غزل
کسی حسین کی چاہت نہیں کروں گا میں
تمہارے بعد محبت نہیں کروں گا میں
تمہارے ہوتے ہوئے بھی میں خوش نہیں لیکن
خدا گواہ شکایت نہیں کروں گا میں
اذان سن کے اٹھوں گا مگر مرے مولا
کہوں گا شعر عبادت نہیں کروں گا میں
اگر کرے گی اشارہ تو پیار کر لوں گا
نہیں ملے گی اجازت، نہیں کروں گا میں
میں پہلے کہتا رہا ہوں کہ یار عشق کرو
اور اب کسی کو نصیحت نہیں کروں گا میں
کسی سے بات بڑھاؤں تو چیخ اٹھتا ہے دل
نہیں کروں گا محبت نہیں کروں گا میں
اور اب جو کرنے لگا ہوں تو یاد آ گیا ہے
کسی سے وعدہ کہ ہجرت نہیں کروں گا میں
(امتیاز انجم۔ اوکاڑا)
۔۔۔
غزل
حدت، خنکی، شدت، خوشبو،چاند ستارہ عورت ہے
جوش، جوانی، رقص، ترنم، روپ سہانا عورت ہے
نکہت، بادل، موسم، فطرت، جھیل، گلاب، نشیلی دھوپ
تتلی، پھول، سنہری چڑیا، ہرن سوانا عورت ہے
بیتِ مومن، نظمِ ساحر، نغمۂ اختر، سوزِ میر
غزل، قصیدہ، مطلع، مقطع، شعر دو گانا عورت ہے
بحرِ آتش، معنیِ غالب، حسنِ ولی اور رنگِ ذوق
حرف، حکایت، لفظ، کرشمہ، نثر ٹھکانا عورت ہے
شاہدِ عصمت، پردہ نشینی، مونسِ ہجراں، عجزِ ولی
عفت، حرمت، نور، شرافت، شرم بچانا عورت ہے
رنگِ غازہ، رنگِ حنائی ، شغلِ سرمہ، بوئے حنا
نگھی، کنگن، چوڑی، گجرا سجنا سجانا عورت ہے
ادا نرالی، نخرے والی، ناز قیامت، شوخیِ جاں
عشوہ،نخرہ، چنچل شکوہ، مکر بہانا عورت ہے
رازِ الفت، سازِ راحت، سوزِ چاہت، نالۂ دل
عشق، محبت، پیار، فسانہ نظر لڑانا عورت ہے
باغِ بہاراں، بادِ بہاراں، صبح بہاراں، چشمِ بہار
بادل، بارش، ابر مہینہ، راگ پرانا عورت ہے
دستِ رنگیں، سینۂ بسمل، خندہ جبیں اور حیرتِ حسن
شوخیِ قاتل، چشم پریشاں، ڈرنا ڈرانا عورت ہے
رازِ ہستی، رازِ فطرت، رازِ مسرت، رازِ حیات
قہقہہ، چیخ، خوشی کا نعرہ، ہنسنا ہنسانا عورت ہے
(آفتاب شاہ۔ سمبڑیال)
۔۔۔
غزل
جو کوئی وقعتِ تجدید، سمجھتا ہی نہیں
میں اُسے قابلِ تقلید سمجھتا ہی نہیں
آج کے دور کا انسان بہت ضدی ہے
کھل کے کرتے رہو تنقید، سمجھتا ہی نہیں
وہ ترے دل میں چھپی بات کہاں سمجھے گا
جو ترے لفظوں کی تعقید، سمجھتا ہی نہیں
کوئی بھی بات طوالت سے بری لگتی ہے
میں کسی قسم کی تمہید، سمجھتا ہی نہیں
تیرے ہونے کا گماں، دل کو جواں رکھتا ہے
تو کہ اِس بات کو، بے دید! سمجھتا ہی نہیں
اُن کو تہوار مبارک، جنہیں سب حاصل ہے
یار تو یار سِوا عید، سمجھتا ہی نہیں
جو ترا حکم ملا، فوری اُسے پورا کیا
دل تری بات کی تردید، سمجھتا ہی نہیں
(ثمرؔ جمال۔ جھنگ)
۔۔۔
غزل
وفا کے آگے جبیں کو جھکائے رکھوں گی
امید میں اِسی در سے لگائے رکھوں گی
مری نظر میں اندھیرے نہ ہو سکیں گے کبھی
میں تیری یاد کی شمعیں جلائے رکھوں گی
خبر نہیں تھی کہ پاؤں کی خاک بھی نہیں وہ
میں عمر بھر جنہیں سر پر بٹھائے رکھوں گی
تمام عمر ہی بچوں کی راحتوں کے لیے
میں اپنی آرزوؤں کو دبائے رکھوں گی
خموش ہوں تو پریشاں ہیں جن کو لگتا تھا
کہ آسمان میں سر پر اٹھائے رکھوں گی
جنوں کی رہ میں لٹا دوں گی سب کچھ اپنا میں
بس ایک دولتِ غم کو بچائے رکھوں گی
ہمیشہ یونہی میں رکھتی ہوں دل کھلا ثوبی
اگر عدو بھی مرے در پہ آئے، رکھوں گی
(ثوبیہ راجپوت۔سیالکوٹ)
۔۔۔
غزل
وہ عوامل کہ جو تھے وجہِ طرب خیزیِ دل
اب وہی بن گئے اسبابِ کم آمیزیِ دل
خواہشوں کا، کبھی خوابوں کا لہو کر دینا
دن بہ دن بڑھتی چلی جاتی ہے خوں ریزیِ دل
رونقِ گلشنِ جاں رشک بہاراں تھی کبھی
اور پھر نذرِ خزاں ہو گئی زرخیزیِ دل
کس کو معلوم ہے ڈھائے گی قیامت کیا کیا
یہ جنوں خیزیِ جاں، ولولہ انگیزیِ دل
نو بہ نو کھلتے ہوئے دل میں تمناؤں کے پھول
یاد آتی ہے کبھی ہم کو وہ نوخیزیِ دل
اب بھی امید ہے زیبائشِ جاں کی تجھ کو
اب نہ وہ خاکۂ ہستی، نہ وہ رنگریزیِ دل
چھوڑ دے تو بھی اسے حال پہ اپنے آزادؔ
روکنے سے کہاں رکتی ہے شر انگیزیِ دل
(اسامہ آزاد۔راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
نمدیدہ مرا دھیان ہے اک یاد ہے میں ہوں
تنہائی کا زندان ہے اک یاد ہے میں ہوں
یہ شہر مرے خواب کے ایندھن سے بنا تھا
اب راکھ کا سامان ہے، اک یاد ہے میں ہوں
بکھرے ہوئے پھولوں پہ قضا ناچ رہی ہے
ٹوٹا ہوا گلدان ہے اک یاد ہے میں ہوں
احساس کے زخموں پہ کوئی ہاتھ نہ رکھے
یہ درد کا فرمان ہے، اک یاد ہے میں ہوں
دھوکہ تھا مجھے عکس کے سائے میں سکوں کا
آئینے کا احسان ہے اک یاد ہے میں ہوں
اک خواب تھا جو نقطۂ آغاز میں کھویا
اب وہم کا دیوان ہے، اک یاد ہے، میں ہوں
اشکوں میں گھلی جاتی ہیں بجھتی ہوئی سانسیں
خاموشی کا طوفان ہے، اک یاد ہے، میں ہوں
کچھ ٹوٹ کے بکھرا تھا سرِ موجِ تمنا
اب درد کی پہچان ہے، اک یاد ہے، میں ہوں
(خبیب ناسف۔گجرات)
۔۔۔
غزل
رو رہا ہے اب وہ لے کر جسمِ خون آلود کو
ڈھانپ کر رکھتا نہ تھا جو حسنِ لا محدود کو
آؤ بھائی! ختم کر دیں نفرتِ موجود کو
صاف کر لیں اپنے اپنے قلبِ گرد آلود کو
پی رہا ہے گورے چٹے شخص کو فرقت کا غم
سانپ اک بیٹھا ہوا ہے منہ لگا کر دودھ کو
خود کو دھوکا دے رہے ہیں لوگ کاروبار میں
زر پرستی میں سمجھتے ہیں منافع، سود کو
باپ تو لیتا رہا شب بھر خراٹے نیند میں
لے کے ماں بیٹھی رہی بیمار نو مولود کو
غصہ مت کرنا میاں! اُس تند خو کے سامنے
آگ کے نزدیک مت لانا کبھی بارود کو
ذہن دورانِ عبادت اور کسی جانب رہا
آدمی نے کھوکھلے سجدے کیے معبود کو
اے خدائے لم یزل! میرے غموں کی آگ دیکھ
تُو نے ٹھنڈا کر دیا تھا آتشِ نمرود کو
(عبداللہ باصر۔گوجرانوالہ)
۔۔۔
غزل
کہتے ہو تم برا تو کہو اور بھی برا
نظروں میں میں کسی کی بھی اب تک نہیں گرا
الزام مجھ پہ لوگ لگاتے ہیں اب بہت
لوگوں کے دل میں میں بھی نہیں آج تک مرا
تنقید مجھ پہ جو بھی یہاں کر رہا ہے اب
اپنا مقام آپ بھی وہ دیکھ لے زرا
جو سامنے ترے ہو تو اچھا کہے تجھے
ایسے ہی چال باز منافق سے میں ڑرا
عاجز بڑا ہے تو بھی تو لوگوں کے سامنے
ایسی تو عاجزی سے مرا دل ہی ہے بھرا
(رحمان راجپوت ۔سیالکوٹ)
۔۔۔
غزل
ماتم کناں بحالتِ غم ڈولتا ہوا
پہنچا میں اس کے در پہ گہر رولتا ہوا
پل بھر میں سامعین کو مسحور کر گیا
اک شخص خوشبوؤں کی زباں بولتا ہوا
کتنے وثوق سے ترے پہلو میں آ بسا
میرے خلاف زہر عدو گھولتا ہوا
مت پوچھ کتنی بار پشیماں ہوا ہوں میں
میزانِ دل میں تیری وفا تولتا ہوا
اعجاز شب ہوا میں گھٹاؤں سے آشنا
اس زلف کی اک ایک گرہ کھولتا ہوا
(احسن اعجاز۔اقبال نگر)
۔۔۔
غزل
خونِ دل جتنا بہے یار اسے بہنے دیں گے
پر ترے عشق پہ اک لفظ نہ کہنے دیں گے
یہ نئے لوگ ہیں،فیشن کے پجاری نئے لوگ
یہ دوپٹہ بھی ترے سر پہ نہ رہنے دیں گے
تربیت حکم نہیں دیتی کہ کچھ بولیں ہم
سو کوئی کچھ بھی کہے ،ہم اسے کہنے دیں گے
ہم کہاں بھاگتے لاکٹ، گھڑی، انگوٹھی سے ہیں
وہ کوئی شے تو رضامندی سے پہنے،دیں گے
دل سے یہ فیصلہ اربابؔ کیا ہے ہم نے
جو جہاں بھی رہے خوش ہم اسے رہنے دیں گے
(ارباب اقبال بریار ۔واہنڈو، گوجرانوالہ)
۔۔۔
غزل
کچھ پرندے جو اڑتے ہوئے دیکھنا
تو نظاروں کو ہنستے ہوئے دیکھنا
اچھی لگتی ہے بچے کی کوشش بہت
اور پھر اس کو چلتے ہوئے دیکھنا
خوف کھانا بہت جب بھی معصوم کی
آنکھ میں اشک بھرتے ہوئے دیکھنا
جب پلٹ کر نہ آنے کو جائے کوئی
گھر سے باہر نکلتے ہوئے دیکھنا
نور جب چوٹ مجھ سے کسی کو لگے
مجھ کو افسوس کرتے ہوئے دیکھنا
(سید محمد نورالحسن نور۔ ممبئی)
۔۔۔
غزل
نہیں ملتا کسی سے بھی کسی سے ہاں نہیں ملتا
اگرچہ مل بھی جاؤں پھر تیرے جیسا نہیں ملتا
کھڑا ساحل پہ پیاسا دیر تک دریا کو تکتا ہے
مگر پھر بھی یہاں پیاسے کو کیوں دریا نہیں ملتا
محبت کرنے والوں کو ملے محبوب ایسا ہے
کے جیسے کر بلا ہو اور کوئی پیاسا نہیں ملتا
میں مدت بعد آیا ہوں پشاور شہر میں یاروں
یہاں سب کچھ ملا پر شخص من چاہا نہیں ملتا
فقط یہ کہہ کے مجھ کو کر دیا انکار انہوں نے
کہی صورت نہیں ملتی کہی شجرا نہیں ملتا
میں اس سے روز ملتا ہوں بہت آداب سے لیکن
نجانے کیوں کبھی مجھ سے وہ مجھ جیسا نہیں ملتا
یہ میں نے باپ کو کہتے سنا اک روز غربت میں
کبھی عزت نہیں ملتی کبھی پیسہ نہیں ملتا
فقط وہ ہی نہیں ملتا کے جس کی چاہ ہوتی ہے
وگرنہ اس جہاں میں تو میاں کیا کیا نہیں ملتا
ہوا جب سامنا میرا حقیقت سے سمجھ آیا
کے جیسا چاہتا ہوں مجھ کو کیوں ویسا نہیں ملتا
وہ ملتا روز ہے مجھ سے ہجوم و بھیڑ میں ارسلؔ
میں دل کی بات کیا کہتا کے وہ تنہا نہیں ملتا
(ارسلان شیر ۔کابل ریور، نوشہرہ)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہے اک یاد ہے میں ہوں نہیں کروں گا میں سمجھتا ہی نہیں ہوئے دیکھنا نہیں ملتا رکھوں گی عورت ہے دیں گے
پڑھیں:
علم پر اجارہ داری کے نقصانات
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 اپریل 2025ء) علم کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہ نئے خیالات اور افکار کے ذریعے معاشرے میں ترقی کا باعث بنتا ہے۔ تاریخ میں قدیم دور سے موجودہ زمانے تک ہم علم کو ایک دوسری شکل میں بھی دیکھتے ہیں۔ اگر کوئی ایک طبقہ اِس پر اپنی اجارہ داری قائم کر لے تو اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے طبقوں کو اس سے محروم رکھتے ہوئے اور اُن پر حکومت کر کے انہیں ماتحت بنا کر رکھا جائے۔
ہندوستان میں برہمن ذات کا علم پر تسلط تھا۔ وہ پیدائش سے لے کر موت تک تمام مذہبی رسومات ادا کرتی تھیں جبکہ باقی ذاتیں اُن کے زیرِ نگیں ہوتی تھیں۔ برہمن کے علاوہ دوسری ذاتوں کو ویدوں کا علم حاصل کرنا ممنوع تھا۔ برہمنوں کے علاوہ بَنیوں، مہاجن، سُود خور اور سرکاری عہدیداروں کا مذہبی علم پر تسلّط تھا۔
(جاری ہے)
وہ عام لوگوں کی جہالت سے فائدہ اُٹھا کر اپنے ہی کھاتوں میں قرض۔
سود پر دی ہوئی رقم کا غلط اندراج کر کے اُن سے سالہا سال ادائیگی کی رقم وصول کرتے تھے۔ سرکاری عہدیداراں لگان اور دوسرے ٹیکسوں سے عوام کی محنت سے کمائی ہوئی رقم کو اپنے بنائے ہوئے قوانین کے ذریعے وصول کرتے تھے۔یورپی مُلکوں میں بھی فیوڈل لارڈز کسانوں کو دیے گئے ٹیکس اور لگان کی رقم کو رجسٹروں میں لکھتے تھے۔ جن کی ادائیگی کسانوں پر قانونی طور پر فرض تھی۔
تاہم جب بھی کسان بغاوت کرتے تھے تو وہ فیوڈل لارڈز کے محلوں پر حملہ کر کے قرض کے رجسٹروں کو جلا دیتے تھے۔ 1789ء کے فرانسیسی انقلاب میں جب دیہاتوں میں بغاوتیں ہوئیں تو باغیوں نے نہ صرف فیوڈل لارڈز کے محلات کو جلایا بلکہ اُن رجسٹروں کو بھی جلا دیا جن پر اُن کے قرضوں کی تفصیل درج تھی۔حکمراں طبقہ اُس علم سے بھی خوفزدہ رہتا تھا جو اُن کے نظامِ اقتدار کو بدلنے کی بات کرتا تھا۔
ایسے مصنفوں کی کتابوں اور تحریروں کو مِٹا دیا گیا اور صرف اُس علم کی سرپرستی کی گئی جس نے ریاستی اداروں کو تحفظ دیا۔ اِن ریاستی دانشوروں میں مورخ فلسفی، شاعر، ادیب اور آرٹسٹ شامل تھے۔ یورپ میں اس علم کو روکنے کے لیے اُن کی اشاعت پر پابندیاں لگائی گئیں۔ پرنٹنگ پریس جو ایسے اِنقلابی مواد چھاپتی تھیں اُن کو بھی بند کر دیا گیا۔1815ء میں نیپولین کی شکست کے بعد یورپ میں یہ قانون پاس ہوا کہ طالبعلم لائبریری سے جو کتابیں پڑھنے کے لیے حاصل کرے ان کی فہرست بنائی جائے۔
علم پر پابندی کا یہ ماڈل ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکی مُلکوں کے آمروں نے استعمال کیا اور صرف اُس علم کو قائم رکھا، جو اُن کے نظریات کی حمایت کرتا تھا۔ اس کے دو نتائج نکلے۔ ایک علم کی آزادی پر پابندی لگی اور معاشرے ذہنی طور پر پسماندہ ہوتے چلے گئے۔ جن مُلکوں میں علمی آزادی تھی۔ وہ آگے بڑھتے گئے اور تخلیقی علم کی وجہ سے دوسری قوموں پر اپنی ذہنی برتری کو برقرار رکھا۔علم کے ساتھ ہی عام طور سے عقل اور دلیل کو اہمیت دی جاتی ہے۔ یعنی دلیل، عقل اور عقیدے کے درمیان فرق کو قائم کیا جاتا ہے اور اس پر زور دیا جاتا ہے کہ فیصلے عقل اور دلیل سے کرنے چاہییں، لیکن یورپی سامراج نے عقل اور دلیل کو نئے مفہوم کے ساتھ اُسے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ مثلاً جب امریکہ میں ریڈ انڈین کی زمینوں پر قبضہ کیا گیا تو یہ دلیل دی گئی کہ چونکہ وہ اس قابل نہیں کہ خالی زمینوں پر کاشتکاری کر سکیں اور اس لیے یورپی لوگوں کے لیے زمینوں پر قبضہ کرنا اور اُنہیں قابلِ کاشت بنانا، ترقی کے لیے ضروری ہے۔
جب یورپی سامراج ایشیا اور افریقہ میں آئے تو یہاں یہ دلیل دی گئی کہ یہ مُلک تہذیبی لحاظ سے پسماندہ ہیں۔ یورپی سامراج اِنہیں مہذب بنائے گا۔ اس دلیل کے تحت اُنہوں نے اپنے سامراجی اقتدار کو جائز قرار دے دیا۔ سامراجی اقتدار میں مشنریز بھی آئے۔ مسیحی مذہب کی تبلیغ کرتے ہوئے اُن کی دلیل یہ تھی کہ اس مذہب نے یورپ کی اقوام کو مُہذب اور ترقی یافتہ بنایا۔
جبکہ ایشیا اور افریقہ کے مذاہب تعصّبات اور تہمات کا مجموعہ ہیں، اور اسی لیے یہ اُن کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔ لہٰذا ان کے مذہب کو تبدیل کر کے اِنہیں مہذب قوم بنانے کی ضرورت ہے۔عِلم اور عقل اور دلیل کے اِس تجزیے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اِن کی کوئی ایک جامع تاریخ ممکن نہیں ہے۔ طاقتور اقوام اِنہیں نئے معنی دے کر اپنے مُفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
اس لیے سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اخلاقی قدریں ہیں جو طاقتور قوموں کو کمزورں پر استحصال سے روک سکیں؟۔ اب تک تاریخ نے اخلاقیات میں نہ ناانصافی کو روکا ہے نہ ہی ظُلم و ستم کو، اور نہ قتل و غارت گری کو۔ اِن کو جائز ثابت کرنے کے لیے، عقل اور دلیل کو ایک نئے مفہوم میں پیش کیا جاتا ہے۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔