ہائی بلڈ پریشر اور شوگر کے مریضوں کو ان 5 غذاؤں سے بچنے کی ضرورت
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
اگر آپ ہائی بلڈ پریشر یا ذیابیطس یا دونوں مرض میں مبتلا ہیں، تو خوراک دوسروں کی بنسبت آپ کی صحت پر بڑا اثر ڈالتی ہے۔
یہ دونوں امراض خوراک سے گہرا تعلق رکھتے ہیں اور بعض غذائیں انہیں مزید خراب کر سکتی ہیں۔ جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔
1) سب سے پہلی خوراک جس پر آپ کو توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ ہے نمک کی مقدار۔ نمک آپ کے جسم میں اضافی پانی کو روکتا ہے، جو آپ کے بلڈ پریشر کو بڑھاتا ہے اور آپ کے دل پر زیادہ دباؤ ڈالتا ہے۔
2) شوگر ایک اور بڑی تشویش رہی ہے خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو ذیابیطس کے مریض ہیں۔ لیکن یہ ہائی بلڈ پریشر میں بھی کردار ادا کر سکتا ہے۔
3) اسی طریقے سے چکنائی ہے۔ خوراک میں موجود چکنائی دونوں امراض میں شدید نقصان دہ ہے۔ تمام چکنائیاں خراب نہیں ہوتیں لیکن ٹرانس فیٹس اور سیچوریٹڈ فیٹس سے پرہیز ضروری ہے۔
4) ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس والے لوگوں کو سُرخ گوشت اور مکمل چکنائی والی ڈیری مصنوعات کو بھی محدود کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں سیر شدہ چکنائی بہت زیادہ ہوتی ہے جو کولیسٹرول کی سطح کو بڑھا سکتی ہے اور دل سے متعلق پیچیدگیوں کو مزید خراب کر سکتی ہے۔
5) اس کے علاوہ ریفائن اناج جیسے سفید چاول اور سفید آٹے یا میدے کو بھی ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ غذائیں بلڈ شوگر میں تیزی سے اضافے کا باعث بنتی ہیں جو ذیابیطس کے شکار لوگوں کے لیے موزوں نہیں ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہائی بلڈ پریشر کی ضرورت
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے 9 مئی کیس میں مقدمات منتقلی کی اپیلیں نمٹا دیں
سپریم کورٹ نے 9 مئی کیس میں مقدمات منتقلی کی اپیلیں نمٹا دیں WhatsAppFacebookTwitter 0 7 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے 9 مئی سے متعلق کیس میں اے ٹی سی راولپنڈی کے جج سے مقدمات منتقلی کی اپیلیں نمٹا دیں۔
عدالت عظمیٰ نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کو کیا گیا 22 لاکھ روپے کا جرمانہ برقرار رکھا ہے۔
دوران سماعت سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ پراسیکیوٹر جنرل اور اے ٹی سی جج کے کیریئر پر اثرانداز نہیں ہو گا، پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ جج کا تبادلہ ہو چکا ہے، مسئلہ ہائی کورٹ کے ریمارکس اور جرمانے کا ہے۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ چیف جسٹس ہائی کورٹ نے پورا صوبہ چلانا ہوتا ہے، انہوں نے جج کے خلاف ریفرنس پر حکومت کو پیغام دینا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے حکومت کو پیغام دے دیا جس سے ایڈمنسٹریٹو جج نے بھی اتفاق کیا، ہائی کورٹ کے اختیار میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے، جرمانے ادا کر دیں یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔