ٹریفک حادثات کی روک تھام، تجاویز
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
پاکستان میں ٹریفک حادثات اور ان میں جاں بحق ہونے والوں کی شرح تشویشناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ آئے روز جان لوا حادثات کی خبریں میڈیا کی زینت بنتی ہیں، جن میں بیسیوں افراد مارے جاتے ہیں۔ کراچی ، لاہور، پشاور اور دیگر بڑے شہروں میں بھی ٹریفک حادثات کی شرح بہت زیادہ ہے۔گزشتہ روزپاکستان کے صنعتی شہر فیصل آباد کے علاقے بچیانہ، اڈہ لنڈیانوالہ کے قریب ٹریفک کے المناک حادثے میں ایک ہی خاندان کے 11 افراد جاں بحق جب کہ 5 شدید زخمی ہوگئے۔ بدقسمت خاندان لوڈر رکشہ پر سوار تھا، پیچھے سے آنے والی تیز رفتار بس رکشہ کو روندتی ہوئی گزرگئی۔
پاکستان میں ٹریفک قوانین کے جو آرڈیننس موجود ہیں، ان میں سے قومی وہیکل آرڈیننس 2000، موٹر وہیکل آرڈیننس 1965 اور موٹر وہیکل آرڈیننس 1969 شامل ہیں۔ یہ آرڈیننس ملک میں ٹریفک کا نظام منظم کرنے کے لیے بنائے گئے تھے جو اب بہت پرانے ہوچکے ہیں۔ ان میں موجود اکثر و بیشتر قوانین کو لاگو ہی نہیں کیا جاتا اور یہ صرف آرڈیننس کی حد تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔کمرشل گاڑیوں کے ڈرائیورز میں اوور ٹیکنگ اور تیز رفتاری کا جنون جان لیوا حادثات کا سبب بنتا ہے۔
پاکستان میں شہری آبادی میں ہوشربا اضافے اور پبلک ٹرانسپورٹ کے ناکافی انتظام کی وجہ سے ذاتی گاڑیوں، موٹرسائیکلوں اور رکشوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں ٹریفک کا دباؤ اور حادثات میں اضافہ ہورہا ہے۔ اوورلوڈنگ بھی حادثات کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے، اوورلوڈنگ کی وجہ سے اکثر اوقات ٹائر پنکچر ہوجاتے ہیں یا ٹائر پھٹ جاتے ہیں جس سے بڑی گاڑیوں کو قابوکرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ بڑی گاڑیوں کا سامان الٹ کر ساتھ چلنے والی گاڑیوں کو برے طریقے سے متاثر کرتا ہے۔
ملک بھر میں روزانہ کی بنیاد پر ٹریفک حادثات کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے، جس نے ہر گھر کا سکون تباہ و برباد کردیا ہے۔ لوگ گھروں سے نکلتے ہیں مگر غلط ڈرائیونگ کی نذر ہوجاتے ہیں۔ اور ان کے لواحقین کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہوتا۔ قوانین کو درست کرنے کے بجائے انتظامی اختیارات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ حادثے کی وجوہات ختم کرنے کی جانب توجہ نہیں دی جاتی ۔
ملک بھر میں ٹریفک حادثات کی بڑی وجوہات میں تیز رفتاری، غیر محتاط ڈرائیونگ، سڑکوں کی خستہ حالی، گاڑی میں خرابی،اوورلوڈنگ، ون وے کی خلاف وزری، اوورٹیکنگ، اشارہ توڑنا، غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز، دوران ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال، نو عمری میں بغیر لائسنس کے ڈرائیونگ، بریک کا فیل ہوجانا اور زائد مدت ٹائروں کا استعمال شامل ہے، 80 سے 90 فیصد ٹریفک حادثات تیز رفتاری کے غیر محتاط رویے کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔
پاکستان کے بڑے شہروں میں ستر فیصد سڑکیں ایسی ہیں جہاں پر زیبرا کراسنگ، پل اور فٹ پاتھ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔کراچی میں تیز رفتار ڈمپروں، ٹرکوں، واٹر ٹینکروں کی وجہ سے ٹریفک حادثات میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع باقاعدہ سیاسی ایشو بنا ہوا ہے۔ سندھ حکومت اور سندھ ہائیکورٹ یہ فیصلہ دے چکی ہیں کہ ٹینکرز، ڈمپرز، ٹرک صبح 6 بجے سے لے کر رات 11 بجے تک شہر میں داخل نہیں ہوں گے، مگر سچ تو یہ ہے کہ ان ڈمپروں اور واٹر ٹینکرز کو شہر میں داخل ہونے سے روکنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی جاتی۔ کراچی میں ٹریفک بھی بہت زیادہ ہے، ٹرانسپورٹیشن کی سہولتیں کم ہیں۔سیاسی اعتبار سے بھی کراچی ایک حساس ترین شہر ہے، لہٰذا صوبائی حکومت کو معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے فوری اقدامات اٹھانے چاہیے۔
پاکستان میں کم عمر نوجوانوں کا موٹرسائیکل وگاڑی چلانے کا رجحان بڑھتا چلا جارہا ہے جس کی وجہ سے خطرناک حادثات پیش آتے ہیں۔ یہ بغیر لائسنس کے گاڑی چلاتے ہیں، نو عمر افراد اپنے پرجوش رویے کی وجہ سے ٹریفک قوانین کی پاسداری نہیں کرتے اور ٹریفک علامات کے سائن اور اصولوں کو نظر انداز کردیتے ہیں، بلکہ اکثر نوجوان تربیت یافتہ ہی نہیں ہوتے اور ان میں تیز رفتار گاڑی چلانے کا جنون بے شمار حادثات کا باعث بنتا ہے۔ ملک کے معاشی حب کراچی کی سڑکوں پر 42 لاکھ موٹر سائیکل چل رہے ہیں، جو شہر میں موجود مجموعی گاڑیوں کا 65 فیصد ہے، اکثر موٹر سائیکل اور موٹر سوار چھوٹے موٹے ٹریفک قوانین کو خاطر میں نہیں لاتے، جن میں ون وے کی خلاف ورزی اور اپنی سائڈ پر گاڑی نہ چلانا اب معمول کی باتیں سمجھی جانے لگی ہیں۔
اس کے علاوہ موٹر سائیکل رکشہ کے اکثر ڈرائیور نابالغ اور نو آموز ہوتے ہیں جن کے پاس ڈرائیونگ لائسنس تک نہیں ہوتا۔ اس طرح ٹریفک قوانین سے لاعلمی کے باعث وہ نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی زندگی بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔پاکستان میں پچھلے کئی عرصے میں درآمد ہونے والی گاڑیوں کی تعداد 250,000 ہے۔ پاکستان میں اس وقت صنعتیں زوال کا شکار ہیں۔ اس میں بننے والی گاڑیوں میں استعمال ہونے والا مواد دو نمبر کوالٹی کا ہوتا ہے۔ ایک ہی حادثے کے بعد گاڑی مکمل طور پر تباہ ہو جاتی ہے اور جس سے کئی قیمتی جانیں ضایع ہوچکی ہیں، جب کہ ان میں تحفظ کا کوئی بھی نظام موجود نہیں ہوتا جس سے گاڑی میں سوار افراد کی جانیں بچ سکیں۔
اس سلسلے میں گاڑی بنانے والی کمپنیوں کا کردار اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ روڈ سیفٹی کا حصہ ہے لہذا یہ یقین دہانی کرانے کی ضرورت ہے کہ جو بھی گاڑی باہر اور پاکستان میں بنائی جائے وہ طے شدہ معیار پر پورا اترے اور دورانِ حادثہ فرد کو پہنچنے والی چوٹوں سے محفوظ رکھے۔ مزید تحقیق کے ذریعے ان کی گاڑیوں کے حفاظتی معیار کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔ کراچی میں روزانہ بیسیوں افراد سڑک پر ہونے والے ٹریفک حادثات میں زخمی ہوتے ہیں۔30 فیصد متاثرین معمولی زخمی اور 45 فیصد درمیانے درجے کے زخموں (جیسے ہڈی کا ٹوٹنا وغیرہ) کا شکار ہوتے ہیں، جب کہ سنجیدہ حالت یا میجر انجریز (جیسے سر کی چوٹ) کے ساتھ لائے گئے افراد کی تعداد 30 فیصد دیکھنے میں آئی ہے۔ شہر کسی تہوار یا بڑے دن کی صورت میں ٹریفک حادثات کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے اور اسپتال لائے جانے والے زخمیوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
یہاں پر جن چیزوں پر سختی سے عمل کرانا چاہیے وہ ہیلمٹ اور سیٹ بیلٹ کا استعمال، قوانین کی پاسداری، جدید ٹیکنالوجی جس میں سی سی ٹی اور ڈبلیو سی سی ٹی وی کیمرے کا نظام متعارف کرانا شامل ہے، تاکہ ڈرائیور حضرات کے ساتھ پیدل چلنے والے افراد پر باآسانی نگرانی رکھی جاسکے گی۔
اسی طرح ہیوی ٹریفک کا معمول کے خلاف اندرونِ شہر میں داخلہ بند ہونا چاہیے۔ اوور لوڈنگ کرنے والوں پر چالان عائد ہونا چاہیے اور ڈرائیور حضرات کے لیے گاڑی کی رفتار مختص کرنا ہوگی، جب کہ ہر چھوٹے بڑے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ مہیا کرنا اشد ضروری ہے۔ بغیر لائسنس گاڑی چلانے پر سخت سزائیں، اور کم عمر بچوں کے والدین کو بھی سزا کا مستحق ٹھہرایا جانا چاہیے تاکہ کم عمر اور نو آموز ڈرائیوروں کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔ ٹریفک سے متعلق شعور کی بیداری کے لیے نصاب میں ٹریفک قوانین سے متعلقہ مضامین شامل کرنا چاہیے تاکہ نئی نسل کو مستقبل میں ٹریفک حادثات سے بچایا جا سکے۔
نوجوانوں میں شعور کی کمی کی وجہ سے وہ سڑک پر موت کے خوف اور حفاظتی اقدامات کے بغیر ون ویلنگ کرتے اور ریسنگ کرتے ہیں جہاں یہ دوسرے ڈرائیوروں اور گاڑیوں کے ساتھ ساتھ پیدل چلنے والوں کے لیے بھی خطرہ بنتے ہیں اور بعض اوقات موت کا سبب بھی بن جاتے ہیں۔ ڈرائیونگ سیکھنے والوں کے لیے اور اُن ڈرائیوروں کے لیے بھی جو ڈرائیونگ سیکھ چکے ہیں خصوصی لیکچرز کا بندوبست کرنا چاہیے یہ لیکچرز نہ صرف قوانین کی پابندی اور فوائد سے متعلق ہوں بلکہ اخلاقیات، زندگی اور ان سب کی حفاظت اور اہمیت سے بھی متعلق ہوں، تاکہ ڈرائیور حضرات جان سکیں کہ وہ کتنی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور جو ڈرائیور حضرات لیکچرز بھی لیں اور قوانین کی پابندی بھی کریں اُن کے لیے تعارفی سرٹیفکیٹ بھی ہونے چاہیے۔
ٹریفک حادثات کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ ٹریفک کے نظام کی منصوبہ بندی کی جائے۔ آبادی کے حساب سے ٹریفک کا انفرا اسٹرکچر تعمیر کیا جائے اور گاڑیوں کی تعداد کو کم کرنے کے لیے عوامی ٹرانسپورٹ کو زیادہ سے زیادہ فعال بنایا جائے۔ موٹر سائیکل کے بے دریغ استعمال کو کم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اس کے لیے متبادل عوام کے پاس ہونا چاہیے۔ ٹرک، ٹرالے اور ٹینکرز روڈز انفرااسٹرکچر پر بہت بڑا بوجھ ہیں بلکہ بین الاضلاعی شاہراہوں پر ٹریفک حادثات کا بڑا سبب بھی ہیں۔ بھاری ٹریفک کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے متبادل کے لیے ریلوے نظام کو بہتر بنایا جائے۔ ملک بھر میں قومی اور صوبائی سطح پر روڈ سیفٹی انسٹی ٹیوٹ کا قیام اور روڈ سیفٹی سے آگاہی کے لیے ہرگھر، ہر اسکول، کالج اور ادارے میں خصوصی مہم چلانی چاہیے تاکہ روز بروز بڑھتے حادثات سے شہریوں کا تحفظ ممکن ہوسکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں ٹریفک حادثات ٹریفک حادثات کی ڈرائیور حضرات ٹریفک قوانین پاکستان میں موٹر سائیکل تیز رفتار قوانین کی کی وجہ سے ٹریفک کا کی تعداد ہوتے ہیں ا رڈیننس کرنے کے ہی نہیں اور ان کے لیے
پڑھیں:
محکمہ صحت ایمبولینسز خریداری اربوں کی بے ضابطگیاں سامنے آگئیں ، احتساب بیورو آزاد کشمیر ان ایکشن
اسلام آباد (رضوان عباسی سے ) آزاد جموں و کشمیر کے محکمہ صحت کے لیے خریدی گئی 24 ایمبولینسز کے معاملے میں سنگین مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ حکومتِ پاکستان نے ٹویوٹا انڈس موٹرز اور ٹویوٹا آزاد موٹرز سے تحقیقات کے تحت 10 دن کے اندر مکمل ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔
روزنامہ اوصاف کو حاصل دستاویزات کے مطابق، ٹویوٹا آزاد موٹرز نے 8 مئی 2023 کو محکمہ صحت آزاد کشمیر کے لیے ٹویوٹا ہائی ایس کمیوٹر ہائی روف ایمبولینس 2023 ماڈل کی سپلائی کا معاہدہ کیا تھا، جس کی فی گاڑی قیمت 17.74 ملین روپے طے کی گئی۔ حیران کن طور پر، کمپنی نے بعد میں فی گاڑی 1.9 ملین روپے کی بڑی رعایت دی اور 15.8 ملین روپے فی گاڑی کے حساب سے معاہدہ مکمل کیا۔تاہم، سپلائی کے وقت کمپنی نے 2023 ماڈل کی بجائے 2022 ماڈل گاڑیاں فراہم کیں، جو کہ معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے۔
مزید تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ سپلائی کی گئی گاڑیوں کا کوئی ریکارڈ ٹویوٹا کمپنی کی ویب سائٹ اور محکمہ ایکسائز کے ٹیکس پورٹل پر موجود نہیں، جس سے ان گاڑیوں کی درآمد اور ادائیگیوں پر سنگین سوالات اٹھ گئے ہیں۔ذرائع کے مطابق، ٹویوٹا کمپنی نے ان گاڑیوں کے بل آف لیڈنگ کی تفصیلات بھی فراہم نہیں کیں، جس سے گاڑیوں کی اسمبلی میں رکاوٹ پیدا ہوئی اور قومی خزانے کو 14.73 کروڑ روپے کا نقصان پہنچا۔
مزید برآں، اسی ماڈل کی گاڑیاں آزاد کشمیر حکومت کے ایک اور محکمے کو 9.7 ملین روپے فی گاڑی کے حساب سے فروخت کی گئیں، جبکہ محکمہ صحت کو 6.14 ملین روپے زائد قیمت پر فروخت کی گئیں، جس سے اربوں روپے کی مالی بدعنوانی کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں۔حکومت نے کمپنیوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ 10 روز کے اندر بل آف لیڈنگ، ٹیکس ادائیگی کی تفصیلات، اور قیمتوں میں فرق کی وضاحت فراہم کریں، بصورتِ دیگر معاملے کو سنجیدہ مالیاتی بدعنوانی تصور کیا جائے گا اور مزید قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
’’وزیراعظم جلد ایک اور بڑی خوشخبری کا اعلان کرنے والے ہیں‘‘ عظمیٰ بخاری