میں بالکونی میں چپ چاپ کھڑا اسے بہت غور سے دیکھ رہا تھا، وہ دھیرے دھیرے چلتی ہوئی اچانک رک گئی، نظریں چار ہوئیں تو وہ پلکیں جھپکانا بھول گئی اور ایسے ساکت ہو گئی جیسے بے جان ہو، میں اس کوشش میں تھا کہ اس کے ریشمی بالوں میں ہاتھ پھیر سکوں اور اس کے لمس کا گداز حاصل کر سکوں، میں اس کی جانب بڑھا تو وہ چھلانگ لگا کر دیوار پر جا بیٹھی اور میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ آس پاس کی بالکونیوں پر کوئی ذی روح موجود نہ تھا سو میں نے انہیں اکیلا پا کر بات کرنے کی ٹھان لی، ہلکا سا کھنگارا اور کہا:
محترمہ! لگتا ہے آپ مجھ سے ناراض ہیں؟
پلیز آپ زیادہ فری ہونے کی کوشش مت کریں، میرے آپ کے کون سے یارانے چل رہے تھے کہ میں ناراض ہوتی؟۔
جی میرا مطلب یہ تھا کہ آپ میری موجودگی سے ڈسٹرب ہوئی ہوں گی۔ میں صحافی ہوں اور آپ کا انٹرویو کرنا چاہتا ہوں۔
’بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا‘ یہ کہہ کر وہ چل دیں۔
میں فوراً بولا محترمہ ٹھہریں تو سہی، انہوں نے رک کر میری جانب ایسے دیکھا کہ تیر نیم کش سینے میں ترازو ہو گیا، محترمہ آپ نے جو ضرب المثل سنائی ہے وہ تو آپ کے بارے میں کہی جاتی ہے؟
وہ غصے سے بولیں، یہی تو مصیبت ہے کہ آپ لوگوں نے الٹے سیدھے محاورے بنا کر اس میں بلی ایسے ڈال رکھی ہے کہ محاورہ نہ ہوا کوئی تھیلا ہوا۔ موقع کی مناسبت سے تو وہ ضرب المثل درست ہے کہ نہیں؟
اس کا مطلب ہے کہ آپ انٹرویو نہیں دینا چاہتیں؟
دراصل میں ان دھندوں میں پڑنا نہیں چاہتی کیونکہ آپ لوگ توبات کا بَتَن٘گَڑ بنا دیتے ہیں، اب آپ خود دیکھ لیں کہ ملک صاحب کی ’کتیا‘ جو ٹرک تلے آ گئی تھی، اس خبر کو آپ لوگوں نے مرچ مسالہ لگا کر شائع کیا، بھلا اس میں ’مزے‘ لینے والی کون سی بات تھی۔
محترمہ وہ خبر ایک شام کے اخبار نے لگائی تھی اور اگر وہ ایسی خبریں نہ لگائیں تو انہیں خریدے کون؟ بہرحال میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کی گفتگو کو مِن و عَن شائع کیا جائیگا۔
وہ اچانک کھڑی ہو گئیں اور پورے جسم کو جھرجھری دے کر جھٹک دیا اور جمائی لے کر بولیں۔ جی پوچھیں؟
محترمہ سب سے پہلے تو آپ اپنے اور اپنے خاندان کے بارے میں کچھ بتائیں؟
میرے آباؤ اجداد بھارت کی راجدھانی دہلی میں مقیم تھے، شاید آپ جانتے ہوں وہاں لال قلعے کے پچھواڑے میں ایک محلہ ہے، وہاں مقیم ایک شخص قاسم جان نے میرے خاندان سے ایک بلی پال رکھی تھی جو ایک دن کھیل کود میں کافی گندی ہو گئی، تو اس بیوقوف نے نہ صرف اسے ٹھنڈے پانی سے دھو دیا بلکہ بعد میں سکھانے کی خاطر نچوڑ بھی دیا، یوں وہ بلی مر گئی جس پر لوگوں نے محلے کا نام ’بلی ماراں‘ جبکہ گلی کا نام ’قاسم جان‘ رکھ دیا جو آج تک مشہور ہیں۔
اس اندوہناک سانحے کے بعد ہمارے بزرگوں نے لال قلعے کے کھونے کھدروں میں وقت گزارا اور پھر تقسیم کے وقت سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اچھے دنوں کی آس لگائے پاکستان آ گئے جبکہ واقفان حال نے مشہور کر دیا کہ ’بلی کے خواب میں چھیچھڑے۔‘
سنا ہے آپ نے صوفی غلام مصطفی تبسم کے دور سخن میں چوہے بھی پالے تھے؟
مسکراتے ہوئے بولیں، شاعر حضرات کو تو سات خون معاف ہیں اور ویسے بھی ان دنوں دنیا کے رنگ نرالے ہی تھے، تبسم صاحب نے تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ’چاند پہ جا کے کودا شیر، بلی کھا گئی سارے بیر‘ حالانکہ انسان کے علاوہ چاند پر صرف کتا گیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ بلی شیر کی خالہ ہے تو اب جبکہ ’شیر‘ جلاوطن ہے اس ضمن میں آپ کا مؤقف سامنے نہیں آیا؟
آپ عجیب بات کر رہے ہیں جب شیر خود ہی کچھ ہمت نہیں کر رہا تو خالہ بیچاری کیوں مصیبت مول لے، ویسے بھی ایسے موقع پر ہی کہا جاتا ہے کہ ’بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے‘ اور میں بھی کہاں کی سورما، ایک ہی داؤ تھا درخت والا، اب تو وہ بھی بے سود، بھلا بُوٹ والے کو درخت پر چڑھنے سے کون روکے؟۔
ایک بات کی تشریح کردیں کہ ’نو سو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی‘؟
میں کوئی شاعر نہیں کہ تشریح کروں بہرحال آسان لفظوں میں سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں، اس محاورے کو آپ اس تناظر میں دیکھیں جیسے آپ کے سیاستدان بڑھاپے میں حج پر چلے جاتے ہیں، بس یہی ساری بات ہے اور ویسے بھی ایک بلی کے نصیب میں نو سو چوہے کہاں، ہمیں کون سے ترقیاتی فنڈز ملتے ہیں کہ ہم کچھ کھا پی سکیں؟
آپ کے خاندان میں کسی کو اداکاری کا شوق ہے یا کبھی تھا؟
جی ہاں میری ایک خالہ زاد بہن کو اداکاری کا شوق ہوا کچھ عرصہ تک تو وہ ’کیٹ واک‘ کرتی رہی پھر اسے ایک سگریٹ کے اشتہار میں کام ملا تھا، ماحول پسند نہ آنے پر اس نے شوبز سے کنارہ کشی کرلی، بعد ازاں سید نور کچھ عرصہ اپنی فلم ’بلی‘ کے ٹائٹل رول کے لیے میری کزن کو مناتے رہے لیکن میری کزن کے انکار پر انہوں نے فلمسٹار ’نور‘ کو بلی بنالیا۔
آپ کے خاندان کی کوئی مشہور شخصیت جس کا ذکر کرنا آپ ضروری سمجھتی ہوں؟
جی ہاں میری دادی جان بہت شہرت یافتہ بلی تھیں، امتیاز علی تاج نے ان پر ایک کہانی بھی لکھی، یوں میری دادی حضور ’بیگم کی بلی‘ کے نام سے آج بھی زبان زدِ عام و خاص ہیں۔
ایک شاعر نے تو میری پھوپھو کی شان میں قصیدہ بھی کہا ’میں نے بلی پالی ہے، نیلی آنکھوں والی ہے، میرا جی بہلاتی ہے بی مانو کہلاتی ہے، لیکن جب اداکارہ نیلی کا فلموں میں آنا ہوا تو پھوپھو نے سبز لینز لگانا شروع کر دیے تھے مبادا کوئی انہیں ’نیلی‘ نہ کہہ دے۔
اچھایہ بتائیں کہ بھیگی بلی بننا کیسے ممکن ہے؟
یہ کوئی شہرت یا عزت کی بات نہیں، انسانوں میں کمزور، بزدل یا ڈرپوک انسان کو بھیگی بلی کہہ کر ہماری تضحیک کی جاتی ہے، ہوا یوں تھا کہ ایک روز میری امی جان کے اودھم مچانے اور بھاگنے سے شیخ صاحب (جن کے گھر میں وہ رہتی تھیں) کا چھینکا ٹوٹ گیا یہ بات ذہن میں رہے کہ چھینکا اس وقت زمین پر ہی پڑا تھا، لہٰذا اس کنجوس شخص نے ’ماں جی‘ کو گھر سے نکال دیا، اس ظلم و زیادتی پر بادل ساری رات روئے اور یوں وہ بھیگ گئیں، دسمبر کے دن تھے لہٰذا وہ ٹھنڈ سے سکڑی سمٹی بیٹھی تھیں کسی نے انہیں اس حالت میں دیکھا اور یوں اردو ادب کو مزید دو محاورے مل گئے۔
محترمہ ایک محاورہ ہوا نہ ’بھیگی بلی بننا‘ آپ دو کا ذکر کر رہی ہیں؟
محترم آپ کا صابن سلو ہے کیا؟ میں نے اپنی امی جان کا واقعہ سنایا ہے آپ لوگوں نے اس سے بھی محاورہ بنا تو رکھا ہے’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘۔
لیکن اس محاورے میں تو ’بھاگوں‘ (ہندی لفظ بھاگ کی جمع) استعمال ہوا ہے جس کے معنی مقدر، نصیب یا خوش قسمتی سمجھے جاتے ہیں؟
محترم ہمارے اتنے بھاگ کہاں؟ امی جان تو بھاگی تھیں، آپ نے اب نیا قصہ چھیڑ لیا، اب نوٹ بک کو دوسرے ہاتھ پر مار کر یہ مت کہہ دینا کہ ’بھاگ لگے رہین‘۔ (ہنستے ہوئے، جسٹ کڈنگ، آگے بڑھیں)
چوہے بلی کے کھیل سے مراد کون سا کھیل ہے اور کھسیانی بلی کھمبا کیوں نوچتی ہے؟
لگتا ہے آپ ’ٹام اینڈ جیری‘ بھی نہیں دیکھتے، اس میں چوہے بلی کے خاصے دلچسپ کھیل دکھائے جا چکے ہیں، آپ کو آسان لفظوں میں سمجھاتی ہوں، یہ کھیل مختلف قواعد وضوابط کے تحت پوری دنیا میں ذوق و شوق سے کھیلا جاتا ہے۔ امریکا دنیا بھر میں جو کچھ غریب ممالک کے ساتھ کر رہا ہے، وہ بھی یہی کھیل ہے۔
کھمبا نوچنے کا الزام ایسے ہی ہے جیسے ہماری ہر حکومت پر آئی ایم ایف کے دباؤ کا الزام ہے یا پھر جیسے ہمارے حکومتی ترجمانوں کی پریس کانفرنسز میں وضاحتیں۔ اب میں کسی نئی یا پرانی سیاسی جماعت کی ترجمان کا نام لیکر انٹرویو کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہتی۔
محترمہ آپ کے بارے میں ایک کہانی یہ بھی مشہور ہے، جس میں دو بلیاں ایک بندر سے انصاف کرانے جاتی ہیں لیکن دونوں ہی روٹی کے ٹکڑے سے محروم رہ جاتی ہیں؟
جی ہاں یہ سچی کہانی ہے، آپ کا اشارہ غالباً اسی کہانی کی جانب ہے جس کے نتیجے میں ’بندر بانٹ‘ کا لفظ نکلا تھا۔ یہ المیہ ابھی تازہ ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ آج بھی انصاف کا ترازو بندر کے ہاتھ ہے۔
محترمہ ایک محاورہ ہے ’بلی مارنا‘ اس پہ روشنی ڈال دیں تو قارئین کی تشفی ہو جائے گی؟
جناب اردو کا یہ محاورہ ’بِلی مارنا‘ نہیں ہے بلکہ ’بَلی مارنا‘ ہے۔ آپ کا شین قاف ہی نہیں زیر زبر بھی خراب ہے۔ اس محاورے کا معنی ہے کشتی چلانا یا ناؤ کھینا، آسان لفظوں میں چپو چلانا بھی کہہ سکتے ہیں۔
جو بلی آپ مارنا چاہ رہے ہیں وہ فارسی کا مشہور محاورہ ہے ’گُربہ کشتن روزِ اوّل‘ یعنی بلی پہلے دن ہی مار دینی چاہیئے، ہمارے ہاں اس محاورے کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اسے نہ صرف مشرف بہ اردو کیا گیا بلکہ ہر نو بیاہتا مَرد خدا جانے کیوں بلی ہی مارنا چاہتا ہے؟
یقیناً آپ کے علم میں نہیں ہوگا کہ بلی پر میر تقی میر نے ایک طویل نظم لکھی تھی، گوگل کریں ’موہنی بلی‘ نظم مل جائے گی۔ یہی نہیں شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی ہم پر نظم لکھی ہے، جس کا عنوان ہے’۔۔۔۔ کی گود میں بلی دیکھ کر‘ یہ نظم ان کی کتاب بانگ درا میں ہے، اب آپ تحقیق کریں اور پتا چلائیں کہ اقبال نے اتنی خوبصورت نظم کس کی گود میں ہمیں دیکھ کر لکھی تھی۔
مائنڈ نہ کیجئے گا ویسے آجکل کے صحافی تحقیق و تحریر کے بجائے پریس ریلیز اور وٹس ایپ کے سہارے چل رہے ہیں، کرنے کو کیا کچھ نہیں لیکن مثل مشہور ہے کہ کام جوان کی موت ہے، اپنی سستی کا اندازا اس بات سے لگائیں کہ بھارت تک چاند پہ پہنچ گیا اور آپ کی سوئی اس بات پہ اٹکی ہے کہ ’کالی بلی رستہ کاٹ گئی‘۔
محترمہ انٹرویو کے شروع میں آپ نے کہا کہ ہم نے ہر محاورے میں بلی یوں ڈال رکھی ہے کہ محاورہ نہ ہوا کوئی تھیلا ہوگیا، مگر میرے خیال میں جو محاورے اور واقعات آپ سے منسوب تھے وہ میں آپ سے پوچھ چکا ہوں، اس الزام بارے آپ کچھ فرمائیں گی؟
لگتا ہے کہ آپ انٹرویو کی تیاری کرکے نہیں آئے یا پھر آپ کو مطالعے کا شوق نہیں میں اب بھی اپنے مؤقف پر قائم ہوں، کاپی قلم سنبھالیے اور لکھئے!
بلی الانگنا
بلی بھی لڑتی ہے تو پنجہ منہ پر دھر لیتی ہے
بلی جب گرتی ہے تو پنجوں کے بل
بلی خدا واسطے چوہا نہیں مارتی
بلی سے دودھ کی رکھوالی
بلی کا گو نہ لیپنے کا نہ پوتنے کا
بلی کھائے گی نہیں تو پھیلائے گی ضرور
بلی کی میاؤں سے ڈر لگتا ہے
بلی لوٹن
بلی نے شینہ پڑھایا، بلی کو کھانے آیا
بلی تھیلے سے باہر آگئی
اونٹ کے گلے میں بلی
پلیز ذرا ٹھہریئے، اتنے محاورے کافی ہیں، میں لغت میں ان کے مطلب بھی ضرور دیکھوں گا، آپ سے آخری سوال ہے کہ میاؤں میاؤں سے کیا مراد ہے؟
بڑا دلچسپ سوال ہے دراصل یہ لفظ ’می آؤں‘ ہے، می انگریزی کا لفظ ہے جس کے ہجے ایم اور ای ہیں، جس کے معنی ہیں ’میں‘، آؤں اردو میں آنے کی اجازت لینا ہے، یوں ’می آؤں‘ لفظ کے معنی ہوئے میں آؤں؟ اس تکیہ کلام کا مطلب دوسروں کو ہوشیار کرنا ہے کہ میں آ رہی ہوں۔
اپنے چند اشعار کے بعد اجازت چاہوں گی کہ گلی میں کتے بھونکنے لگے ہیں:
جہاں پر کہ دو چار کتے ہوں موجود
تو ایسی جگہ کب ٹھہرتی ہے بلی
می آؤں، می آؤں، می آؤں، می آؤں
اجازت طلب ایسے کرتی ہے بلی
بلا وجہ بلی سے ڈرتے ہیں بچے
دراصل بچوں سے ڈرتی ہے بلی
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلی بلی ماراں بیگم کی بلی علامہ اقبا علامہ اقبال مرزا غالب مشکورعلی وی نیوز اس محاورے لوگوں نے میں بلی لگتا ہے ہے کہ ا سے بھی ہے بلی نہیں ا بلی کے تھا کہ
پڑھیں:
درپیش مسائل اور چیلنجز
یہ’’بحث‘‘ اب عام اور بہت زیر بحث ہے کہ آیا حکومت اپنے پانچ سال پورے کر پائے گی؟ فروری 2024 ء میں قائم ہونے والی شہباز حکومت کو ابتدا سے ہی بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ درپیش چیلنجز اتنے گھمبیر ہیں کہ ان سے نبرد آزما ہونا کوئی آسان کام نہیں لیکن تمام تر نامساعد اور مشکل ترین حالات کے باوجود شہباز حکومت یہ عہد کرتی دکھائی دی کہ ملک کو درپیش مسائل سے باہر نکال لائیں گے۔ مسائل اور زیر بحث ’’چیلنجز‘‘ ہمیشہ ہی سے ایسا موضوع رہا ہے جس پر متعدد بار لکھا گیا اور بات بھی ہو چکی کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں۔ تاہم ن لیگ نے 2024 ء میں اپنے لئے اقتدار کا جو راستہ چنا،مشکل ہی نہیں،دشوار گزار بھی تھا لیکن ایک سال کے دورانیے میں شہباز حکومت نے وہ کر دکھایا جس کی امید نہیں کی جا سکتی تھی۔ کچھ جماعتیں سیاسی حقیقت ہیں۔ جن میں پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) بھی شامل ہے-لیکن اپنے پونے چار سالہ دور اقتدار کے بعد پی ٹی آئی جن حالات و مشکلات کا شکار ہے،اس کی روداد کسی سے چھپی ہوئی نہیں۔ بالکل بھی امید نہیں تھی کہ بانی پی ٹی آئی زیادہ عرصہ جیل کی صعوبتیں برداشت کر سکیں گے،ٹوٹ جائیں گے،مگر ڈیڑھ دو سال میں ایسا نہیں ہو سکا۔ وہ جیل میں ہیں اور جیل کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ جو حالات ہیں اس کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے بانی کے لئے آنے والے دنوں میں رعایت کی کوئی گنجائش نہیں، نہ آسانیاں پیدا ہوتی نظر آتی ہیں۔ 190 ملین پونڈ میں خان صاحب کو 14 سال کی سزا ہو چکی۔ 9 مئی کے مقدمات ابھی سماعت کے منتظر ہیں۔ یہ سماعت سول کورٹ میں ہوتی ہے یا فوجی عدالت میں؟ یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے کرنا ہے- جہاں اس حوالے سے ایک پٹیشن زیر سماعت ہے۔’’فیصلہ‘‘ اگر یہ آیا کہ ’’سویلنز‘‘ پر قائم 9 مئی کے مقدمات فوجی عدالت میں چلائے جا سکتے ہیں تو معاملہ پی ٹی آئی کے لیے خطرے کی علامت سمجھا جائے گا۔ اگرچہ مقدور بھر کوشش ہوئی، مہرے بھی آزمائے گئے۔ اسٹیبلشمنٹ سے گفتگو کے لئے علی امین گنڈاپور کو ٹارگٹ دیا گیا۔ مگر جب ستارے گردش میں ہوں تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔ پی ٹی آئی رہنما کہتے ہیں بانی جیل میں ہشاش بشاش ہیں۔ انہیں کوئی پریشانی نہیں لیکن اڈیالہ میں ان سے ملاقات کرنے والے لاہور کے ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے جب اڈیالہ میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران بانی سے ان کی ملاقات ہوئی تو بانی کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ بہت پریشان اور مضطرب دکھائی دیتے تھے۔ مایوسی ان کی باتوں سے عیاں تھی۔ مسلسل قیدو بند نے انہیں توڑ دیا تھا۔ وہ پارٹی رہنمائوں کی ’’کارکردگی‘‘ سے بھی کافی مایوس اور ناامید نظر آتے تھے۔ عید کے بعد ملک گیر احتجاج کی جو کال دے رکھی ہے۔ اس سے بھی زیادہ پرامید نہیں۔اس کی وجہ جمعیت علما اسلام کا عدمِ تعاون ہے۔کیونکہ تمام تر کوششوں کے باوجود جمعیت علماء اسلام ابھی تک اپوزیشن گرینڈ الائنس کا حصہ بننے کے لیئے راضی نہیں۔
یہ بات تو طے ہے کہ جمعیت اگر اپوزیشن گرینڈ الائنس کا حصہ نہیں بنتی اور احتجاج میں شامل نہیں ہوتی تو گرینڈ الائنس کی ملک گیر تحریک کا کچھ بننے والا نہیں۔کیونکہ جمعیت کے سوا کوئی دوسری پارٹی سٹریٹ پاور نہیں رکھتی۔جبکہ سٹریٹ پاور کے بغیر کسی بھی احتجاج یا تحریک کو کامیاب نہیں بنایا جا سکتا۔تاہم ابھی ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ جمعیت پی ٹی آئی اپوزیشن گرینڈ الائنس کا حصہ بن جائے گی۔ گزشتہ ایک سال کی سیاسی سرگرمیوں کا جائزہ لیں تو یہ بات صاف عیاں ہو گی کہ اس ایک سال کے دورانئے میں پی ٹی آئی نے کچھ نہیں پایا بلکہ کھویا ہی کھویا ہے۔سیاست یا زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو جہاں بھی ضد اور ہٹ دھرمی ہو گی وہاں ناکامیاں ہی مقدر بنیں گی۔جھوٹی انا پرستی خسارے کا سودا ہوتی ہے۔جس سے منزلیں دور ہو جاتی ہیں۔خان صاحب کے ساتھ یہی ہوا انہوں نے اپنے لئے سراسر گھاٹے اور خسارے کا راستہ چنا۔ضد، ہٹ دھرمی دکھانے والے کبھی فلاح نہیں پاتے۔بانی آج اگر جیل میں ہیں اور پوری جماعت مشکلات کا شکار ہے تو اس میں خود ان کا اپنا ہاتھ ہے۔خان صاحب کے ذہن میں پتہ نہیں کیوں یہ بات سما گئی ہے کہ نیلسن منڈیلا بن کر ہی جیل سے باہر نکلیں گے۔کیا ایسا ہو گا؟ ایسا ہو سکتا ہے؟ بانی نیلسن منڈیلا بن سکتے ہیں؟ ہمیں کم از کم ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا-ان اطلاعات میں بھی کافی حد تک سچائی ہے کہ پی ٹی آئی میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں اور وہ انتشار و خلفشار کا شکار ہے-چیئرمین بیرسٹر گوہر کی پارٹی پر گرفت نہیں-رہنماں کی پارٹی پالیسی کے خلاف بیان بازی سے ان کے مابین پائے جانے والے اختلافات کا پتہ چلتا ہے۔اس روش نے پی ٹی آئی کو بہت نقصان پہنچایا ہے، وہ بٹی ہوئی نظر آتی ہے۔ جماعت کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے جو تقسیم در تقسیم نظر آتی ہے۔وہ پتہ دیتی ہے کہ اندر کے حالات ٹھیک نہیں۔یہی منظر کشی ہوتی ہے کہ ڈی چوک میں 24 نومبر کے احتجاج کی ناکامی کے بعد پارٹی مزید کمزور تر ہوئی ہے۔یہی ادراک ہوتا ہے کہ اس کی صفوں میں بڑی دراڑ اور خلا موجود ہے۔حکومتی جماعت ن لیگ کی بات کریں تو وہ اس وقت پنجاب کو ’’فوکس‘‘ کیے ہوئے ہے۔ن لیگ سمجھتی ہے پنجاب کے 12 کروڑ باسیوں کے دل جیت لیئے تو سمجھو پورا پاکستان جیت لیا کیونکہ پنجاب ہی فیصلہ کرتا ہے کہ ملک پر کس نے حکمرانی کرنی ہے۔اسی لئے وزیراعلیٰ مریم نواز دن رات پنجاب کے لئے کام کر رہی ہیں اور 80 سے زیادہ فلاحی اور ترقیاتی پروگراموں اور منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مصروف ہیں۔یہ وہ حقیقت ہے جو پی ٹی آئی کے لیے نہایت پریشان کن ہے۔وہ سمجھتی ہے مزید چار سال اور گزر گئے، پنجاب میں اسی رفتار سے ترقیاتی اور رفاعی کام جاری رہے تو پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر بہت زیادہ نقصان پہنچے گا۔ اسی لئے پی ٹی آئی ملک میں انتشار کی سیاست قائم کرنا چاہتی ہے۔’’انتشار‘‘ کا مطلب ہے سیاسی عدم استحکام جب ملک میں سیاسی عدم استحکام ہو تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ملک میں معاشی استحکام قائم رہے۔
پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا سیل بھی پارٹی ہدایات کے مطابق منفی پروپیگنڈہ مہم چلائے ہوئے ہے جس کا مقصد فوج اور ریاست کو بدنام کرنا ہے۔اس ونگ کے ذریعے انتشار پھیلایا جا رہا ہے،افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ ملک میں زیادہ سے زیادہ بے چینی اور بدگمانی کا احتمال ہو۔ سمجھنے کی بات ہے پی ٹی آئی کسی بیرونی اشارے پر ایسا کر رہی ہے یا منفی ہر عمل اس کے اپنے ذہن کی اختراع ہے۔پی ٹی آئی قیادت کو سمجھنا چاہئیے ملک ہے تو ہم ہیں۔فوج مستحکم ہو گی تو ملک کا دفاع بھی مستحکم ہو گا۔پتہ نہیں پی ٹی آئی کیوں ریاست کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔ اس پر بہت سے الزامات ہیں کیا درست بھی ہیں، یہ دیکھنا ہو گا۔پی ٹی آئی کا کہنا ہے اسے 2024 ء کے الیکشن اور اس کے نتائج پر شدید تحفظات ہیں۔یہی تحفظات 2018 ء کے الیکشن میں ن لیگ کو بھی تھے۔لیکن پی ٹی آئی کو تسلیم نہیں تھا کہ یہ انتخابات دھاندلی زدہ تھے۔تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اور بہت کچھ بدل گیا ہے۔اب کوئی جنرل باجوہ اور کوئی جنرل فیض نہیں، جو پی ٹی آئی کا ہمسفر و دمساز ہو۔کسی کے کہنے، نا کہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔پی ٹی آئی کو 2028 ء کے الیکشن تک انتظار کرنا ہوگا۔نہ حکومت جانے والی ہے، نا ہی اس کے جانے کے آثار یا امکانات پائے جاتے ہیں-پی ٹی آئی کو سوچنا اب یہ چاہئیے کہ 2028 ء کے عام انتخابات کیسے صاف شفاف بنائے جا سکتے ہیں۔ اس لئے انہیں آئندہ انتخابات کو دھاندلی سے پاک بنانے کے لئے مذاکرات کی طرف بڑھنا ہو گا۔سب جماعتیں اگر اس یک نکاتی ایجنڈیپر متفق ہو جائیں کہ انتخابات میں کوئی دھاندلی نہ ہو۔اس کے نتائج کو ہر کوئی تسلیم کرے۔تو پھر ہی توقع کی جا سکتی ہے کہ ملک صحیح ڈگر پر چلنے لگے۔ آئندہ جب الیکشن ہوں تو لوگ اس کے غیر جانبدارانہ ہونے کے عمل کو دل سے تسلیم کریں۔جب تک الیکشن کے حوالے سے ہم اس یک نکاتی ایجنڈے پر متفق نہیں ہو جاتے اور مذاکرات نہیں کرتے، سیاسی انتشار و خلفشار کا یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔الیکشن ہارنے والے ہار تسلیم نہیں کریں گے تو ’’انارکی’’ کی فضا قائم رہے گی-افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا جائے تو پی ٹی آئی کو بہت کچھ حاصل ہو سکتا ہے۔9 مئی کے واقعات ناقابل معافی و ناقابل تردید ہیں-رانا ثنااللہ نے بالکل ٹھیک کہا ہے، عمران خان 9 مئی پر قوم سے معافی مانگ لیں تو ان کے لیئے مشکلات سے نجات کا شاید کوئی راستہ نکل آئے۔اب یہ پی ٹی آئی کو دیکھنا ہے کہ اپنے لئے کس راستے کا انتخاب کرتی ہے۔یا ایسے ہی ’’گرداب‘‘ میں پھنسی رہے گی۔