فلسطین : بندر کی بلا طویلے کے سر( حصہ اول )
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
اگر میں کہوں کہ اسرائیل صیہونیوں نے نہیں بلکہ مغرب نے پیدا کیا اور لاکھوں یہودیوں کو ہٹلر نے نہیں بلکہ یہودیوں کے دوستوں نے گیس چیمبرز میں بجھوایا تو آپ ان دونوں دعووں پر یقین کر لیں گے ؟ کوشش کروں گا کہ آپ خود کسی نتیجے پر پہنچیں۔
ہٹلر تیس جنوری انیس سو تینتیس کو جرمن چانسلر بنا۔ دوسری عالمی جنگ شروع ہونے تک تمام اہم سرمایہ دار اور غیر سرمایہ دار ممالک کے نازی جرمنی سے سفارتی تعلقات رہے۔ان سب نے اگست انیس سو چھتیس میں ہونے والے برلن اولمپکس میں ٹیمیں بھیجیں۔ فرانس اور برطانیہ نے انیس سو اڑتیس میں آسٹریا اور چیکو سلوواکیہ ہٹلر کو تحفے میں دے دیے اور سوویت یونین نے انیس سو چالیس میں نازی جرمنی سے مل کے پولینڈ کو کیک سمجھ کے آدھا آدھا بانٹ لیا۔
تمام ممالک برلن میں اپنے اپنے سفارت خانوں کے ذریعے بخوبی آگاہ تھے کہ ہٹلر نے کس طرح پہلی عالمی جنگ کے بعد ہونے والے ذلت آمیز معاہدہ ورسائی کو پھاڑ کے ہوا میں پھینک دیا ہے اور جرمنی کو دوبارہ ایک جنگجو عسکری ریاست میں بدلا جا رہا ہے۔کس طرح خالص نسلی برتری کا نازی اژدھا جرمن اقلیتوں کو امتیازی قوانین میں جکڑ رہا ہے۔مگر دنیا شترمرغ ڈپلومیسی پر عمل کرتی رہی۔
جب ہٹلر برسرِ اقتدار آیا تو اس وقت جرمنی میں ساڑھے پانچ لاکھ یہودی ( آبادی کا ایک فیصد) بستے تھے۔اگر جپسی خانہ بدوشوں ، سیاہ فاموں اور ملی جلی نسلوں کے غیر سفید فام غیر آریائی جرمنوں کو بھی شمار کر لیا جائے تو مجموعی تعداد نو لاکھ سے زیادہ نہیں تھی ( یعنی جرمن آبادی کا پونے دو فیصد )۔
ہٹلر نے چانسلر بننے کے نوے روز بعد یکم اپریل انیس سو تینتیس کو یہودیوں کے معاشی بائیکاٹ کی قومی اپیل کی۔اس کے ایک ہفتے بعد ایک حکم نامے کے ذریعے قانون ، تدریس ، طب اور سرکاری نوکریوں کے دروازے یہودیوں سمیت اقلیتوں پر بند ہو گئے۔دس مئی انیس سو تینتیس کی شب پورے جرمنی میں ان کتابوں کو لائبریریوں اور گھروں سے نکال کر جلایا گیا جن کے مصنفین یہودی تھے۔
اگلے دو برس میں لگ بھگ اڑتیس ہزار یہودیوں نے جرمنی چھوڑ کر ہمسایہ ممالک ( فرانس ، بلجئیم ، نیدرلینڈز ، ڈنمارک ، چیکوسلوواکیہ اور سوئٹزرلینڈ ) میں سکونت اختیار کی۔مگر ان میں سے اکثر اس وقت پکڑ کے کنسنٹریشن کیمپوں میں بھیج دیے گئے جب نازیوں نے سوائے سوئٹزرزلینڈ کے دیگر ممالک پر قبضہ کر لیا۔
پندرہ ستمبر انیس سو پینتیس کو جرمن پارلیمنٹ کے نورمبرگ میں ہونے والے اجلاس نے امتیازی قوانین کے پیکیج کی منظوری دی جنھیں تاریخ میں نورمبرگ قوانین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ان کے تحت نازی جرمنی نے نسل پرستی کو قانونی شکل دینے کے لیے آبادی کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔خالص جرمن نسل ، مخلوط النسل شہری اور اجنبی۔یہودیوں ، جپسیوں ، رنگداروں اور سیاہ فاموں کو مکمل شہری کے بجائے رعایا ( سبجیکٹ ) کے درجے میں ڈالا گیا۔یعنی وہ غیر آریائی ہونے کے جرم میں سرکاری سہولتوں اور ووٹ کے حق سے محروم کر دیے گئے ۔
ان اجنبیوں کی آریائی جرمن نسل سے شادی بیاہ یا میل ملاپ جرم قرار پایا۔یہودیوں پر پابندی لگائی گئی کہ وہ اپنے نام میں کسی ایسے لاحقے کا اضافہ کریں جس سے وہ پہچانے جائیں ۔سرکار نے ناموں کی ایک فہرست بھی جاری کی جس میں سے جرمن یہودی اپنے لیے کوئی بھی نام چن سکتے تھے۔ ان کی شناختی و سفری دستاویزات پر لفظ جے (یوڈن یعنی جیو ) کا ٹھپہ لگانا لازمی قرار پایا۔
پینتالیس برس سے کم عمر کی کوئی بھی جرمن خاتون کسی یہودی گھر، دوکان یا کمپنی میں قانوناً ملازمت نہیں کر سکتی تھی۔
نورمبرگ قوانین سے ہزاروں یہودی کاروبار سماجی مقاطع کے سبب بند ہو گئے۔اگر کوئی یہودی خاندان ملک چھوڑنا چاہتا تو اسے اجازت تھی بشرطیکہ وہ اپنی ذاتی و کاروباری املاک کی مالیت کا نوے فیصد بطور امیگریشن ٹیکس سرکاری خزانے میں جمع کروا دے۔گویا تمام املاک آپ ایک سوٹ کیس میں بھر کے بخوشی ملک چھوڑ سکتے تھے۔جو کاروباری لوگ ہجرت سے قبل اپنا پیسہ بیرونِ ملک بھیجتے ہوئے پکڑے جاتے انھیں معاشی تخریب کاری کے جرم میں سزا کا سامنا کرنا پڑتا۔
البتہ فلسطین جانے والے یہودیوں کو محدود تعداد میں مال و اسباب ساتھ لے جانے کی اجازت تھی۔یہ رعائیت ’’ ہوارا ایگریمنٹ ‘‘ ( تبادلہ سمجھوتہ ) کا نتیجہ تھی جو پچیس اگست انیس سو تینتیس کو نازی جرمنی کی وزارتِ اقتصادیات ، جرمن صیہونی فیڈریشن اور جیوش ایجنسی کے اینگلو فلسطین بینک کے درمیان ہوا۔
اس سہہ فریقی معاہدے کے سبب انیس سو تینتیس تا اگست انیس سو انتالیس لگ بھگ ساٹھ ہزار جرمن یہودی فلسطین منتقل ہونے میں کامیاب ہوئے۔فلسطین کی برطانوی انتظامیہ نے پیسے والے جرمن یہودیوں کی آمد کا خیرمقدم کیا۔انھیں پانچ ہزار ڈالر کے عوض فوری سکونت سرٹیفکیٹ جاری کر دیا جاتا۔( جیسے آج کل امریکا اور امارات سمیت متعدد ممالک مخصوص مقدار میں پیسہ لانے پر گولڈ کارڈ جاری کر کے شہریت دیتے ہیں )۔
اس تبادلے سے فلسطین کی آبادکار معیشت میں نہ صرف جرمن یہودیوں کا پیسہ آیا بلکہ ہنرمند افرادی قوت میں بھی اضافہ ہوا ۔جب کہ جرمن تو ویسے بھی جتنے یہودیوں سے ممکن ہو جان چھڑانا چاہ رہے تھے۔
انیس سو تینتیس تا اگست انیس سو انتالیس لگ بھگ ڈھائی لاکھ جرمن یہودیوں نے امریکا ہجرت کی۔جیسے ہی یکم ستمبر کو دوسری عالمگیر جنگ شروع ہوئی تو یہ کھڑکی بھی بند ہو گئی۔
جرمنی کی دیکھا دیکھی اس کے اتحادیوں نے بھی امتیازی قانون سازی کی۔انیس سو اڑتیس میں مسولینی کے فاشسٹ اٹلی نے اطالوی یہودیوں کو شہریت سے محروم کر کے سبجیکٹ ( رعایا ) قرار دے دیا اور خالص اطالویوں سے ان کے رشتے ناتوں پر پابندی لگا دی۔انیس سو چالیس میں رومانیہ ، انیس سو اکتالیس میں چیکو سلوواکیہ ، بلغاریہ اور کروشیا کی فاشسٹ حکومتوں نے بھی اسی طرح کے امتیازی قوانین نافذ کر دیے۔
ان تمام اقدامات و واقعات کی مکمل تفصیلات ہر اس حکومت کو مسلسل مل رہی تھیں جو نازیوں کے عزائم کے آگے بند باندھنا چاہتے تھے اور جرمنی اور اس کے ہم خیال ممالک میں آباد اقلیتوں سے ہونے والی زیادتیوں پر مختلف بین الاقوامی فورمز پر آب دیدہ ہونے کی اداکاری بھی کر رہے تھے۔
ایسے تمام ممالک امریکی صدر روزویلٹ کے زور دینے پر چھ تا پندرہ جولائی انیس سو اڑتیس فرانس کے صحت افزا مقام ایویان میں جمع ہوئے تاکہ نازی پالیسیوں کے نتیجے میں یورپ میں پناہ گزینوں کے بڑھتے ہوئے بحران کا کوئی انسانی حل نکالا جا سکے۔بتیس ممالک سر جوڑ کے بیٹھے۔ ایویان کانفرنس کا کیا نتیجہ نکلا اور پھر نازیوں کے رویے میں کیا بدلاؤ آیا۔ اگلے مضمون میں دیکھیں گے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انیس سو تینتیس اگست انیس سو جرمن یہودی
پڑھیں:
مائیکروسافٹ ملازمین کا فلسطین کے حق میں احتجاج
مائیکروسافٹ کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر ہونے والی مرکزی تقریب میں کچھ ملازمین نے فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرہ کیا۔ اسلام ٹائمز۔ مائیکروسافٹ کی گولڈن جوبلی تقریب میں ملازمین نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف فلسطین کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے احتجاج ریکارڈ کروا دیا۔مائیکروسافٹ کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر ہونے والی مرکزی تقریب میں کچھ ملازمین نے فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرہ کیا۔ تقریب کے دوران معاملات اُس وقت کشیدہ ہوئے جب مائیکروسافٹ اے آئی کے سربراہ مصطفیٰ سلیمان کمپنی کے نئے AI اسسٹنٹ "Copilot" کی اپڈیٹس اور مستقبل کے منصوبوں پر روشنی ڈال رہے تھے۔ اسی دوران مائیکروسافٹ کی ایک خاتون ملازم ابتہال ابوسعید اسٹیج کے قریب پہنچیں اور پُرعزم آواز میں کہا مصطفیٰ تمہیں شرم آنی چاہیے، تم AI کو بہتری کے لیے استعمال کرنے کی بات کرتے ہو، جبکہ مائیکروسافٹ اسرائیلی فوج کو مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹیکنالوجی مہیا کر رہا ہے، 50 ہزار افراد شہید ہو چکے ہیں اور کمپنی اس ظلم کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ اس احتجاج پر مصطفیٰ سلیمان نے مختصر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے احتجاج کا شکریہ میں نے آپ کی بات سن لی ہے۔ مگر ابتہال نے جواب میں کہا کہ آپ کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں، پورا مائیکروسافٹ خون آلود ہے۔ ذرائع کے مطابق اس موقع پر مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس اور سابق سی ای او اسٹیو بالمر بھی موجود تھے، جنہوں نے یہ سب منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔