Express News:
2025-04-08@03:24:04 GMT

فرحت بخشتے پیرہن

اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT

لباس ہماری بنیادی ضرورت ہی نہیں، ہمارے قلب اور وجود پر بھی اپنے اثرات مرتب کرتا ہے، یہ ہمارے رکھ رکھاؤ کی خبر دیتا ہے، ہماری شخصیت کا آئینہ دار اور ہماری ثقافت کا عکاس ہوتا ہے۔

یہ کپڑے ہمارے مزاج  اور ذوق کے ساتھ ساتھ موسم کے اتار چڑھاؤ کی خبر بھی بہ خوبی دے رہے  ہوتے ہیں۔ جیسے سرد موسم سے بچاؤ کے لیے گرم لباس زیب تن کیے جاتے ہیں۔ ایسے ہی موسم گرما ٹھنڈے اور لان کے دیدہ زیب کپڑوں کے بغیر ادھورا سمجھا جاتا ہے۔ سورج کی بڑھتی ہوئی تمازت کے ساتھ ہی خواتین ٹھنڈے اور ہلکے پھلکے لباس زیب تن کرنا پسند کرتی ہیں، جو انھیں نہ صرف چلچلاتی دھوپ میں آرام پہنچاتے ہیں، بلکہ دیکھنے والی آنکھوں کو بھی بہت بھلے معلوم ہوتے  ہیں۔

ان دنوں انواع اقسام کی لان اپنے دیدہ زیب ڈیزائنوں اور رنگوں کے خوب صورت امتزاج کے ساتھ دست یاب ہے، جو مختلف ڈیزائنروں کی محنت کا شاخسانہ ہوتی ہیں۔ لان کی خریداری کے حوالے سے خواتین کی بڑھتی ہوئی دل چسپی کے باعث اس پہناوے کا چرچا گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے، ساتھ ہی اس شعبے میں جدت، تنوع اور معیار میں بھی روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ساتھ ہی باذوق خواتین اس کی مختلف تراش خراش کے ذریعے اس کی خوب صورتی کو بھی دوبالا کر دیتی ہیں اور خواتین کے مختلف پہناوں میں لان سے تیار کردہ مختلف ملبوسات دکھائی دیتے ہیں۔

خواتین موسم کے پہناوں کے حوالے سے زیادہ حساس واقع ہوئی ہیں۔ اسی لیے موسم گرما کی آمد کے ساتھ عام طور پر بھی ریشمی کپڑوں کی جگہ لان کے کپڑے پہنے جاتے ہیں۔ جیسے جیسے گرمی کی لہر بڑھتی جاتی ہے، ویسے ہی ہر طرف سوتی اور لان کے کپڑے اپنی  بہار دکھانے لگتے ہیں۔ اس ہی لیے پاکستان میں موسم گرما کو لان کا موسم بھی کہا جاتا ہے۔  موسم کے تیور بدلتے ہی خواتین لان کے کپڑوں کی خریداری کے لیے بازاروں کا رخ کرنے لگتی ہیں۔

ٹھنڈے ملبوسات کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باعث اس میں نت نئی جدتیں کی جانے لگی ہیں۔ لان کے کپڑے بناتے ہوئے  اپنی عمر کے حساب سے فیشن اوررنگوںکا انتخاب کیا جائے، تو پہننے والی شخصیت ہر مقام پر منفرد نظر آتی ہے۔ پہلے  گھریلو تقریبات میں لان یا سوتی کپڑے پہننے کا رواج عام نہیں ہوتا تھا، مگر اب لان کے کپڑوں پر کڑھائی اور شیفون کے دوپٹوں کے ساتھ ان کو اتنا دیدہ زیب بنا دیا گیا ہے کہ خواتین بڑے آرام سے ان کو دن کی تقریبات میں بھی زیب تن کر لیتی ہیں۔

اس طرح جدت کے تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ آگ برساتے موسم میں گرمی کی شدت کا احساس بھی کم ہونے لگتا ہے۔ لان کے سلے سلائے کپڑوں کا انگرکھا، کرتا، فراک ٹین ایجر لڑکیوں کو بہت بھاتا ہے۔ ان کپڑوں کی پشت پر دستی یا مشین کی کڑھائی سے اس کا حسن اور بھی بڑھا دیا جاتا ہے۔ بعض ملبوسات کے لیے خواتین سلائی کراتے ہوئے کڑھائی بھی کراتی ہیں تاکہ اسے من چاہے رنگوں سے مزین کر کے دیکھنے والوں کی نظروں کو بھا سکیں۔ اس کے علاوہ آج کل لان میں بارڈرز اور بڑے بڑے فینسی بٹنوں کا رواج بھی کافی زیادہ عام دکھائی دیتا ہے۔

دیدہ زیب رنگوں سے آراستہ لان  کے خوب صورت پیرہن عمر کی قید سے آزاد شمار کیے جاتے ہیں، چھوٹے سے لے کر بڑے تک سبھی خواتین اسے بہت سہولت سے اپنے ذوق  کے مطابق زیب تن کرتی ہیں، رہا سوال قیمت کا تو یہ بھی اپنی جیب کے حساب سے منتخب کی جاسکتی ہے۔ لان  کے منہگے ترین تھری پیس جوڑے بڑے احتیاط سے بنائے جاتے ہیں۔ ان کے ڈیزائن، اور رنگوں کا امتزاج ہمیشہ منفردرکھے جاتے ہیں۔

خواتین کی اپنے لباس کی انفرادیت کے بارے میں حساس ہونے کے باعث نئے سے نئے نقش ونگار اور رنگوں والے سوٹ مہنگی قیمت پر بھی فروخت ہوجاتے ہیں۔ آج کل خواتین لان کے کپڑوں میںکلاسک اور جدید ڈیزائن کا امتزاج اور گرافک پرنٹ کو ترجیح دیتی ہیں، جب کہ کچھ خواتین کی پسند تیز رنگوں کے متضاد رنگوں کے، پولکا ڈاٹ یا پتوں پھولوں والے ڈیزائن کی لان  کی ہوتی ہے۔

الغرض موسم کے بدلتے تیور جس طرح درختوں کے پیرہن بدلنے سے ظاہر ہوتے ہیں، بالکل اس ہی طرح بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے ساتھ اب خواتین بھی اپنے ملبوسات میں تبدیلی، جدت اور انفرادیت کا حصول چاہتی ہیں۔ اس لیے اس موسم سرما میں آپ بھی ٹھنڈے پیرہن کے ذریعے نہ صرف خود کو پرسکون رکھ سکتی ہیں، بلکہ اپنی شخصیت کو بھی جاذب نظر بنا سکتی ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جاتے ہیں کے ساتھ موسم کے لان کے

پڑھیں:

دفتری زندگی میں تبدیلی

صنف نازک کی زندگی میں کیرئیر کا انتخاب اور اس کو جاری رکھنا ہی ایک مرحلہ ہوتا ہے، الّا یہ کہ اس میں کوئی تبدیلی کرنی پڑ جائے۔ ہمیں اپنی دفتری زندگیوں میں بعض اوقات اپنی مرضی اور مزاج کے خلاف شعبے سے سمجھوتا کرنا پڑ جاتا ہے۔

ایسے میں کبھی کبھیکچھ وقت گزارنے کے بعد شعبے کی تبدیلی کا معاملہ درپیش ہوتا ہے۔ یہ نہایت اہم اور بعض اوقات مشکل فیصلہ بھی ثابت ہوتا ہے، کیوں کہ آپ نے ایک شعبے میں رہ کر جو تجربہ حاصل کیا ہوتا ہے وہ ایک نئے شعبے میں جانے کے بعد بالکل ایک طرف ہو جاتا ہے۔ نئی جگہ اور نئے کام کے لیے ہمیں پھر سے صفر سے آغاز کرنا ہوتا ہے۔

بالخصوص وہ خواتین جو نہایت مجبوری کے عالم میں ملازمت کر رہی ہوتی ہیں، اس کی متحمل نہیں ہو سکتیں، تاوقتے کہ انھیں بہتر تن خواہ نہ ملے۔ بعض خواتین شروع سے ہی اپنے کام کی نوعیت سے مطمئن نہیں ہوتیں، تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب عملی میدان میں قدم رکھتی ہیں، تو الجھن کا شکار ہو جاتی ہیں۔ وہ خود کو اس ملازمت اور عہدے پر ’’مس فٹ‘‘ محسوس کرتی ہیں یا بعض اوقات حالات، ماحول اور ساتھ کام کرنے والے افراد کے رویے مجبور کر دیتے ہیں کہ اس کام کو چھوڑ دیا جائے اور کسی نئے کیریئر کو اپنایا جائے۔

آج کل تو ڈیجیٹل دور میں بہت تیزی سے نئی ملازمتیں پیدا اور پرانی ختم ہو رہی ہیں۔ پھر خواتین کی کیرئیر کی تبدیلی میں ان کی شادی اور بچوں کے بعد کی مصروفیات بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ گھرداری میں وقت صَرف کرنے کا تقاضا بھی اکثر خواتین کے ایسے فیصلے کا محرک بنتا ہے۔ ایک ملازمت چھوڑ کر دوسری ملازمت اختیار کرنا یوں بھی ایک مشکل کام ہے، ساتھ اگر یک سر مختلف نوعیت کا کام کرنا ہو تو زیادہ مشکل ہو جاتا ہے، لیکن اگر آپ پرعزم ہیں اور ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا چاہتی ہیں تو اس موقع پر ہر چیز کے بارے میں اچھی طرح چھان پھٹک اور صلاح مشورہ کر لیں۔

پہلے اس امر کا جائزہ لیں کہ اس وقت آپ کس شعبے اور کس عہدے پر ہیں؟ آپ کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور اب آپ پیشہ ورانہ طور پر کیا اور کیوں کرنا چاہتی ہیں؟ آپ اپنے موجودہ شعبے سے مطمئن نہیں تو اس امر کا جائزہ لیں کہ نیا شعبے آپ کی بے چینی ختم کر سکے گا؟ نہایت پُرسکون ہو کر اپنے آپ سے یہ سوال کریں اور پوری سچائی کے ساتھ ان کے جواب پر غور کریں، تاکہ اپنی سمت اور منزلکا تعین کر سکیں۔ کسی بھی ایک کام کو چھوڑ کر دوسری مختلف نوعیت کے کام کو کرنے کے لیے سب سے اہم آپ کی لگن اور جذبہ ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اگر آپ کی تعلیم، تربیت اور تجربہ کسی ایک مخصوص پیشے کے متعلق ہیں، تو آپ کسی یک سر مختلف پیشے کو کیسے اپنا سکتی ہیں؟ اعلیٰ سطح کے پیشہ ورانہ شعبوں میں تو یہ ممکن ہی نہیں۔ تاہم کچھ شعبے ایسے ہوتے ہیں جہاں بعض اوقات مجبوراً دیگر شعبے کے افراد بھی طبع آزمائی شروع کر دیتے ہیں۔

یہ چوں کہ سمجھوتے کا سودا ہوتا ہے۔ اس لیے اسے ہمیشہ عارضی حل سمجھنا چاہیے اور ساتھ ہی اپنی تعلیم اور رجحان سے مطابقت رکھنے والے شعبے کی تلاش جاری رکھیے، پھر جب کوئی اسامی آئے تو کسی الجھن اور شش وپنج کے بغیر اس طرف قدم بڑھا دینے چاہیٔں، کیوں کہ یہی راستہ آپ کی منزل کی طرف جاتا ہے۔

جب کہ موجودہ ملازمت کی حیثیت آپ کے کیرئیر میں اس ’’پڑاؤ‘‘ کی سی تھی ، جو اپنی  منزل کی طرف جانے والی سواری کا منتظر تھا، اس ضمن میں اپنی توقعات کو بہت بلند بانگ نہ رکھیے، آپ نے جہاں اپنے مزاج کے خلاف شعبہ چُن کر سمجھوتا کیا تھا تواب اپنے اصل شعبے کے لیے لچک پیدا کیوں نہیں کی جا سکتی۔ یاد رکھیے، یہ لچک  جلد ہی ثمر آور ثابت ہوگی۔ بہ صورت دیگرآپ کو شاید آگے جا کر پچھتانا پڑ جائے، کیوں کہ بعض اوقات مواقع بار بار بھی نہیں ملتے۔ لہٰذا کیریئر میں ایسی تبدیلی کو بہت مثبت انداز میں فوراً قبول کرنا چاہیے۔

یہ دراصل درست تبدیلی ہوتی ہے، اسے کیرئیر کی تبدیلی کے بہ جائے صحیح معنوں میں کیرئیر کا آغاز خیال کریں۔ دوسری طرف صورت حال اس کے برعکس ہو تو بہت سوچ سمجھ لیجیے۔ جیسے اگر آپ اپنے متعلقہ شعبے کے کسی چھوٹے عہدے پر ہیں اور آپ یک سر ایک مختلف شعبے میں محض زیادہ تن خواہ اور مراعات دیکھ کر دوڑ لگا دیتی ہیں، تو پہلے بہت سوچ  سمجھ لیجیے، ایک طرف آپ کی شدید معاشی ضروریات ہو سکتی ہیں، تو دوسری طرف آپ کا تاب ناک  مستقبل اور کام یابی اور ناکامی کا بھی سوال ہے۔ اس لیے فیصلہ ہمیشہ سوچ سمجھ کر کیجیے، عارضی فایدے کے پیچھے اپنے مستقبل کو داؤ پر لگا دینا دانش مندی نہیں۔ اکثر خواتین محض فوراً حاصل ہونے والے فایدے کے پیچھے غلط فیصلہ کر لیتی ہیں اور پھر نقصان اٹھاتی ہیں۔

ایک طرف ہمارے یہاں محنت کش خواتین کو تن خواہ کم دی جاتی ہے تو دوسری طرف نئے شعبے کی طرف جانے کے بعد ان سے افسران بالا کا رویہ نوواردان کا سا ہوتا ہے، جس سے کام کرنے والی خواتین کا اعتماد مجروح ہوتا ہے اور انہیں تکلیف ہوتی ہے کہ اتنے عرصے کام کرنے کے باوجود ان سے جونیئرز کا برتاؤ کیا جا رہا ہے، حقیقتاً وہ دوسرے شعبے کے تجربے کار بھی ہوتی ہیں، لیکن ایک نئے شعبے میں تو ان کا تجربہ صفر ہی قرار پاتا ہے۔

خواتین کو اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرتے ہوئے کوشش کرنی چاہیے کہ کم سے کم اپنے متعلقہ شعبے کی نہ سہی کم سے کم اس سے قریب تر جگہ حاصل کی جائے، تاکہ من پسندشعبے کی طرف بڑھنے کے مواقع زیادہ اور جلد ملیں۔ مثلاً ایک ادارے میں آپ کا متعلقہ شعبہ موجود ہے، لیکن اسامی کسی دوسرے شعبے کی ہے۔ ایسے میں کوشش کیجیے کہ بہ جائے کسی دوسرے ادارے میں جانے کے آپ اس ہی ادارے کی دوسری اسامی قبول کرلیجیے، کیرئیر کی یہ تبدیلی آپ کے مستقبل کے لیے بہتر ثابت ہوگی۔ ایسے ادارے سے منسلک ہونے کے بعد اس ادارے میں اپنے متعلقہ شعبے میں دل چسپی کا اظہار کیجیے۔

اس شعبے کے لوگوں سے رابطے میں رہیے اور انہیں اس حوالے سے اپنی مہارت اور استعداد کے بارے میں بتائیے، بعض مواقع پر آپ یہاں عملاً رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات انجام دے سکتی ہیں، تاکہ آپ کی اہلیت کا پتا چلے کہ واقعتاً یہی آپ کا اصل شعبہ ہے۔ اس موقع پر آپ کو کیرئیر تبدیل کرنے کا فیصلہ مشکل نہیں لگے گا، بلکہ آپ کو یوں لگے گا جیسے جدوجہد کرتی ہوئی اپنی سمت کی طرف گام زن ہوگئی ہیں۔

بعض خواتین باقاعدہ کسی شعبے کی اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرتیں، اس لیے ان کی خدمات مختلف شعبوں میں کام آسکتی ہیں۔ اس لیے وہ بس روزگار کی خاطر کوئی بھی شعبہ اختیار کر لیتی ہیں اور درمیان میں جانے کے بعد انہیں کیرئیر تبدیلی کا معاملہ درپیش ہوتا ہے۔ اس کی بڑی وجوہات میں مواقع نہ ہونے کے علاوہ کمزور قوت ارادی اور ابتدا میں مناسب راہ نمائی نہ ملنا ہو سکتا ہے، پھر خواتین خود سے ہی اپنے روزگار کے لیے شعبے منتخب کر لیتی ہیں کہ ان کے مزاج اور میلان کے مطابق صرف یہی میدان ہیں، جہاں انھوں نے مواقع ڈھونڈنے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ خواتین کے لیے سود مند اور بہتر ماحول ہے۔ کام کرنے والی خواتین کو باہر نکلتے ہوئے بالکل الگ مسائل درپیش ہوتے ہیں۔

اس لیے کیرئیر بدلتے ہوئے بھی خیال رکھنا چاہیے، تاکہ آپ کی اپنی ترجیحات بھی برقرار رہیں اور کسی بھی قسم کی دشواریوں اور مسائل سے بچا جا سکے، اس کے ساتھ ساتھ آپ کا حوصلہ بھی بلند رہے اور آپ مثبت طریقے سے اپنی پیشہ وارنہ ذمہ داریوں کو ادا کرسکیں۔

متعلقہ مضامین

  • دفتری زندگی میں تبدیلی
  • پختونخوا میں موسم خشک، محکمہ موسمیات نے بارشوں کی پیش گوئی کردی
  • پختونخوا میں موسم خشک؛ محکمہ موسمیات نے بارشوں کی پیش گوئی کردی
  • فیملی پارک میں خواتین کو ہراساں کرنے والا اوباش ملزم گرفتار
  • کراچی : موسم گرما کے آغاز پر ہی سورج آگ برسانے لگا
  • پنجاب کے نجی ا سکولوں کے لیے موسم گرما کی نئی ہدایات جاری
  • آج بروز اتوار ملک کے بیشتر علاقوں میں موسم گرم اورخشک رہے گا
  • بلوچستان: جنوبی اضلاع میں دن میں موسم گرم رہے گا
  • کراچی میں موسم آج بھی گرم ، پارہ 39 ڈگری تک جانے کا امکان