WE News:
2025-04-07@15:28:48 GMT

وائرل کلچر اور ثقافتی زوال

اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT

وائرل کلچر اور ثقافتی زوال

گزشتہ چند برسوں سے لکی مروت اور ملحقہ علاقوں میں عید کے موقع پر نوجوانوں کی ایک نئی اور حیران کن روایت سامنے آ رہی ہے۔ مقامی طور پر چلنے والی کھلی پک اپ یا سوزوکی گاڑیوں میں نوجوان رنگین کپڑے پہنے، چادریں اوڑھے، پھولوں کے ہار گلے میں ڈالے، سڑکوں پر ڈھول کی تھاپ پر ناچتے، تھرکتے اور مختلف قسم کی حرکات کرتے نظر آتے ہیں۔

یہ مناظر موبائل فونز پر ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ٹک ٹاک، فیس بک اور انسٹاگرام پر وائرل کیے جاتے ہیں۔ ان وڈیوز کو دیکھ کر کئی لوگ تفریح حاصل کرتے ہیں، بعض ہنستے ہیں، جب کہ کچھ شدید تنقید اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔

ان ویڈیوز میں جو حرکات دیکھی جا رہی ہیں، وہ کسی بھی زاویے سے پشتون ثقافت یا تہذیب کا حصہ نہیں۔ جہاں موسیقی اور رقص کو پشتون معاشرے میں ایک مخصوص مقام حاصل ہے، جیسے ‘اتنڑ’ جو وقار، ترتیب اور ہم آہنگی کی علامت ہے، وہاں یہ کھلی سڑکوں پر پرفارم کیے جانے والے حرکات نہ تو فن کی نمائندگی کرتے ہیں اور نہ ہی روایتی ثقافت کی۔ بلکہ یہ محض توجہ حاصل کرنے کی ایک دوڑ ہے، جس میں نوجوان اپنی شناخت اور مقبولیت کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔

نوجوان ایسا کیوں کر رہے ہیں؟

کیا یہ صرف تفریح ہے یا خود کو منوانے کی خواہش کا اظہار؟ ماہرین عمرانیات کے مطابق یہ رویہ اس بات کی علامت ہے کہ نوجوانوں کو اپنے جذبات اور توانائی کے اظہار کے لیے روایتی ذرائع اور پلیٹ فارمز دستیاب نہیں۔

سوشل میڈیا نے انہیں ایک ایسا پلیٹ فارم دیا ہے جہاں وہ چند لمحوں میں ہزاروں، لاکھوں لوگوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان ایسے مناظر کی تیاری میں اپنی ساری توانائی صرف کر دیتے ہیں تاکہ وہ ‘وائرل’ ہو سکیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا کے الگورتھمز ایسے مواد کو زیادہ پروموٹ کرتے ہیں جو غیر معمولی، مزاحیہ یا چونکا دینے والا ہو۔ اس لیے نوجوان وہی کچھ کرتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کرے۔ اس کے پیچھے مالی فوائد، فالوورز کی تعداد بڑھانے اور سوشل میڈیا پر شناخت بنانے کی شدید خواہش بھی شامل ہے۔

لیکن کیا صرف نوجوان قصوروار ہیں؟ کیا ہمارے تعلیمی ادارے، معاشرتی ادارے اور کمیونٹیز نوجوانوں کو وہ ماحول دے رہی ہیں جہاں وہ مثبت طریقے سے خود کو ظاہر کر سکیں؟ کیا ہم نے نوجوانوں کے لیے کوئی ایسا فورم بنایا ہے جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھا سکیں؟ ان سوالات کے جواب تلاش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

ہمیں تنقید، طنز اور مذاق سے نکل کر سنجیدہ مکالمے کی طرف آنا ہوگا۔ نوجوانوں کو بہتر راہ دکھانے کے لیے ہمیں ان کے جذبات کو سمجھنا ہوگا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری ثقافت محفوظ رہے اور نوجوان اس پر فخر کریں تو ہمیں انہیں یہ احساس دلانا ہوگا کہ وہ اس ثقافت کا حصہ ہیں، اس کے امین ہیں، اور اس کی بہتری میں ان کا کردار کلیدی ہے۔

یاد رکھنا چاہیے کہ نوجوان کسی بھی معاشرے کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ انہیں صرف ماضی کی روایات کا پابند بنانے کے بجائے، موجودہ دور کی ضروریات کے مطابق رہنمائی دینی چاہیے تاکہ وہ اپنی شناخت کو نہ صرف محفوظ رکھیں بلکہ اسے دنیا کے سامنے ایک مثبت انداز میں پیش کر سکیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اے وسیم خٹک، صوابی

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: سوشل میڈیا کرتے ہیں کے لیے

پڑھیں:

ہمارا نوجوان ترقی میں دنیا سے پیچھے کیوں؟

موجودہ دور میں جب ملک کی آبادی کی بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ملک میں نوجوانوں کی تعداد ملک کی مجموعی آبادی میں دیگر صنف کی نسبت زیادہ ہے۔

حیرت انگیز طور پر 30 سال سے کم عمر نوجوان اس ملک کی کل آبادی کا 64 فیصد ہیں۔ اس طرح ساؤتھ ایشیا ریجن میں پاکستان نوجوانوں کی اس تعداد کے ساتھ دوسرا بڑا ملک ہے۔ اس لیے حکومتیں کوئی بھی منصوبہ بندی کرتے وقت نوجوانوں کو مدنظر رکھتی ہیں اور اسی کے مطابق منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔

دوسری طرف نوجوانوں کے ذریعے ہی مثبت اور منفی تبدیلی کو بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ جیسے ماضی میں ہم دیکھتے چلے آئے ہیں کہ ہر سیاسی و مذہبی جماعت میں نوجوانوں کی شمولیت ناگزیر رہی ہے اور پھر اسی بریگیڈ کو سیاسی و مذہبی جماعتیں استعمال کرتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ہمارا نوجوان جلدی سے ان جماعتوں کے پیچھے کیوں لگ جاتا ہے؟ کیوں اپنی تعلیم کو اپنی ترقی کو خیر باد کہہ کر کسی کا آلہ کار بن جاتا ہے۔ کیوں مقابلے کی دوڑ میں پیچھے رہ کر ترقی کے میدان میں دنیا کے نوجوانوں سے پیچھے رہ جاتا ہے؟ میرے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ تعلیم کا یکساں نہ ہونا ہے۔

آپ ملاحظہ کیجیے ملک میں اس وقت کم و بیش تین طرح کے نظام تعلیم موجود ہیں۔ ایک نظام تعلیم وہ ہے جس میں غریب طلبا کی بھرمار ہے، جس میں دیہاتوں اور شہروں کے غریب بچے پڑھتے ہیں اور جو سرکاری طور پر اسکولوں میں رائج ہے۔ ماضی میں یہ نظام تعلیم بہت عمدہ تھا۔ اساتذہ محنت کرتے تھے۔ نصاب بنانے پر بھی خاصی توجہ دی جاتی تھی۔ اسکولوں میں طلبا اور اساتذہ کی حاضری سو فیصد تھی۔ سرکاری اسکولوں میں داخلے کےلیے انٹری ٹیسٹ دینا پڑتا تھا اور اسکولوں میں ہاؤس فل جیسی صورتحال تھی لیکن جیسے ہی نجی اور پرائیویٹ سیکٹر نے تعلیم کے شعبے میں قدم رکھا، ایک ایسی سوچ پیدا کردی گئی کہ سرکاری اسکولوں سے تعداد کم ہوتے ہوتے تقریباً ختم ہوگئی۔ اب ان اسکولوں میں جہاں طلبا کی پرفارمنس سو فیصد رہتی تھی، اُس پر سوالیہ نشان نظر آرہا ہے۔

اب صورتحال یہ کہ کتابیں مفت، فیس معاف لیکن اس کے باوجود بھی گورنمنٹ اسکولوں میں والدین اپنے بچوں کا داخلہ کروانے سے گریزاں ہیں۔ حتیٰ کہ سرکاری اسکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کے بچے بھی پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یکساں تعلیمی نصاب کا نہ ہونا ہے۔ کیونکہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ نجی و پرائیویٹ سیکٹر کے اسکولوں میں بہتر تعلیم دی جا رہی ہے تو پھر وہ ان اسکولوں میں داخلہ لینے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ انہیں یہ باور کرا دیا گیا ہے ان اسکولوں میں تعلیم پانے سے ہی آپ کا بچہ کامیاب ہوسکتا ہے۔

ملک میں دوسرا نظام تعلیم پرائیویٹ اور نجی اسکولوں کا ہے جو آپ کو جگہ جگہ، گلی محلوں میں نظر آئیں گے۔ حیرت انگیز طور پر ان میں سے بیشتر اسکول کرایے کے مکانوں میں نظر آتے ہیں۔ جن میں نہ کوئی کھیلنے کو گراؤنڈ ہے اور نہ ہی انڈور گیمز کےلیے جگہ ہے اور نہ ہی تربیت یافتہ ٹیچرز۔ فیسوں کےلیے اُن کا اپنا طریقہ کار ہے لیکن نام محض انگلش میڈیم ہیں، کتابیں بھی انگلش میں ہیں لیکن اس کے باوجود بچوں کو انگلش نہیں آتی۔ حیرت کی بات ہے کہ بعض بڑے ناموں کے اسکولوں کے بچوں کو انگریزی نہیں آتی کیونکہ کتابیں انگریزی میں ہونے کے باوجود پڑھایا اردو میں جاتا ہے۔ یہ ایک عجیب سی صورتحال ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ تو انہیں انگریزی آتی ہے اور نہ ہی ٹھیک سے اردو آتی ہے، یعنی آدھے تیتر اور آدھے بٹیر والی صورتحال ہے۔ شاذ و نادر ہی کوئی بچہ بہتر طور پر لکھ سکے ورنہ بڑی تعداد اچھی لکھائی اور پڑھائی سے محروم ہے۔

ملک میں تیسرا نظام تعلیم اشرافیہ اور امرا کےلیے ہے اور بڑے اسکول ان کےلیے مخصوص ہیں، ان اداروں میں غریب اور متوسط طبقے کے بچے کا پڑھنا کسی خواب سے کم نہیں۔ ان اداروں سے نکلنے والے بچے بیوروکرویٹس، سیاست اور بزنس مین بنتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ تعلیم کے ساتھ تربیت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ملک کے تیسرے نظام تعلیم کے اسکولوں میں تعلیم کے ساتھ تربیت بھی کی جاتی ہے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ اسے زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی رہنے کے آداب، قائدانہ صلاحیتوں کے گر اور ہنر سکھائے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان تعلیمی اداروں کی فیسیں بے تحاشا ہیں اور باوجود بہت زیادہ فیسوں کے یہاں داخلہ ملنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ بڑی بڑی سفارشیں کرائی جاتی ہیں، داخلہ کےلیے امتحان لیا جاتا ہے اور خاصی تگ و دو کے بعد داخلہ ملتا ہے اور اگر کسی بااثر فرد کے بچے کو داخلہ نہ ملے تو پھر ادھر اسکینڈل کا بننا لازمی امر ہے۔ ماضی میں ایسے ہی اسکینڈل کی وجہ سے ایک بڑے اسکول کے غیر ملکی پرنسپل کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہونا پڑا تھا۔

کم و بیش یہی صورتحال ہمارے پڑوسی ملک میں بھی ہے اور اسی طرح وہاں میڈیا کے ذریعے ان کے تعلیمی نظام پر سوال اٹھائے جاتے ہیں اور وہ اپنی فلموں اور میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کے ذریعے بھی اس طرح کے موضوعات منظر عام پر لاتے رہتے ہیں۔ تعلیم کے موضوع پر انہوں نے فلم آراکشن، پاٹ شالہ اور ہندی میڈیم (اس فلم میں پاکستانی آرٹسٹ صبا قمر نے بھی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے) میں ہندی نظام تعلیم پر سوالات اٹھائے ہیں اور اس میں اگر کچھ غلط ہورہا ہے تو اس کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی ہے۔

ہمارے ہاں بھی اس حوالے سے مختلف حوالوں سے سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ جیسے یکساں نصاب تعلیم کا مسئلہ ہمیشہ ہی اٹھایا گیا ہے۔ قومی زبان اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کےلیے گزشتہ 77 سال سے آواز اٹھائی جا رہی ہے اور اس ضمن میں سپریم کورٹ کا 2015 کا تاریخی فیصلہ بھی موجود ہے لیکن اس کے باوجود انگریزی زبان کے بغیر تدریس کا عمل ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ ماضی میں تجویز پیش کی جاتی رہی کہ انگریزی کو لازمی کے بجائے اختیاری زبان کا درجہ دیا جائے لیکن تاحال ایسا ممکن نہیں ہوا۔

ایسا فرض کرلیا گیا ہے کہ انگریزی کی تدریس کے بغیر ترقی کا ہونا ممکن نہیں۔ اگر اس مفروضے کو مان لیا جائے تو دنیا میں ایسے بیشتر ملک موجود ہیں جن میں فرانس، جاپان، چین، جرمنی، روس، ایران، ترکی اور نہ جانے ایسے کتنے ہی ملک ہیں جنہوں نے اپنی مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا اور اسی میں ترقی کی۔ وہ اگر کسی دوسرے ملک کے طالب علم کو اسکالرشپ دیتے ہیں تو آپ کو ان کے ملک کی زبان آنی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ چائنا اور ترکی جانے کے خواہشمند افراد کو ان ممالک کی زبان سکھانے کےلیے ہمارے ملک میں ان کی زبان سیکھنے کے کوچنگ سینٹر نظر آئیں گے۔

میں انگریزی زبان کا مخالف نہیں ہوں اور اسے ترقی کی علامت بھی سمجھتا ہوں لیکن اس کےلیے ضروری ہے کہ جن تعلیمی نظاموں کا اوپر ذکر کیا جاچکا ہے وہاں وہی انگریزی پڑھائی جائے جو تیسرے قسم کے نظام تعلیم میں پڑھائی جاتی ہے۔ اس ضمن میں میرا مشورہ ہے کہ تعلیمی نصاب صرف مرکز یعنی وفاقی سطح پر بنایا جائے اور تمام صوبوں پر اس کا اطلاق ہونا چاہیے۔ اگر انگریزی میں تعلیم دینا اتنا ہی ضروری ہے تو انگریزی اساتذہ کا بندوبست ملک کے دور دراز کے اسکول میں بھی ہونا چاہیے۔ ان اسکولوں میں بھی وہی سہولیات دی جانی چاہئیں جن کی وجہ سے اس دور دراز کے گاؤں کے بچے بھی بڑے شہروں کے بچوں کا مقابلہ کرسکیں اور وہ دنیا بھر میں بچوں کا مقابلہ کرسکیں۔ کتنی تکلیف ہوتی ہے کہ جب دوسرے ملکوں کے ادارے ہمیں بتاتے ہیں کہ آپ کے ملک کے اتنے لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہم 77 سال کے باوجود ہم سو فیصد شرح خواندگی پر نہیں پہنچ سکے؟ کیا وجہ ہے کہ ہم سے علیحدہ ہونے والا ملک ہم سے تعلیم کے مقابلے میں کہیں آگے نکل گیا ہے۔

آپ انگریزی زبان کا اثر ہمارے معاشرے پر واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ ہماری روزمرہ کی زندگی میں بولنے والی زبان میں ہم بیشتر الفاظ انگریزی کے استعمال کرتے ہیں۔ جب اس خطے پر مسلم اُمہ کا دور دورہ تھا تو اُس وقت ہماری قومی زبان میں فارسی کے الفاظ نظر آتے تھے لیکن انگریزوں کی آمد کے بعد تو گویا ایسی تبدیلی آئی کہ انگریزی برصغیر کے رہنے والوں پر مسلط کردی گئی۔ جس کا اثر انگریزوں کے جانے کے بعد آج تک باقی ہے۔ موجودہ دور میں آپ مشاہدہ کریں کہ ملک بھر میں ہماری دکانوں، ہوٹلوں اور اسکولوں کے نام انگریزی میں رکھے جاتے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل فیس بک اور انسٹا گرام پر پیغامات کی رسانی اردو میں ضرور کرتی ہے لیکن وہ اردو انگریزی میں لکھی ہوتی جسے وہ بڑے فخر سے رومن اردو کا نام دیتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت تعلیم پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے یکساں نظام تعلیم پر توجہ دے اور قومی زبان کی تعلیم کے حوالے سے غور و فکر کرے۔ انگریزی زبان کو تعلیم میں اختیاری حیثیت دی جائے اور طلبا کو چوائس دی جائے کہ وہ قومی زبان اور انگریزی دونوں میں تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ تب کہیں جا کر ہمارا نوجوان صحیح معنوں میں ترقی کی دوڑ میں شامل ہوسکے گا ورنہ ہم مستقبل میں بھی یہ راگ الاپ رہے ہوں گے کہ ہم کون سی زبان کو ذریعہ تعلیم بنا کر اپنے نوجوانوں کو ترقی یافتہ ملکوں کے نوجوانوں کی صف میں کھڑا کرسکیں گے۔
 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • راولپنڈی میں غیرت کے نام پر نوجوان لڑکا اور لڑکی قتل
  • کراچی؛ تیزرفتار گاڑی بے قابو ہو کر پول سے ٹکرا گئی، نوجوان جاں بحق
  • ہمارا نوجوان ترقی میں دنیا سے پیچھے کیوں؟
  • لاہور میں ون ویلرز کے گرد شکنجہ سخت، پولیس نے 5 نوجوانوں کو گرفتار کرلیا
  • ٹیکسلا کو عالمی ثقافتی شہر بنانے کے منصوبے پر عملدرآمد تیز کرنے کا فیصلہ
  • نواب شاہ میں شوہر نے غیرت کے نام پر فائرنگ کرکے بیوی، بہن اور نوجوان کو قتل کردیا
  • پشاور: شادی سے چند روز قبل نوجوان منگیتر کے ہاتھوں قتل
  • نیشنل کانفرنس حکومت لوگوں کو درپیش مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے، محبوبہ مفتی
  • نیشنل کانفرنس حکومت لوگوں کی درپیش مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے، محبوبہ مفتی