Daily Mumtaz:
2025-04-07@16:53:30 GMT

ٹرمپ اگلی چال کیا چلے گا؟

اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT

ٹرمپ اگلی چال کیا چلے گا؟

واشنگٹن :1971 کے موسم گرما میں، اس وقت کے امریکی سیکریٹری خزانہ جان کونالی نے صدر نکسن کو امریکہ کی خارجہ اور تجارتی پالیسی کو بڑے پیمانے پر ایڈجسٹ کرنے کی پالیسی “نکسن شاک” شروع کرنے پر راضی کیا، جس کا مقصد “عالمی معاشی نظام کے کنٹرولڈ انہدام” کو یقینی بنا کر امریکی بالادستی کو مزید پھیلانا تھا۔ نکسن شاک کا اثر یورپ پر خاصا تباہ کن رہا، جس نے وال اسٹریٹ کی پابندیوں کو توڑ کر مالیاتی دور کا آغاز کیا اور نیو لبرل ازم اور گلوبلائزیشن کو جنم دیا۔

 

تاہم، 2008 کے مالیاتی بحران نے اس نظام کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اسی طرح، “توڑ کر بنانے پر مبنی” نکسن شاک کی کامیابی ٹرمپ کے ورژن کی کامیابی کی ضمانت نہیں ہے، لیکن یہ ایک سچائی ضرور ظاہر کرتی ہے: امریکی حکمران طبقے کے مفادات اکثر امریکی عوام بلکہ پوری دنیا کی فلاح و بہبود کے برعکس ہوتے ہیں۔ نکسن کے ایک مشیر نے اسے خوب بیان کیا: “منصفانہ ثالث کے طور پر مارکیٹ کی تصویر کشی کرنا پرکشش ہے، لیکن جب عالمی نظام کے استحکام کی ضرورت اور قومی پالیسی کی خودمختاری کے درمیان ٹکراؤ ہو، تو امریکہ سمیت کئی ممالک قومی پالیسی کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔” تاریخ خود کو دہراتی نہیں، لیکن ہم آہنگ ضرور ہوتی ہے۔

 

ٹرمپ شاک کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکہ نے ایک بار پھر محسوس کیا کہ چین جیسی ابھرتی ہوئی معیشتوں کے عروج نے اس کے قائم کردہ عالمی آزاد تجارتی نظام اور گلوبلائزیشن کو اس کی عالمی معاشی بالادستی کے لیے خطرہ بنا دیا ہے۔ لہٰذا، وہ ایک بار پھر “کنٹرولڈ انہدام” کی بھاری قیمت اٹھانے کو تیار ہے۔ آخر، خطرہ تو پوری دنیا کا ہے، اور اگر کنٹرول سے باہر ہو بھی گیا تو کیا ہوگا؟ ٹرمپ کے ووٹر تو امریکہ میں ہیں، کون پرواہ کرتا ہے! ظاہر ہے، اگر ٹرمپ شاک کامیاب ہوا، تو گلوبلائزیشن کو زبردست دھچکا لگے گا، اور دنیا دو کیمپوں میں بٹ سکتی ہے: ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادی، اور دوسری طرف ابھرتی ہوئی معیشتیں۔ ٹریڈ وار کا آغاز ہو چکا ہے، جوابی کارروائیوں اور احتجاج کی آندھی بھی آ پہنچی ہے۔

 

اگرچہ ٹرمپ نے گولف کھیل کر بظاہر اپنی بے فکری دکھانے کی کوشش کی، لیکن یہ طوفان انتہائی خطرناک ہے اور یہ ٹرمپ کی سیاسی زندگی کا فیصلہ کرے گا۔ اگلی چال ٹرمپ کیسے چلتا ہے، پوری دنیا اسے دیکھ رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ قلیل مدتی طور پر، امریکہ کی ٹیرف پالیسی سخت رویہ اپناتی رہے گی، لیکن اندرونی عملیت پسندوں کے بفرنگ رول کے پیش نظر مکمل تصادم سے بچا جائے گا۔ اس کے نتیجے میں اتحادیوں کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات ہوں گے، جس میں کچھ ٹیرف چھوٹ کے بدلے مارکیٹ کھولنے کے وعدے لیے جائیں گے۔ درمیانی مدت میں، پالیسی دو راستوں پر تقسیم ہو سکتی ہے: ایک طرف چین جیسے اسٹریٹجک حریفوں پر سخت ٹیرف، اور دوسری طرف اتحادیوں کے ساتھ لچکدار مذاکرات، بشمول G7 ممالک کے ساتھ “فرینڈ شورنگ” سپلائی چین اتحاد بنانا۔ حال ہی میں ایلون مسک نے سوشل میڈیا پر امریکہ-یورپ زیرو ٹیرف فری ٹریڈ زون کا مشورہ دیا، جو ٹرمپ ٹیم کے پلان بی میں سے ایک ہو سکتا ہے۔ طویل مدت میں، یہ امریکہ کی کامیابی پر منحصر ہوگا کہ وہ نئے تجارتی اصولوں کا نظام بنا سکتا ہے یا نہیں۔ ٹیرف کا استعمال “بحران کے ردعمل” سے

 

“ساختی ڈیزائن” کی طرف منتقل ہو سکتا ہے، جیسے کچھ ٹیرف کو قانون بنا کر قومی سلامتی پر مبنی تجارتی پالیسی تشکیل دینا۔ ساتھ ہی، کثیرالجہتی اصولوں کی تشکیل نو کا عمل شروع ہوگا۔ اگر WTO میں امریکہ کے مفادات کے مطابق اصلاحات نہ ہوئیں، تو وہ “منی ملٹی لیٹرل معاہدوں” کی طرف مائل ہو سکتا ہے، جس میں ٹیرف کو “جیوپولیٹیکل مخالف ممالک” کےلئے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ کیا ٹرمپ شاک کامیاب ہوگا؟ مشکل ہے! حالیہ ٹیرف پالیسی کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ میں تیزی سے گراوٹ، مہنگائی کے دباؤ، اور امریکی کمپنیوں کو سپلائی چین کے مسائل اور بڑھتی ہوئی لاگت کا سامنا ہے۔

 

یہ ٹیرف جنگ امریکہ کی معیشت کو شدید نقصان پہنچانے کے ساتھ اندرونی تنازعات کو بڑھا سکتی ہے۔ ساتھ ہی، اتحادی تعلقات میں کشیدگی، ٹرانس ایٹلانٹک اتحاد کی کمزوری، اور BRICS ممالک کی ڈالر سے دوری بڑھ سکتی ہے، جس سے کثیر قطبی نظام کو تقویت ملے گی اور امریکہ بین الاقوامی سطح پر تنہا ہو جائے گا۔ ٹرمپ کا مونرو ازم آخرکار امریکہ کو بالکل تنہا کر دے گا: جب کوئی چائے پلانے والا بھی نہ بچے، تو پھر “میں بادشاہ ہوں” کہنے کا کوئی حق نہیں رہتا۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: امریکہ کی سکتی ہے کے ساتھ سکتا ہے

پڑھیں:

یورپ کو باہمی تجارت میں 81 ارب یورو کا نقصان

امریکہ کی جانب سے یورپین مصنوعات پر لگائی جانے والی نئی ڈیوٹیز سے یورپ کو باہمی تجارت میں 81 ارب یورو کا نقصان ہوگا، جبکہ خطرہ ہے کہ ان محصولات کے مسلسل قائم رہنے کے ساتھ اس کی امریکہ بھیجی جانے والی اشیاء میں نمایاں کمی بھی ہو سکتی ہے۔

اس حوالے سے مزید تفصیلات کے مطابق یورپین یونین نے صدر ٹرمپ کی جانب سے اسٹیل مصنوعات پر نئے ٹیرف کا جواب دینے کے بعد دوسرے مرحلے کا فوری طور پر جواب نہیں دیا ہے لیکن اس کیلئے باہمی تجارت میں گھبرانے کے لیے بہت کچھ پیدا ہوچکا ہے۔

اس بات کو ان اعداد و شمار کی مالیت اور نمبروں سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔

گزشتہ سال یورپ نے امریکہ کو 531 ارب یورو کی مصنوعات بیچیں جبکہ 333 ارب یورو کی مصنوعات امریکہ سے خریدی گئیں، اس طرح 198 ارب یورو کا سرپلس یورپ کے حق میں رہا۔

اب صدر ٹرمپ نے جو نئے ٹیرف عائد کیے ہیں ان کے مطابق کاروں، کار کے پرزوں، اسٹیل اور ایلومینیم پر امریکی ٹیرف 25 فیصد جبکہ نیا اضافی ٹیرف جو امریکہ کو یورپی یونین کی دیگر برآمدات کا احاطہ کرتا ہے 20 فیصد ہے۔

اس سے امریکہ کو یورپی یونین کی مجموعی برآمدات کا 70 فیصد حصہ زد میں آگیا ہے ۔

اس گورکھ دھندے کو مزید آسان زبان میں سمجھنا ہو تو ٹیرف سے متاثرہ اشیاء کی مالیت 380 بلین یورو، اس میں سے اسٹیل اور ایلومینیم ٹیرف کے 26 ارب یورو، کاروں کے لیے 66 ارب یورو اور مجموعی طور پر بقیہ باہمی ٹیرف کے لیے بچے 290 ارب یورو ہے، اس طرح امریکہ ان تمام ڈیوٹیز سے 81 ارب یورو کمائے گا۔

بلومبرگ اکنامکس کے ایک تجزیہ کے مطابق اگر تجارتی صورتحال یہی رہی تو درمیانی مدت میں امریکہ کو یورپی یونین کی برآمدات میں 50 فیصد تک کمی ہو سکتی ہے جو یورپ کی کل آمدنی کا 1.1 حصہ بنتا ہے۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • امریکی ٹیرف میں اضافہ،پالیسی سازی کیلئے اعلی سطح حکومتی بیٹھک
  • امریکا کے نام نہاد ” ریسیپروکل ٹیرف “کو  یقیناً عالمی برادری کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا، چینی وزارت خارجہ
  • ٹرمپ نے روس پر اضافی ٹیرف کیوں نہیں لگایا؟ اصل وجہ سامنے آگئی
  • ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی سے دنیا ہل کر رہ گئی، پاکستان سمیت 100 سے زائد ممالک متاثر
  • ٹرمپ کی ایران کو دھمکیاں
  • امریکی محصولاتی پالیسی عالمی تجارتی نظام کے لیےخطرہ
  • امریکی محصولاتی پالیسی عالمی تجارتی نظام کے لیے خطرہ
  • یورپ کو باہمی تجارت میں 81 ارب یورو کا نقصان
  • ٹرمپ کے 75 دن، کیا یہ واقعی ایک سنہری دور کا آغاز ہوگا؟