پی ایس ایل کا مقابلہ کس لیگ کے ساتھ ہے؟ حسن علی نے بتادیا
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
پاکستانی فاسٹ بولر حسن علی نے کہا ہے کہ پی ایس ایل 10 میں اچھی کارکردگی کا تسلسل برقرار رکھ کر پاکستان کرکٹ ٹیم میں دوبارہ جگہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر پی ایس ایل میں کھلاڑیوں کی کارکردگی اچھی ہوگی تو تماشائی ضرور میدان کا رخ کریں گے۔ پی ایس ایل کا مقابلہ آئی پی ایل کے ساتھ ہے، اچھی پرفارمنس پیش کی جائے تو کرکٹ کے مداح آئی پی ایل کی بجائے پی ایس ایل دیکھیں گے۔
جمعہ سے شروع ہونے والی پی ایس ایل 10 کے سلسلے میں کراچی کنگز کے پہلے تربیتی سیشن کے موقع پر نیشنل اسٹیڈیم میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حسن علی نے کہا کہ اس بار کراچی کنگز میں بہت سی چیزیں نئی ہیں،امید ہے کے لیگ میں اچھے نتائج دینے میں کامیاب رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کنگز کے نامزد بولنگ کوچ شان ٹیٹ کے ساتھ پاکستان ٹیم میں بھی کام کیا ہے۔سابق آسٹریلوی فاسٹ بولر کی موجودگی سے کراچی کنگز کو بہت فائدہ پہنچے گا۔
حسن علی نے کہا کہ وہ انجری سے نجات پانے کے بعد لیگ میں بہتر کارکردگی کے لیے پرامید ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ جہاں ٹیم کو ضرورت ہو وہاں پرفارم کریں۔
فاسٹ بولر کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کرکٹ ٹیم اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرے تو فرنچائز لیگ پر فرق پڑتا ہے۔ جب قومی ٹیم اچھا کھیلتی ہے تو پی ایس ایل کا گراف بھی اوپر جاتا ہے۔پاکستان کرکٹ ٹیم اس وقت تبدیلی کے مراحل سے گزر رہی ہے، قومی ٹیم میں نئے چہرے شامل کیےگئے ہیں۔ اچھے نتائج کے لیے نئے کھلاڑیوں کو مواقع دینا ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ایس ایل میں اچھا کھیل پیش کرنے والے کھلاڑی ہمیشہ توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ نیشنل ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کا انعقاد اچھا اقدام تھا۔ ایونٹ میں ان کی کارکردگی اچھی رہی اور پی ایس ایل میں بھی اسی تسلسل کو قائم رکھنے کی کوشش کریں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کراچی کنگز حسن علی نے پی ایس ایل کہا کہ نے کہا
پڑھیں:
ملک میں دہشت گردی کی نئی لہر ... مقابلہ کرنے کیلئے قوم کو متحد ہونا ہوگا!!
ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے پیش نظر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی اور دفاعی تجزیہ کاروں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی
(دفاعی تجزیہ کار)
سنہ 2000ء میں ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا۔2015سے 2019ء کے درمیان دہشت گردی میں کچھ کمی آئی مگر بعدازاں دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہواجس کی مختلف وجوہات ہیں ۔
پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز شیعہ سنی فسادات سے ہوا۔ اس کے علاوہ ہم نے افغانستان میں امریکا کی جنگ لڑی جس کیلئے پوری دنیا سے جہاد کے نام پر امریکا نے لوگوں کو بھرتی کیا۔ نیویارک کی فاروق مسجد میں ایک سینٹر بنایا گیا جہاں سے تین ہزار کے قریب لوگ اس خطے میں آئے اورروس کے خلاف لڑے ۔
امریکا نے خود تو یہ جنگ جیت لی لیکن وہ ان لوگوں کو ہمارے قبائلی علاقوں میں چھوڑ گیا، وہ بندوق اٹھا چکے تھے لہٰذا انہوں نے اپنی مرضی کا اسلام لانے کیلئے ریاست کو مجبور کرنا شروع کیا اور ان کی فنڈنگ بیرون ممالک سے تھی اور ان میں ازبک، چیچن، عرب و دیگر بھی شامل تھے ۔ جو پہلے جہادی تھے وہ بعد میں دہشت گرد بن گئے، ان پر انعام بھی تھا، پاکستان نے ایسے بہت سارے دہشت گرد امریکا کے حوالے کیے۔
جب افغان جنگ شروع ہوئی تو سوات سے فضل اللہ اور دیگر جو سی آئی اے اور بھارت کے پے رول پر تھے، افغانستان چلے گئے اور یہاں نارتھ وزیرستان، باجوڑ، دیر وغیرہ میں ان سے منسلک تنظیموں نے سکیورٹی فورسز پر حملے شروع کیے، جس کے بعد پاکستان آرمی نے مختلف آپریشنز کیے، نارتھ وزیرستان میں آپریشن ہوا، جنرل (ر) راحیل شریف کے دور میں ان علاقوں میں رہنے والے افراد کو پشاور منتقل کیا گیا اور پالیسی یہ تھی آپریشن مکمل ہونے کے بعد انہیں واپس آباد کیا جائے گا۔
پاکستان کے کامیاب آپریشنز کے نتیجے میں دہشت گرد افغانستان بھاگ گئے جن میں سے بیشتر امریکی افواج کے ہاتھوں گرفتار ہوئے، جیلوں میں قید کر دیے گئے مگر اس طرح پاکستان دہشت گردی سے نکل آیا۔ فوج نے کامیاب آپریشنز کے بعد انٹیلی جنس پر مبنی آپریشنز کا آغاز کیا جن میں شہری و دیہی علاقوں میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک ، ان کے لیڈرز پکڑے گئے، مارے گئے لیکن پھر امریکا نے فوری فوجی انخلاء کر لیا اور تقریباََ 12 بلین مالیت کا اسلحہ افغانستان میں ہی چھوڑ دیا۔
اس اسلحہ چھوڑنے کے پیچھے یہ پالیسی تھی کہ اسے یہاں دہشت گردی کیلئے استعمال کیا جائے گا اور اس طرح یہاں چین کے لیے بھی مسائل پیدا ہوں گے۔ افغانستان کو پاکستان نے ہمیشہ سپورٹ کیا لیکن افغان قوم پاکستان کی احسان مند نہیں ہے۔ اس وقت وہاں مجرموں اور دہشت گردوں کا نیٹ ورک قابض ہے۔ طالبان نے اقتدار میں آتے ہی اسلحہ اپنے قبضے میں کیا، جیلوں کے تالے توڑے، سب کو آزاد کر دیا اور پاکستان مخالف گروہوں کو بھی وہاں سیف ہاؤس فراہم کیا۔ وہاں بھارت کا بھی اثر و رسوخ ہے، یہ گٹھ جوڑ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے، اس کی بڑی مثال سانحہ آرمی پبلک سکول ہے جس میں ننھے معصوم بچوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا۔
اس کی مانیٹرنگ کابل میں موجود بھارتی قونصل خانے میں ہوئی اور اس وقت ایک بھارتی آپریٹر براہ راست رابطے میں تھا۔ دہشت گردی کی اس لہر میں بڑے بڑے حملے ہوئے ہیں۔ پنجگور اورسبی میں حملے ہوئے، پولیس لائنز پشاور ، کوئٹہ میں ریلوے اسٹیشن پہ حملہ ہوا ، ایف سی اور فوج کی چیک پوسٹوں پر حملے ہورہے ہیں۔ سکیورٹی فورسز کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے اور اس کے پیچھے بھارت بھی ملوث ہے۔
بھارت اور امریکا دونوں چاہتے ہیں پاکستان مستحکم نہ ہو۔ پاکستان میں جو لوگ ان کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں ان میں مسنگ پرسنز شامل ہیں۔ جعفر ایکسپریس پر حملہ کرنے والوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا تو ان میں بھی مسنگ پرسنز شامل تھے۔ اسی طرح ملک کے دیگر حصوں میں متعدد کارروائیوں میں مسنگ پرسنز شامل تھے۔
امریکا، بھارت، افغانستان، موساد و دیگر بیروں طاقتیں پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کیلئے کام کر رہی ہیں۔ افغانستان میں موجود کندھاری گروپ خوارج کو سپلائی فراہم کر رہا ہے ، ان کے بیسز نورستان ، کابل وغیرہ میں ہیں، ان کی سربراہی میں وہاں کام ہو رہا ہے، بھارتی ایجنسی ’را‘ کے آپریٹرز وہاں موجود ہیں جو پاکستان مخالف سرگرمیوں کو فروغ دے رہے ہیں۔
اب سوا ل یہ ہے کہ پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟ پاکستان کو اپنی کاؤنٹر سٹرٹیجیز بنانی چاہئیں، نیشنل سٹرٹیجک پالیسوں کو ڈویلپ کرنا چاہیے، متبادل بیانیہ بنانا چاہیے مگر افسوس ہے کہ پاکستان کی حکومت اور سیاسی جماعتیں آپس کی لڑائیوں میں مصروف ہیں۔ ہماری حکومتوں کو اس کا ادراک ہی نہیں کہ ملک میں دہشت گردی اور سکیورٹی صورتحال کس حد تک خطرناک ہوچکی ہے اور اس کے پیشگی خطرات کیا ہیں۔
ملک میں نیشنل ایکشن پلان بنا تھا لیکن اس پر صحیح معنوں میں عملدرآمد نہیں ہوا۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت نیکٹا بنایا گیا، سوال یہ ہے کہ یہ ادارہ کہاں ہے؟ وزیر اعظم نے ڈیڑھ ماہ قبل نیکٹا کو مضبوط بنانے کی بات کی،اس پر کیا کام ہوا؟ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے سب کام افواج پر چھوڑ دیا ہے اور وہ دہشت گردی کے معاملے کو ترجیح نہیں دے رہی۔ بلوچستان بڑا علاقہ ہے، اس میں سب جگہ فوج تعینات نہیں کی جاسکتی، اس کے لیے ہمیں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا ہوگا۔ اسی طرح افغان بارڈر پر بھی ہمیں ٹیکنالوجی کی مدد لینا ہوگی۔اس وقت ہمیں متبادل بیانیے کی اشد ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو مسنگ پرسنز اور مذہب کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے والوں کے بارے میں حقیقت بتائی جاسکے۔
سلمان عابد
(سیاسی تجزیہ کار)
نیشنل سکیورٹی کے اجلاس میں وزیراعظم، آرمی چیف اور سیاسی قائدین کی تقاریر دہشت گردی سے نمٹنے کے عزم کو ظاہر کرتی ہیں تاہم وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم عملی اقدامات کی طرف آئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اہم یہ ہے کہ ہمیں دہشت گردوں اور سیاسی لوگوں کے درمیان فرق کو سمجھیں ۔ بلوچستان میں جو لوگ ریاست کی رٹ چیلنج اورلوگوں کو مار رہے ہیں۔
ان کے ساتھ جو مرضی سلوک کریں لیکن بلوچستان کی سیاسی قیادت جس میں سردار اختر مینگل، محمود خان اچکزئی، ڈاکٹر عبدالمالک و دیگر شامل ہیں، انہیں ساتھ لے کر چلنا چاہیے، دیوار سے نہیں لگانا چاہیے۔ موجودہ حکومت کی کوئی رٹ نظر نہیں آرہی، جب تک سیاستدان ووٹ کی بنیاد پر نہیں بنائیں گے، تب تک ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ بلوچستان کی صورتحال یہ کہتی ہے کہ لوگوں کے تحفظات دور کیے جائیں، شفاف انتخابات ہوں اور عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا جائے ۔
طاقت کا استعمال کسی مسئلے کا حل نہیں، ہم نے طاقت کے ذریعے دہشت گردی روکنے کی کوشش کی، وہ آج بھی موجود ہے۔ طاقت کے ساتھ ساتھ سیاسی حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی، سیاستدانوں کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ سیاسی قیادت معاملات کو حل کرے۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاسی قیادت کہیں پیچھے چلی گئی ہے اور سارا بوجھ اداروں پر ڈال دیا گیا ہے۔ اس انداز میں دہشت گردی کی جنگ جیتنا آسان نہیں ہوگا۔ پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کی لہر یہ ظاہر کرتی ہے پاکستان بطور ریاست، حکومت اور معاشرہ، چیلنجز کا شکار ہے اور اس نے پاکستان کو سیاسی اور معاشی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ سکیورٹی بحران سے بھی دو چار کر دیا ہے۔
ہم نے دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے کئی پالیسیاں بنائیں مگر ان میں تسلسل نہیں ہے، ہم تضادات کا شکار ہیں۔ حکمران طبقہ یہ کہتا ہے کہ حالیہ دہشت گردی میں بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ ہے ۔ یقینا ایسا ہے، کچھ علاقائی معاملات ایسے ہیں جو پاکستان میں دہشت گردی کا سبب بن رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم دہشت گردی روکنے میں ناکام کیوں؟افغانستان کی مداخلت کیوں نہیں روک پا رہے؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو شدید داخلی بحران کا سامنا ہے جس کا فائدہ دہشت گرد اٹھا رہے ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی، ہماری ریاستی اور حکومتی ترجیحات میں تبدیلی ظاہر کرتی ہے۔
ہم نے ماضی میں وفاقی،صوبائی اور ضلعی سطح پر اپیکس کمیٹیاں بنائیں، انہیں فعال کرنے اور بااختیار بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے یہ کام نہ کیا تو بات آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ آرمی چیف نے کہا کہ گورننس ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ اب یہ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ گورننس پر توجہ دیں، وفاقی حکومت کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ کوئی بھی ادارہ اکیلے دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں جیت سکتا، اس میں عوام، معاشرہ، سیاستدان، سیاسی جماعتیں، بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ، سب کو ایک پیج پرآنا اورداخلی استحکام مضبوط بنانا ہوگا۔ بدقسمتی سے ہم سیاسی طور پر تقسیم ہوچکے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر دہشت گردی کا الزام لگاتی ہیں۔ تحریک انصاف نے نیشنل سکیورٹی اجلاس کا بائیکاٹ کیا جس سے اچھا تاثر نہیں گیا۔
انہیں اجلاس میں شرکت کرکے اپنا موقف دینا چاہیے تھا۔ آرمی چیف نے خصوصی طور پر کہا کہ ہمیں ایک ہارڈ سٹیٹ بننا چاہیے۔ ہم تو پہلے سے ہی ہارڈ سٹیٹ ہیں، اب ہمیں سافٹ سٹیٹ کی طرف جانا چاہیے جس میں آئین اور قانون کی حکمرانی، سیاست اور پارلیمنٹ کی بالادستی ہو۔ اگر ہارڈ سٹیٹ سے مراد دہشت گردوں سے سمجھوتہ نہ کرنا ہے تو اس پر عمل ہونا چاہیے۔
ہمارا سافٹ امیج آئین اور قانون کی حکمرانی سے جڑا ہونا چاہیے۔ دہشت گردی کو صرف صوبائی عینک سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ یہ ریاست، حکومت، ملک اور معاشرے کا مسئلہ ہے۔ دو صوبوں میں دہشت گردی کا اثر، سیاسی اور معاشی عدم استحکام کی صورت میں دیگر صوبوں پر بھی ہوگا۔ اس وقت قومی پالیسی کی ضرورت ہے، جس میں تمام صوبوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
(سیاسی تجزیہ کار)
حالیہ دنوں میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور اس کی جہتیں تشویشناک ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان، بلوچستان لبریشن آرمی، داعش اور دیگر کایہاں کردار باعث تشویش ہے۔ میرے نزدیک یہ محض دہشت گردی نہیں ہے بلکہ گریٹ گیم ہے جس کا مرکز چین ہے اور چین کے مخالف ایک الائنس ہے جس میں امریکا اور بھارت شامل ہیں۔
چین ابھرتی ہوئی عالی طاقت ہے لہٰذا مخالفین کی بھرپور کوشش ہے کہ اس کے فلیگ شپ منصوبے ، ون بیلٹ ون روڈ کو ناکام بنایا جائے ، ا س سے نہ صرف اسے بڑا دھچکا لگے گا، اس کی ترقی کی رفتار بھی متاثر ہوگی اور کم بیک کرنے میں وقت بھی زیادہ لگے گا۔ اس صورتحال میں پاکستان ثانوی ہدف ہے لیکن بھارت کیلئے اہم ہے۔ وہ ہمیشہ پاکستان کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتا ہے اور چین کی آڑ میں پاکستان کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔
وہ ان قوتوں کو سپورٹ کر رہا ہے جو پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے بڑا چیلنج ہے لیکن ہمیں اسے ڈھنڈے دماغ سے حل کرنا ہوگا۔ مشرق وسطیٰ، عراق و دیگر ممالک میں بعض گروہوں نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے اور بیرونی طاقتوں کے آلہ کار بنے۔ پاکستان میں بھی ایسا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لہٰذا ہمیں دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے اپنے محروم طبقات کو قومی دھارے میں لانا ہوگا اور ان کے تحفظات دور کرنا ہوں گے۔
اس کے علاوہ ہمیں سفارتی محاذ پر بھی بہتر کارکردگی دکھانا ہوگی۔ ہمیں اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔ ہم پر ڈبل گیم کا الزام لگایا جاتا ہے لیکن دنیا بھر میں ایسا ہورہا ہے بلکہ وہاں تو ایک ہی وقت میں کئی گیمز چل رہی ہوتی ہیں۔ افغانستان کا تعلق امریکا اور بھارت سے بھی ہے۔ وہ امریکا سے اسلحہ بھی لے رہا ہے اور اس کے خلاف نعرے بھی لگا رہا ہے۔
پاکستان کو بھائی بھی کہہ رہا ہے اور ہمارے مطلوب افراد کو وہاں پناہ بھی دے رہا ہے۔ اسی طرح مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک ایسے ہیں جنہیں گوادر سے مسئلہ ہے، گوادر فنکشنل ہوتا ہے تو ان کے اقتصادی عزائم پر ضرب لگتی ہے۔ ہمارے لیے چیلنجز بڑے ہیں جن سے نمٹنے کیلئے ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہوگا۔ اگر ملک میں سیاسی استحکام ہو، محروم طبقات نہ ہوں تو بیرونی طاقتوں کیلئے مشکلات پیدا کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اس وقت سوشل میڈیا ، نوجوانوں اور تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کی صورتحال تشویشناک ہے،ان کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ اس کا حل آئین اور قانون کی حکمرانی ہے۔
جب لوگوں کا قومی اداروں پر اعتماد ہوگا تو دشمن کیلئے ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت مشکل ہوگی۔ یہ حقیقت ہے کہ ممالک پر مختلف بیرونی دباؤ آتے ہیں، پاکستان پر بھی ہیں، ہمیںٹھوس جواب کیلئے خود کو تیار کرنا ہوگا۔ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے بہترین انٹیلی جنس اور نئے طریقے چاہئیں، ان میں ڈرونز اہم ہیں جن سے سرویلنس میں باآسانی ہوتی ہے،دہشت گردوں کی نقل و حمل پر نظر رکھ کر نہ صرف ان کے خلاف کارروائیاں کی جاسکتی ہیں بلکہ انہیں بھاگنے پر مجبور بھی کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان کیلئے یہ چیلنجز نئے نہیں ہیں، ہم پہلے بھی ان سے نبرآزما ہوچکے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب جیسے کامیاب آپریشنز سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوا تاہم ہر روز آپریشنز نہیں ہوسکتے، مستقل حل نکالنا ہوگا۔ آرمی چیف نے کہا کہ ہم نے ملک کو ہارڈ سٹیٹ بنانا ہے، یہ اس وقت ممکن ہوتا ہے جب ہر سطح مضبوط اور آپس میں جڑی ہو، اس میں کوئی خلاء نہ ہو اور کسی بیرونی قوت کی مداخلت کی گنجائش نہ ہو۔یہ پاکستان کیلئے بڑا امتحان ہے، سب کو اپنی انا کی قربانی دینا ہوگی اور ملک کی خاطر سوچنا اور کام کرنا ہوگا۔