سپریم کورٹ وقف ترمیمی ایکٹ معاملے میں مناسب وقت پر سماعت کیلئے تیار، 8 درخواستیں دائر
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
جمعیۃ علماء ہند نے سینیئر ایڈووکیٹ کپل سبل کے توسط سے اس ایکٹ کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے کہا ہے کہ وہ وقف ترمیمی قانون 2025 کو چیلنج کرنے والی سبھی درخواستوں کو مناسب وقت پر سماعت کے لئے غور کرے گا۔ چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کی سربراہی والی بینچ کے سامنے سینیئر وکلاء کپل سبل اور اے ایم سنگھوی نے یہ معاملہ اٹھایا۔ یہ وکلاء بعض درخواست گزاروں کی نمائندگی کر رہے تھے۔ وکلاء نے عدالت عظمیٰ سے معاملے کی فوری سماعت کی درخواست کی۔ بینچ میں جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن بھی شامل تھے، جنہوں نے کہا کہ یہ درخواستیں مناسب وقت پر سماعت کے لئے لی جائیں گی۔
سپریم کورٹ میں دائر متعدد درخواستوں میں وقف (ترمیمی) بل کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیا ہے، جسے صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے 5 اپریل کو منظوری دی تھی۔ قابل ذکر ہے کہ وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں اب تک کم از کم 8 عرضیاں داخل کی جا چکی ہے۔ پہلی عرضی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے داخل کی تھی، ان کے بعد کانگریس کے رکن پارلیمنٹ محمد جاوید، عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان اور اے پی سی آر (ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس) این جی او نے بھی اس متنازع ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
وہیں تنظیم جمعیۃ علماء ہند نے بھی سینیئر ایڈووکیٹ کپل سبل کے توسط سے اس ایکٹ کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا ہے۔ مولانا ارشد مدنی کی طرف سے عدالت میں پیش ہوئے کپل سبل نے اس معاملے کی جلد سماعت کا مطالبہ کیا۔ جمعیت علماء ہند نے اپنی عرضی میں یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ وقف (ترمیمی) قانون 2025 مسلمانوں کی مذہبی آزادی چھیننے کی خطرناک سازش ہے۔ دائر کی گئی درخواست میں جمعیت نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ قانون بھارت کے آئین پر براہ راست حملہ ہے، جو شہریوں کو مساوی حقوق اور مکمل مذہبی آزادی فراہم کرتا ہے۔
جمعیت علماء ہند نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ یہ بل (جو اب قانون بن چکا ہے) مسلمانوں کی مذہبی آزادی چھیننے کی خطرناک سازش ہے، اسی لیے ہم نے سپریم کورٹ میں وقف ترمیمی قانون کو چیلنج کیا ہے۔ جماعت کے ریاستی یونٹس بھی اپنے اپنے ہائی کورٹس میں اس قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنج کریں گے۔ درخواستوں میں عدالت سے یہ ہدایت بھی طلب کی گئی ہے کہ اس قانون کو آئین کی دفعات 14، 15، 21، 25، 26، اور 300-اے کی خلاف ورزی قرار دے کر کالعدم قرار دیا جائے۔ ساتھ ہی درخواست گزاروں نے مرکز اور وزارت قانون و انصاف کو اس قانون کے نفاذ سے روکنے کی بھی درخواست کی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: علماء ہند نے سپریم کورٹ چیلنج کیا کو چیلنج کپل سبل کیا ہے
پڑھیں:
سینیارٹی کا معاملہ: سپریم کورٹ آئینی بینچ میں اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کی درخواست سماعت کیلئے مقرر
سینیارٹی کا معاملہ: سپریم کورٹ آئینی بینچ میں اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کی درخواست سماعت کیلئے مقرر WhatsAppFacebookTwitter 0 7 April, 2025 سب نیوز
لاہور (آئی پی ایس )سپریم کورٹ کا آئینی بینچ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز سینیارٹی کے معاملے پر دائر مختلف درخواستوں کی سماعت 14 اپریل کو کرے گا، یہ معاملہ دیگر صوبوں سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کے تبادلے کے بعد پیش آیا تھا۔جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال، جسٹس صلاح الدین پنہور اور جسٹس شکیل احمد پر مشتمل 5 رکنی بینچ کیس کی سماعت کرے گا۔
واضح رہے کہ یہ پیش رفت یکم فروری کو لاہور، سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹ سے ایک، ایک جج کا تبادلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں کرنے کے بعد سامنے آئی تھی، جب جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کا لاہور ہائی کورٹ، جسٹس خادم حسین سومرو کا سندھ ہائی کورٹ اور جسٹس محمد آصف کا تبادلہ بلوچستان ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیا گیا تھا۔ان تبادلوں کے بعد سنییارٹی کے معاملے پر تنازع کھڑا ہوا تھا۔
20 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے ججز سینیارٹی کے خلاف درخواست سپریم کورٹ میں دائر کر دی تھی۔پانچ ججوں نے جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کی بطور قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ حلف برداری کی تقریب میں بھی شرکت نہیں کی تھی۔
ان ججز نے سینئر وکلا منیر اے ملک اور بیرسٹر صلاح الدین کی خدمات حاصل کیں تھیں۔49 صفحات پر مشتمل آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت درخواست دائر کی گئی، جس میں استدعا کی گئی کہ سپریم کورٹ قرار دے کہ صدر کو آرٹیکل 200 کی شق ایک کے تحت ججز کے تبادلے کے لامحدود اختیارات حاصل نہیں ہیں۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ مفاد عامہ کے بغیر ججز کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ ٹرانسفر نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح کی درخواستیں بعد میں پی ٹی آئی بانی عمران خان، لاہور بار ایسوسی ایشن اور کراچی بار ایسوسی ایشن اور اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کی طرف سے بھی دائر کی گئی تھیں۔