اداروں اور ریاست کے خلاف پروپیگنڈا کرنے پر گلوکار سلمان احمد کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں نادیہ حسین کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت تحقیقات کا آغاز کیوں ہوا؟

پولیس کے مطابق گلوکار سلمان احمد کے خلاف مقدمہ پولیس کی مدعیت میں لاہور کے تھانہ ڈیفنس اے میں درج کیا گیا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق گلوکار سلمان احمد کی جانب سے سوشل میڈیا پر قومی اداروں کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا، جبکہ نفرت انگیز پوسٹیں بھی وائرل کی گئیں۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ڈیوٹی پر تعینات پولیس آفیسر نے خود سلمان احمد کی پوسٹ دیکھی، جس کے ذریعے پروپیگنڈا کیا جارہا تھا۔

یہ بھی پڑھیں پیکا ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں گرفتار صحافی فرحان ملک کی درخواست ضمانت مسترد

واضح رہے کہ گلوکار سلمان احمد کو گزشتہ سال پی ٹی آئی سے اس بنیاد پر نکال دیا گیا تھا کہ انہوں نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف سوشل میڈیا پر پوسٹیں شیئر کی تھیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اداروں کے خلاف پروپیگنڈا پولیس پیکا ایکٹ سلمان احمد گلوکار مقدمہ درج وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اداروں کے خلاف پروپیگنڈا پولیس پیکا ایکٹ گلوکار وی نیوز گلوکار سلمان احمد پیکا ایکٹ کے تحت کے خلاف

پڑھیں:

بیلجیم کے شہزادے کا سماجی تحفظ کی رقم کے لیے ریاست پر مقدمہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 اپریل 2025ء) بیلجیم کا ایک غیر روایتی شہزادہ آج بروز پیر یہ جان لے گا کہ آیا اسے اپنے ماہانہ اخراجات کے لیے ملنے والے ریاستی شاہی الاؤنس کے ساتھ سماجی تحفظ کے لیے امدادی رقم لینے کا بھی حق حاصل ہے۔ اکسٹھ سالہ سالہ پرنس لاراں نے سماجی تحفظ کے حصول کے لیے ریاست کے خلاف عدالت میں مقدمہ درج کر رکھا ہے۔

اس یورپی بادشاہت کی دو سو سالہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ شاہی خاندان کے کسی فرد نے ریاست کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے۔ لاراں بیلجیم کے سابق بادشاہ اور ملکہ کے تین بچوں میں سے سب سے چھوٹے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ وہ اپنے خاندان کو ریاست کی جانب سے ملنے والے سماجی تحفظ کا حقدار بنائیں گے اور ان کے بقول وہ یہ اقدام پیسے کے بجائے''اصول‘‘ کے تحت کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

پرنس لاراں کی جانب سے شاہی خاندان کے لیے شرمندگی کا سبب بننا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ان کی ناپسندیدہ حرکات کی طویل فہرست میں 2015 ء میں اپنے رشتہ داروں کو سابقہ مشرقی جرمنی کی بدنام زمانہ خفیہ پولیس شٹازی سے تشبیہ دینا بھی شامل ہے۔

2018 میں ان کے سالانہ ریاستی الاؤنس میں اس وقت 15 فیصد کمی کی گئی تھی جب وہ وفاقی حکومت کی منظوری کے بغیر غیر ملکی معززین سے ملاقاتیں کرتے رہے تھے۔

یہ ان کی پہلی غلطی نہیں تھی، لیکن سزا بے مثال تھی۔ لاراں نے گزشتہ سال ریاستی خزانے سے 388,000 یورو حاصل کیے تھے اور وہ اپنے گھر میں بغیر کرائے کے رہتے ہیں۔

لاراں کا اصرار ہے کہ وہ پیسے سے متاثر نہیں ہیں۔ انہوں نے بیلجیم کے براڈکاسڑ آر ٹی بی ایف کو بتایا، ''یہ معاملہ مالی ذرائع کے بارے میں نہیں بلکہ اصول کے بارے میں ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''جب کوئی مہاجر یہاں آتا ہے، وہ رجسٹر ہو جاتا ہے، تو اس کا سماجی تحفظ کی رقم پر حق ہوتا ہے۔

میں بھی مہاجر ہو سکتا ہوں، لیکن وہ، جس کے خاندان نے یہ ریاست قائم کی۔‘‘

پرنس لاراں نے طبی اخراجات اور اپنے خاندان کی مالی بہبود کے بارے میں اپنے خدشات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کیونکہ ان کے مرنے پر شاہی الاؤنس کٹ جائے گا۔ اس شہزادے کی ایک اینیمل ویلفیئر فاؤنڈیشن بھی ہے، جو گزشتہ دس سالوں سے کلینکس میں مفت ویٹرنری دیکھ بھال فراہم کرتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ فاؤنڈیشن کے کام اور درجنوں غیر ملکی دوروں اور متعدد بورڈز کے اجلاسوں میں بلیجیم کے نمائندے کے طور پر شرکت کا مطلب ہے کہ ان کا ایک مصروف شیڈول ہے۔ اس شہزادے کا خیال ہے کہ وہ آزاد کاروباری افراد کے زمرے میں آتے ہیں، اس لیے وہ سوشل سکیورٹی کوریج کے بھی حقدار ہیں۔

انہوں نے حکومت کی جانب سے سے سوشل سکیورٹی مہیا کیے جانے کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد قانونی کارروائی شروع کی تھی، جس کی پہلی سماعت نومبر 2024 میں ہوئی تھی۔

لسوا نامی اخبار کے ایک مضمون میں پرنس لاراں کے وکیل اولیویئر رائیکرٹ کا کہنا ہے کہ سماجی تحفظ پر''بیلجیم کے قانون کے ذریعے غریب ترین سے لے کر سب سے بڑے ارب پتی تک، ہر رہائشی کو دیا گیا حق ہے۔‘‘

لاراں اپنے الاؤنس کا صرف 25 فیصد تنخواہ کی مد میں وصول کرتے ہیں، کیونکہ باقی رقم وہ اپنے عملے کے ایک رکن کے سفر اور اجرت کے لیے اور دیگر پیشہ وارانہ اخراجات کے لیے صرف کرتے ہیں۔

ان کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ شہزادہ لاراں کو ماہانہ خالص اجرت کے طور پر 5,000 یورو ملتے ہیں، جو ''بیلجیم میں ایک سینئر ایگزیکٹیو کی اوسط تنخواہ‘‘ ہے، لیکن یہ معمول کے مطابق سب کو مہیا ''مکمل سوشل سکیورٹی کوریج‘‘ کے بغیر ہے۔

پرنس لاراں اور ان کی برطانوی بیوی کلیئر کے تین جوان بچے ہیں۔ لاراں سماجی تحفظ کی کوریج کے بغیر کچھ طبی اخراجات کی واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکتے اور نا ہی وہ بیمار ہونے کی صورت میں تنخواہ کی جگہ معاوضے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔

وہ شاہی خاندان کے واحد فرد نہیں، جو پیسے کے معاملے میں ناخوش ہیں۔ جب بادشاہ البرٹ دوم نے اپنے 20 سالہ اقتدار کے بعد 2013 میں اپنے بیٹے فیلیپ کے حق میں دستبرداری اختیار کی تو سابق بادشاہ نے 923,000 یورو کے سالانہ شاہی الاؤنس کو اپنے لیے ناکافی قرار دیا تھا۔

لاراں سمجھتے ہیں کہ ریاست انہیں ''کنٹرول‘‘ کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے 2023 میں کہا تھا، ''میں نے کبھی الاؤنس نہیں مانگا! میں ہمیشہ کام کرنا چاہتا تھا، لیکن مجھے ایسا کرنے سے روکا گیا۔‘‘

پیر سات اپریل کے روز اس مقدمے کا فیصلہ عوامی طور پر تو نہیں سنایا جائے گا لیکن اس کے فیصلے کی نقول فریقین کو بھجوا دی جائیں گی۔

ش ر⁄ م م (اے ایف پی)

متعلقہ مضامین

  • آئی ایف جے نے پاکستان کے ’پیکا ایکٹ‘ کو کالا قانون قرار دے دیا
  • آئی ایف جے نے اظہار رائے پر پابندیوں کے خلاف لاگوپیکا ایکٹ کو ”کالا قانون“ قرار دے دیا
  • اداروں اورریاست مخالف پروپیگنڈا، گلوکار سلمان احمد کیخلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج
  • گلوکار سلمان احمد کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج
  • گلوکار سلمان احمد کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج 
  • معروف گلوکار سلمان احمد کیخلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج
  • بیلجیم کے شہزادے کا سماجی تحفظ کی رقم کے لیے ریاست پر مقدمہ
  • پیکا ایکٹ کے تحت گرفتار صحافی فرحان ملک کی ضمانت منظور
  • سرگودھا، شہری کیخلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج