سندھ کا تعلیمی نظام افغانستان سے بھی پیچھے چلا گیا، رکن سندھ اسمبلی عامر صدیقی
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
پٹیل پاڑہ میں واقع اسکول سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے عامر صدیقی نے کہا کہ تعلیم بنیادی حق ہے، تعلیم یافتہ ہوں گے تو ملک ترقی کرے گا، ساڑھے 300 ارب روپے تعلیم میں کہاں خرچ ہورہے ہیں؟ انہوں نے مطالبہ کیا کہ بلاول بھٹو صوبے میں تعلیم کی صورتحال کا نوٹس لیں۔ اسلام ٹائمز۔ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان رکن سندھ اسمبلی عامر صدیقی نے کہا ہے کہ سندھ کا تعلیمی نظام افغانستان سے بھی پیچھے چلا گیا، وزیر تعلیم 7 سال سے اپنے حلقے کے اسکول ٹھیک نہیں کروا سکا۔ پٹیل پاڑہ میں سرکاری اسکول کا دورہ کرتے ہوئے رکن سندھ اسمبلی عامر صدیقی نے کہا کہ تعلیم بنیادی حق ہے، تعلیم یافتہ ہوں گے تو ملک ترقی کرے گا، ساڑھے 300 ارب روپے تعلیم میں کہاں خرچ ہورہے ہیں؟ انہوں نے مطالبہ کیا کہ بلاول بھٹو صوبے میں تعلیم کی صورتحال کا نوٹس لیں۔ پٹیل پاڑہ میں واقع اسکول سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے عامر صدیقی نے کہا کہ 4 ایکڑ رقبے پر اسکول قائم ہے، فنڈز موجود ہیں جو جان کر جاری نہیں کیے جا رہے، اس اسکول سے لیجنڈ ظہیر عباس ہاکی اولمپئن سمیع اللہ اور کلیم اللہ نے تعلیم حاصل کی۔
انہوں نے کہا کہ شدید گرمی ہے اور اسکول میں بجلی ہی نہیں، اساتذہ اور طلبہ کے بیٹھنے کے لیے فرنیچر نہیں، ایک ہی عمارت میں کئی اسکول قائم ہیں، لیڈیز ٹیچرز تو دور یہاں تو مرد حضرات اور طلبہ کے لیے بھی واش روم نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسکول کی گلی میں 4 ماہ سے سیوریج کی لائن ڈالی جاری ہے جو کام مکمل نہ ہو سکنے کے باعث ادھوری ہے، اہل علاقہ اور طلبہ شدید پریشانی کا شکار ہے، اسکول میں پینے کا صاف پانی تو دور پانی کا وجود ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسکول قیام پاکستان کے فوری بعد قائم ہوا، محکمہ تعلیم اس عمارت کو خطرناک قرار دے چکی ہے، ڈی سی کمیٹی بھی اس اسکول کو خطرناک قرار دے چکی، ان کا کہنا تھا کہ جان بوجھ کر کراچی کی تعلیم کو تباہ کیا جارہا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: عامر صدیقی نے کہا نے کہا کہ انہوں نے
پڑھیں:
جمہوری نظام کو درپیش چیلنجز
پاکستان میں جمہوری سیاست کا تصور بہت کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے۔ جمہوریت کا سفر آج بھی اپنے ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے لیکن جمہوری عمل مضبوط ہونے کے بجائے مزید کمزوریوں کی نشاندہی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔جمہوریت محض اقتدار اور حکمرانی کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک طرز عمل سے جڑا نظام ہے جہاں ہم ریاستی اور حکومتی نظام سمیت معاشرتی نظام کو جمہوری اقدار اور طرز عمل کے بنیادوں پر چلاتے ہیں۔
جمہوریت کی بنیادی کنجی نہ صرف ایک مسلسل جمہوری عمل سے جڑا ہوا ہے بلکہ جمہوریت میں جواب دہی کا ایک موثر نظام اور عوامی مفادات پر مبنی سیاست اور فیصلے جمہوری عمل کی ساکھ کو قائم کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔جمہوریت کی ایک اور بنیادی کنجی منصفانہ اور شفاف انتخابات ہوتے ہیں جہاں حق حکمرانی کسی مخصوص طبقے کے مقابلے میں عوام کو حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی ومنشا کے مطابق اپنی سیاسی قیادت کا انتخاب کر سکیں۔
پاکستان میں سیاست اور جمہوریت کا عمل مختلف نوعیت کے مسائل یا فکری تضادات یا فکری مخالطوں کا شکار ہے۔ہم خود کو ایک جمہوری طرز پر مبنی معاشرے کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں اور دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ پاکستان عملی طور پر ایک جمہوری ملک ہے۔لیکن عملاً ہم جمہوری معاشرے کے مقابلے میں ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جہاں جمہوریت محض ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کی جائے ۔ سیاسی یا جمہوری قوتوں کے مقابلے میں اختیارات کا مرکز غیر سیاسی قوتوں یا طاقت کے مراکز کے پاس ہو۔
اسی طرح ہم اقتدار تو چاہتے ہیں مگر اقتدار کو جمہوریت سے جڑے خطوط پر استوار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔جو بھی حکومت آتی ہے اس کا طرز عمل غیر سیاسی ہوتا ہے اور وہ بنیادی انسانی حقوق اور جمہوری طرز عمل کی نفی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔انسانی حقوق کی پاسداری،آزادی اظہار،متبادل آوازوں کو سننے کی صلاحیت،محروم طبقہ کے مفادات کا تحفظ،آئین اور قانون کی حکمرانی کا تصور،افراد کے مقابلے میں اداروں کی بالادستی،سیاسی نظام سمیت سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادتوں کے اپنے داخلی جمہوری نظام سمیت طاقت کی حکمرانی کے مقابلے میں سیاسی حکمت عملیوں کی بالادستی جیسے سنجیدہ سوالات ایک مضبوط جمہوری نظام کی عکاسی کرتے ہیں۔
جمہوریت محض انتخابات کرانے،حکومت بنانے اور طاقت کے مرکز میں جاری سیاسی کشمکش کا نام نہیں ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر جمہوریت کا عمل عوام،ریاست اور حکمرانی کے نظام میں موجود خلیج کو کم کرتا ہے ۔
یہ ممکن نہیں کہ ہم جمہوریت کے نظام کی بنیاد پر تو آگے بڑھنا چاہتے ہیں مگر جو جدید معاشروں میں جمہوری فریم ورک موجود ہے اس کو استوار کرنے کے لیے تیار نہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ آج کی دنیا میں جب ہمارے جیسے معاشروں یا ریاست کے بارے میں دنیا میں جمہوریت کی جو بھی درجہ بندی کی جاتی ہے تو ہمارا شمار ایک بری جمہوریت کے تناظر میں ہوتا ہے۔
ایک ایسی جمہوری ریاست جو سیاست اور جمہوریت کے بجائے طاقت کی حکمرانی یا طبقاتی بنیادوں پر مخصوص طبقہ کی حکمرانی کے نظام کو تقویت دیتی ہے۔ہمارے جیسے معاشروں میں جمہوریت کے حقیقی فوائد عام آدمی کو ملنے کے بجائے پہلے سے موجود طاقتور طبقات کو ملتی ہے۔جب کہ اس کے برعکس عام آدمی یا محروم طبقات یا کمزور افراد کو اس موجودہ جمہوری نظام میں مختلف نوعیت کی سیاسی،سماجی،انتظامی، قانونی اور معاشی نوعیت پر مبنی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔آئین یا قانون کی حکمرانی یا اداروں کی بالادستی کے مقابلے میں طاقتور افراد کی بالادستی نے ہمارے جیسے سماج میں جمہوریت کی بنیادی ساکھ پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کی دنیا میں جو بھی نظام ہے ان میں جمہوری نظام ہی اہمیت رکھتا ہے اور یہ نظام ہی لوگوں کے بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ ان کے شہری حقوق کا تحفظ بھی کرتا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی جمہوری نظام کے ساتھ ہیں یا جمہوری نظام عملی طور پر ہم سے بہت دور کھڑا ہے۔
پاکستان میں اگر ہم نے جمہوریت کو جانچنا ہے تو ہمیں اقلیتوں، کسان، مزدور، عورتیں، معذور افراد، خواجہ سرا اور نوجوان طبقات کی سیاسی،سماجی اور معاشی حیثیت کا جائزہ لینا ہوگا ۔ریاستی یا حکومتی سرکاری اعداد و شمار ہیں ان کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات برملا کہی جا سکتی ہے کہ ہماری قومی ترجیحات میں یہ کمزور طبقات بہت کمزور بنیادوں پر کھڑے ہیں۔
اسی طرح سیاسی اور جمہوری قوتوں کا ریاست اور جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے باہمی گٹھ جیسے عمل نے جمہوریت کو کمزور کیا ہے۔ پاکستان میں اگر جمہوریت کا نظام مضبوط نہیں ہو سکا تو اس کی ذمے داری محض ایک فریق پر نہیں بلکہ ہم سب ہی اس ناکامی کے ذمے دار ہیں۔ ہم جمہوری نظام پر یا اس کی حمایت پر بہت بڑے بڑے دعوے کرتے ہیںاور لوگوں کو اپنے قریب لانے کی کوشش کرتی ہیں۔لیکن عملی طور پر ہمارا سیاسی نظام مرکزیت کی بنیاد پر کھڑا ہے اور عدم مرکزیت کو ہم اپنی ترجیحات کا حصہ بنانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
جمہوریت کی بنیادی کنجی مضبوط یا خود مختار مقامی حکومتوں کے نظام سے جڑی ہوئی ہے۔عمومی طور پر مقامی حکومت کو تیسری حکومت کے طور پر پاکستان کے آئین میں تسلیم کیا گیا ہے۔لیکن ہماری سیاسی اشرافیہ اس اصول کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جمہوریت کا نظام مقامی حکومتوں کے نظام کے بغیرچلایا جا رہا ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جہاں مقامی حکومتوں کے نظام کو بالادستی نہیں ہوگی وہاں جمہوری نظام مکمل جمہوری نظام کی عکاسی نہیں کر سکتا۔اسی طرح اگر ہمارے سیاسی،انتظامی اور قانونی اداروں نے اپنے اپنے سیاسی وقانونی فریم ورک یا دائرہ کار میں کام کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے نظام میں مداخلت کرنے کو ہی فوقیت دی تو پھر جمہوری نظام کامیابی سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔
جمہوری نظام کی کامیابی کی ایک بنیادی شرط ایک مضبوط سیاسی نظام ہوتا ہے اور اس میں سیاسی جماعتوں کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔لیکن عملا یہاں پر سیاسی جماعتوں کی اپنی داخلی جمہوریت پر بنیادی نوعیت کے سوالات اور تحفظات موجود ہیں۔کیونکہ جس انداز سے پاکستان میں سیاسی جماعتیں کام کرتی ہیں یا سیاسی نظام کو چلانا چاہتی ہیں یا مورثی یا خاندان کی بنیاد پر یا محض نجی کمپنیوں کی بنیاد پر چلائی جاتی ہیں تومضبوط جمہوریت کا تصور اور زیادہ کمزور بنیادوں پر کھڑا ہو جاتا ہے۔سیاسی جماعتیں یا ان کی قیادت سیاسی وجمہوری موقف کے مقابلے میںطاقت کی حکمرانی کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے اور جہاں ان کے سیاسی ذاتی مفادات کو تقویت ملتی ہے۔
عمومی طور پر ہمارے جیسے معاشروں کو یا ریاستی نظام کو دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں یا جدید ریاست کے تصورات یا جمہوریت میں آنے والی مثبت تبدیلیوں کے ساتھ خود کو جوڑنا ہے۔ہمیں بطور ریاست یہ سیکھنا ہے کہ دنیا میں ریاستی نظام کیسے مضبوط بنیادوں پر چل رہے ہیں ، ہم حالات کا مقابلہ سیاسی حکمت عملی یا جمہوری طرز فکر کے ساتھ کرنے کی جگہ طاقت کے استعمال کی بنیاد پر حل کرنا چاہتے ہیں۔اسی سوچ اور فکر نے معاشرے میں سیاسی اور جمہوری طرز فکر کے مقابلے میں انتہا پسندی اور پرتشدد مبنی رجحانات کو تقویت دی ہے۔