پیپلز پارٹی کا سیاسی مخمصہ
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
پیپلز پارٹی کی سیاسی حکمت عملی کو دیکھیں تو اس میں اقتدار اور طاقت کی سیاست سمیت حزب اختلاف کی سیاست پر کنٹرول کرنا بھی اس کی پالیسی کا حصہ ہے۔صدر آصف علی زرداری کے بارے میں یہ ہی کہا جاتا ہے کہ وہ اقتدار کی سیاست کے کھلاڑی ہیں اور اس کھیل کی باریک بینی کو سمجھنے کی صلاحیت بھی خوب ہے۔
بہت سے سیاسی پنڈت انھیں سیاسی گرو کا بھی درجہ دیتے ہیں اور ان کے بقول وہ۔ 2008کے بعد سے پیپلز پارٹی کی سیاست کو دیکھیں تو اس میں اقتدار کی سیاست کو بنیادی فوقیت حاصل ہے اور وہ کسی نہ کسی شکل میں سندھ سمیت وفاق میں بھی اقتدار میں حصہ دار رہی ہے۔مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت میں پیپلز پارٹی باقاعدہ وفاقی حکومت کا حصہ نہیں ہے اور نہ اس نے وزارتوں میں حصہ دار ہی بننے کا فیصلہ کیا۔لیکن موجودہ وفاقی حکومت کی وہ اتحادی ہے اور جہاں بھی قانون سازی کے حوالے سے وفاقی حکومت کو پیپلز پارٹی کی حمایت درکار تھی وہاں پیپلز پارٹی نے آگے بڑھ کر حکومت کا ساتھ دیا ہے۔
پیپلز پارٹی نے کمال ہوشیاری سے سندھ حکومت سمیت بلوچستان کی صوبائی حکومت بھی حاصل کی اور ایوان صدر تک ان کی رسائی سمیت پنجاب اور خیبر پختون خوا میں گورنرشپ اور چیئرمین سینیٹ کی سیٹ بھی ان کے پاس ہے۔ موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا جو بھی سیاسی بندوبست ہے اس میں پیپلز پارٹی نے اپنے سیاسی کارڈ بہتر کھیل کر اپنی صلاحیتوں کو منوایا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کی داخلی کمزوریوں کو بنیاد بنا کر حزب اختلاف کی عملی سیاست کا ریموٹ کنٹرول بھی اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ وہ موجودہ وفاقی حکومت کی بہت سی پالیسیوں پر تنقید بھی کرتی ہے اور حکومت کی سیاسی مشکلات میں حصہ دار بننے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کو اندازہ تھا ملک کو جو سیاسی اور معاشی یا سیکیورٹی مشکلات ہیں اس کا حل بھی موجودہ حکومت کے پاس نہیں ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے فیصلہ کیا کہ وہ براہ راست حکومت کا حصہ بننے کے بجائے حکومت کی اتحادی رہے اورجب بھی اسے حزب اختلاف کا کردار ادا کرنا پڑے، اس سے گریز نہ کیا جائے۔
پیپلز پارٹی اگرچہ براہ راست حکومت کا حصہ نہیں ہے لیکن بہت سی وفاقی سطح پر بیوروکریسی میں ہونے والی تبدیلیوں یا تقرریوں یا ترقیاتی فنڈ سمیت اہم ریاستی عہدوں کے حصول میں پیپلز پارٹی نے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔مسلم لیگ ن کے اندر ایک طبقہ سمجھتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے ان کے مقابلے میں زیادہ بہتر کارڈ کھیلے ہیں۔ اگرچہ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے لیکن یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ بلوچستان میں اصل طاقت کس کے پاس ہے۔
پیپلز پارٹی نے 2008کے بعد پاکستانی سیاست کے تناظر میں ایک بنیادی بات سمجھ لی ہے کہ جب تک ہم طاقت کے مراکز کے ساتھ مل کر نہیں چلیں گے تو اقتدار کا حصول ناممکن ہوگا۔یہ ہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب بھی ہے اور اس کی حمایت میں بھی پیش پیش نظر آتی ہے۔ ماضی کی پیپلز پارٹی کے مقابلے میں آج کی پیپلز پارٹی بہت مختلف ہے ۔اس وقت جب طاقت کے مراکز کا بڑا ٹارگٹ تحریک انصاف ہے تو ایسے میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا اکٹھے رہنا ہی ان کے سیاسی مفاد میں ہوگا۔
یہ ہی وجہ ہے کہ تمام ترسیاسی اختلافات کے باوجود یا مخالفانہ سیاسی بیان بازی میں شعلہ بیانی کے باوجود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون ایک دوسرے کی سیاسی ضرورت اور مجبوری بن گئے ہیں۔پیپلز پارٹی کا سیاسی چہرہ دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ جمہوری رہا ہے اور انسانی حقوق کی پاسداری یا آزادی اظہاراور بنیادی حقوق کے معاملات میں پیپلز پارٹی ہمیشہ سے نمایاں رہی ہے۔لیکن موجودہ اقتدار کے سیاسی کھیل میں پیپلز پارٹی کا سیاسی وجمہوری تشخص بھی سیاسی سمجھوتوں کا شکار ہوا ہے۔ اسٹیبلیشمنٹ کا بڑھتا ہوا سیاسی کنٹرول اور جمہوری قوتوں کا خود آئین اور قانون سے انحراف کی پالیسی اس پر پیپلزپارٹی کا اپنا رویہ بھی مایوس کن ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں پیپلز پارٹی یہ ہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی پیپلز پارٹی کا پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت مسلم لیگ کی سیاست حکومت کا حکومت کی نہیں ہے کا حصہ ہے اور
پڑھیں:
مسلم لیگ (ن) کے نہ سمجھ لوگ آئین نہیں ہڑھتے اور بیان دے دیتے ہیں، شرجیل میمن
سینئرصوبائی وزیرشرجیل انعام نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے واضح الفاظ میں کہا کہ عوام کے ساتھ کھڑی ہے نہ کہ شہباز شریف کے ساتھ، مسلم لیگ (ن) میں کچھ نا سمجھ لوگ ہیں جو آئین ہڑھتے نہیں اور بیان دے دیتے ہیں۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کل قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کی برسی گڑھی خدا بخش میں منائی گئی، اس برسی میں پی پی کے لیڈر بلاول بھٹو زرداری نے تاریخی خطاب کیا، خطاب میں ملک کے موجودہ مسائل پر روشنی ڈالی، سندھ کے سب سے بڑے مسئلے کینالز پر واضح پالیسی بیان دیا۔
انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو نے واضح الفاظ میں کہا کینالز نا منظور ہیں، بلاول بھٹو نے کہا ہم شہباز کے ساتھ نئیں عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، کسی بھی صورت میں کینالز کو بننے نہیں دیا جائیگا، پانی کے بارے میں ابھی تک پنجاب حکومت واضح نہیں کر سکی کہ پانی کہاں سے آئیگا۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کسی صورت کینالز نہیں بننے دے گے، بیرونی ہاتھ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم کسی صورت ملک کو نقصان پہنچننے نہیں دیں گے، چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے جو لوگ افراتفری چاہتے ہیں انہیں کسی صورت قبول نہیں کیا جائیگا، شہید محترمہ بےنظیر بھٹونے کالا باغ ڈیم والے مسئلے پر دھرنا دیا تھا۔
شرجیل انعام میمن نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ محترم آصف علی زرداری نے دیا، آصف علی زرداری نے ملک کے ہر کونے کی آواز کو سنا تھا اور کالا باغ ڈیم کے مسئلے پر فیصلہ دیا تھا، این ایف سی ایوارڈ کے بعد صوبائی خود مختاری پر بھی آصف علی زرداری کے دور میں کام ہوا تھا، خیبر پختونخوا کا نام بھی آصف علی زرداری نے ہی رکھا تھا۔
سینئر صوبائی وزیر میں کہا کہ بلوچستان کے لیے پیکج کا اعلان بھی آصف علی زرداری نے کیا تھا، مشکل حالات میں پاکستان کھپے کا نعرہ بھی آصف علی زرداری نے لگایا تھا، بلاول بھٹو نے کل جلسے میں کہا کہ ہم تمام صوبوں کو ایک ہونا چاہیے، کینالز کا مسئلہ سب سے پہلے پیپلز پارٹی نے اٹھایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کل چیئرمین نے یہ اعلان کیا ہے اٹھارہ اپریل کو کینالز اور دہشتگردی کے مسئلے پر حیدرآباد میں جلسہ کرنے جا رہے ہیں، یہ جلسہ ایک تاریخی جلسہ ہوگا، مخالفین جو چاہتے ہیں ملک کو استحکام نہ ہو انکے کہنے پر فیصلے نہیں ہوتے فیصلہ ہماری لیڈر شپ کرتی ہے، لیڈر شپ ہمیشہ صحیح وقت ہر صحیح فیصلے کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کینالز پر باقی پارٹیاں جو تقریرں کر رہی ہیں وہ کینالز پر کم پیپلز پارٹی کے خلاف زیادہ کر رہی ہیں، عظمی بخاری کو آئین پڑھنا آتا ہے، پنجاب کی وزیر اطلاعات جیسا شخص اطلاعات کے منصب پر بیٹھ کر غلط بیان دے رہا ہے، عظمی بخاری کی خواہش ہے کہ پیپلز پارٹی اور پنجاب حکومت آمنے سامنے آئے، پیپلز پارٹی کینالز پر سیاست نہیں کر رہی، پیپلز پارٹی ایک سلجھی ہوئی سیاست کر رہی ہے، پیپلز پارٹی اپنے لوگوں کے حقوق کی حفاظت کر رہی ہے۔
شرجیل میمن نے کہا کہ سندھ میں سات کروڑ لوگ بستے ہیں، سندھ کے لوگوں کو پتہ ہے پیپلز پارٹی والے مر جائیں گے لیکن سندھ کے مفاد میں کوئی سودا نہیں کریں گے، آصف علی زرداری اس ملک کے سب سے قابل سیاستدان ہیں، کوئی عقلمند انسان عظمی بخاری جیسا بیان نہیں دے سکتا، اگر عظمی بخاری کو پیپلز پارٹی کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے تو بیٹھ کر حل کریں نہ کہ غلط بیانات دیں۔
صوبائی وزیر نے کہا کہ پی ٹی آئی نے ان مدرسوں کو فنڈنگ کی جن کے ذریعے دہشت گردی کو پھیلایا گیا، پی ٹی آیی نے کہا طالبان کے دفاتر یہاں کھولے جائیں، پی ٹی آئی کے لیے دعا ہے کہ اللہ انہیں بچا کر رکھے، ہمارے قائدین اور ورکرز کو ہمیشہ نشانہ بنایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے واضح الفاظ میں کہا کہ میں عوام کے ساتھ کھڑا ہوں نہ کہ شہباز شریف کے ساتھ، مسلم لیگ (ن) میں کچھ نا سمجھ لوگ ہیں جو آئین ہڑھتے نہیں اور بیان دے دیتے ہیں، پیپلز پارٹی نے کہا تھا پی ٹی آئی سے بات کرنے کو تیار ہیں پی ٹی آئی نے منع کر دیا، پیپلز پارٹی چاہتی ہے صوبے چلیں کام ہو۔
شرجیل انعام میمن کا کہنا تھا کہ مشکل حالات میں بھی پیپلز پاٹی نے پاکستان مضبوط کرنے کی کوشش کی،پیپلز پارٹی کا وفد وزیر اعظم سے مل چکا ہے، پیپلز پارٹی واضح پیغام دے چکی ہے کہ کینالز پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، ہم نے ہر فورم پر کینالز مسئلے پر بات کی خطوط بھی لکھے، ہمیں امید ہے کینالز مسئلے پر پیپلز پارٹی سرخرو ہوگی، ہم پارلیمنٹ کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں، آصف علی زرادری نے اپنا سارا پاور پارلیمنٹ کو دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری کی صحت بہتر ہے، پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ کبھی نہیں گھبرائی، سندھ کے حقوق کے لیے جو آصف علی زرداری نے کیا وہ کسی نے نہیں کیا، وزیر اعظم سے اپیل ہے پاکستان کو مضبوط کریں اور کینالز کے خاتمے کا اعلان کردیا۔