Express News:
2025-04-08@03:18:43 GMT

قصور پولیس کا کارنامہ

اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT

عید کی چھٹیوں میں قصور پولیس نے ایک کمال کارنامہ انجام دیا ہے۔ جس پر میری رائے میں تو قصور پولیس کے اعلیٰ ذمے داران کو پولیس میڈل کا اعلیٰ اعزاز عطا کرنا چاہیے۔ تفصیلات کے مطابق قصور پولیس نے عید کی چھٹیوں میں ایک نجی فارم ہاؤس پر چھاپہ مارا۔ وہاں موجود تیس مرد اور پچیس خواتین کو گرفتار کر لیا۔ پولیس کے مطابق یہ لوگ وہاں عید کے پر مسرت موقع پر ایک پارٹی کر رہے تھے جو پاکستان کے قانون کے مطابق جرم ہے۔ ملک میں عید کے موقع پر پارٹی کرنا جرم ہے۔

پولیس نے ان مرد اور خواتین کو صرف گرفتار ہی نہیں کیا بلکہ ان سب کی وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ بھی کر دی۔ یقیناً پولیس کا خیال ہوگا کہ یہ سب نامی گرامی مجرمان ہیں اور معاشرہ کو پتہ لگنا چاہیے کہ انھوں نے اتنے نامی گرامی مجرمان کو گرفتار کر لیا ہے۔ وہ معاشرہ کے لیے عبر ت کا نشان بننے چاہیے تا کہ وہ آیندہ جہاں بھی جائیں لوگ کہیں یہ وہی ہیں جو عید پر ایک فارم ہاؤس پر پارٹی کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ اس طرح قصور پولیس نے دو کمال اکٹھے کر دیے۔

پہلے ایک نجی فارم ہاؤس پر چھاپہ مارا۔ ان کو گرفتار کیا اور کمال کیا۔ بعد میں ان کی وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر کے ان کو عبرت کا نشان بنا دیا۔ اس کو کہتے ہیں فوری انصاف، قصور پولیس نے اس بات کا انتظار ہی نہیں کیا کہ کب عدالت انھیں ان کے جرائم کی سزا دے، کتنے سال عدالت میں کیس چلے۔ پھر جب یہ گناہ گار قرار پا جائیں تو پھر معاشرہ میں انھیں عبرت کا نشان بنایاجائے۔ کون اتنا انتظار کرے۔ لوگ تب تک قصور پولیس کے اتنے شاندار کارنامہ کو بھول بھی جائیں گے۔ اس لیے قصور پولیس کے ذمے داران نے فوری انصاف کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ان کی وڈیوز بنوائیں اور ان کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیا۔ اس کو کہتے ہیں فوری انصاف۔

میرے سامنے قصور کے اسپیشل جیوڈیشل مجسٹریٹ کا ایک حکم نامہ پڑا ہے۔ میں نے اس کو کافی دفعہ پڑھا ہے۔ اور میں حیران ہوں محترم جج صاحب کو پولیس کے اس کمال کارنامہ کی سمجھ ہی نہیں آئی۔ اس حکم نامہ کے مطابق پولیس نے وڈیوز اپ لوڈ کرنے اور گرفتاری کے بعد ان تمام ملزمان کو رات تھانے میں ذلیل کرنے کے بعد اگلے دن اسپیشل جیوڈیشل مجسٹریٹ غلام مرتضیٰ ورک کی عدالت میں پیش کیا۔ پولیس نے ان کو چودہ دن کے لیے جیوڈیشل ریمانڈ پر بھیجنے کی درخواست کی۔

اس موقع پر عدالت میں ایف آئی آر پڑھی گئی۔ ایف آئی آر کے مطابق ان کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ انھوں نے اونچی آواز میں ساؤنڈ سسٹم لگایا ہوا تھا جس میں میوزک بج رہا تھا۔ ایک فارم ہاؤس میں میوزک لگانا کب سے جرم ہوگیا۔ بہر حال پولیس کے مطابق یہ لوگ وہاں فحاشی اور عریانی بھی پھیلا رہے تھے۔ لیکن اس کی کوئی تفصیلات نہیں تھیں۔ جب پولیس پہنچی تو سب نے کپڑے پہنے ہوئے تھے ۔ پولیس کو کوئی بھی ننگا نہیں ملا۔ اب کپڑے پہن کر کونسی فحاشی پھیلائی جا رہی تھی۔ یہ میں سمجھنے کے لیے ایک دن قصور پولیس کے ذمے داران کے پاس ضرور جاؤں گا۔

بہرحال اسپیشل جیوڈیشل مجسٹریٹ غلام مرتضیٰ ورک نے سارے لوگوں کو فوری رہا کرنے کا حکم کر دیا ہے۔ ایف آئی آر ختم کر دی ہے۔ ایک طرف پولیس نے فوری انصاف کیا۔ دوسری طرف اسپیشل جیوڈیشل مجسٹریٹ نے بھی فوری انصاف کیا۔ اب مجھے سمجھ نہیں آرہی۔ کیونکہ مقابلہ سخت ہوگیا۔ کس کا انصاف زیادہ بہتر ہے۔ کس کو نشان امتیاز ملنا چاہیے۔ بہرحال مجسٹریٹ صاحب نے ان بیچارے لوگوں کو مزید ذلیل ہونے سے بچا لیا ۔

پولیس نے اپنی ایف آئی آر میں یہ بھی لکھا ہے کہ وہاں سے شراب کی آٹھ بوتلیں بھی ملی ہیں۔ لیکن ایف آئی آر میں کسی کے بھی نشہ میں ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ کسی کا میڈیکل نہیں کروایا گیا۔ ویسے تو جج صاحب نے اپنے حکم نامہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ساؤنڈ سسٹم کے اونچی آواز میں ہونے کی کسی بھی ہمسائے نے کوئی شکائت نہیں کی۔ پولیس کے پاس کوئی نہیں آیا کہ وہاں اونچی آواز میں ساؤنڈ سسٹم لگا ہوا ہے۔ اس لیے ان کو گرفتار کر لیا جائے۔ مجھے لگتا ہے کہ قصور پولیس کے پاس سوموٹو کے خصوصی اختیارات آگئے ہیں اور قصور پولیس نے سوموٹو کے خصوصی اختیارات کے تحت یہ کارروائی کی ہے۔ اس لیے انھیں کسی کی شکایت کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا ان لوگوں کی رہائی اور مقدمہ سے ڈسچارج سے ان سب کو انصاف مل گیا۔ نہیں قصور پولیس نے ان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ان کی وڈیوز ساری زندگی ان کا پیچھا کرتی رہیں گے۔ اس لیے قصور پولیس کا جرم ناقابل معافی ہے۔

میں نے پہلے بھی کئی بار لکھا ہے کہ مورال پولیسنگ بند ہونی چاہیے۔ لوگوں کی اخلاقیات ٹھیک کرنا پولیس کا کام نہیں۔ کوئی ڈانس کر رہا ہے کوئی میوزک سن رہا ہے ۔ پولیس کا اس سے کیا تعلق ہے۔ یہ کوئی جرائم نہیں۔ یہ لوگوں کی ذاتی زندگی ہے۔ لوگ اکٹھے ہو کر ڈانس کرتے ہیں اس میں پولیس کو کیا مسئلہ ہے۔ لوگ اپنی نجی جگہوں پر اندر کیا کرتے ہیں۔ یہ پولیس کا معاملہ نہیں۔ جب تک پولیس کے پاس کو ئی ایسی شکائت نہ آئے جس سے جرم ثابت ہوتا ہو۔ یہ سڑکوں پر کھڑے ہو کر لوگوں کے منہ سونگھنا، ان کے کپڑے چیک کرنا، یہ پولیس کا کام نہیں۔ پولیس معاشرہ کی مذہبی اور اخلاقی ٹھیکیدار نہیں ہے۔ پولیس صرف جرم کے خلاف ایکشن لینے کے لیے بنی ہے۔ غیر اخلاقی حرکتوں پر ایکشن لینا پولیس کا کام نہیں۔

اس واقعہ میں پولیس کی وڈیوز نے لوگوں کی زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ جج کی جانب سے رہائی بے معنی ہو گئی ہے۔ جس نے بھی یہ وڈیو بنائی ہے اسے سزا ملنی چاہیے۔ لوگ پہلے ہی اپنی عزت کا جنازہ نکلنے پر پریشان ہیں۔ ورنہ قصور پولیس کے خلاف ہتک عزت کا دعوی ہونا چاہیے۔ فوجداری ہتک عزت میں سات سال سزا بھی ہے۔ جرم ثابت ہونے پر ان پولیس والوں کو سات سال سزا اور کروڑوں روپے جرمانہ ہو سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: قصور پولیس نے قصور پولیس کے ایف ا ئی ا ر فوری انصاف کو گرفتار فارم ہاؤس لوگوں کی پولیس کا کے مطابق ہی نہیں کے پاس اس لیے کے لیے

پڑھیں:

کراچی: فائرنگ سے نوجوان زخمی

ماڑی پور میں فائرنگ سے نوجوان زخمی ہوگیا ۔ریسکیو حکام واقعہ ڈکیتی مزاحمت جبکہ پولیس نامعلوم سمت کی گولی لگنا قرار دے رہی ہے۔

ماڑی پور ٹرک اڈا گیٹ نمبر 6 کے قریب فائرنگ سے نوجوان زخمی ہوگیا جسے چھیپا کے رضا کاروں نے فوری طبی امداد کے لیے سول اسپتال منتقل کیا۔

ریسکیو حکام کے مطابق نوجوان کی شناخت 25 سالہ وقار کے نام سے کی گئی جسے پشت پر گولی لگی تھی جبکہ واقعہ ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر ڈاکوؤں کی فائرنگ سے پیش آنے کا بتایا جا رہا ہے۔

اس حوالے سے ماڑی پور پولیس کا کہنا ہے کہ نوجوان کو نامعلوم سمت سے آنے والی گولی لگی تھی جس کی مزید تحقیقات کی جا رہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد پولیس کے 10 ڈی ایس پیز کی ایس پیز کے عہدے پر ترقیاں
  • کراچی: فائرنگ سے نوجوان زخمی
  • قصور میں فارم ہاؤس پر چھاپہ: ’ویڈیو بنانے اور وائرل کرنے‘ پر پولیس اہلکار گرفتار
  • کراچی؛ شوہر کی فائرنگ سے 3 بچوں کی ماں قتل
  • قصور: بین الاضلاعی ڈکیت گینگ کے 2 ارکان زخمی حالت میں گرفتار
  • بھارتی پولیس نے کشمیری اسکالر آغا سید ہادی کو گھر میں نظر بند کر دیا
  • کراچی: ٹریلر کی کار کو ٹکر پر خاتون ڈرائیور کی طیش میں آکر فائرنگ
  • جیکب آباد: 3 بچے نالے میں گرگئے، 2 جاں بحق، ایک کی حالت تشویشناک
  • ڈہرکی؛ لڑکی کے اغوا کا ڈراپ سین، نکاح کے اوپر نکاح، والدین ہی قصور وار نکلے