Express News:
2025-04-08@01:21:42 GMT

زندگی آسان ہے۔۔۔

اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT

’’مجھے یہ تازہ گلاب اور موتیے کے کنگن پسند ہیں۔

مجھے اچھا لگتا ہے جب تم اپنے سگریٹ کے پیسے بچا کر  یا  کسی روز دفتر میں کینٹین کے بہ جائے کسی سستے ٹھیلے سے پیٹ بھر کر جو 100، 50 روپے بچاتے ہو، وہ مجھ پر خرچ کر دیتے ہو۔ مجھے اپنا وجود اہم لگنے لگتا ہے۔۔۔!‘‘

’’پَگلی ہو تم۔۔۔ یہ تو بہت معمولی تحفہ ہے، لڑکیاں تو سونے چاندی کے زیور پہن کر خوش ہوتی ہیں، اور تم ان مُرجھا جانے والے پھولوں سے خوش ہو جاتی ہو؟ ‘‘

’’ہاں۔۔۔ کیوں کہ وہ سونا چاندی تو دولت کو محفوظ کرنے کا ایک طریقہ ہے، محبت تو یہی ہے کہ اپنی ضروریات کو نظر انداز کر کے تم ان گجروں کو خریدتے ہو۔ شکریہ تمھارا، اگر کبھی خوشیاں پَرے ہوگئیں یا غموں کا موسم ہماری زندگی میں آن ٹھیرا، تو میں بھی چھوٹی چھوٹی خوشیاں تمھیں کسی بچت کی مانند لوٹاتی رہوں گی۔‘‘

اس کی آنکھوں میں ایک اُلُوہی سی چمک تھی۔ اس کے سانولے سے چہرے پر کوئی سنہرا سا محبت کا مان جھل مل جھل مل کر رہا تھا۔ عورت کا تو خمیر ہی کچھ ایسا ہے۔ ذرا سی توجہ میں وہ کھل کھل جاتی ہے۔ پھر چاہے حالات سخت ہوں یا زمانے کی تلخیاں، وہ روکھی سوکھی میں بھی مست مگن ہوتی ہے۔ سستے کپڑوں میں بھی بہت سنوری سنوری سی دکھائی دیتی ہے۔

لیکن یہ تو ایک کہانی ہے، اگر ہم حقیقت میں دیکھیں، تو ہمارے آس پاس کتنی ایسی عورتیں ہیں، جو قیمتی لباس میں بھی بجھی بجھی سی، آنکھیں بھی مسکراتے ہوئے چہرے کا ساتھ نہیں دیتیں۔ گھر کے کام نمٹاتے نمٹاتے ایک دن پوری زندگی ہی کیسے نمٹ جاتی ہے، معلوم ہی نہیں ہوتا۔ وہ توجہ اور ذرا سی محبت و ستائش کو ترسی جاتی ہیں۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ مسلسل بے توجہی کے بعد ان کا دل امنگوں سے خالی ہونے لگتا ہے۔ ایک جیسا دن، ایک ہی سی معمولات سے دماغ اور جسم تھکنے لگتا ہے۔ جھنجھلاہٹ جو تھی، وہ چڑچڑاہٹ میں بدلتی ہے اور پھر باہمی زندگی کی تلخیاں بڑھتی ہیں، جو خدانخواستہ کسی سنجیدہ نوعیت کی صورت حال یا کسی بیماری کی شکل میں بھی بدل سکتی ہیں۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سب کا شکوہ آخر کس سے کیا جائے۔۔۔؟ وہ آدمی، جو بیاہ کر لے تو آتا ہے، اور ذمہ دار بن کر ساری خوشیاں دینے کا ’ٹھیکا‘ بھی اپنے سر اٹھا لیتا ہے، لیکن وقت اور حالات کی سختی میں پستا ہوا وہ مرد، اس عورت کو کہیں فراموش ہی کر دیتا ہے۔ جو خاموشی سے اس کا گھر سنبھالے اس کے بچوں کو پال رہی ہے۔ گھر جاتا ہے، تو سجے سنورے گھر میں ذائقے دار کھانے میز پر دھرے ہوتے ہیں۔ گرم  اور نرم پھلکے اس کی رکابی میں آتے رہتے ہیں۔ چائے آجاتی ہے، لیکن کوئی شوخ جملہ کوئی ہنسی کی کھنک اُسے سنائی نہیں دیتی، کیوں۔۔۔؟ وہ جو کبھی اس نے فرمائش کی تھی، موتیے کے کنگن لانے کی، تو اس نے بڑی بیزاری سے جتا دیا تھا کہ سارا خرچہ تو تمھارے پاس ہوتا ہے۔ خرید لیا کرو اپنے لیے۔۔۔!

سو پھر یوں ہوا کہ اب تو ایسی کوئی چھوٹی سی فرمائش بھی سننے کو ترس سا گیا ہے یہ آدمی۔ وہ عورت اب کچھ کہتی ہی نہیں۔۔۔ بس خاموشی سے سب کام کرتی چلی جاتی ہے، جیسے کوئی لگی بندھی سی مشین ، لیکن ایسا کیوں ہے۔۔۔؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مانا کہ آپ سادہ طبیعت کے انسان ہیں، آپ کو محبت جتانی نہیں آتی، یا شادی کے برسوں کے بعد یہ اظہار کرنا معیوب لگتا ہے،  تو اس میں کیا مسئلہ ہے، پھر سیکھ لیجیے۔ خود آپ کی زندگی میں بھی ایک دھند سی جو چھائی ہے، چھٹ جائے گی، بس چھوٹی چھوٹی سی اچھی باتوں کو اہمیت دینے کی عادت ڈالیے۔

کبھی چائے اچھی لگے، یا کوئی رنگ بھا جائے، تو کہہ دیا کیجیے۔ آپ کا یہ بہت چھوٹا سا جملہ اس عورت کے عارض کیسے گلال کرتا ہے، اس کا جادو دیکھیے۔ اور پھر یہ مسرت آپ کے وجود میں منعکس ہوگی اور گھر کے ماحول میں دمکے گی۔ یہ گھر کا خرچہ ہے اور یہ کچھ روپے خاص تمھارے لیے اگر محض ہر ماہ یہی کہہ کر آمدنی بیوی کو تھمائی جائے، تو اس کا مان کتنا بڑھ جاتا ہے۔ کبھی خاص خاتون خانہ کے لیے لایا گیا  اس کی پسند کا موسمی پھل کیسے صحت بناتا ہے، آپ حیران ہو جائیں گے۔ یہ سب ہرگز فضول خرچی ہے اور نہ چونچلے، بلکہ گھرانے اور اس کے بنیادی رشتوں کو مضبوط بنانے اور تازہ رکھنے کے بہت آسان سے گُر ہیں۔

سو خوش رہیے، اپنی شریک حیات کی خوشی کے لیے بھی متحرک رہیے، اور  اپنے گھر میں خوشیاں پھیلائیں، کیوں کہ زندگی کی کٹھنائیاں ایسے ہی آسان ہوجاتی ہیں، ورنہ کبھی لگے بندھے معمولات زندگی میں بیزاری پیدا کرنے لگتے ہیں، اور کبھی یہ بیزاری کا زہر جمع ہوتا رہتا ہے تو پھر کبھی حسد، لڑائی جھگڑوں اور بہت سے منفی رویوں کی صورت بھی اختیار کر جاتا ہے، جو پھر دوسرے رشتوں پر بھی اثر انداز ہونے لگتا ہے۔ یاد رکھیے، ایک مثبت رشتہ ہی ایک صحت مند اور آسودہ خاندان کو تشکیل دیتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: لگتا ہے میں بھی جاتی ہے

پڑھیں:

روحانی ذہانت: علم کی انتہا سے حکمت کی ابتدا تک کا سفر       

آج کے جدید دور اور نفسانفسی کے اس ماحول میں، بے شمار لوگ علم کی تلاش میں سرگرداں ہیں، لیکن بہت کم ایسے ہیں جو اس علم کو اپنی زندگی میں مؤثر طور پر استعمال کر پاتے ہیں۔ جب یہ علم عملی دانش میں ڈھلتا ہے تو اسے حکمت کہا جاتا ہے، اور یہی حکمت انسان کو کام یابی کی منازل طے کرنے میں معاونت فراہم کرتی ہے۔ جدید تحقیق، بگ ڈیٹا، اور نفسیات نے انسانی ذہنی صلاحیتوں اور مہارتوں کو بڑھانے کے نئے طریقے دریافت کیے ہیں، جن میں ہاورڈ گارڈنر کی multiple intelligences کی تھیوری قابل ذکر ہے۔

گذشتہ چند سالوں میں ہم ایموشنل انٹیلیجنس (جذباتی ذہانت) کے بعد آرٹیفیشل انٹیلیجنس (مصنوعی ذہانت) کے دور میں قدم رکھ چکے ہیں، جہاں انسان نے علم میں اضافہ، فیصلہ سازی کی مہارت، اور مستقبل کی پیش گوئی کے لیے نت نئے طریقے اختیار کر لیے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی، روحانی نفسیات بھی زیربحث ہے، اور ماہرین نفسیات اس کے نئے رجحانات پر تحقیق کر رہے ہیں۔ تاہم، ایک اور اہم موضوع جو تیزی سے مقبول ہو رہا ہے، وہ روحانی ذہانت (Spiritual Intelligence) ہے۔

آج کے مضمون میں، ہم اس پہلو پر گفتگو کریں گے کہ ہم اپنی روحانی ذہانت کو کیسے بروئے کار لا سکتے ہیں تاکہ اپنی ذاتی، ذہنی، پیشہ ورانہ، اور روحانی زندگی میں ترقی کریں اور معاشرے کے کارآمد افراد بن کر دوسروں کی زندگی میں بہتری لاسکیں۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ روحانی ذہانت کسی مذہب یا عقیدے پر مبنی تصور نہیں، بلکہ یہ انسانی شعور اور روحانیت کی دُنیا کا ایک ایسا پہلو ہے جو انسان کو اپنے لاشعور سے جوڑتا ہے اور اسے اپنے وجود سے بالاتر ہو کر کائنات اور خالق کے ساتھ تعلق قائم کرنے میں مدد دیتا ہے۔

ہم اکثر اپنی زندگی میں روحانی ذہانت کا استعمال کرتے ہیں، جسے بعض اوقات چھٹی حس یا دیگر ناموں سے جانا جاتا ہے۔ یاد رکھیں، ہم سب انسان فانی ہیں اور اس دُنیا میں محض مسافر ہیں۔ اس سفر کے اختتام پر ہمیں اپنے خالق کے پاس لوٹ کر جانا ہے، اور یہی روحانی ذہانت ہمیں اس امتحان کی بہترین تیاری کرواتی ہے۔ جیسا کہ پائیر تیار شارڈن، فرانسیسی فلسفی اور پریسٹ، کہتے ہیں،’’ہم روحانی سفر پر گام زن انسان نہیں ہیں، بلکہ ہم انسانی سفر پر گام زن روحانی ہستیاں ہیں۔‘‘

روحانی ذہانت ہمیں اپنی ذات کے مقصد، دُنیاوی زندگی کے سفر، مشکلات کی وجوہات، اور سب سے بڑھ کر اپنے خالق کے تخلیق کردہ مشن سے آگاہ کرتی ہے۔ یہ ہمیں روزمرہ کی مصروفیات سے بالاتر ہوکر سوچنے، بہتر فیصلے کرنے، اور ایک عظیم تر مقصد کے تحت زندگی گزارنے کی ترغیب دیتی ہے۔ ہر انسان ایک منفرد ہستی ہے، اور اس کی زندگی کا ایک خاص مقصد ہے، جو دُنیاوی ضروریات سے کہیں زیادہ وسیع اور بلند ترہے۔

روحانی ذہانت کیا ہے؟

روحانی ذہانت (Spiritual Intelligence - SQ) سے مراد وہ صلاحیت ہے جس کے ذریعے انسان روحانی اقدار، اصولوں اور بصیرت کو اپنی زندگی میں سمجھتا اور لاگو کرتا ہے۔ یہ مقصد، خودآگاہی، اور خالقِ کائنات یا گہرے معنی سے جڑنے کی صلاحیت پر مشتمل ہوتی ہے، چاہے وہ خُدا ہو، کائنات ہو یا کوئی اور مابعدالطبیعاتی حقیقت۔ یہ محض مذہبی عقائد سے مختلف ہے؛ بلکہ یہ اندرونی حکمت، اخلاقی فیصلے کرنے کی صلاحیت، اور باہمی ربط کے احساس سے متعلق ہے۔ وہ افراد جن کی روحانی ذہانت زیادہ ہوتی ہے، عموماً درج ذیل خصوصیات رکھتے ہیں۔ خودآگاہی سے آشنا، اپنے اندرونی جذبات، خیالات اور مقصد کو سمجھنے کے قابل ہونا۔

ہم دردی اور شفقت: دوسروں اور دُنیا کے لیے گہری فکر رکھنا۔

دیانت داری اور اصلیت: اعلیٰ اخلاقی اقدار کے مطابق زندگی گزارنا۔

استقامت: مشکلات میں صبر و استحکام کا مظاہرہ کرنا۔

روحانی وسعت: زندگی کو مادی کام یابیوں اور ذاتی مفادات سے بالاتر دیکھنا۔

پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگی میں، روحانی ذہانت انسان کو دانائی کے ساتھ قیادت کرنے، تنازعات کو حل کرنے، اور اپنے کام و تعلقات میں گہرے معنی تلاش کرنے میں مدد دیتی ہے۔

زندگی میں درست فیصلے اور دوراندیشی

روحانی ذہانت ہمیں زندگی کے چھوٹے بڑے فیصلوں میں درست انتخاب کرنے، اور ایک وسیع تر نقطۂ نظر کے ساتھ آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے۔ جو لوگ روحانی ذہانت کے اصولوں کو اپناتے ہیں، وہ محض دُنیاوی تعلیم اور تجربات پر انحصار نہیں کرتے، بلکہ وہ اپنی فطری صلاحیتوں، اندرونی بصیرت، اور رُوح کی گہرائی میں چھپے اسرار کو سمجھ کر فیصلہ سازی کرتے ہیں۔ اگر آپ اپنی زندگی میں بہتر فیصلے کرنے اور مستقبل کے امکانات کو بہتر طریقے سے سمجھنا چاہتے ہیں، تو اپنی روحانی ذہانت کو فروغ دیں۔

زندگی کی مشکلات میں ثابت قدمی

زندگی میں ہر شخص کو مشکلات اور کٹھن فیصلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور بعض اوقات ذہنی دباؤ ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو متاثر کردیتا ہے۔ اعلیٰ ذہانت رکھنے والے اور قابل ترین لوگ بھی بعض مواقع پر حالات کے دھوکے میں آ جاتے ہیں، لیکن روحانی ذہانت کے حامل افراد اپنے روحانی شعور اور حکمت کے ذریعے زندگی کے طوفانوں کا مقابلہ ثابت قدمی کے ساتھ کرتے ہیں۔

روحانی ذہانت اور انسان دوستی

روحانی ذہانت کے حامل افراد محض خانقاہوں اور درباروں تک محدود نہیں ہوتے، بلکہ وہ لیبارٹریوں، سائنسی اداروں، اور ڈیجیٹل دُنیا میں بھی سرگرم ہوتے ہیں۔ یہ کوئی ظاہری وضع قطع یا مخصوص طورطریقوں کا نام نہیں ہے، بلکہ ایک طرزِعمل ہے جو انسان کو دوسروں کے لیے بہتر اور معاون بناتا ہے۔ امریکا کی نیشنل لائبیری آف میڈیسن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے۔ نرسوں میں روحانی ذہانت کی اعلیٰ سطح ان کی نفسیاتی تن درستی کو بہتر بنانے اور زندگی میں ایک مقصد رکھنے میں ان کی مدد کرتی ہے، جو ان کی اور ان کے مریضوں کی صحت کی بہتر فراہمی کا باعث بن سکتی ہے۔

روحانیت: ایک مسلسل سفر

یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ روحانیت کوئی منزل نہیں بلکہ ایک مسلسل سفر ہے۔ کچھ لوگ روحانی ذہانت کو بھی دُنیاوی کام یابیوں کی طرح کسی خاص مقام پر پہنچنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں، جب کہ حقیقت میں یہ ایک مسلسل سیکھنے اور بڑھنے کا عمل ہے۔ روحانی ذہانت کی کام یابی کو روایتی دُنیاوی پیمانوں سے نہیں ناپا جا سکتا، کیوںکہ اس کی گہرائی کو سمجھنے کے لیے ایک مختلف زاویہ اور نظر درکار ہوتا ہے۔ یہ وہ حکمت ہے جو انسانی آنکھ سے نہیں دیکھی جاسکتی لیکن آنے والے وقتوں کو پہلے سے ہی دیکھ لیتی ہے۔

بہتر انسان اور لیڈر بننا

روحانی ذہانت ہمیں ایک بہتر انسان بننے، دوسروں کا احساس کرنے، اور اپنی ذاتی و پیشہ ورانہ زندگی میں مؤثر خدمات انجام دینے کے لیے متحرک کرتی ہے۔ چاہے ہم کارپوریٹ دُنیا میں ہوں، کسی تعلیمی ادارے میں، یا مذہبی قیادت میں، روحانی ذہانت ہمیں ایک بہتر راہ نما بننے، دوسروں کی تربیت کرنے، اور انہیں زندگی کے حقیقی مقصد کی طرف راغب کرنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ قدرت کا انعام ہے تاکہ ہم انسانیت کی خدمت کریں۔ روحانی زندگی کا مطلب کسی خاص مرتبے یا عہدے کا حصول نہیں، بلکہ اپنے کردار سے دوسروں کے لیے ایک مثالی نمونہ بننا ہے۔ روحانی ذہانت نہ صرف ہماری اپنی زندگی میں تبدیلی لاتی ہے بلکہ یہ دوسروں کی زندگی میں مثبت اثرات ڈالنے کا ایک ذریعہ بھی بنتی ہے۔

روحانی ذہانت (SI)، جذباتی ذہانت کی طرح، ترقی، بہبود اور اندرونی حکمت کی حمایت کر سکتی ہے۔ SI کو 22 صلاحیتوں میں تقسیم کیا گیا ہے جنہیں مراقبہ اور غوروفکر کے طریقوں سے تقویت ملتی ہے۔ SI کو متقی مذہبی سے لے کرکٹر ملحدوں تک، سبھی استعمال کر سکتے ہیں۔ روحانی ذہانت ہمیں مادی زندگی سے بالاتر ہو کر سوچنے اور زندگی کے حقیقی مقاصد کو سمجھنے کی تحریک دیتی ہے۔ اگر ہم اپنی روحانی ذہانت کو بیدار کریں، تو نہ صرف ہم اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں ترقی کریں گے، بلکہ ہم دوسروں کی زندگیوں میں بھی مثبت تبدیلی لا سکیں گے۔

روحانیت کا سفر

 روحانیت کوئی مخصوص منزل نہیں ہے، بلکہ مسلسل جاری رہنے والا سفر ہے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ علم، روحانیت اور خلوص کی بنیاد پر قائم ہونے والے رشتے ہمیشہ دیرپا ہوتے ہیں۔ سرمد صہبائی نے کیا خوب لکھا ہے،’’ہر انسان کا روحانی تجربہ اُس کا اپنا ہوتا ہے، روحانیت عالم گیر چیز ہے اس کو پراڈکٹ نہیں بنانا چاہیے۔‘‘ بدقسمتی سے ہم ایک ایسے ننگے اور تاریک معاشرے میں زندہ ہیں جہاں روحانیت اور پاکیزگی عمدہ لباس زیب تن کر کے اس کی شرم کو چپھانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔یاد رہے کہ قوموں کی تعمیر و ترقی کے فیصلے، حماقت اور طاقت سے نہیں، حکمت اور ہمت سے ہوتے ہیں۔

اس لیے کبھی کبھی زندگی میں ڈٹے رہنا ہی نہیں، پیچھے ہٹ جانا بھی کام یابی ہوتی ہے، یہ موٹیویشن نہیں، حکمت ہوتی ہے۔ علم سنانا چاہتا ہے اور حکمت سننا چاہتی ہے۔ ’’علم ہر روز کچھ نہ کچھ سیکھنے کا نام ہے، جب کہ حکمت ہر روز کچھ نہ کچھ جاننے دینے کا نام ہے۔ (جین کہاوت) علم کا حصول الفاظ کی کثرت دیتا ہے، جب کہ حکمت خاموشی عطا کرتی ہے۔ بس حکمت کو سمجھنے کے لیے حکمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ’’بہترین لکھیں، انتہائی دل چسپ کتاب جو آپ لکھ سکتے ہیں، حکمت سے بھرپور، ایمان داری اور انسانیت سے سرشار کتاب جو آپ کے اندر ہے۔‘‘ (اینا لیموٹ)

میں اکثر سوچتا ہوں کہ انسان کی زندگی میں کام یابی کا کیا فائدہ اگر وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرے، بہترین ادارے میں کام کرے، شان دار گھر اور خوش حال خاندان کا مالک ہو، اور ایک پُرآسائش زندگی بسر کر رہا ہو، لیکن ان سب کے باوجود اپنے خالق سے تعلق قائم نہ کر سکے اور اپنی رُوح کو محفوظ نہ رکھ سکے؟ کیوںکہ اگر روحانی سکون میسر نہ ہو تو دُنیاوی کام یابیاں محض ایک سراب بن کر رہ جاتی ہیں۔ زندگی کی اصل خوبصورتی صرف مادی ترقی میں نہیں ہے، بلکہ روحانی بیداری اور قلبی اطمینان میں بھی ہے۔

اگر دل بے چین ہو، رُوح بھٹک رہی ہو، اور انسان اپنے خالق کو فراموش کر چکا ہو، تو دُنیا کی کوئی بھی کام یابی اسے مکمل نہیں کر سکتی ہے۔ ایسی صورت حال میں سب کچھ ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں زندگی کے ہر پہلو میں توازن قائم رکھنا چاہیے۔ دُنیاوی ترقی کے ساتھ روحانی ترقی بھی ضروری ہے۔ جب انسان اپنے رب سے جُڑتا ہے، تو اُسے حقیقی خوشی، سکون اور مقصدیت نصیب ہوتی ہے۔ اس تعلق کے بغیر، سب کچھ ہوتے ہوئے بھی زندگی میں ایک خلا باقی رہ جاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • دفتری زندگی میں تبدیلی
  • خواتین ویڈیوز مارچ 2025
  • روحانی ذہانت: علم کی انتہا سے حکمت کی ابتدا تک کا سفر       
  • پی پی کبھی اتحادی حکومت سے علیحدہ نہیں ہوگی
  • زلزلے کیوں آتے ہیں
  • ’’ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ‘‘ (حصہ اول)
  • ’طرز زندگی میں تبدیلی کینسر سے بچ جانے والوں کی عمر کو بڑھاتی ہے‘
  • مشہور ڈرامہ ’کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی‘ ایک بار پھر واپسی کے لیے تیار
  • ڈرامہ سیریل ’یقین کا سفر‘ نے میری زندگی بدل دی: احد رضا میر