Express News:
2025-04-07@22:27:50 GMT

سچا آدمی اچھا آدمی

اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT

کہتے ہیں ایک شخص کی جھوٹ بولنے میں بڑی شہرت ہوگئی پورے شہر میں اس کے اتنے چرچے ہوگئے کہ شایع اس کے پرچے ہوگئے۔یہاں تک کہ شہروالوں نے اسے نہ صرف چیمپئین آف لا کا اعزازی خطاب دیا بلکہ کئی اعزازی ڈگریاں بھی دیں۔پھر اسے شہر کی حکومت نے اپنا خصوصی ترجمان بھی ڈیکلیر کر دیا۔اس کی شہرت شہر میں تو پھیلی ہوئی تھی آہستہ آہستہ اردگرد کے علاقے میں بھی دور دور تک پہنچ گئی۔

ایک گاؤں کی ایک بڑھیا کسی کام سے شہر آنے لگی تو گاؤں والوں نے کہا اس’’جھوٹے‘‘ کو بھی دیکھ آنا۔جس کی اتنی شہرت ہے اور جس کے بیانات، واقعات اور قصے اتنی دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔بڑھیا انتہائی حد تک بدصورت تھی اور اپنی اس بے مثال بدصورتی کی وجہ سے کنواری رہ گئی تھی۔

شہر پہنچی تو اپنے کام کرنے کے بعد اس نے اس جھوٹے سے بھی ملنے کا ارادہ کیا، پوچھتی پاچھتی ہوئی آخر کار اس تک پہنچ گئی۔اور کہا وہ مشہور جھوٹے تم ہو؟۔جھوٹے نے نہایت حیرانی سے اس کی طرف دیکھا، دیکھتا رہا، دیکھتا رہا۔پتھر کا بت بن کر اور حیران سا ہوکر مسلسل دیکھے جارہا تھا۔بڈھی نے اسے پھر یاد دلایا کہ اس نے تم سے کچھ پوچھا ہے۔ جھوٹے نے کہا

آپ کو دیکھ کر دیکھتا رہ گیا

کیا کہوں اور دیکھنے کو کیا رہ گیا

بڑھیا نے پوچھا مطلب کیا ہے تیرا…؟ بولا میں حیران ہوں، پریشان ہوں، انگشت بدنداں اور ناطقہ سربگریبان ہوں۔اتنی حسین، اتنی جوان اور اتنی خندان ’’لڑکی‘‘ میں نے آج تک نہیں دیکھی، اے پری جمال حسینہ بے مثال، ماہ جبینہ اور آل ان آل دوشیزہ، تم کہاں سے آئی ہو کسی پرستان کی پری تو نہیں ہو؟۔ بڑھیا شرمائی، مسکرائی اور بولی۔کیا سچ؟ جھوٹے نے کہا۔سچ سچ۔سچ کے ساتھ ایک ہزار ایک سو ایک بار ’’سچ‘‘ بھی۔بڑھیا نے کہا آپ مذاق تو نہیں کررہے ہیں نا۔ جھوٹا بولا مذاق اور میں؟ اور آپ جیسی حسین، مہ جبین ،نازنین دوشیزہ کے سامنے ؎

توبہ توبہ میری توبہ مرے اوسان گئے

ہم تو اس بت کو خٖدا جانے خدا مان گئے

بڑھیا شرماتے کچھ اور چھوئی موئی ہوگئی، بولی اور؟ جھوٹا بولا وہ تو میں نے کہہ دیا کہ اور کہنے کو کیا رہ گیا۔آپ کہاں سے آئی ہیں حسینہ۔بڑھیا نے شرماتے شرماتے اپنے گاؤں کا نام لیا تو جھوٹا بولا ، لگتا ہے گاؤں کا پانی امرت ہے، حسن خیز ہے، بہت صحت خیز، طرب خیز بہت ہے ؎

تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانہ لگے

خدا کرے کسی دشمن کی بددعا نہ لگے

جھوٹا بولتا رہا بڑھیا سنتی رہی پھولتی رہی نہاں ہوتی رہی۔وقت رخصت جھوٹے نے کہا کبھی کبھی آتی رہنا اور میری چشم ونظر پر احسان کرتی رہنا، پری جمال لڑکی۔ بڑھیا چل پڑی اور جو بھی راستے میں ملتا بولتی سب جھوٹے ہیں سب جھوٹے ہیں۔ایک شخص نے پوچھا بڑی بی کون جھوٹا ہے۔

غصے میں آکربولی بڑی بی ہوگی تیری ماں، تیری بہن، تیری بیوی۔اور جھوٹے تم سب ہو۔ جو اس سچے کو جھوٹا کہتے ہو، شہر میں بھی سب کو جھوٹا کہتی رہی، راستے میں بھی اور پھر اپنے لوگوں میں بھی۔ اس نے سارے لوگوں سے کہا یہ سب لوگ جھوٹ بولتے ہیں، کفر تولتے ہیں، وہ تو بڑا سچا آدمی ہے بالکل سچ بولتا ہے اور سچ کے سوا کچھ بھی نہیں بولتا۔ لوگوں نے خواہ مخواہ اس بیچارے انتہائی سچے آدمی کو جھوٹا مشہور کیا ہوا ہے، میں نے خود اس کی باتیں سنی ہیں ایک ایک لفظ سچ کہتا ہے۔اور ہم اس بڑھیا سے بالکل متفق ہیں لوگ ایسے ہی نہایت ’’سچے‘‘ لوگوں کو جھوٹا کہہ دیتے ہیں جب کہ وہ سچے ہوتے ہیں۔

یہ سچے لوگ جو سچ بولنے کی ’’داد‘‘ پاتے ہیں اگر سچے نہ ہوتے اور ان کے بیانات اتنے اچھے نہ ہوتے تو روزانہ اخباروں میں ان کے’’چرچے‘‘ نہ ہوتے۔بلکہ اب تو جب سے یہ نئی اقسام کے ’’شیف‘‘ اور باورچی رکھے جانے لگے ہیں کہ آدمی کا جی چاہے کہ ان پکوانوں کے ساتھ اخبار اور اپنے چشمے بھی چاٹ جائیں۔ واہ جی واہ، کیا پکوان بناتے ہیں بلکہ دسترخوان کہیے کیونکہ اب ان میں دوسرے علاقوں پنجاب وغیرہ کے لذیذ،خوشنما اور خوش رنگ ڈش بھی پکائے جاتے ہیں۔

مریم پکوان، بلاول پکوان اور اسلام آبادی پکوان۔کیا پکوان ہیں اور کیا پکانے والے ہیں۔اور پھر اوپر سے گنڈاپوری سلاد،بانی رائتہ اور دیگر سویٹ ڈش۔جی خوش ہوجاتا ہے یہ ست رنگی پکوانیں کھا کھا کر، جب سے ان پکوانوں اور پکانے کا یہ سلسلہ شروع ہوا ہے ہمارا بھی جی چاہتا ہے کہ ہم بھی اس بڑھیا کی طرح چلا چلا کر ان لوگوں کو کوسیں۔جو اتنے سچوں کو جھوٹا بولتے ہیں۔

یہ خود جھوٹے، ان کے بیان جھوٹے، ان کے خاندان جھوٹے۔وہ تو اتنا سچ بولتے ہیں کہ خود سچ بھی داد دینے کو مجبور ہوجائے بلکہ ہم نے تو سنا ہے کہ’’سچ‘‘ نے ارادہ کرلیا ہے کہ اس کوچے سے اب نکل ہی جائے تو بہتر ہے۔کہ اس کا سارا کام ان سچے لوگوں نے سنبھال لیا ہے۔بالکل اس آدمی کی طرح جسے لوگوں نے جھوٹا مشہور کیا تھا لیکن اس سچی بڑھیا نے پہچان لیا تھا، جان لیا تھا اور مان لیا تھا ؎

ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو بُرا کہتے ہیں

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جھوٹے نے کو جھوٹا میں بھی نے کہا

پڑھیں:

اپنے اپنے محاذ پر لڑیں تو اچھا ہو

خواب دکھانا ہر دور کے حکمرانوں کی عادت رہی ہے ،یہ ایک ایسی چوسنی ہے جسے ہر بار عوام بھی پذیرائی بخش دیتے ہیں ۔وہ بھول،جاتے ہیں کہ پہلے بھی کئی ایسے،خواب ان کی آنکھوں میں سجائے گئے۔ایسی دلکش اور خوش نما چوسنیاں انہیں مہیا کی گئیں جو ایسی ثابت ہوتی ہیں کہ کچھ لذت عطا کرنے کی بجائے دھیرے دھیرے ان کے وجود کیلئے جونکیں بن جاتی ہیں ۔وزیر اعظم شہباز شریف کا نیا خواب دلوں میں ایک جوت تو جگا گیا ہے بجلی سستی کررہے ہیں مگر اس خواب کی تعبیر کیا سامنے آتی ہے یہ راز جلد کھل جائے گا ۔دراصل یہ حکمرانوں کی وہ گتھیاں ہوتی ہیں جنہیں سلجھاتے، سلجھاتے ان کے دماغ کی طنابیں ٹوٹنے کے قریب ہوجاتی ہیں آخر کو یہ ہوتا ہے کہ کسی سازش یا سیاسی بے عملی کے نتیجے میں حکومت کے تاروپود بکھر جاتے ہیں۔یہ آج کی بات نہیں پون صدی کا قصہ ہے جو نہ جانے الف لیلیٰ کی داستاں کی مثل کنتی اور طوالت اختیار کرتا ہے ۔ہم تو منتظر آنکھوں سے تعبیر کی کرچیاں ہی چنتے رہتے ہیں ۔پہلے حرف و صوت کا رشتہ مضبوط ہوتا تھا تولوگ باگ خواب بانٹ لیتے تھے مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ اب رشتہ ناپید ہوچکا ،فگار انگلیاں نہ جانے کیا کچھ بنتی ہیں کتنے مرقعے تراشتی ہیں مگر سب بے سود یا پھر ممتاز شاعر ممتازاطہر کے بقول :
مصوروں نے ہزار رنگوں کے دشت ناپے
مگر کسی نے وہ ایک چہرہ نہیں بنایا
یا مرحوم مقبول تنویر نے کیا خوب کہا تھا کہ
کہ تری تمنا میں چلتے چلتے بسیط صحرا نے آلیا ہے
خیال کر جسم کے کنویں سے
میں سانس کیسے نکالتا ہوں
انہیں کیفیات کے سائبان تلے ہم اور ہمارے آفتادگان خاک جی رہے ہیں ۔حکمران اور سیاستدان تو ہمارے حال پر رحم کرنے والے کبھی نہیں رہے ،مقتدرہ اور اسٹیبلشمنٹ اپنے مستقبل کی خاطر کسی اور روگ کو پالنے سے سوا رہتے ہیں ۔بجلی سستی کرنے کی بات مریم بی بی کرتیں (اگر وہ وزیر اعظم ہوتیں)تو در یقین پر ہونے والی دستک کی صدا درون دل تک پہنچتی مگر یہ بات شہباز شریف محترم کی زبان سے نکلی ہے وہ مجذوب آدمی ہیں اور اس مجذوب کی بڑیں ہم نصف صدی سے سن رہے ہیں ۔یہ تو اتنے جذباتی ہیں کہ صدر آصف علی زرداری کے بارے بڑے تیز وتند ہی نہیں عبرتناک فیصلے کرنے کے دعوے داغتے رہے اور جب وقت آیا تو سب کچھ طاق نسیاں پر رکھ کر مرشد کے چرنوں میں جا بیٹھے کہ زرداری کی تو شخصیت ہی ایسی ہے کہ چاہیں تو سنگلاخ پہاڑ بھی ان کے رو برو دست بستہ آ کھڑے ہوں ۔ان کی صحت سلامت رہے کہ ابھی ایک بار پھر ان کی زبان سے ’’پاکستان کھپے‘‘ سننا باقی ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے حالات دگرگونی کی انتہا پر ہیں ۔جنرل عاصم منیر بلوچستان کے بارے سچ کہتے ہیں کہ ’’ ملک دشمنوں کے سہولت کار بھی نہیں چھوڑیں گے‘‘ ایسا ہی ہوناچاہیے مگر پہلے یہ طے کرنا،ہوگا کہ یہ سہولت کار ہیں کون ؟ جن پر اسٹیبلشمنٹ کے وہ اہلکار انگلی رکھیں گے جو حکمرانوں کی بے جاآشیر باد سے عشرت،کی زندگی بسر کرتے ہیں یا حکومت سے اختلاف رائے رکھنے والے دھڑوں کے وہ لوگ جنہیں منظر عام سے ہٹا کر مرضی کے فیصلے کرنے کی رٹ مضبوط و محفوظ کرنی ہے ،انہیں دیوار سے لگاناہے جو حکمرانوں کے لئے نوشتہ دیوار ہیں ۔اس پر ایک سے زیادہ آرا نہیں ہوسکتیں کہ چہار سو لگی دہشت گردی کی آگ بجھانا بہت ضروری ہے مگر ایک آگ کے پیچھے جو ایک اور آگ کار فرما ہے اس کی شعلگی پر بھی کنٹرول کرناہے کہ حکمران اور ان کے اندھے اور گونگے بہرے باد خواں و باد فروش اور بادسنج جسے فروتر کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ۔ چیف آف آرمی چیف کا یہ کہنا کہ ’’بلوچستان میں غیر ملکی تعاون سے چلنے والی پراکسیز کامیاب نہیں ہونے دیں گے ،اصل چہرے بے نقاب کریں گے‘‘۔مطلب یہ کہ عساکر پاکستان ایسی تمام غیر ملکی حمایت یافتہ سازشوں کو ناکام بنائیں گے جو ریاستی عملداری کے راستے کی رکاوٹ ہیں اور یہی بلوچستان میں امن اور ترقی کے راستے کی دیوار ہیں تو معذرت کے ساتھ جناب چیف سے سوال ہے پھر حکومت اور وزیروں مشیروں کے بے پناہ اخراجات کیوں کر اٹھائے جارہے ہیں؟
یہ ساری ذمہ داریاں پاک فوج کے توانا کندھوں پر ڈال دی جائیں ،عساکر کو جدید ترین ہتھیاروں کی سہولیات سے مزین کیا جائے کہ حکمرانوں سے یہ بوجھ سہارا نہیں جاتا۔انہیں تو اپنے عشرت کدوں کی رونق کی فکر لاحق رہتی ہے، ملک و ملت ان مسئلہ ہوتا تو ہر جانب بے عملی دکھائی نہ دیتی ۔سندھ ہو ،خیبر پختونخواہ ہو کے بلوچستان دہکتے ہوئے الائو ہیں جن کے درو دیوار لرز رہے ہیں ایک پنجاب ہے جس کی وزیر اعلیٰ لگن سے کام کرتی دکھائی دیتی ہیں ،انہوں نے پورا رمضان المبارک مہنگائی کے جن کو آہنی بوتل میں بند رکھا اور اب بھی جستجوئے پیہم میں مصروف نظر آتی ہیں ۔صحت کی فکر ،کسانوں کی پراگندہ حالی اور تعلیم ان کی ترجیحات ہیں اللہ کرے وہ استقلال کے اسی جذبے سے کام کرتی ہیں جس کا جنون ان پر سوار ہے۔عساکر کے سربراہ جن مخمصوںسے میں مبتلا ہیں ،جن واہموں سے نبرد آزما ہیں ان سے لڑنا دراصل ان کا محاذ نہیں ،وہ توجغرافیائی سرحدوں کے آمین جو کسی طور محفوظ نہیں ہیں دشمن اندر نہیں باہر بہت ہیں جنہیں ہمارا وجود کس طور برداشت نہیں، باقی اللہ مالک ہے۔ہر کوئی اپنے اپنے محاذ کی فکر کرے تو اچھا ہو۔

متعلقہ مضامین

  • اپنے اپنے محاذ پر لڑیں تو اچھا ہو