Express News:
2025-04-08@03:24:04 GMT

دفتری زندگی میں تبدیلی

اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT

صنف نازک کی زندگی میں کیرئیر کا انتخاب اور اس کو جاری رکھنا ہی ایک مرحلہ ہوتا ہے، الّا یہ کہ اس میں کوئی تبدیلی کرنی پڑ جائے۔ ہمیں اپنی دفتری زندگیوں میں بعض اوقات اپنی مرضی اور مزاج کے خلاف شعبے سے سمجھوتا کرنا پڑ جاتا ہے۔

ایسے میں کبھی کبھیکچھ وقت گزارنے کے بعد شعبے کی تبدیلی کا معاملہ درپیش ہوتا ہے۔ یہ نہایت اہم اور بعض اوقات مشکل فیصلہ بھی ثابت ہوتا ہے، کیوں کہ آپ نے ایک شعبے میں رہ کر جو تجربہ حاصل کیا ہوتا ہے وہ ایک نئے شعبے میں جانے کے بعد بالکل ایک طرف ہو جاتا ہے۔ نئی جگہ اور نئے کام کے لیے ہمیں پھر سے صفر سے آغاز کرنا ہوتا ہے۔

بالخصوص وہ خواتین جو نہایت مجبوری کے عالم میں ملازمت کر رہی ہوتی ہیں، اس کی متحمل نہیں ہو سکتیں، تاوقتے کہ انھیں بہتر تن خواہ نہ ملے۔ بعض خواتین شروع سے ہی اپنے کام کی نوعیت سے مطمئن نہیں ہوتیں، تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب عملی میدان میں قدم رکھتی ہیں، تو الجھن کا شکار ہو جاتی ہیں۔ وہ خود کو اس ملازمت اور عہدے پر ’’مس فٹ‘‘ محسوس کرتی ہیں یا بعض اوقات حالات، ماحول اور ساتھ کام کرنے والے افراد کے رویے مجبور کر دیتے ہیں کہ اس کام کو چھوڑ دیا جائے اور کسی نئے کیریئر کو اپنایا جائے۔

آج کل تو ڈیجیٹل دور میں بہت تیزی سے نئی ملازمتیں پیدا اور پرانی ختم ہو رہی ہیں۔ پھر خواتین کی کیرئیر کی تبدیلی میں ان کی شادی اور بچوں کے بعد کی مصروفیات بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ گھرداری میں وقت صَرف کرنے کا تقاضا بھی اکثر خواتین کے ایسے فیصلے کا محرک بنتا ہے۔ ایک ملازمت چھوڑ کر دوسری ملازمت اختیار کرنا یوں بھی ایک مشکل کام ہے، ساتھ اگر یک سر مختلف نوعیت کا کام کرنا ہو تو زیادہ مشکل ہو جاتا ہے، لیکن اگر آپ پرعزم ہیں اور ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا چاہتی ہیں تو اس موقع پر ہر چیز کے بارے میں اچھی طرح چھان پھٹک اور صلاح مشورہ کر لیں۔

پہلے اس امر کا جائزہ لیں کہ اس وقت آپ کس شعبے اور کس عہدے پر ہیں؟ آپ کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور اب آپ پیشہ ورانہ طور پر کیا اور کیوں کرنا چاہتی ہیں؟ آپ اپنے موجودہ شعبے سے مطمئن نہیں تو اس امر کا جائزہ لیں کہ نیا شعبے آپ کی بے چینی ختم کر سکے گا؟ نہایت پُرسکون ہو کر اپنے آپ سے یہ سوال کریں اور پوری سچائی کے ساتھ ان کے جواب پر غور کریں، تاکہ اپنی سمت اور منزلکا تعین کر سکیں۔ کسی بھی ایک کام کو چھوڑ کر دوسری مختلف نوعیت کے کام کو کرنے کے لیے سب سے اہم آپ کی لگن اور جذبہ ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اگر آپ کی تعلیم، تربیت اور تجربہ کسی ایک مخصوص پیشے کے متعلق ہیں، تو آپ کسی یک سر مختلف پیشے کو کیسے اپنا سکتی ہیں؟ اعلیٰ سطح کے پیشہ ورانہ شعبوں میں تو یہ ممکن ہی نہیں۔ تاہم کچھ شعبے ایسے ہوتے ہیں جہاں بعض اوقات مجبوراً دیگر شعبے کے افراد بھی طبع آزمائی شروع کر دیتے ہیں۔

یہ چوں کہ سمجھوتے کا سودا ہوتا ہے۔ اس لیے اسے ہمیشہ عارضی حل سمجھنا چاہیے اور ساتھ ہی اپنی تعلیم اور رجحان سے مطابقت رکھنے والے شعبے کی تلاش جاری رکھیے، پھر جب کوئی اسامی آئے تو کسی الجھن اور شش وپنج کے بغیر اس طرف قدم بڑھا دینے چاہیٔں، کیوں کہ یہی راستہ آپ کی منزل کی طرف جاتا ہے۔

جب کہ موجودہ ملازمت کی حیثیت آپ کے کیرئیر میں اس ’’پڑاؤ‘‘ کی سی تھی ، جو اپنی  منزل کی طرف جانے والی سواری کا منتظر تھا، اس ضمن میں اپنی توقعات کو بہت بلند بانگ نہ رکھیے، آپ نے جہاں اپنے مزاج کے خلاف شعبہ چُن کر سمجھوتا کیا تھا تواب اپنے اصل شعبے کے لیے لچک پیدا کیوں نہیں کی جا سکتی۔ یاد رکھیے، یہ لچک  جلد ہی ثمر آور ثابت ہوگی۔ بہ صورت دیگرآپ کو شاید آگے جا کر پچھتانا پڑ جائے، کیوں کہ بعض اوقات مواقع بار بار بھی نہیں ملتے۔ لہٰذا کیریئر میں ایسی تبدیلی کو بہت مثبت انداز میں فوراً قبول کرنا چاہیے۔

یہ دراصل درست تبدیلی ہوتی ہے، اسے کیرئیر کی تبدیلی کے بہ جائے صحیح معنوں میں کیرئیر کا آغاز خیال کریں۔ دوسری طرف صورت حال اس کے برعکس ہو تو بہت سوچ سمجھ لیجیے۔ جیسے اگر آپ اپنے متعلقہ شعبے کے کسی چھوٹے عہدے پر ہیں اور آپ یک سر ایک مختلف شعبے میں محض زیادہ تن خواہ اور مراعات دیکھ کر دوڑ لگا دیتی ہیں، تو پہلے بہت سوچ  سمجھ لیجیے، ایک طرف آپ کی شدید معاشی ضروریات ہو سکتی ہیں، تو دوسری طرف آپ کا تاب ناک  مستقبل اور کام یابی اور ناکامی کا بھی سوال ہے۔ اس لیے فیصلہ ہمیشہ سوچ سمجھ کر کیجیے، عارضی فایدے کے پیچھے اپنے مستقبل کو داؤ پر لگا دینا دانش مندی نہیں۔ اکثر خواتین محض فوراً حاصل ہونے والے فایدے کے پیچھے غلط فیصلہ کر لیتی ہیں اور پھر نقصان اٹھاتی ہیں۔

ایک طرف ہمارے یہاں محنت کش خواتین کو تن خواہ کم دی جاتی ہے تو دوسری طرف نئے شعبے کی طرف جانے کے بعد ان سے افسران بالا کا رویہ نوواردان کا سا ہوتا ہے، جس سے کام کرنے والی خواتین کا اعتماد مجروح ہوتا ہے اور انہیں تکلیف ہوتی ہے کہ اتنے عرصے کام کرنے کے باوجود ان سے جونیئرز کا برتاؤ کیا جا رہا ہے، حقیقتاً وہ دوسرے شعبے کے تجربے کار بھی ہوتی ہیں، لیکن ایک نئے شعبے میں تو ان کا تجربہ صفر ہی قرار پاتا ہے۔

خواتین کو اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرتے ہوئے کوشش کرنی چاہیے کہ کم سے کم اپنے متعلقہ شعبے کی نہ سہی کم سے کم اس سے قریب تر جگہ حاصل کی جائے، تاکہ من پسندشعبے کی طرف بڑھنے کے مواقع زیادہ اور جلد ملیں۔ مثلاً ایک ادارے میں آپ کا متعلقہ شعبہ موجود ہے، لیکن اسامی کسی دوسرے شعبے کی ہے۔ ایسے میں کوشش کیجیے کہ بہ جائے کسی دوسرے ادارے میں جانے کے آپ اس ہی ادارے کی دوسری اسامی قبول کرلیجیے، کیرئیر کی یہ تبدیلی آپ کے مستقبل کے لیے بہتر ثابت ہوگی۔ ایسے ادارے سے منسلک ہونے کے بعد اس ادارے میں اپنے متعلقہ شعبے میں دل چسپی کا اظہار کیجیے۔

اس شعبے کے لوگوں سے رابطے میں رہیے اور انہیں اس حوالے سے اپنی مہارت اور استعداد کے بارے میں بتائیے، بعض مواقع پر آپ یہاں عملاً رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات انجام دے سکتی ہیں، تاکہ آپ کی اہلیت کا پتا چلے کہ واقعتاً یہی آپ کا اصل شعبہ ہے۔ اس موقع پر آپ کو کیرئیر تبدیل کرنے کا فیصلہ مشکل نہیں لگے گا، بلکہ آپ کو یوں لگے گا جیسے جدوجہد کرتی ہوئی اپنی سمت کی طرف گام زن ہوگئی ہیں۔

بعض خواتین باقاعدہ کسی شعبے کی اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرتیں، اس لیے ان کی خدمات مختلف شعبوں میں کام آسکتی ہیں۔ اس لیے وہ بس روزگار کی خاطر کوئی بھی شعبہ اختیار کر لیتی ہیں اور درمیان میں جانے کے بعد انہیں کیرئیر تبدیلی کا معاملہ درپیش ہوتا ہے۔ اس کی بڑی وجوہات میں مواقع نہ ہونے کے علاوہ کمزور قوت ارادی اور ابتدا میں مناسب راہ نمائی نہ ملنا ہو سکتا ہے، پھر خواتین خود سے ہی اپنے روزگار کے لیے شعبے منتخب کر لیتی ہیں کہ ان کے مزاج اور میلان کے مطابق صرف یہی میدان ہیں، جہاں انھوں نے مواقع ڈھونڈنے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ خواتین کے لیے سود مند اور بہتر ماحول ہے۔ کام کرنے والی خواتین کو باہر نکلتے ہوئے بالکل الگ مسائل درپیش ہوتے ہیں۔

اس لیے کیرئیر بدلتے ہوئے بھی خیال رکھنا چاہیے، تاکہ آپ کی اپنی ترجیحات بھی برقرار رہیں اور کسی بھی قسم کی دشواریوں اور مسائل سے بچا جا سکے، اس کے ساتھ ساتھ آپ کا حوصلہ بھی بلند رہے اور آپ مثبت طریقے سے اپنی پیشہ وارنہ ذمہ داریوں کو ادا کرسکیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بعض اوقات کام کرنے سکتی ہیں ہوتا ہے شعبے کے شعبے کی جانے کے ہیں اور جاتا ہے کے بعد کے لیے کی طرف اس لیے

پڑھیں:

’’ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ‘‘ (حصہ اول)

 عید آئی اورگزر بھی گئی، عید کی خوشیوں کے لیے امرا و غربا اور متوسط طبقے نے اپنی اپنی بساط کے مطابق عید کے کپڑوں سے لے کرگھر کی سجاوٹ تک بہت سے امور خوشی خوشی انجام دیے اور عید کا چاند دیکھنے کے ساتھ شب بیداری کی۔

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مارکیٹوں میں خریداروں کا اژدھام نظر آیا لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں وہ گھرانے بھی یاد آئے جن کے پیارے، راج دلارے اس دنیا میں نہیں ہیں، وہ اداس اور غم زدہ دلوں کے ساتھ مسکرانے پر مجبور ہوئے، انھوں نے بھی عید کو خوش آمدید کہا اور اپنے بچوں کی خوشی کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور خریدا، سویاں بھی پکائیں، دوسرے گھروں کی نسبت ان کی رہائش گاہ پر لوگوں کا تانتا بندھا رہا، خصوصاً محلے دار، عزیز اقارب اور میڈیا کے لوگ کہ مکمل معلومات حاصل ہوں اور متعلقین سے تعزیت کر سکیں، حوصلہ دے سکیں۔ ابھی انسانیت زندہ ہے اور جب تک انسانیت سانس لے رہی ہے قیامت نہیں آئے گی، دوسروں کی مزاج پرسی اور ان کے کام آنا عبادت سے کم نہیں۔

کراچی کے حالات روز بروز بگڑتے جا رہے ہیں، سوگ کی فضا نے مایوسی کو تقسیم کیا ہے۔ لوٹ مار، قتل و غارت کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔ ہر روز پابندی کے ساتھ دس پندرہ وارداتیں ہو جاتی ہیں، ڈاکو مال و اسباب بھی لوٹتے ہیں اور معصوم شہریوں کے لیے ایسی فضا ہموارکرتے ہیں جہاں زخمیوں اور لاشوں کی کثیر تعداد نظر آتی ہے۔اے ٹی ایم اور بینکوں سے رقم نکلوا کرگھر کا رخ کرنے والوں کی کسی قسم کی حفاظت نہیں ہے بلکہ خطرات ہر سمت منڈلا رہے ہیں، سڑک، گلی، شاہراہیں، بازار اور بینک غرض کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔

ڈکیتی اور ڈاکوؤں کو کوئی روکنے ٹوکنے والا دور دور تک نظر نہیں آتا ہے۔ گزشتہ سالوں اور عشروں میں پولیس ڈیپارٹمنٹ اپنے شہریوں کے تحفظ کا ضامن ہوا کرتا تھا لیکن اب اس محکمے نے بھی ہاتھ اٹھا لیے ہیں اور مکمل آزادی مہیا کردی ہے۔ ایسی صورت حال میں بغیر ہتھیار کے ہر شخص بے بس نظر آتا ہے اور شاید یہی بہتر ہے شہریوں کے پاس ہتھیار ہونے کی صورت میں خانہ جنگی کا خطرہ ہے۔ دونوں طرف سے فائرنگ ہونے کا مطلب مزید حالات بگڑنے اور ناحق خون کی ندیاں بہانے کا ذریعہ ہوگا۔ دوسری طرف انصاف کے دعوے دار ڈاکوؤں کو ہرگز گرفتار نہیں کریں گے بلکہ وہ لوگ پکڑے جائیں گے جو اپنے تحفظ کے لیے ہتھیاروں کا استعمال کر رہے ہیں۔

لہٰذا یہ بھی مناسب نہیں ہے، کچھ علاقوں میں ایسی صورت حال سامنے آئی ہے کہ جب گھر کے کسی جی دار نے ڈاکوؤں کو محلے والوں کی مدد سے اپنے قبضے میں لیا ہے تو پولیس نے ملزم کو اپنے قبضے میں لے کر بھاری رقم کے عوض چھوڑ دیا ہے اور پوچھ گچھ کا سلسلہ مضروب تک پہنچ گیا ہے۔ ایک دو روز پرانا واقعہ ہے جب اسٹیل ٹاؤن کے علاقے گلشن حدید فیز 2 میں ڈاکوؤں نے کار سواروں سے اٹھارہ لاکھ بھی لوٹے اور مزاحمت پرگولی مار دی، اس قسم کے واقعات ہر روز پابندی کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں، حکومت سندھ کے کسی بھی ذمے دار کو ایسے واقعات کا ذرہ برابر احساس نہیں ہے۔

 سرکاری ادارے تماشائی بنے ہوئے ہیں، شرفا اپنے گھروں سے اپنے کام کاج کے لیے نکلتے ہیں لیکن سرِ راہ قتل کر دیے جاتے ہیں، ان کی لاشیں جب ان کے لواحقین کے سپرد کی جاتی ہیں تو بیوہ ہونے والی خاتون اور یتیم بچے مقتول کے والدین بہن بھائیوں پر یا تو سکتہ طاری ہو جاتا ہے یا پھر پورا گھر ماتم کدہ بن جاتا ہے۔ آہ و زاری، چیخ پکار محلے کی فضا کو غم زدہ کر دیتے ہیں، ایک ایک گھر سے دو، تین جنازوں کا نکلنا نظام حکومت کے منہ پر ایک طمانچہ ہے لیکن بات یہ ہے کہ بے حسی شرم و حیا کو چھین لیتی ہے شہر اور ملک میں کچھ بھی ہوتا رہے، متعلقہ ادارے لاتعلق رہتے ہیں جیسے یہ ان کا مسئلہ ہی نہیں۔

ایک طرف ڈاکوؤں کا راج ہے تو دوسری طرف شاہراہوں پر بے قابو ہوتے ہوئے ٹینکرز موت بانٹ رہے ہیں، گزشتہ کئی ماہ سے ٹینکرز کے ڈرائیورز معصوم مسافروں کو کچلنے کی مشق کر رہے ہیں، ملیر ہالٹ پر ہونے والے حادثے نے لوگوں کے دل دہلا دیے ہیں اور ایک ہنستے بستے گھر کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہے کہ ایک خاندان اور اس کی آنے والی نسل کو بے دردی سے پہیوں تلے روندا ہےْ

یہ خونی ٹرانسپورٹ واٹر ٹینکر تھا، تیز رفتاری کے باعث کئی گاڑیوں سے ٹکراتا ہوا موٹرسائیکل پر سوار خاندان کو آناً فاناً کچل دیا اور موٹر سائیکل کو گھسیٹتا ہوا دور تک لے گیا، عینی شاہد کے مطابق خاتون کا جسم دو حصوں میں بٹ گیا۔ اس کے بعد کا خونی منظر میرا قلم لکھنے کی تاب نہیں رکھتا، وہ یقینا بہادر خواتین تھیں جنھوں نے ایک نئی زندگی کو بچانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ یہ واقعہ اس قدر درد ناک تھا کہ دیکھنے اور سننے والوں کی نکلنے والی چیخیں حلق میں ہی دم توڑ گئیں۔ ابھی غم کی رین سحر کے اجالے میں بدلی نہیں تھی کہ کارساز پر میاں بیوی ہیوی ٹریفک کا نشانہ بن گئے۔

موٹرسائیکل سواروں کو زخمی اور ہلاک کرنے کا سلسلہ رکنے پر نہیں آ رہا ہے۔ حکومت وقت نے آنکھیں بند کر لی ہیں اور کانوں کو ناانصافی اور دل خراش واقعات سے بچانے کے لیے سیسہ ڈال لیا ہے، لہٰذا وہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ سن سکتے ہیں۔
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کم نہ تھے کر و بیاں

آج کے دور میں حضرت انسان اپنا ہی درد محسوس کرتا ہے، ہمارے معاشرے میں انسانیت نام کی کوئی شے باقی نہیں رہی ہے۔ اس کی وجہ معاشرتی ڈھانچہ گل سڑ چکا ہے اس کے مردہ بدن میں تازہ روح ڈالنے کی اشد ضرورت ہے۔ ورنہ تو درندہ صفت ڈرائیور، ڈاکو اور سفاک قاتل سامنے آتے رہیں گے۔یہ وہی شہر ہے جس میں ارمغان بستا ہے، ارمغان نے جس انداز سے مصطفیٰ عامر کا قتل کیا وہ کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔

خونی کھیل کی ابتدا تو ہو چکی ہے لیکن موجودہ اور ماضی کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ بات حتمی طور پر نظر آتی ہے کہ خون کی ندی رکنے والی نہیں ہے، ابھی نہ جانے کتنے مصطفیٰ عامر لپیٹ میں آئیں گے۔ اس سے قبل بھی خواتین پر تشدد آمیز واقعات کے تخلیق کار منظر عام پر آچکے ہیں لیکن وہ سب معاف کر دیے گئے، بظاہر تو پکڑ دھکڑ، جیل اور عدالت میں پیش کیا جاتا ہے لیکن یہ سب کچھ دکھائوے کے سوا کچھ نہیں، چونکہ ہمارا انصاف اور عدالتوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ پیسے میں بہت طاقت ہے، غریب اور اس کے بچے سالہا سال جیل کی دیواروں میں مقید رہتے ہیں بعض کو اپنے ناکردہ گناہوں کی وجہ سے عمر قید یا تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا ہے اور جب چھان بین ہوتی ہے تو اصل قاتل کوئی دوسرا نکلتا ہے جس کا کہانی میں کوئی کردار نظر نہیں آتا۔

بس اچانک ہی حالات پلٹ جاتے ہیں لیکن ملزمان جنھیں مجرمان ثابت کیا جاتا ہے ان کی جوانی کے خوب صورت ماہ و سال اذیت اور قید کی نذر ہو جاتے ہیں۔ جوانی میں گرفتار ہونے اور عمر قید کاٹنے والے جیل کی دیواروں سے بوڑھے ہو کر باہر آتے ہیں۔ یہ کیسا قانون اور حکومت ہے؟ جو تعیشات زندگی کے مزے لوٹنے میں مست ہے۔ 
 

متعلقہ مضامین

  • زندگی آسان ہے۔۔۔
  • خواتین ویڈیوز مارچ 2025
  • روحانی ذہانت: علم کی انتہا سے حکمت کی ابتدا تک کا سفر       
  • بجلی کی قیمت میں کمی کے اعلان کے بعد تبدیلی کی افواہیں، ترجمان پاور ڈویژن کی وضاحت
  • زلزلے کیوں آتے ہیں
  • ’’ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ‘‘ (حصہ اول)
  • ’طرز زندگی میں تبدیلی کینسر سے بچ جانے والوں کی عمر کو بڑھاتی ہے‘
  • چین بنگلہ دیش کی معاشی تبدیلی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، چیف ایڈوائزربنگلہ دیش
  • چین بنگلہ دیش کی معاشی تبدیلی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، چیف ایڈوائزر بنگلہ دیش