہر عمل اس کے اپنے ذہن کی اختراع ہے۔پی ٹی آئی قیادت کو سمجھنا چاہئیے ملک ہے تو ہم ہیں۔فوج مستحکم ہو گی تو ملک کا دفاع بھی مستحکم ہو گا۔پتہ نہیں پی ٹی آئی کیوں ریاست کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔ اس پر بہت سے الزامات ہیں کیا درست بھی ہیں، یہ دیکھنا ہو گا۔پی ٹی آئی کا کہنا ہے اسے 2024 ء کے الیکشن اور اس کے نتائج پر شدید تحفظات ہیں۔یہی تحفظات 2018 ء کے الیکشن میں ن لیگ کو بھی تھے۔لیکن پی ٹی آئی کو تسلیم نہیں تھا کہ یہ انتخابات دھاندلی زدہ تھے۔تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اور بہت کچھ بدل گیا ہے۔اب کوئی جنرل باجوہ اور کوئی جنرل فیض نہیں، جو پی ٹی آئی کا ہمسفر و دمساز ہو۔کسی کے کہنے، نا کہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔پی ٹی آئی کو 2028 ء کے الیکشن تک انتظار کرنا ہوگا۔نہ حکومت جانے والی ہے، نا ہی اس کے جانے کے آثار یا امکانات پائے جاتے ہیں-پی ٹی آئی کو سوچنا اب یہ چاہئیے کہ 2028 ء کے عام انتخابات کیسے صاف شفاف بنائے جا سکتے ہیں۔ اس لئے انہیں آئندہ انتخابات کو دھاندلی سے پاک بنانے کے لئے مذاکرات کی طرف بڑھنا ہو گا۔سب جماعتیں اگر اس یک نکاتی ایجنڈیپر متفق ہو جائیں کہ انتخابات میں کوئی دھاندلی نہ ہو۔اس کے نتائج کو ہر کوئی تسلیم کرے۔تو پھر ہی توقع کی جا سکتی ہے کہ ملک صحیح ڈگر پر چلنے لگے۔ آئندہ جب الیکشن ہوں تو لوگ اس کے غیر جانبدارانہ ہونے کے عمل کو دل سے تسلیم کریں۔جب تک الیکشن کے حوالے سے ہم اس یک نکاتی ایجنڈے پر متفق نہیں ہو جاتے اور مذاکرات نہیں کرتے، سیاسی انتشار و خلفشار کا یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔الیکشن ہارنے والے ہار تسلیم نہیں کریں گے تو ’’انارکی’’ کی فضا قائم رہے گی-افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا جائے تو پی ٹی آئی کو بہت کچھ حاصل ہو سکتا ہے۔9 مئی کے واقعات ناقابل معافی و ناقابل تردید ہیں-رانا ثنااللہ نے بالکل ٹھیک کہا ہے، عمران خان 9 مئی پر قوم سے معافی مانگ لیں تو ان کے لیئے مشکلات سے نجات کا شاید کوئی راستہ نکل آئے۔اب یہ پی ٹی آئی کو دیکھنا ہے کہ اپنے لئے کس راستے کا انتخاب کرتی ہے۔یا ایسے ہی ’’گرداب‘‘ میں پھنسی رہے گی۔