دنیا میں زچگی کی اموات میں اضافہ، وجوہات کیا ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
اقوام متحدہ کے اداروں نے خبردار کیا ہے کہ امدادی مالی وسائل میں غیرمعمولی کٹوتیوں کے باعث زچگی کی اموات روکنے کی جانب پیش رفت کو خطرات لاحق ہیں۔
سنہ2000 اور 2023 کے درمیانی عرصہ میں ضروری طبی خدمات تک رسائی میں بہتری کے نتیجے میں زچگی کی اموات میں 40 فیصد تک کمی آئی تھی۔ تاہم 2016 کے بعد یہ پیش رفت سست پڑ گئی ہے۔
سنہ 2023 میں تقریباً 260،000 خواتین حمل اور زچگی کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف)، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور جنسی و تولیدی صحت کے لیے ادارے (یو این ایف پی اے) کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں زچگی کی تقریباً 2 تہائی اموات ایسے علاقوں میں ہوتی ہیں جہاں حالات نازک ہیں یا وہ تنازعات اور بحرانوں کا شکار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: افریقہ میں زچگی کے دوران خواتین کی اموات، اقوام متحدہ کے چونکا دینے والے اعداد و شمار
اس میں خواتین کو خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات تک رسائی اور انہیں خون کی کمی، ملیریا اور غیرمتعدی بیماریوں جیسے مسائل پر قابو پانے میں مدد دینے پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دیگر بیماریوں کی روک تھام کے نتیجے میں زچگی کے مسائل میں بھی کمی لائی جا سکتی ہے۔
علاوہ ازیں لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا اور خواتین کو اپنی صحت کے بارے میں ضروری معلومات اور وسائل تک رسائی حاصل ہونا بھی ضروری ہے۔
عدم مساوات اور سست پیش رفترپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 2000 سے سنہ 2023 تک جن خطوں میں زچگی کی اموات میں کمی کی شرح سب سے زیادہ رہی ان میں ذیلی صحارا افریقہ بھی شامل ہے۔ اس کا شمار اقوام متحدہ کے ان تین خطوں میں ہوتا ہے جہاں سنہ 2015 کے بعد ایسی اموات میں نمایاں کمی آئی۔ دیگر دو میں آسٹریلیا و نیوزی لینڈ اور وسطی و جنوبی ایشیا شامل ہیں۔
مزید پڑھیے: بلوچستان دوران زچگی خواتین کے انتقال کی شرح سب زیادہ، 30 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار
تاہم سنہ 2015 کے بعد پانچ خطوں میں زچگی کی اموات روکنے کی جانب پیش رفت جمود کا شکار رہی جن میں شمالی افریقہ و مغربی ایشیا، مشرقی و جنوب مشرقی ایشیا، اوشیانا (آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل نہیں)، یورپ اور شمالی امریکہ اور لاطینی امریکہ و غرب الہند شامل ہیں۔
محفوظ زچگی پر کوویڈ۔19 کے اثراتاس رپورٹ میں محفوظ زچگی پر کوویڈ۔19 وبا کے اثرات کا جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ اندازے کے مطابق سنہ 2021 میں مزید 40 ہزار خواتین حمل یا زچگی کے دوران موت کے منہ میں چلی گئیں۔ سنہ 2022 میہں یہ تعداد بڑھ کر 282،000 اور اس سے اگلے سال 322،000 تک جا پہنچی تھی۔
کوویڈ۔19 کے نتیجے میں براہ راست پیدا ہونے والی جسمانی پیچیدگیوں کے علاوہ زچگی کی خدمات میں بڑے پیمانے پر آنے والا خلل بھی ان اموات کا بڑا سبب تھی۔ اس سے وباؤں اور دیگر ہنگامی حالات میں یہ خدمات برقرار رکھنے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
ہنگامی اقدامات کی ضرورتامدادی وسائل میں آنے والی کمی کے باعث کئی ممالک میں زچہ بچہ اور چھوٹے بچوں کی صحت کے لیے درکار ضروری خدمات دستیاب نہیں رہیں۔
اقوام متحدہ کے اداروں نے زچگی میں اموات کو روکنے کے لیے ہنگامی اقدامات کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ بحران زدہ علاقوں میں یہ صورتحال کہیں زیادہ خراب ہے۔
مزید پڑھیں: امریکا: زچگی کی شرحِ اموات میں دوگنا اضافہ، سیاہ فام خواتین زیادہ متاثر
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ بیک وقت امید اور مایوس کن حالات کی عکاس ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اگرچہ زچگی کی اموات کو روکنے اور اس کا سبب بننے والی طبی پیچیدگیوں پر قابو پانے کے طریقے موجود ہیں لیکن اس کے باوجود آج بھی اس مسئلے کے باعث خواتین کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ زچگی میں اموات کو روکنے کے لیے معیاری طبی خدمات کی فراہمی کے علاوہ خواتین اور لڑکیوں کے طبی و تولیدی حقوق کو بھی تحفظ دینا ہو گا۔
دائیوں اور نرسوں کی اہمیتیونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہا ہے کہ جب کوئی ماں حمل یا زچگی کے دوران موت کا شکار ہو جاتی ہے تو اس کے بچے کو بھی خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بہت سے واقعات میں دونوں ایسی وجوہات کی بنا پر زندہ نہیں رہ پاتے جنہیں روکا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: زچگی کے عمل کا دوسرا فریق
ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں امدادی وسائل کی شدید قلت کے باعث مزید بڑی تعداد میں ماؤں کی زندگی خطرے میں ہے۔ ان کی زندگیاں بچانے کے لیے دائیوں، نرسوں اور مقامی سطح پر کام کرنے والے طبی کارکنوں پر سرمایہ کاری کرنا ہو گی تاکہ ہر ماں اور بچے کو زندہ رہنے اور ترقی پانے کا موقع مل سکے۔
بین الاقوامی ذمہ دارییو این ایف پی اے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نتالیا کینم نے واضح کیا ہے کہ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے ایسے طبی نظام قائم کرنے ہوں گے جن کے ذریعے زچہ بچہ کی زندگیوں کے تحفظ کی ضمانت ملے۔
انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے طبی سازوسامان کی سپلائی چین کو بہتر بنانا، دائیوں اور نرسوں کی افرادی قوت میں اضافہ اور خطرات کا شکار خواتین کے حوالے سے تفصیلی معلومات اور اعدادوشمار کے حصول کا اہتمام کرنا ضروری ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات کی بدولت زچگی کی قابل انسداد اموات اور ان کے نتیجے میں خاندانوں اور معاشروں کو پہنچنے والے نقصان پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقوام متحدہ دوران زچگی اموات ڈبلیو ایچ او زچگی کی اموات زچگی کی اموات میں اضافہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ ڈبلیو ایچ او اقوام متحدہ کے زچگی کے دوران کے نتیجے میں کہنا ہے کہ کا شکار کے باعث پیش رفت گیا ہے کے لیے
پڑھیں:
عیدالفطر گزرتے ہی گوشت کی قیمت میں بے پناہ اضافہ
عید الفطر کے گزرتے ہی مرغی، گائے اور بکرے کے گوشت کی قیمت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے اور شہر بھر میں گوشت حکومت کی مقررہ قیمت سے زائد پر فروخت کیا جا رہا ہے اور شہری پریشان ہوگئے ہیں۔
لاہور میں عید الفطر کے گزرتے ہی مرغی، گائے اور بکرے کے گوشت کی قیمت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا جس کی وجہ سے شہری شدید پریشان ہیں، سرکاری طور مرغی برانڈر کے گوشت کی قیمت آج بھی 595 روپے ہے لیکن شہر میں 800 روپے تک فروخت ہو رہا ہے۔
اسی طرح گائے کے گوشت کی قیمت 900 روپے کلو ہے لیکن مارکیٹ میں 1200 روپے پر فروخت ہو رہا ہے، بکرے گوشت کی سرکاری قیمت 1900 کلو ہے لیکن 2500 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔
ڈپٹی کمشنر لاہور سید موسیٰ رضا نے اس حوالے سے بتایا کہ گراں فروش کسی رعایت کے مستحق نہیں، روزانہ کی بنیاد پر مقدمات کا اندراج اور بھاری جرمانے کیے جارہے ہیں۔