کسانوں کے مفادات کا ہر صورت تحفظ کیا جائے گا، مریم نواز
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
وزیراعلیٰ پنجاب کی زیر صدارت گندم کی کٹائی سے قبل صورتحال کا جائزہ اجلاس ہوا، گندم کی ریکارڈ پیداوار پر پنجاب کے کسان کو شاباش، زبردست خراج تحسین پیش گیا۔ اجلاس میں پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے گندم کی خریداری کا فیصلہ کیا گیا، فری مارکیٹ اور ڈی ریگولیشن کی پالیسی جاری بھی رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا کہ کسان ہمارے بھائی ہیں، ان کے مفاد کا ہر صورت تحفظ کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے زیر صدارت گندم کی کٹائی سے قبل صورتحال کا جائزہ اجلاس ہوا، گندم کی ریکارڈ پیداوار پر پنجاب کے کسان کو شاباش، زبردست خراج تحسین پیش گیا۔
مریم نواز شریف نے کہا کہ گندم کے کاشتکاروں کو حکومت پنجاب کی طرف سے ایک ہزار ٹریکٹر مفت دیئے گئے، پنجاب میں گندم کی آزادانہ نقل و حمل کی اجازت ہے۔ اجلاس میں پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے گندم کی خریداری کا فیصلہ کیا گیا، فری مارکیٹ اور ڈی ریگولیشن کی پالیسی جاری بھی رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کا فیصلہ کیا گیا مریم نواز گندم کی
پڑھیں:
کسان کے حالات بہت برے ہیں، حکومت کو 2 روز کا وقت دیتا ہوں: صدر پاکستان کسان اتحاد
صدر پاکستان کسان اتحاد خالد کھوکھر—فائل فوٹوصدر پاکستان کسان اتحاد خالد کھوکھر نے کہا ہے کہ کسان کے حالات بہت برے ہیں، حکومت کو 2 روز کا وقت دیتا ہوں۔
ایک بیان یمں ان کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے کہنے پر گندم کی فصل اگائی، آج کسان کو اس گندم کی پیداواری لاگت نہیں مل رہی، جب آپ کے پاس زراعت کے علاوہ کچھ نہیں ہے تو اس کو ترجیحات میں کیوں نہیں لاتے ؟
خالد کھوکر نے بتایا ہے کہ 25 فیصد منافع ہمارا حق ہے، سب سے زیادہ خدمت ہم کرتے ہیں، لیکن ہمیں کوئی سہولت میسر نہیں، بجلی اور کھاد کی قیمت قوتِ خرید سے باہر ہو چکی ہے۔
صدر کسان اتحاد خالد کھوکھر نے کہا ہے کہ زراعت اب منافع کا نہیں خسارے کا کام بن چکا ہے۔
صدر پاکستان کسان اتحاد نے مزید کہا ہے کہ کاشت کار کے گھر اور کھیت کے حالات اچھے نہیں ہیں، بچوں کی صحت کے حالات اچھے نہیں، ڈھائی کروڑ ایکڑ پر گندم کاشت ہوئی ہے، آج گندم کا کاشت کار پریشان ہے، کسان کے حالات بہت برے ہیں۔
انہوں نے شکوہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی شک نہیں کہ اسمبلیوں میں پاکستان کے لیے بات بہت کم ہوتی ہے، کیا زراعت کے لیے سب اکٹھے نہیں ہو سکتے؟