9 مئی سے متعلق کیسز: ضمانت کے فیصلوں میں بعض عدالتی فائنڈنگ درست نہیں، چیف جسٹس
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
چیف جسٹس پاکستان نے سپریم کورٹ میں 9 مئی 2023 کے پرتشدد واقعات سے متعلق مقدمات کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ درست ہے ضمانت کے فیصلوں میں بعض عدالتی فائنڈنگ درست نہیں۔
سپریم کورٹ میں 9 مئی 2023 کے پرتشدد واقعات سے متعلق مقدمات کے ملزمان کی ضمانت منسوخی کے حوالے سے اپیلوں پر سماعت ہوئی، عدالت نے ضمانت منسوخی اپیلوں پر وکیل پنجاب حکومت کو غور کرنے کی ہدایت کی۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ درست ہے ضمانت کے فیصلوں میں بعض عدالتی فائنڈنگ درست نہیں، ٹرائل کورٹ کو تین ماہ میں ٹرائل کاروائی مکمل کرنے کا کہہ دیتے ہیں، ٹرائل عدالت ہر پندرہ روز کی پراگرس رپورٹ ہائیکورٹ میں پیش کرے گی۔
وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ 9 مئی کیا ہے مختصر بریف تیار کیا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ معتلقہ مواد کا انتظار تھا لیکن آیا نہیں، وکیل پنجاب حکومت نے مؤقف اپنایا کہ ٹرائل عدالت نے ضمانت کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ سوچ لیں ہم تین ماہ میں ٹرائل مکمل کا آرڈر دے دیتے ہیں، اگر کوئی ملزم ضمانت کا غلط استعمال کرے تو قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا۔
عدالت نے 9 مئی ملزمان ضمانت منسوخی کیس کی سماعت ساڑھے گیارہ تک ملتوی کر دی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چیف جسٹس
پڑھیں:
دہشتگردی کنٹرول کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے، عدالت کا نہیں، جسٹس جمال مندوخیل
سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ عدالتوں نے صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ٹرائل آئین کے مطابق ہے یا نہیں، دہشتگردی کنٹرول کرنا پارلیمان کا کام ہے عدالت کا نہیں، عدالت یہ سوچنے لگ گئی کہ فیصلے سے دہشتگردی کم ہوگی یا بڑھے گی تو فیصلہ نہیں کر سکے گی۔
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی، جسٹس جمال مندوخیل،جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس محمد علی مظہر بنچ میں شامل تھے۔
اس کے علاوہ جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال بھی بینچ کا حصہ ہیں۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب میں دلائل جاری رکھے اور مؤقف اپنایا کہ کچھ عدالتی فیصلوں پر دلائل دینا چاہتا ہوں، سابق جج سعید الزماں صدیقی سمیت دیگر کے کچھ فیصلے ہیں۔
وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے استدلال کیا کہ اگر کوئی سویلین کسی فوجی تنصیب کو نقصان پہنچائے، ٹینک چوری کرے تو اس پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کسی مجرمانہ عمل پر ایف آئی آر کٹتی ہے، سوال ٹرائل کا ہے،وکیل وزارت دفاع نے مؤقف اپنایا کہ قانون بنانے والوں نے طے کرنا ہے ٹرائل کہاں ہوگا،جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ایف آئی آر کیسے کٹتی ہے، تفتیش کون کرتا ہے، طریقہ کار کیا ہوگا، یہ جاننا چاہتے ہیں۔
وکیل وزارت دفاع نے مؤقف اختیار کیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت آرمڈ فورسز خود بھی سویلین کی گرفتاری کر سکتی ہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ گرفتاری سے قبل ایف آئی آر کا ہونا ضروری ہے،
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ جب کسی کو گرفتار کریں گے تو متعلقہ مجسٹریٹ کے پاس پیش کرنا ہوتا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ کی شق ٹو ڈی کے تحت ملزم تب بنتا ہے جب فرد جرم عائد ہو۔
وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ آئین پاکستان نے بذات خود کورٹ مارشل کیلئے یونیک اختیار سماعت دے رکھا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کے مطابق فوجی عدالتیں آرٹیکل 175 کے زمرے میں نہیں آتیں، فوجی عدالتیں آئین کی کس شق کے تحت ہیں، پھر یہ بتا دیں، خواجہ حارث نے جواب دیا کہ کورٹ مارشل کے حوالے سے کئی عدالتی فیصلے موجود ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عدالتوں نے صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ٹرائل آئین کے مطابق ہے یا نہیں، دہشتگردی کنٹرول کرنا پارلیمان کا کام ہے عدالت کا نہیں، عدالت یہ سوچنے لگ گئی کہ فیصلے سے دہشتگردی کم ہوگی یا بڑھے گی تو فیصلہ نہیں کر سکے گی۔
اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کل بھی جواب الجواب جاری رکھیں گے۔