Express News:
2025-04-07@23:39:15 GMT

کلیاتِ اظہر

اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT

غلام رسول اظہر صاحب سے تعلق 1988میں شروع ہوا۔ فیصل آباد سے تقریباً چالیس پچاس کلومیٹر دور، گوجرہ ایک تحصیل تھی، بلکہ ہے۔ وہاں میں اسسٹنٹ کمشنر کے فرائض انجام دے رہا تھا۔ زندگی سے بھرپور شہر اور بہت محنتی لوگوں کی سرزمین۔ غلام رسول صاحب، مقامی سرکاری کالج میں پروفیسر تھے۔

اردو، عربی اور فارسی پر عبور حاصل تھا۔ اس زمانہ میں مجھے شاعری کا شوق تھا اور غلام رسول صاحب بلند پایہ شاعر تھے۔ میں غزل کی تصحیح کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا۔ بہت ہی سادہ طبیعت انسان، بالکل درویش صفت شخص ثابت ہوئے۔ کبھی موج میں آ کر اپنی غزلیں سناتے تھے تو وقت تھم سا جاتا تھا۔ باکمال اشعار بلکہ معلوم پڑتا تھا کہ کلاسیکی دور کے کسی استاد کے شعر ہیں۔ 1990تک ان سے غزلوں کی تصحیح کراتا رہا۔ پھر لاہور تبادلہ ہو گیا اور پروفیسر صاحب سے رابطہ کم ہو گیا۔

1997 میں وہ جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ آج سے چند ماہ پہلے نیویارک سے ان کے صاحبزادے صدیق عثمان کا فون آیا۔ صدیق صاحب نے اپنے والد کی تمام تحریروں کو جمع کیا اور عرق ریزی سے کلیات اظہر ترتیب دے ڈالی۔ ویسے صدیق صاحب نے کمال کام سرانجام دیا ہے۔ خدا انھیں اس نایاب کام کی جزا دے۔ خیر چند ہفتے قبل، یہ نسخہ مجھے بذریعہ ڈاک موصول ہوا۔ کتاب ہاتھ میں کیا آئی، یادوں کے دریچے وا ہو گئے۔ پروفیسر صاحب نے اپنی تمام شخصیت، رنج، الم، خوشیاں اشعار میں سمو ڈالی ہیں۔ ڈاکٹر محمد مالک نے کلیات اظہر میں لکھا ہے:

مولوی عبدالحق ایک جگہ لکھتے ہیں ہر انسان کی زندگی کے دو حوالے ہوتے ہیں۔ ایک اس کی شخصیت اور دوسرا اس کا کام۔ کام کی نسبت شخصیت کا حوالہ زیادہ دیرپا نہیں ہوتا کیونکہ جب اس کے ہم عصر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں تو اس کی شخصیت بھی پس منظر میں چلی جاتی ہے جب کہ اس کا کام اسے ہمیشہ کے لیے یادگار بنا دیتا ہے۔

علم وادب اور فن سے وابستہ کتنے ہی لوگ دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔ وہ ادب ہو، شاعری ہو یا کوئی اور شعبہ زندگی، بقول ڈاکٹر رشید امجد اچھا اور معیاری ادب ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔

مرزا غلام رسول اظہر بھی ان یادگار لوگوں میں سے ہیں جو اپنی ذات اور کام کے حوالے سے منفرد سمجھے جاتے ہیں۔ میری نظر میں وہ ایک استاد شاعر تھے جن کی شاعری میں ایک قادرالکلام شاعر کی نمایاں جھلک نظر آتی ہے اور جابجا فنی پختگی عیاں ہوتی ہے۔ کلیاتِ اظہر اردو شاعری کا وہ شاہکار ہے جو اب تک اہل علم وادب کی دسترس میں نہ آ سکا تھا۔ یہ پروفیسر غلام رسول اظہر کی تخلیقات، تجربات ومشاہدات کا حسین مرقع ہے۔ کلیاتِ اظہر میں سے چند اشعار آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں:

خونِ جگر سے آنکھ کے آئینے دھوئے ہیں

اے خوش جمال تیری ہی تصویر کے لیے

پہنیں خیالِ زلف میں دانستہ بیڑیاں

ہم آپ بیقرار تھے زنجیر کے لیے

خوں تک اچھال آئے ہیں رخسار صبح پر

اک دل نشیں سے خواب کی تعبیر کے لیے

دل کی شکستگی سے وہ چہرہ بھی گم ہوا

کس شے سے جوڑوں کرچیاں تصویر کے لیے

……………

اسی لیے تو اُٹھائی تھی ریت کی دیوار

کہ لطف دشت کا دیں گے یہ بام و در میرے

میں ایک نخل تو ہوں پر کسی کا سایہ ہوں

عصا و سنگ سے جھاڑو نہ برگ و بر میرے

پلک سے ٹوٹ کے بکھرے ہیں اشک ہونٹوں پر

مجھے ہی زہر چٹاتے ہیں یہ گہر میرے

ترے حضور میں پہنچے تو کیسے چونک اُٹھے

ہنسی اُڑاتے تھے کیا کیا یہ کم نظر میرے

……………

نشتر سی بات دوست کی دل میں اُتر گئی

میں دیر تک کھڑا رہا باور نہ کر سکا؟

جس گھر کی اینٹ اینٹ مرے خوں سے تر ہوئی

مجھ کو قبول آج وہی گھر نہ کر سکا

پانی کی طرح ریت میں، بے داغ الفتیں

خودکام دوستوں پہ نچھاور نہ کر سکا

کیا غمِ شبِ فراق کی صبح نہ پاسکے

دیدار صبح آج تک اختر نہ کر سکا

……………

وہ ایک بار کا جلوہ، دی نشاطِ دوام

مرے دماغ کو حاصل ہے روشنی کیا کیا

مجھے دلیل کی حاجت ہی کیا، خدا تو ہے

مرے گناہ سے ثابت ہے بندگی کیا کیا

ترے حضور میں پہنچے تو لوگ چونک اُٹھے

وگرنہ پہلے اُڑائی گئی ہنسی کیا کیا

اُسی کی عمر کا مہتاب تھا اور اک وہ تھا

ہمارے شہر پہ چٹکی تھی چاندنی کیا کیا

……………

ہر کوچہ جمال میں بکھری ہوئی ہے خاک

دل کو سمیٹ لائیں کہاں جابجا سے ہم

اک گونہ عافیت ہیں موجوں میں بے نصیب

مایوس ہو چکے تھے رُخِ ناخدا سے ہم

اب ایک قطعہ پیش کرتا ہوں:

میں تو کیا حق گوئی کا شیدا ہوتا

میرے احباب تھے ترغیب دلانے والے

اپنے ہی خون کے رشتوں نے عنائت کی تھی

اور تھے کون مجھے زہر پلانے والے

نظم، جشن آزادی میں تحریر فرماتے ہیں:

اب کے برس بہار کا انداز اور ہے

ہم پہ ہمیشہ چرخ کی گردش رہے یہ کیوں؟

آلامِ دہر قلب ہمارا سہے یہ کیوں؟

مسلم کا خون پانی کی صورت بہے یہ کیوں؟

اب کے برس بہار کا انداز اور ہے

برادرم صدیق عثمان، آپ نے اپنے والد کی تابعداری کا حق ادا کر دیا اور میرے جیسے طالب علم پر ایک خوشگوار احسان کیا۔ کلیاتِ اظہر، واقعی کمال درجہ کی شاعری کا مجموعہ ہے!

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: غلام رسول نہ کر سکا کیا کیا

پڑھیں:

بیساکھی میلہ: بھارت کے ساڑھے 6 ہزار یاتریوں کو ویزے جاری

پاکستان نے بیساکھی میلے میں شرکت کے لیے بھارت کے 6500 سے زائد یاتریوں کو ویزے جاری کر دیئے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں عالمی امن اور سکھ ازم کے کردار پر سیمینار

پیر کو پاکستان ہائی کمیشن نئی دہلی سے جاری اعلامیے کے مطابق یاتری 10 سے 19 اپریل تک پاکستان میں ہونے والی سالانہ تقریبات میں شرکت کریں گے۔

مزید پڑھیے: بیساکھی کے تیوہار پر وزیراعظم محمد شہباز شریف کا پیغام

یاتری دیگر مقدس مقامات کے علاوہ گوردوارہ پنجہ صاحب، گوردوارہ ننکانہ صاحب اور گوردوارہ کرتار پور صاحب کی یاترا کریں گے۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے پاکستان ہائی کمیشن نئی دہلی کے ناظم الامور سعد احمد وڑائچ نے کہا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے بڑی تعداد میں ویزوں کا اجرا لوگوں، ثقافتوں اور مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینے کی پالیسی کا مظہر ہے۔

مزید پڑھیں: سکھوں کے 50 رکنی وفد کا خیبرپختونخوا میں سکھ دور کے تاریخی مقامات کا دورہ

سعد احمد وڑائچ نے کہا کہ پاکستان مقدس اور مذہبی مقامات کے دوروں میں سہولت فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھے گا۔

واضح رہے کہ مذہبی مقامات کے دوروں سے متعلق سنہ 1974 کے پاک بھارت پروٹوکول کے فریم ورک کے تحت ہر سال بھارت سے یاتریوں کی بڑی تعداد مختلف مذہبی تہواروں/مواقع میں شرکت کے لیے پاکستان کا دورہ کرتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بھارتیوں کو پاکستانی ویزے جاری بیساکھی میلہ پاکستان ہائی کمیشن نئی دہلی سکھ یاتری

متعلقہ مضامین

  • گورنر صاحب مجھ سے بات کرنی ہے تو ڈائریکٹ کریں، ترجمانوں کے ذریعے نہ کریں، میئر کراچی
  • بیساکھی میلہ،پاکستان نے 6500 سکھ یاتریوں کو ویزے جاری کردیئے
  • بیساکھی میلہ: بھارت کے ساڑھے 6 ہزار یاتریوں کو ویزے جاری
  • خالصہ جنم دن پر 7 ہزار بھارتی سکھ یاتریوں کی پاکستان آمد متوقع
  • سستی بجلی سے معاشی سرگرمیاں تیز ہوں گی، بلال اظہر کیانی