سزا یافتہ بشریٰ بی بی نے جیل میں بہتر سہولیات مانگ لیں اور درخواست دائر کردی، جس میں کہا اپنی بہتر معیار زندگی کی وجہ سے قانون کے مطابق بہتر سہولیات کی حقدار ہیں۔

تفصیلات کے مطابق سزا یافتہ بشریٰ بی بی کا اڈیالہ جیل میں بہتر سہولیات کے لیے عدالت سے رجوع کرلیا، انھوں نے وکلاء کے زریعے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔درخواست میں کہا گیا کہ بشری بی بی بطور خاتون اول وزیر اعظم ہاؤس میں مقیم رہی ہیں، وہ اپنی بہتر معیار زندگی کی وجہ سے قانون کے مطابق بہتر سہولیات کی حقدار ہیں۔

درخواست میں کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ نے بہتر سہولیات کے لیے جیل حکام کو درخواست کی لیکن سپرٹینڈنٹ اڈیالہ جیل نے درخواست کان نہیں دھرے۔، درخواست میں مزید کہا گیا کہ ان کے شوہر بانی پی ٹی آئی کو اسی جیل میں بہتر سہولیات کا حقدار قرار دیا گیا ہے ، استدعا ہے کہ فریقین کو اپنی قانونی زمہ داریاں پوری کرنے کی ہدایت کی جائے۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ جیل رولز 1978 کے تحت بشری بی بی کو بہتر سہولیات کی فراہمی کا حکم دیا جائے۔درخواست میں وفاق، سپرٹنیڈنٹ اڈیالہ جیل اور چیف کمشنر اسلام آباد کو فریق بنایا گیا ہے۔خیال رہے پاکستان تحریک انصاف کے بانی کی اہلیہ بشری بی بی اڈیالہ جیل میں 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سات سال قید کی سزا کاٹ رہی ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: جیل میں بہتر سہولیات درخواست میں اڈیالہ جیل

پڑھیں:

بھارت و چین میں اعلی تعلیم یافتہ بیروزگار کیوں؟

بھارت کو 2030 ء تک بارہ کروڑ ملازمتیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ زیادہ لوگ افرادی قوت میں داخل ہوں گے۔ معیشت کو وسعت دینے کے لیے خدمات (سروسز) اور مینوفیکچرنگ کے فروغ کی بھی ضرورت ہے۔

تاہم ملک کو ایک اور بحران کا سامنا ہے کیونکہ انجینئرنگ کے فارغ التحصیل بھارتی لڑکے لڑکیوں میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔بھارت سالانہ پندرہ لاکھ انجینئرنگ گریجویٹس پیدا کرتا ہے، لیکن ان میں سے صرف 60 فیصد ملازمت کے قابل ہوتے ہیں اور صرف 45 فیصد صنعتی معیارات پر پورا اترتے ہیں۔

بھارت میں ملازمتیں فراہم کرنے والے ادارے، ٹیم لیز(TeamLease Services)کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق جو بھارت میں سب سے بڑی ڈگری اپرنٹس شپ سروس فراہم کرنے کا دعویٰ کرتی ہے، اس مالی سال میں صرف 10 فیصد انجینئر ملازمت حاصل کر پائیں گے۔ مصنوعی ذہانت (AI) کے تیزی سے اضافے نے بھی اس شعبے کے لیے اہم چیلنجز پیدا کیے ہیں۔آن لائن کورس کرانے والی ایک بڑی تنظیم، گریٹ لرننگ(Great Learning) کی ایک رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ 67.5 فیصد انجینئر محسوس کرتے ہیں ، ان کی ملازمتوں پر اے آئی سے منفی اثر پڑا ہے۔

اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ انجینئرنگ کے پروفیسروں کو اپنی ملازمتیں کھونے کے بعد کورئیر کے طور پر کام کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، کیونکہ پڑھانے کے لیے کوئی طالب علم دستیاب نہیں اور کئی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بنیادی انجینئرنگ کی نشستیں خالی پڑی ہیں۔ یہ سنگین صورت حال ایسے موقع پر پیدا ہوئی ہے جب وزیر اعظم نریندر مودی کی زیرقیادت حکمران جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ’’آتمان بھر بھارت‘‘( Atmanirbhar Bharat)کی مہم چلا رکھی ہے۔ یہ بھارت میں شہریوں کو تمام شعبوں میں "خود انحصار" بنانے کی مہم ہے، چاہے وہ اقتصادیات ہو یا انفراسٹرکچر۔

ساکھ کا دباؤ: بھارت میں والدین کی اکثریت انجینئرنگ اور میڈیکل ڈگریوں کے ساتھ ساتھ سول سروس کی نوکریوں کو پسند کرتی ہے کیونکہ وہ اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں۔ یہ طلبہ کے لیے بھی بہترین کیریئر کا انتخاب ہے۔ ملک میں گریجویٹ اپٹیٹیوڈ ٹیسٹ (GATE) انجینئرنگ گریجویٹس کو ماسٹرز کے پروگراموں میں داخلے اور پبلک سیکٹر کی کچھ کمپنیوں میں بھرتی کرنے کے لیے جانچتا ہے۔ 2024 میں 826,000 سے زیادہ درخواستوں کے ساتھ اندراج میں 23 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔

ممتاز کوچنگ سینٹروں اور پھر انجینئرنگ اور میڈیسن کے کالجوں میں داخلہ حاصل کرنا زیادہ تر طلبہ اور والدین کا وقت اور پیسہ کھا جاتا ہے۔ تاہم کچھ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے پیدا ہوتے ہی انجینئر بن جائیں۔ڈاکٹر، انجینئر یا سرکاری ملازم بننے کی سائیکی بھارت میں ایسی پنپ چکی کہ سبھی والدین اور اکثر نوجوان انہی کی طرف لپکتے ہیں کہ دولت، عزت اور شہرت حاصل ہو جائے۔

مگر نیشنل ایسوسی ایشن آف سافٹ ویئر اینڈ سروس کمپنیز (NASSCOM) کے سروے سے بھی پتا چلتا ہے کہ بھارت سالانہ تقریباً پندرہ لاکھ انجینئرنگ گریجویٹس تیار کرتا ہے مگر چند برس سے ان میں سے صرف ڈھائی لاکھ کو نوکریاں ملتی ہیں۔

 نیتی آیوگ (حکومت کے اعلیٰ پالیسی تھنک ٹینک) کے سابق وائس چیئرمین، راجیو کمار بتاتے ہیں، اس وقت ملک میں تقریباً 45 فیصد گریجویٹ مینجمنٹ کی ڈگریوں کے ساتھ اور 48فیصد جنہوں نے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی، وہ بے روزگار ہیں۔ اس بے روزگاری کی دو بڑی وجوہ ضرورت سے زیادہ سپلائی اور مسابقت ہیں۔

انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (IIT) بمبئی جیسے بھارت کے ممتاز تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل طلبہ میں سے بھی 36 فیصد کو بے روزگاری کا سامنا ہے۔ چناں چہ صورت حال سنگین نظر آتی ہے۔ تشویش ناک صورتحال کے باعث انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ( IIM ) لکھنؤ اور برلا انسٹی ٹیوٹ آف سائنس (BITS ) ،پلانی نے تقرریوں کے لیے سابق طلبہ کی مدد طلب کی ہے۔ ماہرین کی رو سے مکینیکل، الیکٹریکل، اور سول انجینئرنگ جیسے بنیادی کورسز کے فارغ التحصیل طلبہ کے لیے یہ پریشان کن حالات ہیں۔

’’حالات نہ صرف میرے بلکہ ملک کے مستقبل کے لیے بھی خراب ہیں۔ جب سڑکیں یا گاڑیاں نہیں ہوں گی تو کیا ہوگا؟‘‘ جنوبی بھارت میں واقع حیدرآباد شہر سے تعلق رکھنے والے 45 سالہ انجینئرنگ پروفیسر سری نواس کہتے ہیں۔2023 ء میں ان کی نوکری اس وقت ختم ہوگئی تھی جب پروفیسر سری نواس کے کالج نے مکینیکل انجینئرنگ کے کورسز پیش کرنا بند کردیئے۔بھارتی ریاست تلنگانہ نے مبینہ طور پر 2020 ء سے بنیادی انجینئرنگ کورسز میں 70 فیصد سیٹیں کم کر دی ہیں، جس سے فیکلٹی کم آمدنی والی ملازمتیں کرنے پر مجبور ہو چکی۔’’میرے بہت سے دوست اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کچھ ڈیلیوری ایجنٹس اور سیکیورٹی اسٹاف کے طور پر کام کرتے ہیں۔

کچھ چائے کے اسٹال چلاتے اور کچھ کھیتی باڑی کا رخ کر رہے ہیں۔ لیکن اس طرح وہ پائیدار آمدنی نہیں کما سکتے۔‘‘ سری نواس بتاتے ہیں۔ اب وہ مکینیکل انجینئرنگ کی تعلیم دینے والے ایک کالج میں مہمان فیکلٹی ممبر ہیں۔ جب وہ باقاعدہ ملازمت کرتے تھے تو تقریباً ستر ہزار روپے ماہانہ کماتے تھے۔ لیکن اب وہ صرف بیس ہزار روپے کما رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں’’میں اس آمدنی سے اپنے بچوں کی فیس ادا کرنے سے قاصر ہو چکا۔‘‘" انہوں نے مزید بتایا کہ پڑوسی ریاستوں کرناٹک، مہاراشٹر اور تامل ناڈو میں بھی ایسی ہی پریشان کن صورتحال ہے جہاں وہ ملازمت کی تلاش میں جاتے رہتے ہیں۔

34 سالہ مینو ایس کیرالہ کے ترواننت پورم نامی شہر کی باسی ہیں۔انھوں نے ایک سرکاری کالج سے انجینئرنگ ٹکنالوجی میں ماسٹر ڈگری کر رکھی ہے۔ پھر مینوفیکچرنگ کے شعبے میں آگے بڑھنے کے لیے اپنی ملازمت چھوڑ دی۔کہتی ہیں، انجینئرنگ کے شعبے میں بے روزگاری متعدد مسائل کا نتیجہ ہے جن پر توجہ دینے اور ان کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔

مینو بتاتی ہیں’’ نجی کالجوں کے اساتذہ طلبہ کو علم پہنچانے میں ناکام رہتے ہیں جبکہ سرکاری کالجوں میں ان کے ہم منصب زیادہ قابل ہوتے ہیں۔ انجینئرنگ میں سیکھنے کا طریقہ، پیٹرن اور امتحانات کی تیاری مختلف ہوتی ہے۔ ایک طالب علم جو امتحانات میں اعلیٰ نمبر حاصل کرتا ہے ، ضروری نہیں کہ وہ لیب میں اچھا ہو۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے، طالب علم کو عملی تربیت نہیں ملتی کیونکہ ہمارا نظام تعلیم رٹے بازی پر زور دیتا ہے۔ جب فارغ التحصیل طلبہ ملازمت کے بازار میں داخل ہوتے ہیں، تو انہیں ان کے درجات کی بنیاد پر رکھ تو لیا جاتا ہے مگر بعد ازاں وہ عملی کام میں ناکام ہو جائیں تو ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔‘‘ مینو کا کہنا ہے، انجینئرنگ گریجویٹس کو عملی کام کرنے اور اپنے شعبے سے واقفیت کا موقع نہیں ملتا جیسا کہ میڈیکل گریجویٹس میڈیکل انٹرن کے طور پر کام کرتے ہوئے پاتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’’ انجینئرنگ گریجویٹس کو کمپنیوں میں کام کرنے کے لیے تیار نہیں کیا جاتا ، اسی لیے اکثر ناکام ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک ایسی دھات کی طرح ہوتے ہیں جسے فٹ ہونے کے لیے ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ پھر مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی پبلک سیکٹر کمپنیوں میں بھرتی کے لیے طلبہ کو GATE ٹیسٹ کلیئر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو ایک سخت امتحان ہوتا ہے۔ کچھ مالی وجوہ کی بنا پر GATE کے لیے حاضر نہیں ہو پاتے۔سرکاری ملازمت کے لیے ایک امیدوار کو انٹرویو تک پہنچنے کے لیے بہت سی رکاوٹیں دور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔تاہم نجی سیکٹر کی ملازمت حاصل کرنا آسان ہے۔پھر دوران تعلیم بھی ٹیسٹوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے اکثر طلبہ کو لگتا ہے ، انجینئرنگ کی ڈگری ایک بوجھ ہے۔‘‘

تامل ناڈو کے علاقے ویردھونگر سے تعلق رکھنے والے رام کمار سے ملیے۔ انھوں نے 75 فیصد نمبر کے ساتھ سول انجینئرنگ میں گریجویشن کی تھی۔ پھر وہ ایک نجی فرم میں کوالٹی کنٹرول ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کرنے لگے۔ وہ کہتے ہیں’’میں کبھی انجینئر نہیں بننا چاہتا تھا، لیکن خاندانی دباؤ نے مجھے انجینئرنگ کورس کرنے پر مجبور کر دیا۔میں ویڈیو گیمنگ کا مطالعہ کرنا چاہتا تھا، لیکن میرے خاندان کو یہ کام کرنا منظور نہیںتھا۔‘‘اب وہ آئی ٹی پروفیشنل بننے کے لیے کوڈنگ کا مطالعہ کر رہے ہیںاور خوش ہیں۔

بھارت کے انجینئرنگ شعبے میں یہ سوچ پروان چڑھ چکی کہ کچھ ریاستی حکومتیں اور نجی ادارے کمپیوٹر سائنس کورسز پر بہت زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔اس ضمن میں تلنگانہ میں ٹیکنیکل کالجز ایمپلائیز ایسوسی ایشن کے صدر، عینی سنتوش کمار کہتے ہیں’’مسئلہ یہ ہے، ہماری حکومتیں انجینئرنگ کی تعلیم پر توجہ نہیں دیتیں۔بیشتر کالج اور یونیورسٹیاں کمپیوٹر سائنس کورسز اور ان سے منسلک شاخوں کے کورس کرانے کے خواہشمند ہیں۔ بنیادی انجینئرنگ کورس جیسے سول، مکینیکل وغیرہ کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ انجینئرنگ کورسز کے معیار کو بہتر بنانے پر کوئی توجہ نہیں بلکہ ان کی فیسوں میں اضافے پر توجہ دی جاتی ہے۔ کالج انجینئرنگ کے بنیادی کورسز کے بجائے ضمنی کورسز کے لیے سیٹوں کی تعداد میں اضافہ کرنے لگے ہیں۔ اس وجہ سے مکینیکل اور سول انجینئرنگ فیکلٹیوں میں ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں۔‘‘انہوں نے مزید کہا ، تعلیم میں معیار کی کمی بہت سے طلبہ کو اپنی تعلیم آدھی چھوڑنے پر مجبور کردیتی ہے۔

سرینواس نے بتایا ’’تلنگانہ کے پرائیویٹ کالجوں نے 2020 ء سے بنیادی انجینئرنگ کورسز کے داخلے روک دیے ہیں۔ پڑوسی ریاست آندھرا پردیش میں صورتحال بہتر ہے۔ تلنگانہ میں اب 150 انجینئرنگ کالجوں میں سے صرف دس بیس مکینیکل، سول اور الیکٹریکل انجینئرنگ کورسز پیش کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ان کے پاس کافی طلبہ نہیں ہیں، بلکہ وہ کمپیوٹر انجینئرنگ کورسز سے زیادہ مالی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ حیدرآباد شہر میں واقع جواہر لعل نہرو ٹیکنیکل یونیورسٹی کے رجسٹرار نے حال ہی میں آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن سے کہا ہے کہ وہ سال 2025ء کے لیے پورے تلگانہ ریاست میں سی ایس ای( CSE )اور متعلقہ برانچوں میں اضافی بیس ہزار نشستوں کے لیے اپنی منظوری منسوخ کرے۔ اکنامک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی کو تعلیمی معیار میں گراوٹ پر تشویش لاحق ہے اور اس نے اہل فیکلٹی ممبران کی شدید کمی کو ایک اہم مسئلہ قرار دیا۔ رجسٹرار نے بنیادی انجینئرنگ کے شعبوں پر کم ہوتی توجہ کے حوالے سے بھی شدید تشویش کو اجاگر کیا۔

 ریاست بہار کی حکومت نے 2021 ء میں چار انجینئرنگ یونیورسٹیوں کے انڈر گریجویٹ کالجوں میں تقریباً بیس ہزار نشستوں کے اضافے منظوری دی تھی۔ اس اقدام کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے ریاست میں انجینئرنگ گریجویٹوں کی ضرورت سے زیادہ سپلائی پیدا کر دی۔ ان کی اکثریت اب بے روزگاری کا دکھ جھیل رہی ہے۔

"نئی دہلی میں مقیم 23 سالہ آشیش کمار سول انجینئرنگ گریجویٹ ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’پورے بھارت میں انجینئرنگ گریجویٹس کی اکثریت بے روزگار ہے یا چھوٹی موٹی ملازمتیں کر رہی ہے۔وجہ یہی کہ تعلیمی اداروں نے حد سے زیادہ گریجویٹس پیدا کر دئیے۔ حال میں ایک سرکاری انجینئرنگ نوکری کے لیے پچاس ہزار امیدواروں نے مقابلہ کیا۔ اب مطلوبہ امتحان پاس کرنا بہت کٹھن مرحلہ بن چکا۔ پھر پرائیویٹ سیکٹر کا انفراسٹرکچر بھی ملازمت کے خواہشمندوں کے لیے پرکشش نہیں۔‘‘

آشیش نے 2023 ء میں گریجویشن کیا اور اب GATE ٹیسٹ کی تیاری کر رہا ہے۔کہتا ہے ’’میں نے یہ سوچ کر انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی کہ یہ مجھے ایک بہتر مستقبل پیش کرے گا۔ میں ایک متوسط گھرانے سے ہوں اور سرکاری نوکری کو ترجیح دیتا ہوں۔ ایسا نہیں ہے کہ سرکاری ملازمتوں کی کمی ہے لیکن اکثر کی تشہیر نہیں کی جاتی۔ وجہ یہ ہے کہ حکومت من پسند لوگوں میں ملازمتیں بانٹ دیتی ہے۔‘‘ آشیش نے دو بار گیٹ ٹیسٹ کی ناکام کوشش کر چکا۔ مینو کہتی ہے، بھارت میں انجینئرنگ اور سائنس و ٹکنالوجی کے دیگر شعبوں میں بہتری اسی وقت آئے گی جب پورا نظام تعلیم اپ ڈیٹ اور اورر ہال کیا جائے۔ اس کے بعد ہی تعلیم وتربیت کا معیار بلند ہو گا۔ یہ ضروری ہے کہ بنیادی کورسز پر توجہ دی جائے۔ ملک وقوم تبھی ہی ترقی کر سکتے ہیں۔

چین کی حالت: دنیا کی ایک اور بڑی معاشی قوت ، چین میں بھی طلبہ وطالبات کے حالات روزگار کے حوالے سے کافی خراب ہو چکے۔ ایک تازہ رپورٹ کی رو سے چین میں بھی اعلی تعلیم یافتہ لڑکے لڑکیاں ڈرائیور، مزدور اور فلمی اداکاروں کے طور پر ملازمتیں کر رہے ہیں کیونکہ انھیں اپنے معیار کی نوکریاں نہیں مل رہیں۔ 25 سالہ سن ژان کو دیکھیے جس نے فنانس میں ماسٹرز کر رکھا ہے اب وہ مشرقی چین کے شہر نانجنگ صوبے میں ہاٹ پاٹ ویٹر کے طور پر کام کرتا ہے۔

چین اب ایک ایسا ملک بن چکا جہاں ایک ہائی اسکول میں بطور ہینڈی مین کام کرنے والا طبعیات میں ماسٹر ڈگری رکھتا ہے۔ ایک کلینر(صفائی کرنے والا) ماحولیاتی منصوبہ بندی میں گریجویٹ ہے،ایک ڈیلیوری ڈرائیور نے فلسفے میں ماسٹرز کر رکھا ہے اور باوقار سنگھوا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والے نے ایک معاون پولیس افسر کے طور پر کام کرنے کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔ یہ مسائل سے دوچار اور جدوجہد کرنے والی معیشت میں حقیقی صورت حال ہے اور ان جیسے مزید نوجوانوں کو تلاش کرنا آسان ہے۔ "میرا خواب سرمایہ کاری بینکنگ میں کام کرنا تھا،" سن ژان بتاتا ہے۔ وہ ریستوراں میں بطور ویٹر اپنی شفٹ شروع کرنے کی تیاری کر رہاتھا۔

25 سالہ نوجوان نے حال ہی میں فنانس میں ماسٹر ڈگری لی ہے۔ وہ ایک اعلیٰ معاوضہ والا عہدہ پا کر "بہت زیادہ پیسہ کمانے" کی امید کر رہا تھا۔ وہ کہتا ہے’’میں نے ایسی نوکری کی تلاش کرنے کی بہت کوشش کی جس کے اچھے نتائج نہیں ملے۔‘‘

چین ہر سال یونیورسٹیوں اور کالجوں سے لاکھوں فارغ التحصیل طلبہ و طالبات پیدا کر رہا ہے لیکن کچھ شعبوں میں ان کے لیے کافی ملازمتیں موجود نہیں۔ رئیل اسٹیٹ اور مینوفیکچرنگ سمیت بڑے شعبوں میں معیشت جدوجہد اور تعطل کا شکار ہے۔ جب نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 20 فیصد کا عدد چھونے لگی تو حکومت چین نے حالات بہتر بنانے کے لیے اعداد و شمار کی پیمائش کے طریقے کو تبدیل کردیا۔ پہلے نوجوانوں کی بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا تھا۔ لیکن اگست 2024 ئتک بھی یہ عدد 18.8 فیصد تھا۔ تاہم نومبر کے لیے تازہ ترین اعداد و شمار کی رو سے یہ عدد کم ہو کر 16.1 فیصد رہ گیا ہے۔ مگر حکومت کے ہیرپھیر کی وجہ سے اس پہ یقین کرنا مشکل ہے۔ نیز چین کی اقتصادی سست روی مزید گہری ہوتی جا رہی ہے۔

یونیورسٹیوں اور کالجوں سے اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو جب من پسند ملازمت نہیں ملتی تو وہ اپنی اہلیت سے کم ملازمتیں کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔مگر اس وجہ سے انھیں اپنے خاندان اور دوستوں کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔مثال کے طور پر جب سن ژان ویٹر بن گیا تو اس کے والدین نے ناراضگی کا اظہار کیا۔وہ کہتا ہے "میرے خاندان کی رائے میرے لیے بڑی تشویش کا باعث ہے۔ آخر کار میں نے کئی برسوں تک تعلیم حاصل کی ہے اور پھر ایک اچھی اور بھاری فیس لینے والی یونیورسٹی میں اعلی تعلیم پائی۔ چناں چہ مجھے اپنے معیار کے مطابق ملازمت ملنی چاہیے تھی۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ اب میرے اہل خانہ شرمندگی محسوس کرتے ہیں جب میں بطور ویٹر کام کرتا ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کام نہ کرو، چاہے کسی سرکاری محکمے میں کلرک بن جا۔ مگر فی الحال یہی نوکری ملی ہے۔ ‘‘سن ژان تاہم ایک منصوبہ ضرور رکھتا ہے۔ وہ مزید چند سال بطور ویٹر کام کرے گا۔ اس دوران وہ ریستوران کے کاروبار کو سیکھنے کے لیے بھرپور کوشش کرے گا۔ مقصد یہ ہے کہ آخر وہ اپنا ریستوران کھول سکے۔ وہ سوچتا ہے کہ اگر وہ اپنا کاروبار چلانے میں کامیاب ہو گیا تو اہل خانہ اور دوست اس کے متعلق اپنی منفی رائے بدلنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

سٹی یونیورسٹی آف ہانگ کانگ سے منسلک پروفیسر ثانگ جون کہتی ہیں "سرزمین چین میں ملازمت کی صورتحال واقعی، واقعی چیلنجنگ ہے۔ اس لیے میرے خیال میں بہت سے نوجوانوں کو اپنی توقعات حالات کے مطابق ڈھالنا ہوں گی۔وہ کہتی ہیں کہ بہت سے طلبہ بہتر امکانات کے حصول کی خاطر اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن پھر روزگار کے منفی و ڈپریس ماحول کی حقیقت انہیں متاثر کرتی ہے۔

29 سالہ وو ڈین اس وقت شنگھائی میں کھیلوں میں چوٹ لگنے پر مساج کرنے والے کلینک میں ٹرینی ہے۔ وہ کہتی ہے "ملازمت کے بازار میں واقعی بہت ہجوم ہو چکا۔ ماسٹر ڈگری کے بہت سے میرے ہم جماعت کسی نوکری کی تلاش میںہیں۔ ان میں سے بہت کم نے نوکری حاصل کی ہے۔"پھر اکثر طلبہ کو من پسند ملازمت نہیں ملتی اور انھیں اپنا پیشہ بھی بدلنا پڑتا ہے۔ مثلاً وو ڈین نے ہانگ کانگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے فنانس کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے، لکین اسے ملازمت ایک مساج کلینک میں ملی جہاں وہ نئے کام کی تربیت پا رہی ہے۔

اس سے پہلے وہ شنگھائی میں ایک فیوچر ٹریڈنگ کمپنی میں کام کرتی تھی جہاں وہ زرعی مصنوعات فروخت کرنے کے ہنر میں مہارت حاصل کر رہی تھی۔جب وہ ہانگ کانگ میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سرزمین چین واپس آئی تو وہ ایک پرائیویٹ ایکویٹی فرم میں کام کرنا چاہتی تھی۔ر اسے کچھ پیشکشیں بھی ہوئیں لیکن وہ حالات سے خوش نہیں تھی۔اس باعث وو ڈین نے اپنا شعبہ بدلنے کا فیصلہ کیا اور سپورٹس میڈیسن کی تربیت لینا شروع کر دی۔ مگر اس بدلاؤ پر وو ڈین کے خاندان نے خوشی اور خیرمقدم کا اظہار نہیں کیا۔وہ بتاتی ہے ’’میرے اہل خانہ کا خیال ہے کہ پہلے میں اچھی ملازمت کر رہی تھی اور میری ترقی کے مواقع بھی تھے۔ میرا تعلیمی پس منظر بھی کافی مسابقتی ہے۔ ان کو سمجھ نہیں آ رہی کہ میں نے ایک عام قسم کی نوکری کا انتخاب کیوں کیا جس میں مجھے تھوڑے پیسوں کے لیے جسمانی کام کرنا پڑتا ہے۔"

وہ تسلیم کرتی ہے کہ وہ اپنی موجودہ تنخواہ پر شنگھائی میں زندہ نہیں رہ سکتی۔اس کا گذارا اسی لیے ہو رہا ہے کہ کہ اس کے ساتھی کا اپنا گھر ہے۔اگر اسے کرایہ دینا پڑتا تو ساری تنخواہ کرائے پر خرچ ہو جاتی۔ شروع میں خاندان میں سے کسی نے نیا پیشہ اختیار کر لینے پر وو ڈین کی حمایت نہیں کی اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ پھر اس کی ماں وو ڈین کی بڑی حمایتی بن گئی۔ ہوا یہ کہ ماں کی کمر میں شدید تکلیف تھی۔ وو ڈین اسے اپنے کلینک لے آئی اور اس کا علاج کیا۔ علاج سے والدہ کا درد ٹھیک ہو گیا۔ یوں وہ بیٹی کی طرف داری کرنے لگی۔ اب ایک وقت فنانس کی طالبہ کہتی ہے ’’ میں محسوس کرتی ہوں کہ سرمایہ کاری کی دنیا میں کام کرنے والی زندگی درحقیقت میرے لیے موزوں نہیں تھی۔‘‘ وو ڈین کہتی ہے کہ وہ سپورٹس میڈیسن کے پیشے میں دلچسپی رکھتی ، اپنی نوکری پسند کرتی اور ایک دن اپنا کلینک کھولنا چاہتی ہے۔

پروفیسر ژانگ جون کا کہنا ہے کہ بیروزگاری کی وجہ سے چینی گریجویٹس "اچھی پوزیشن" کے بارے میں اپنے خیالات تبدیل کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔وہ مزید کہتی ہیں کہ ایک بات کو نوجوانوں کے لیے "انتباہی نشان" کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، وہ یہ کہ چین میں بہت سی کمپنیاں بشمول بہت سے ٹیک ادارے اپنے فاضل عملے کو نکال رہے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ معیشت کے اہم شعبے جو کبھی گریجویٹوں کو وسیع پیمانے پر ملازمتیں دیتے تھے، اب غیر معیاری حالات پیش کر رہے ہیں اور ان شعبوں میں اچھے مواقع بھی یکسر ختم ہو رہے ہیں۔ بہرحال نوجوان طلبہ و طالبات اپنی سی کوشش کررہے کہ کس طرح اپنے مستقبل کو سنوار سکیں۔یہی وجہ ہے، کئی بے روزگار گریجویٹس فلم اور ٹیلی ویژن کی صنعت کا رخ کر رہے ہیں۔

دراصل بڑے بجٹ کی فلموں کو اپنے مناظر پْر کرنے کے لیے بہت سے ایکسٹرا مردوزن کی ضرورت ہوتی ہے۔اس باعث شنگھائی کے جنوب مغرب میں واقع چین کے مشہور فلم پروڈکشن ٹاؤن، ہینگڈین میں بہت سارے نوجوان اداکاری کے کام کی تلاش میں رہتے ہیں۔ان میں 26 سالہ نوجوان ، وو شنگھائی بھی شامل ہے جس نے الیکٹرانک انفارمیشن انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر رھی ہے۔اب وہ ایک فلم میں باڈی گارڈ کا کردار ادا کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے ’’میں بنیادی طور پر مرکزی کردار کرنے والے کے ساتھ بطور محافظ کھڑا ہوتا ہوں۔ مجھے مرکزی اداکاروں کے ساتھ دیکھا جاتا ہے لیکن میرے پاس بولنی کی کوئی لائن نہیں۔‘‘وہ ہنستے ہوئے کہتا ہے’’میری اچھی شکل نے مجھے کام دلوانے میں مدد کی ہے۔‘‘

وو شنگھائی بتاتا ہے کہ نوجوان اکثر ہینگڈین آتے اور ایک وقت میں صرف چند ماہ کے لیے کام کرتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ یہ اس کے لیے بھی ایک عارضی حل ہے، جب تک کہ اسے کوئی مستقل ملازمت نہ مل جائے۔’’میں زیادہ پیسہ نہیں کماتا لیکن میں پْر سکون اورخود کو آزاد محسوس کرتا ہوں۔"

’’یہ چین کی حقیقی صورت حال ہے، ہے نہ؟ جس لمحے آپ گریجویشن کرتے ہیں، آپ بے روزگار ہو جاتے ہیں۔‘‘یہ لی کے الفاظ ہیں جو اپنا پہلا نام نہیں بتانا چاہتا۔اس نے فلم کی ہدایت کاری اور اسکرین رائٹنگ میں مہارت حاصل کی اور کچھ مہینوں کے لیے بطور ایکسٹرا کام کرنے کے لیے بھی سائن اپ کیا۔ وہ کہتا ہے ’’میں یہاں اس لیے کام تلاش کرنے آیا کہ ابھی جوان ہوں۔ جب مجھے یہاں کام کاج کرتے تجربہ مل جائے گا تو امید ہے، مجھے ایک مستحکم اور اچھی نوکری مل جائے گی۔‘‘لیکن بہت سے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو خدشہ ہے کہ وہ کبھی اچھی نوکری حاصل نہیں کر پائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ انھیں تصّور کے برعکس کوئی نوکری کرنا پڑے۔ چینی معیشت کی رفتار ِ ترقی پر اعتماد کی کمی کا مطلب ہے کہ نوجوان اکثر نہیں جانتے، مستقبل ان کے لیے کیسا ہوگا۔ وو ڈین کا کہنا ہے ، یہاں تک کہ ان کے جو دوست ملازمت کرتے ہیں، وہ بھی خوش نہیں اور اپنے حالات سے غیر مطمئن نظر آتے ہیں۔ ’’وہ کافی الجھن میں ہیں۔ اور محسوس کرتے ہیں کہ ان کا مستقبل غیر واضح ہے۔بیشتر چینی جو نوکریاں رکھتے ہیں، وہ ان سے مطمئن نہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ وہ ان عہدوں پر کب تک فائز رہ سکتے ہیں۔ لیکن وہ اپنی موجودہ ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے تو پھر کیا کریں گے؟‘‘

وو ڈین اپنے بارے میں کہتی ہے’’ میں اب صرف بہاؤ کے ساتھ چلوں گی۔آہستہ آہستہ دریافت کر لوں گی کہ میں کیا کرنا چاہتی ہوں۔‘‘یہ مگر حقیقت ہے کہ آج کے چین میں نئی نسل ، جسے جنریشن زیڈ کہا جانے لگا ہے، کافی بے چین دکھائی دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ چین کے خوابوں کو عملی تعبیر دے پائے گی؟

متعلقہ مضامین

  • 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف دائر درخواستیں کل پشاور ہائیکورٹ میں سماعت کیلئے مقرر
  • 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستیں کل پشاور ہائیکورٹ میں سماعت کے لیے مقرر
  • عمران خان کیجانب سے بچوں سے بات، میڈیکل چیک اپ کیلیے درخواستیں دائر
  • بشری بی بی نے جیل میں بہتر سہولیات مانگ لیں ، اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع
  • بشریٰ بی بی نے جیل میں بہتر سہولتوں کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا
  • بشریٰ بی بی نے جیل میں بہتر سہولیات کیلئے عدالت سے رجوع کرلیا
  • عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی نے جیل میں بہتر سہولیات مانگ لیں 
  • عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے جیل میں بہتر سہولیات مانگ لیں
  • بھارت و چین میں اعلی تعلیم یافتہ بیروزگار کیوں؟